جہانگیرحنیف
قصد و اختیار کے بغیر حاصل علم کو اضطراری علم کہتے ہیں۔ یہ علم ارادے کا پابند نہیں۔ ہمارے بہت سے علمی حاصلات ارادۂ علم کے تحت ہماری تحویل میں آتے ہیں۔ پہلی چیز یہ سمجھنے کی ہے کہ کسی بھی علم کو اضطراری علم کے دائرے میں اُس وقت شامل کیا جاتا ہے، جب وہ علم بغیر کسی ارادے کے حاصل ہوا ہو۔ کسی بھی علم کو اضطراری قرار دینے کی دوسری شرط اختیار کی نفی ہے۔ یہ علم ہمارے انتخاب کا بھی پابند نہیں۔ ہم اپنے اختیار سے اِس علم کو حاصل نہیں کرتے۔ بلکہ اِس پر خود کو مُضطَر محسوس کرتے ہیں۔ اِس علم کو اضطراری قرار دینے کی بنیادی وجہ اختیار کی نفی ہے۔ قصد اضطرار کو کُلی مانع نہیں۔ لہذا اختیار کی اہمیت بنیادی ہے۔ قصد اُس کے ایک خاص پہلو کے بیان کو مکمل کرنے کی غرض سے ذکر کیا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر اختیار کی نفی کی صورت میں قصد کی نفی خود بخود ہو جاتی ہے۔
جیسے ہماری آنکھ دیکھنے کی قدرت رکھتی ہے۔ وہ نہ دیکھنے کو اختیار نہیں کرسکتی۔ بصارت کی تعریف میں “دیکھنا” بنیادی عُنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ کان سماعت پر مجبور ہے۔ وہ سماعت میں مختار نہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک خبرِ متواتر سے حاصل ہونے والا یقین بھی اضطراری علم کی قبیل میں سے ہے۔ ایک ہی خبر کے پہ در پہ وارد ہونے کے نتیجہ میں انسان بغیر کسی ارادے و نیت کے اُس خبر کے بارے میں یقین پیدا کرلیتا ہے۔ اِس علم میں اختلاف نہیں ہوتا۔ اِس علم میں سب لوگ شریک ہوتے ہیں۔ لہذا اِس علم کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ سب لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ اِس میں مراتب کا بھی فرق کوئی لحاظ نہیں رکھتا۔ عام و خاص اس علم کے محتویات میں یکساں ہوتے ہیں۔ ہمارے حاسۂ اخلاق کو بھی اس علم میں شامل کیا جاتا ہے۔ سچائی کا تصور، عدل و انصاف کا تقاضا اور امانت داری اُن چند امور میں سے ہیں، جنہیں ہم اپنے وجود کے ساتھ جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ ہم ان تصورات کو اپنے اختیار و ارادے سے قبول نہیں کرتے۔ بلکہ ان تصورات کی تعمیل پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔
زاہد مغل صاحب نے “لازمی وجودی حقائق” کو اضطراری علم قرار دیا ہے۔ “لازمی وجودی حقائق” سے ان کی مراد عقل کے وہ قضایا ہیں، جنہیں وہ بغیر کسی استدلال کے قبول کرتی ہے۔ اُنھوں نے اِن امور کو “اولیات عقلیات” قرار دیا ہے۔ عقل اِن امور کو خود سے قبول کرتی ہے اور اِس قبولیت کے لیے کسی دلیل کی شرط نہیں لگاتی۔ پہلی بات یہ ہے کہ اُنھوں نے “اضطراری علم” کے “اضطراری” ہونے کے پہلو کو اپنی وضاحت میں مدنظر نہیں رکھا۔ لہذا ان کی مراد غیر واضح رہتی ہے۔ دوسرا یہ کہ لازمی وجودی حقائق کی تعبیر بھی مبہم ہے۔ انھوں نے اس ترکیب کی وضاحت بھی نہیں فرمائی کہ کیونکر علتِ اولٰی لازمی وجودی حقیقت ہے۔ ایک جانب انھوں نے “لازمی وجودی حقائق” کی تعبیر استعمال کی اور دوسری طرف وہ ایک دوسری اصطلاح “اولیات عقلیات” بغیر کسی شرح و وضاحت کے سامنے لے آئے۔ “لازمی وجودی حقائق” اور “اولیات عقلیات” کے باہمی جوڑ کو جب تک آپ بیان نہیں فرمائیں گے، آپ کی قارئین آپ کی بات سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ اولیات شعور کے مادے میں شامل مسلمات ہیں، نہ کہ اس کے مقتضیات۔ زاہد صاحب اولیات اور مقتضیات کو خلط کرنے کے نتیجہ میں اپنی بات کو سمجھنے سمجھانے سے قاصر ہیں۔ زمان و مکان شعور کے اولیات ہیں۔ شعور انہیں اپنے آبجیکٹ پر وارد کرتا ہے، ان سے اخذ نہیں کرتا۔ اولیات کے لفظ سے ہی واضح ہے کہ ان میں priority پائی جاتی ہے۔ یہ عقل سے بھی prior ہیں۔ عقل کی functioning کی بنیاد ہیں۔ عقل اِن کو وضع نہیں کرتی، بلکہ اِن کو اپنی تمام سرگرمیوں میں بروئے کار لاتی ہے۔ عقل کے apriori، عقل اور عقل کے تمام حاصلات پر حاکم ہیں۔ علت و معلول عقل کا apriori ہے۔ کانٹ نے اسے synthetic apriori قرار دیا ہے۔ یعنی وہ امر جو اپنے ظہور کے لیے تجربہ کا مقتضی ہے، تجربہ سے ماخوذ نہیں، بلکہ اسے ممکن بناتا ہے۔ ہیوم علت و معلول کو رسمی (custom based) قرار دیتا ہے اور اسے شعور کی چیزوں کے درمیان نسبت ڈھونڈنے کے ایک رجحان (disposition) کی حیثیت میں دیکھتا ہے۔ اس سیاق میں علت و معلول کی حیثیت یعنی یہ کہ اسے apriori قرار دیا جائے یا نہیں، بہت کچھ بحث کا تقاضا کرتا ہے۔ زاہد صاحب cause and effect سے بڑھ کر علت اولٰی کو شعور کا apriori قرار دیتے ہیں۔ لہذا ہمیں ان کی بات سمجھنے میں واقعی دقت ہے اور ہم اس دقت کو محسوس کرنے میں حق بجانب ہیں۔ ہمیں ان کی بات سمجھنے میں وقت لگے گا اور انھیں اپنی بات سمجھانے میں محنت درکار ہوگی۔ ہماری حیثیت ایک طالب علم کی ہے۔ لہذا ہمیں اُن سے سیکھنے میں عار نہیں۔
جہاں تک علتِ اولٰی کا تعلق ہے، تو ہماری ادنی رائے میں یہ شعور کا اقتضاء ہے۔ اس کا apriori نہیں۔ شعور علت و معلول کے تجربہ میں سے گزرتا ہے اور بار بار گزرتا ہے۔ وہ چار سو اس اصول کو کار فرما دیکھتا ہے۔ وہ اس اصول کو عمل میں لاتا ہے اور اپنی دنیا سنوارتا ہے، اسے اپنے لیے مفید بناتا ہے۔ وہ پکار اٹھتا ہے کہ کسی ہستی کو ہونا چاہیے، جو اِس سب کی خالق و مالک ہو۔ جو کامل قدرت کی حامل ہو۔ جس کا علم کسی قانون کا پابند نہ ہو۔ جو مسبب الاسباب ہو۔ جس کے قبضۂ قدرت میں معلوم و نامعلوم کائنات ہو۔ وہ ذہن فلسفیانہ ہو، تو وہ علتِ اولٰی کا طلب گار بنتا ہے۔ علتِ اولٰی عقل کی طلب ہے۔ اس کا apriori نہیں۔ وہ اُس کی جستجو ہے۔ اُس کی جدوجہد کا منتہی ہے۔ عقل اُسے موسوم کر چکی ہے۔ لیکن جانتی نہیں۔ اُسے مان چکی ہے۔ لیکن گرفت میں لینے سے قاصر ہے۔ عقل کی معیاری سرگرمی معلوم کا احاطہ ہے۔ علت اولٰی میں یہ ممکن نہیں۔ یہاں ماننا ہے۔ جاننا نہیں۔ ماننا شعور کی قوت سے ممکن ہے۔ جاننے کے لیے آبجیکٹ کا ہونا ضروری ہے۔ وہ فی الحال میسر نہیں۔ لیکن اُس کے ہونے کا یقین قوی ہے۔ کیونکہ یہ اُسی شعور کا دعویٰ ہے جو ہمیں علت و معلول کو ماننے پر مائل کرتا ہے۔ وہی شعور اِس سے زیادہ شدت سے ہمیں علتِ اولٰی کو ماننے پر مائل کررہا ہے۔ لہذا ہم اسے شعور کے اقتضاء کے طور پر مانتے ہیں۔
کمنت کیجے