اس تحریر میں ہم کانٹ کی اس دلیل کو بیان کریں گے جو وہ عقلی الہیات کے عدم امکان ( impossibility of rational metaphysics or theology) کے لئے پیش کرتا ہے۔ اس دلیل کے اجزا کا مستحضر ہونا اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے ہاں علامہ اقبال رحمہ اللہ سے لے کر متعدد مفکرین اس دلیل سے متاثر ہوئے ہیں اور آج بھی ایسے حضرات موجود ہیں۔ یہ دلیل پیش نظر ہو تو ان مفکرین کو پہچاننا آسان ہوجاتا ہے۔ کانٹ کی اس دلیل کے اجزا کی کمزوریوں پر ہم مختلف اوقات میں بحث کرتے رہے ہیں اور ان شاء اللہ مزید بھی کریں گے۔ یہاں اس کی دلیل پیش کرنا مقصود ہے جسے چند نکات کی صورت سمجھا جاسکتا ہے۔
1۔ ذرائع علم کا جائزہ
کانٹ کا کہنا ہے کہ حقیقت پر بحث سے قبل ہمیں اپنے پاس میسر ذرائع علم کا جائزہ لینا ہوگا جن کی بنیاد پر ہم حقیقت سے متعلق کسی علمی قضیے (knowledge-claim) کا دعوی کرتے ہیں۔ انسان کے پاس دو قسم کے ذرائع علم ہیں:
الف) ایک خاص قسم کی ذہنی ساخت یا ڈھانچہ (structure of mind) جو انسانی ذھن میں ماقبل تجربہ (a priori) موجود ہے۔ یہ ذھنی سانچے کسی شے کے ادراک و تفہیم سے متعلق ہیں جو دو طرح ہیں:
* زمان و مکان: ایک وہ جو کسی شے سے متعلق میرے ادراک و شعور (intuition) کو ممکن بناتے ہیں اور یہ زمان و مکان کے سانچے ہیں، ہر تجرباتی علم ان پیمانوں کے اندر ہوتا ہے۔ ان سانچوں کو کانٹ pure forms of intuition کہتا ہے۔
* ذہنی خاکے: دوسرے وہ جو شے کی صورت (concepts) وضع کرتے ہیں اور یہ 12 خاکے یا مقولات (categories) ہیں جن کے ذریعے ذہن حسی مشاہدے میں آنے والے تجربات کو منظم کرکے انہیں مفہوم دیتا ہے، جیسے کہ انسان تجرباتی معلومات کو وحدت و کثرت، کیف، علت و معلول وغیرہ کے تصورات میں دیکھتا ہے۔ دوسری قسم کے خاکوں کو کانٹ pure forms of thought کہتا ہے۔
ب) حواس(sensory input) جن کے ذریعے بیرون سے متعلق معلومات (data) حاصل ہوتی ہیں جنہیں ذہن درج بالا ادراکی و تفہیمی خاکوں کی مدد سے ترتیب دیتا ہے۔
2۔ ذہنی سانچوں اور حسی تجربے کا امتزاج
اول الذکر یعنی ذھنی سانچے بذات خود کسی حقیقت کے ادراک یا کسی معین علم (substantive knowledge) کے حصول کا باعث نہیں ہوتے کیونکہ یہ خالی ڈھانچوں یا گھڑھوں (vessels) کی طرح ہوتے ہیں اور جب تک انہیں حسی تجربے کے ذریعے کوئی مواد نہ ملے یہ نرے خیال ہیں۔ البتہ یہ ڈھانچے تجربے کے لئے شرائط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علم (الف) اور (ب) کے ملاپ سے پیدا ہوتا ہے، یعنی جب ذہن کے سانچے اور حسی تجربے کے ذریعے ملنے والے مواد کا امتزاج ہوتا ہے۔
3۔ درج بالا کی دلیل و موٹیویشن
کانٹ نے درج بالا تجزیہ اپنے پیش رو عقلیت پسند و تجربیت پسند (rationalist and empiricist) مفکرین کے مابین فصل نزاع کے طور پر پیش کیا۔ اس ضمن میں وہ بالخصوص ڈیوڈ ھیوم کے ایک شبہے کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے۔ تجربیت پسندوں کا دعوی تھا کہ سارے بامعنی علمی قضایا تجربے سے جنم لیتے ہیں۔ کانٹ ھیوم کے اس نتیجے سے متاثر ہوا تھا کہ علت (cause) کا تصور کسی خارجی مشاھدے سے حاصل نہیں ہوتا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام علم نرے تجربے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ کانٹ اس شبہے کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ علت کا تصور دراصل انسانی ذھن میں ماقبل تجربہ ایک تصور (a priori concept) یا ڈبے کے طور پر موجود ہے اور ان ڈبوں کو مانے بغیر تجربی علم کی تشکیل کا امکان نہیں۔ چنانچہ امکان علم کے بارے میں درج بالا منہج پر یقین رکھنا کانٹ کے خیال میں اس لئے ضروری ہے کیونکہ اس طرح وہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے جو ھیوم کو درپیش تھا کہ ہمارے علمی قضایا میں ایسے تصورات کہاں سے در آتے ہیں جو خارجی مشاہدے سے حاصل نہیں ہوتے۔
4۔ شے فی نفسہ اور مظاھر کا فرق
کانٹ کے مطابق ذھنی سانچوں اور حسی معلومات کے امتزاج سے حاصل ہونے والے علم کے ذریعے ہم “شے فی نفسہ” (thing in it self) کو نہیں جانتے، بلکہ اس کے صرف مظہر (phenomena) کو سمجھتے ہیں، یعنی ان شبیہات (appearances) کو جو ہمارے ذہن کے سانچے خارجی معلومات پر لاگو ہوکر ان کی صورت گری کرکے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے ذھن میں پیوست سانچوں کے ذریعے حسی معلومات کو وحدت و ترتیب دیتا ہے، لہذا انسان دراصل خارجی دنیا کی اشیاء کی اصل حقیقت یا شے فی نفسہ (thing in itself) کو دریافت نہیں کرتا بلکہ اپنے ذہن کے ادراکی سانچوں سے تشکیل پانے والے اشیاء کے مظاھر یا شبیہات کو دریافت کرتا ہے۔ شے فی نفسہ (یعنی وہ حقیقت جو ہماری ادراکی و تفہیمی ساختوں سے پرے ہے) ہمارے ادراک سے ماوراء رہتی ہے جسے ہم نہیں جان سکتے، ہم شے کو صرف ویسا جانتے ہیں جیسا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا۔ گویا حصول علم کی کیفیت یوں ہے جیسے میں ایک چھوٹے سے انسان کی طرح اپنے ذہن کے اندر بیٹھ کر ذھن کی سکرین پر ابھرنے والی شبیہات کا مشاہدہ کررہا ہوں۔ اس عمل کے دوران میں خارجی اشیاء (external world) کی صفات یا کیٹیگریز نہیں بلکہ ان سے متعلق مظاھر و شبیہات (phenomenon of the world) کے ذریعے ذہن کے خاکوں (categories of mind) کو دریافت کرتا ہوں۔
5۔ علم کی حدود اور الہیات کا عدم امکان
درج بالا تجزئیے کی بنیاد پر کانٹ کا کہنا ہے کہ صرف انہی حقائق یا امور کا علم ممکن ہے جو بذریعہ حس گرفت میں آئیں کیونکہ ذھنی خاکے انہی سے متعلق کوئی اطلاع پانے پر انہیں منظم کرکے صورت گری کرسکتے ہیں۔ وجود باری جیسے الہیاتی یا مابعد الطبعیاتی امور کا علم ممکن نہیں اس لئے کہ خدا زمان و مکان سے ماوراء ہے۔ لہذا اسے حسی تجربے سے نہیں جانا جاسکتا اور نتیجتاً ذھنی خاکے ایسے وجود کی صورت گری کرنے سے قاصر ہیں۔ چونکہ ذھنی خاکے از خود کوئی علم فراہم نہیں کرتے بلکہ نرے خیال (mental concepts) ہیں اور حسی تجربہ خدا جیسے مابعد الطبعیاتی امور کا احاطہ نہیں کرتا، اس لئے الہیات کے مسائل (مثلاً وجود باری اور اس کی صفات) کے اثبات پر عقلی استدلال ایک ایسی بے معنی ذھنی مشق ہے جس کا کوئی خارجی مصداق (correspondent) نہیں۔ ذھنی ڈبوں سے متعلق خارجی مصداق صرف اس شے کا ہوتا ہے جو حس میں آئے اور میٹافیزیشنز اس حقیقت کو نہ پہچاننے کے باعث ڈاگمیٹک انداز سے الہیات کے اثبات میں مصروف رہے۔
6۔ علت کا تصور اور خدا
کانٹ کا دعوی ہے کہ علت کا تصور صرف زمان و مکان کی اشیاء پر لاگو ہوتا ہے، اس لئے کہ تفہیمی خاکوں میں جس ڈبے یا کیٹیگری کا نام علت و معلول ہے وہ اشیاء کے مابین زمانی ترتیب و تسلسل (temporal procession) سے عبارت ہے نیز علت زمانی طور پر معلول سے مقدم ہوتی ہے۔ چونکہ علت کا تصور بامعنی علم پیدا کرنے کے لئے زمانی ترتیب کا محتاج ہے، لہذا زمانی و مکانی علتوں کی سیریز کے مشاہدے کو اس سے ماوراء لاگو کرنا غیر منطقی چھلانگ ہے۔ ایسا اس لئے کہ اس ماورا کے بارے میں ہمارے پاس خبر حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں، لہذا یہ کہنے کی کوئی بنیاد موجود نہیں کہ زمان و مکان سے ماوراء بھی زمانی و مکانی تصورات لاگو ہیں۔ پس زمانی اور مکانی اصول خدا جیسے ماورائی وجود پر لاگو نہیں ہو سکتے، لہذا علت کے تصور کو خدا “بطور علت اولی” یا “کائنات کی علت” کے طور پر لاگو کرکے ایک وجود ثابت کرنا بے سود ہے۔
نتیجہ:
کانٹ کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ حسی تجربے سے ماوراء الہیات اور مابعد الطبیعیات جیسے موضوعات کے بارے میں نظری عقل ( theoretical reason) سے علم حاصل کرنا ممکن نہیں۔ انسانی علم کا دائرہ صرف حواس کے ذریعے حاصل شدہ معلومات اور ذہن کے خاکوں کے دائرے تک محدود ہے، اور خدا جیسے امور اس دائرے سے باہر ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ کانٹ خدا کے وجود کے امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کرتا، بلکہ اس کے خیال میں خدا کا تصور انسان کے اخلاقی شعور (practical reason) کی بنیاد پر اہمیت رکھتا ہے اور وہ اس کا قائل تھا۔ لیکن نظری عقل یا عقل محض (Pure reason) کے ذریعے اس کا ادراک وہ ناممکن قرار دیتا ہے۔
کانٹ کی اس دلیل سے متاثر ہوکر بعض مذھبی مفکرین الہیات کے عقلی امکان سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد ان میں سے بعض حضرات وجود و صفات باری سے متعلق مذھبی مقدمے کا دفاع مذہبی تجربے (religious experience) کی بنیاد پر کرنے کا دعوی کرتے ہیں جیسا کہ علامہ اقبال کا یہ خیال ہے، بعض اسے کلیتاً نبی کی خبر پر موقوف کرتے ہوئے عقل و ایمان کی دوئی قائم کرکے اسے ایمانی شے کہتے ہیں، بعض کانٹ کی اس دلیل کو الحاد پسندوں کےخلاف استعمال کرتے ہیں کہ اگر عقل سے خدا کا اثبات ممکن نہیں تو انکار بھی ممکن نہیں جبکہ بعض متذبذب رہتے ہیں۔
کمنت کیجے