Home » اولیات عقلیات کی اہمیت: امام غزالی کی رائے
اسلامی فکری روایت شخصیات وافکار فلسفہ

اولیات عقلیات کی اہمیت: امام غزالی کی رائے

علم کی تعمیر و تشکیل میں اولیات کی کتنی اہمیت ہے، اس پر امام غزالی کی رائے لے لیجئے۔ کتاب “تھافت الفلاسفۃ” لکھنے کے بعد امام غزالی نے منطق پر ایک تفصیلی کتاب “معیار العلم” کے نام سے لکھی جس کا خلاصہ “محک النظر” کے نام سے لکھا۔ اس میں ایک باب آپ مدارک علم پر لکھتے ہیں، یعنی وہ امور جن سے حقائق کا ادراک و علم حاصل ہوتا ہے۔ علوم کے مدارک میں سب سے پہلا مدار آپ ان امور کو کہتے ہیں جنہیں “اولیات عقلیات” (       first principles         of          reason) کہتے ہیں۔ ان مدارک کا ذکر کرنے سے قبل آپ یقین کے معنی پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نفس جب کسی شے کی تصدیق کرتا ہے تو اس سے حاصل ہونے والا اطمینان تین درجات ہر ہے، پہلے کو یقین دوسرے کو اعتقاد جازم اور تیسرے کو ظن کہتے ہیں۔ پہلے کی تفصیل آپ یہ لکھتے ہیں کہ یہ ایسا اطمینان ہے کہ اس میں قطعیت ہوتی ہے، ایسی قطعیت کہ اس کی سچائی میں کسی قسم کے سہو، غلطی اور التباس کا کوئی شک نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی نقیض سے اس میں غلطی ثابت کئے جانے کا امکان ہوتا ہے۔ اس کی قطعیت پر نفس یوں مطمئن ہوتا ہے کہ اس معاملے میں کسی بھی دلیل سے رائے میں تغیر ہونے سے محفوظ و مامون محسوس کرتا ہے چاہے وہ دلیل غیب میں چھپی ہوئی بات ہی کیوں نہ ہو، یہاں تک کہ اگر لوگوں میں ایک افضل شخص سے بھی اس کے برخلاف بات منقول ہو تو اس کی تکذیب اور اسے غلط قرار دینے میں توقف نہیں کیا جائے گا بلکہ اگر ہمیں یہ روایت ملے کہ نبی نے ان امور کو غلط قرار دینے کا دعوی کیا تھا جس کی دلیل میں فلاں معجزہ پیش کیا گیا تو ایسی بات سے بھی ان امور کے صدق کا اعتبار ختم نہ ہوگا، ایسی بات اور اس کی روایت کرنے والے پر مسکرا دیا جائے گا۔ اگر کسی کے دل میں ایسی روایت کرنے والے کے حق میں یہ خیال گزرے کہ ممکن ہے نبی پر خدا کی جانب سے ان امور کے غلط ہونے کا راز افشا کردیا گیا ہو تو یہ خیال بھی درست نہیں۔ ان امور کی مثالیں یہ ہیں: تین چھ سے چھوٹا ہوتا ہے، ایک ہی جسم بیک وقت دو مکان میں نہیں ہوسکتا وغیرہ۔ امام صاحب کی عبارت ملاحظہ کرلیجئے:

احدها: أن تتيقن وتقطع به وينضاف إليه قطع ثان وهو أن يقطع بأن قطعه به صحيح ويتيقن بأن يقينه لا يمكن أن يكون فيه سهو ولا غلط ولا التباس، ولا يجوز الغلط لا في تيقنه بالقضية ولا في تيقنه الثاني بصحة يقينه، ويكون فيه آمناً مطمئناً قاطعاً بأنه لا يتصور أن يتغير فيه رأيه ولا أن يطلع على دليل غاب عنه فيغير اعتقاده، ولوِ حكى نقيض اعتقاده عن أفضل الناس فلا يتوقف في تجهيله وتكذيبه وخطأه، بل لو حكى له أن نبياً مع معجزة قد ادعى أن ما يتيقنه خطأ ودليل خطأه معجزته فلا يكون له تأثير بهذا السماع إلا أن يضحك منه، ومن المحكي عنه. فإن خطر بباله أنه يمكن أن يكون الله قد اطْلع نبيه على سر انكشف له نقيض اعتقاده، فليس اعتقاده يقيناً. ومثال هذا العلم قولنا إن الثلاثة أقل من الستة، وإن شخصاً واحداً لا يكون في مكانين، وإن شخصين لا يجتمعان في موضع ونظائر ذلك

ہمارے بعض دوست بعض مغربی فلاسفہ سے متاثر ہوکر ان اولیات کو ڈاؤن پلے کرنے یا انہیں عقل کے مفہوم سے خارج کرنے کی کوشش میں ہیں جبکہ خود ہماری دینی روایت میں ان کی اہمیت کا اندازہ درج بالا سے لگایا جاسکتا ہے۔ اولیات سے متعلق ائمہ دین کی حساسیت کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہی ثابت نہ ہوں تو کسی بھی دعوے کی قطعیت کے ساتھ تصدیق ممکن نہ رہے گی کیونکہ یہ ہر علمی قضئے کی صحت متعین کرنے میں کار فرما ہوتے ہیں۔ اگر ان میں شک ہو تو پھر سب امور شک کے دبیز پردوں میں چلے جائیں گے۔

یہاں یہ بات یاد رہے کہ ان اولیات عقلیات کے تمام علوم کی بنیاد ہونے اور کانٹ کی کیٹیگریز کے علم کی بنیاد ہونے میں ایک بنیادی نوعیت کا فرق ہے: اول الذکر حقیقت سے مطابقت رکھتے ہیں جبکہ موخر الذکر محض خیال ہیں جو انسان کے لئے حقیقت کی صورت گری کرکے ان کی ایک شبیہہ تیار کرتے ہیں۔ اسی لئے اول الذکر کو عین عقلی کہا جاتا ہے کہ وہ نفس الامر کے مطابق ہیں جبکہ موخر الذکر کو عقلی کہنا درست نہیں کیونکہ کانٹ کے بقول وہ از خود کسی حقیقت کا مظہر نہیں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں