زبیر حفیظ
غامدی صاحب کو پڑھتے ہوئے یا سنتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ہم چودہ سو سال قبل کے حجاز کے ریگستانوں میں رہنے والے مسلمان ہیں، جنہوں نے نہ تو فتحِ ایران دیکھی ہے، نہ اموی دور کے اسلام پر اثرات سے واقف ہیں، نہ تو عباسیوں کا عجمیت زدہ اسلام ہمارے مشاہدے میں آیا ہے، نہ تو علم الکلام سے ہمارا واسطہ پڑا ہے اور نہ ہی تصوف نے ہماری راہ میں ڈیرے ڈالے ہیں۔
غامدی صاحب اپنی تعبیرِ اسلام کو بیان کرتے ہوئے تہذیبی اور عمرانی پہلو کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں، انھیں پڑھتے ہوئے گمان ہوتا ہے کہ اسلام چودہ سو سال کی تاریخ کی کھائی کو پھلانگ کر بغیر عجمی تہذیب و ثقافت سے متاثر ہوئے ان تک اکیسویں صدی میں تازہ تازہ پہنچ گیا ہے، جسے وہ خالص حجازی رنگ میں پیش کریں گے ۔۔۔ جو چیز غیر حجازی ہو گی، اسے وہ بدعت کی سولی پر چڑھا دیں گے ۔
چاہے غامدی تصوف پر لکھیں، یا رسوم پر یا غامدی صاحب کا قلم فقہ یا کلام پر چلے، ہمیشہ غامدی صاحب تہذیبی و عمرانی پہلو کو نظر انداز کر جاتے ہیں ۔۔۔ مثال کے طور اپنی کتاب میزان کے صفحہ 639 پر رسوم و آداب کے عنوان سے انہوں نے باب باندھا ہے ۔۔۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:
“رسوم زیادہ تر حضور کی بعثت کے وقت دینِ ابراہیمی کی روایت کے طور پر رائج تھیں ۔۔۔ یہ قرآن سے پہلے ہیں اور ان کی حثیت سنت کی ہے، جو حضور کی تقریر و تصویب کے بعد صحابہ کے اجماع اور تواترِ عملی سے امت کو منتقل ہوئیں ۔”
یہاں بھی غامدی صاحب نے اپنی عادت کے باعث رسوم کو پہلے دینِ ابراہیمی کا کلمہ پڑھوا کر مسلمان کیا اور پھر یہیں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ رسوم کو سنت کا مرتبہ دے کر مستقبل میں مسلمانوں کے لیے مستقل دین کی حثیت بھی دے دی ۔۔۔ کیا رسوم کی حثیت دین کی ہے ۔۔۔ یہاں غامدی صاحب بذاتِ خود کنفیوز نظر آتے ہیں ۔
ایک طرف وہ سیکولرزم کے قائل ہیں، سیکولرزم صرف سیاسی ہی نہیں ہوتا، تہذیبی بھی ہوتا ہے، جیسے سیاست کا مذہب سے تعلق نہیں ہوتا، ویسے ہی سیکولرزم کی تعریف کی مطابق رسوم و روایات کو بھی مذہب نہیں چھیڑتا۔ جیسے مذکورہ اقتباس میں غامدی صاحب نے خود بیان فرمایا کہ اسلام نے عرب کی ابراہیمی روایت کو برقرار رکھا ۔۔۔ کیا پھر اس دین کا مدعا عجم کے رسوم و رویات کی اکھاڑ پچھاڑ کر کے وہاں ایک مخصوص خطے کی رسومات کو مسلط کر کے سماج کا توازن تباہ کرنا تھا ۔۔۔ غامدی صاحب اس تہذیبی پہلو کو مکمل نظر انداز کر گئے۔ چار سے پانچ صفحات میں دینِ ابراہیمی کی رسومات بیان کر کے عجلت میں مضمون کا خاتمہ کر دیا ۔
یہ عجلت غامدی صاحب کے ہر مضمون میں نظر آتی ہے ۔بغیر کوئی ٹھونس دلیل قائم کیے قاری کو ساتھ باندھ کر ڈیرھ ہزار صدی قبل کے عربی قبائلی معاشرے کی طرف دوڑ لگا دیتے ہیں۔
فقہ کو غامدی صاحب انسانی ساختہ علم کہتے ہیں، جس کا دین سے زیادہ قانون سے واسطہ ہے، بارہا غامدی صاحب نے فقہ کو دین سے الگ قرار دیا ہے ۔۔۔ اس کی وہ کوئی ٹھوس دلیل نہیں دیتے، سوائے اس کے کہ انہوں نے بس یہ کہنے پر اکتفا کر لیا کہ فقہ انسانی ساختہ وہ قانون ہے جو بس شریعت کی روشنی میں تیار ہوا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔۔۔ مگر غامدی صاحب یہاں بھی تہذیبی پہلو کو مکمل نظر انداز کر گئے اور انتہائی سطحی تجزیہ فرمایا ۔۔۔ غامدی صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ جو چار فقہہ رائج ہیں وہ چار تہذیبوں کے مزاج کی عکاسی کرتی ہیں ۔۔۔ کیا وجہ ہے فقہ حنفی برّصغیر میں مقبول ہوا، فقہ جعفریہ کو ایران میں ذیادہ مقبولیت ملی، حنبلی فقہ کو عرب نے اپنایا، اگر فقہ بھی مذہب کا حصہ نہیں ہے تو پھر مذہب کا حصہ ہے کیا ۔۔۔ فقہ ہی نے تو عجمی مزاج کو عربی مذہب کے ساتھ ہم آہنگ کیا ۔۔۔ عجم اور عرب کے تہذیبی و ثقافتی اختلافات کی کھائی پر پل کا کردار کرنے والی چیز فقہ ہے۔
تصوف کے بارے میں غامدی صاحب کا تجزیہ خاصا “وہابی” قسم کا ہے ۔۔۔ اپنی کتاب برھان کے صفحہ 181 سے انہوں نے اسلام اور تصوف کے عنوان سے ایک باب باندھا ہے ۔۔۔ یقین کیجئے مجھے وہ باب پڑھ کر فرق ہی محسوس نہیں ہوا کہ وہ مضمون کسی تصوف مخالف سلفی مولوی کا ہے یا غامدی صاحب کا ۔۔۔ تصوف پر تنقید تو پرویز نے بھی کی ہے مگر وہ تنقید پڑھ کر چس آتی ہے ۔۔۔ غامدی صاحب نے تو تصوف پر ابن عربی یا بایزید بسطامی کے متنازع اقوال پیش کر کے اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور اوپر سے سونے پر سہاگہ یہ کہ تصوف پر مزید بات کئے بغیر صوفیاء کے تصورِ توحید جو وحدۃ الوجود یا وحدۃ الشہود کا موضوع ہے، پر بحث کر کے حسبِ معمول مضمون کو یہ فرما کر لپیٹ دیا کہ تصوف ایک فن ہے اور اس کی حثیت ایک متوازی دین کی ہے ۔
غامدی صاحب کی خدمت میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ۔۔۔ تصوف صرف غزالی کی احیاء العلوم الدین یا ابو اسماعیل ہروی کی کتاب منازل السائرین سے چند اقتباس پیش کرنے سے رد نہیں ہو جاتا ۔۔۔ تصوف کی ضرورت آخر پڑی ہی کیوں؟ جسے غامدی صاحب متوازی دین یا فن کہہ رہے ہیں، آخر کیوں اس “متوازی دین” کی ضرورت پڑی؟ شریعت کے مدمقابل طریقت، مسجد کے ساتھ خانقاہ کا ادارہ کیونکر وجود میں آیا ۔۔۔ اس کا جواب غامدی صاحب نے نہیں دیا، شاید غامدی صاحب تہذیبی پہلو سے بدکتے ہیں، اس لئے کنی کترا کر نکل جاتے ہیں ۔
مولانا عبیداللہ سندھی اپنی کتاب “شاہ ولی اللہ کا فلسفہ” میں بہت عمدہ بات لکھتے ہیں ۔۔۔ سندھی صاحب نے لکھا ہے:
“آریائی تہذیبوں کے دو پہلو تھے، ایک کی بنیاد منطق پر تھی اور دوسرے کی بنیاد وجدان پر، اسلام کے بعد منطق نے علم الکلام کی شکل اختیار کر لی اور وجدان نے تصوف کی۔۔۔”
کیا ہی خوبصورت بات لکھی ہے مولانا سندھی نے ۔۔۔ یہی وہ پہلو تھا جس نے تصوف کو جنم دیا، عرب کے مذہب میں قبائلیت کی سختی تھی، صحرا کی خشکی تھی ۔۔۔ عجمی ذہن کے لیے یہ مذہب قبول کرنا تہذیبی طور پر اتنا آسان بھی نہ تھا ۔۔۔ یہ تصوف اور علم الکلام ہی تھا جس نے عجمی ذہن کو فکری طور پر مسلمان کیا ۔۔۔ صوفیاء نے ہندوستان کے ویدوں کی دنیا میں رہنے والوں کو تصوف کا تڑکا لگا کر اسلام کی طرف راغب کیا ۔۔۔ محمد بن قاسم سے خواجۂ اجمیر کی آمد تک اسلام کی اشاعت کیونکر سست روی کا شکار تھی، اس کے بعد خواجۂ اجمیر، علی ہُجویری سمیت پوری صوفیاء کی ایک کھیپ نظر آتی ہے جن کی دعوت پر لوگ جوق درجوق مسلمان ہونے لگے ۔۔۔ یہ لوگ ہندوستانی تہذیب کو سمجھتے تھے، اس لیے عربی مذہب کو ہندوستانی مزاج کے ساتھ بذریعہ تصوف ہم آہنگ کر کے ان کے لیے قابلِ قبول بنایا ۔
تصوف سے مجھے خود بہت ہی بنیادی اختلافات ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی تہذیبی اہمیت کا کلی انکار ابن عربی یا بایزید بسطامی کی چند تحاریر کی بنیاد پر کر کے، اسے متوازی دین قرار دے کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے ۔
غامدی صاحب روشن خیالی یا سیکولرزم کا دعویٰ شاید بہت بار کرتے ہوں مگر وہ رسوم اور تہذیب کو سیکولر نہ کر پائے، صرف سیاست کو سیکولرزم کا کلمہ پڑھوا دینا سیکولرزم نہیں ہے ۔
موجودہ دور میں مذہب اور کلچر کا فرق سمجھنے والی شخصیت مجھے صرف احمد رضا خان بریلوی کی نظر آتی ہے ۔۔۔ انہوں نے غامدی صاحب کی طرح ہندوستانی روایات کو بدعت قرار دے کر مذہب سے الگ نہیں کیا ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ بریلویت میں جتنی وسعت رضوی بابے سے پہلے تک تھی، وہ کسی اور مسلک میں نظر نہیں آتی۔
کمنت کیجے