عمران شاہد بھنڈر
دو سو برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے جب ہیگل نے کہا تھا کہ ”مادیت“ کبھی فلسفے کا موضوع نہیں بن سکتی۔ ہیگل کے اس قضیے کو لینن ”فلسفیانہ بیاض“ میں دہراتا ہے، لیکن کہیں بھی اس کا ابطال نہیں کرتا، بلکہ یوں کہیں کہ ابطال کرنا تو دور کی بات ہے اس قضیے پر حاشیہ لکھ کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہیگل جانتا تھا کہ کانٹ نے انسانی صلاحیتوں کی جو حسیات، فہم اور عقل میں تقسیم کر دی ہے اس کے بعد حسیات سے آغاز کر کے عقل تک پہنچنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ کانٹ ہی حسیات سے ماورا عقل کو فعال کر چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ فختے نے کہا تھا کہ ہم عمومی تجربے کی بجائے ّ”عقلی مشاہدے“
(Intellectual Intuition)
سے آغاز کریں گے۔ کیونکہ ”شے فی الذات“ عقل میں جنم لیتی ہے، خارجی دنیا میں یہ کچھ بھی نہیں ہے، یعنی حسیات کے لیے ”ناقابلِ ادراک“ صرف عقل کا آئیڈیا ہے جو بالطبع عقل میں جنم لیتا ہے۔ وجہ اس کی یہ کہ حسیات عقل تک رسائی نہیں رکھتیں، جب کہ عقل اپنا معروض تشکیل دینے کی اہل ہے اور حسیات پر بھی اپنا حکم لگانے کی استعداد رکھتی ہے۔لینن کا دعویٰ تھا کہ حسیات ہمیں ”قطعی“ (Ultimate) علم عطا کرتی ہیں۔ لینن بعد ازاں اس دعوے کی نفی کرنے لگا، جب اس نے یہ کہا کہ حسیات ایک لمحے سے دوسرے لمحے میں عبوریت (Transition) پر گرفت نہیں کر سکتیں۔ ویسے بھی اگر حسیات ”قطعی سچ“ کو ہو بہو شعور میں منتقل کر دیں تو عقل کی فعلیت ختم ہو جاتی ہے۔ عقل کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ اس ”قطعی سچ“ کو ظاہر کر دے، جس کو حسیات پہلے ہی عقل کو پیش کر چکی ہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک مضحکہ خیز صورتحال ہے۔ ہم اسی کو ”مابعد الطبیعاتی اور میکانکی مادیت“ کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ”معروضی سچ“ پہلے سے تیار شدہ ہے، بس حسیات نے اس کو منتقل کرنا ہے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ کانٹ کے بعد یہ ممکن نہیں تھا کہ عقل کی فعالیت کو مجہولیت کا لبادہ اوڑھا دیا جائے۔ لہذا کانٹ نے جس مادیت کا شیرازہ بکھیرا وہ ”میکانکی اور مابعد الطبیعاتی مادیت“ تھی۔ واضح رہے کہ ہم اسے ”مابعد الطبیعاتی مادیت“ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ”معروضی سچ“ خارجی دنیا (فطرت) میں موجود ہے۔ اگرچہ اس کو ”مکمل“ طور پر یعنی ایک ہی بار پیش نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ ”بتدریج“ خود کو منکشف کرتا ہے۔
کانٹین فلسفے کا سب سے بنیادی نقص، بہرحال، یہ ہے کہ اس میں ”مابعد الطبیعاتی مادیت پسندوں“ کے ”معروضی سچ“ کی طرح لازمی اور آفاقی مقولات فہمِ محض میں مستقل طور پر موجود ہیں۔ یعنی ایک طرف مابعد الطبیعاتی مادیت پسندوں کا معروضی سچ ہے، جو انسان سے الگ وجود رکھتا ہے، دوسری طرف کانٹ کا ”موضوعی سچ“ ہے جو بدیہی سطح پر موجود تو ہے، لیکن وہ معروض سے مطابقت میں ہے۔ کانٹ کو مادیت پسندوں پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس کے فلسفے میں موضوعیت فعال ہو چکی تھی۔ جب کہ ”مابعد الطبیعاتی مادیت پسندوں“ کے نزدیک موضوعیت اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہ اس میں صرف”معروضی سچ“ منعکس ہوتا ہے۔ چونکہ مابعد الطبیعاتی مادیت پسندوں کے لیے فہم کے مقولات (تصورات) بھی اپنی ”کلیت“ میں حس کے ذریعے شعور میں منعکس ہوتے ہیں، لہذا موضوعیت کی اپنی کوئی فعلیت نہیں ہے۔ لہذا یہاں معاملہ انعکاس کا ہے نہ کہ مطابقت کا۔ ہیگل ”مادیت پسندوں“ کو کسی خاطر میں نہیں لاتا۔ اس کا کہنا ہے کہ کانٹین فلسفے کا ”عظیم کارنامہ“ یہ ہے کہ اس نے قبل از ادراک شعور کی وحدت ( Transcendental unity of aperception) کا نکتہ اٹھایا۔ اس کا لازمی نتیجہ اس ثنویت کا خاتمہ تھا جو مابعد الطبیعاتی مادیت پسندوں نے حسیات کے ذریعے ”معروضی سچ“ کو شعور میں منتقل کرنے کے دعوے کے ساتھ پیدا کر دی تھی۔ یعنی خیال، عقل اور شعور خود میں کیا ہیں، یہ سوال ہی ختم کر دیا گیا تھا۔ اس طرح موضوعیت اور معروضیت میں ایک ”حتمی خلیج“ پیدا ہو گئی۔ موضوعیت کی مجہولیت کے اس عمل سے ’جدلیات‘ کا سوال قائم نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ جدلیات موضوع اور معروض کی باہم نفوذ پذیری کا نام ہے نہ کہ مجہول انعکاس کا۔ فلسفے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ موضوع (Subject) مجہول نہیں بلکہ فعال ہوتا ہے۔ موضوع کی فعالیت کا یہی وہ بنیادی پہلو ہے جس کا ذکر کارل مارکس نے فیورباخ پر لکھے پہلے تھیسس میں کیا ہے۔ موضوع کی یہ فعلیت فلسفے کی دریافت تھی، اور اس کو نظر انداز کرنا، بقول مارکس، تمام مادیت، بشمول فیورباخ، کا بنیادی نقص ہے۔ اور یہی وہ بنیادی نقص ہے جس کو ولادیمیر لینن نے اپنی ”مادیت اور تجربی انتقاد میں برقرار رکھا۔ نکتہ یہاں پر یہ عیاں کرنا مقصود ہے کہ ”مابعد الطبیعاتی مادیت پسند“ کبھی بھی “مادیت“ کی اس بنیادی خامی کو زیرِ بحث لا کر یہ وضاحت نہیں کرتے کہ ان کی مادیت مادی جدلیات کے قوانین کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ جوں ہی یہ خامی زیرِ بحث آئے گی، اس کا سب سے پہلا ہدف لینن کی کتاب ”مادیت اور تجربی انتقاد“ ہو گی۔ اس کا تفصیلی تجزیہ بعد میں پیش کیا جائے گا۔ فی الوقت ہمیں جدلیات کے چند بنیادی پہلوؤں کا تنقیدی جائزہ پیش کرنا ہے تاکہ بعد میں کیے جانے والے مباحث کی تفہیم آسان ہو سکے۔
ہیگل کے مطابق ”منطق سوچ کی سائنس ہے۔“ لیکن سوچ تجریدی (کانٹ کی شے فی الذات) نہیں ہوتی، بلکہ اس میں مافیہا موجود ہوتا ہے، یا ہیگل کے الفاظ میں سوچ مقرونی (concrete) ہوتی ہے۔ یعنی فطرت اس کا جزو لاینفک ہے۔ تاہم یہ فطرت حس کا معروض نہیں، بلکہ سوچ کا معروض ہوتی ہے۔ ان معنوں میں ہیگل اسے خالص ہیئت (Form) بھی کہتا ہے، یعنی ایک ایسی ہئیت جس میں مافیہا (content) موجود ہوتا ہے۔ اس میں سوچ کے ذریعے سوچ کی درستی کی جاتی ہے۔ کانٹ کے نزدیک منطق صرف ہیئت میں درستی سے تعلق رکھتی ہے۔ اگرچہ کانٹ یہ اقرار کرتا ہے کہ جب منطق حسیات یا خارجی دنیا سے قطع نظر کر لیتی ہے تو وہ کوئی آفاقی علم عطا نہیں کرتی۔ تاہم کانٹ کا نقص یہ ہے کہ وہ ’معروض‘ کو سوچ کے اندر، سوچ کے ذریعے پیدا نہیں کر سکا۔ اس لیے کانٹ کی نظری عقل میں یہ ثنویت برقرار رہتی ہے۔ ہیگل نے اس ثنویت کو دور کر دیا۔ یہ ثنویت صرف سوچ کی اولیت کی بنیاد پر ہی ختم ہو سکتی تھی، حسیات سے آغاز کر کے ثنویت کا خاتمہ ممکن ہی نہیں تھا۔ لہذا لازم تھا کہ ”خیال“ سے شروع کیا جائے تاکہ ثنویت کی منطقی تحلیل ممکن ہو سکے۔
ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ہیگل نے جدلیات کے”مکمل“ قوانین، بقول اینگلز، تشکیل دے دیے تھے، یعنی ”مکمل سچ“ سوچ میں سوچ کے ذریعے ظاہر ہوا اور سوچ کے ذریعے ہی پایہ تکمیل تک پہنچا۔ اگر وہ سچ پہلے ہی ”مادیت اور تجربی انتقاد“ میں تشکیل پا کر پوری ”قطعیت“ کے ساتھ موجود ہوتا تو ہیگل کی جدلیات کا مطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔لینن نہ صرف اپنے نکالے گئے نتائج بلکہ مارکس اور اینگلز کی تعبیرات سے بھی مطمئن نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے سطر بہ سطر ہیگل کے لاجک کو پڑھا اور مختلف شقوں پر اپنے حاشیے رقم کیے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہیگل کی تفکری جدلیات نے ”مطلق سچ“ کو جدلیات کی صورت میں تشکیل دیا۔ ہیگل سوال اٹھاتا ہے کہ ”ہماری سائنس کا معروض کیا ہے؟“ اور خود ہی اس کا جواب بھی دیتا ہے کہ اس کا معروض ”سچ“ ہے۔ مزید کہتا ہے کہ ”یہ آفاقی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ منطق کا معروض سوچ ہے۔“ (سیکشن، 19)۔ اس سے پہلی بات یہ ذہن میں آتی ہے کہ سوچ تو موضوعی ہوتی ہے، جب کہ لینن کے لیے سچ معروضی طور پر موجود ہوتا ہے جو حسیات اور شعور میں منعکس ہوتا ہے۔یہ بہرحال حقیقت ہے کہ حسیات سے آغاز کرکے جدلیات کی تشکیل ناممکن ہے۔ کیونکہ حسیات کا معروض سچ اگر ”قطعی“ طور پر انسانی ذہن میں منعکس ہوتا ہے تو پھر شعور کی مجہولیت عیاں ہے۔حسیات میں یہ استعداد ہی نہیں ہے کہ”قطعی سچ“ کو شعور میں منعکس کرنے کے بعد مزید کسی سچ کا تقاضا کریں، یا شعور اور ”معروضی سچ“ میں کسی طرح کی مطابقت کو پیدا کرنے کا سوال اٹھائیں، کیونکہ یہ عمل حسیات کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ صرف معروضی قوانین ہی ذہن میں منعکس ہوتے ہیں تو شعور کا فعال کردار ختم ہو جاتا ہے۔ ہیگل اس حقیقت سے کسی بھی دوسرے فلسفی سے زیادہ آگاہ تھا کہ حسیات سے شروع کر کے کسی ”یونیورسل“ سچ (جدلیات) تک پہنچنا ناممکن ہے۔ ہیگل کہتا ہے کہ منطق آسان ہے، کیونکہ اس کے حقائق ہماری اپنی سوچ کا نتیجہ ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جدلیات مطلق سچ ہے؟ اگر جدلیات ”مطلق سچ“ ہے تو پھر سوچ بھی ”مطلق سچ“ ہے جس کے ذریعے اس کی تکمیل ہوئی۔ جب ہم جدلیات کو ”حتمی“ سمجھتے ہوئے کسی بھی خارجی مظہر پر اس کا اطلاق کرتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہم سوچ کے قوانین کو حسیاتی مظاہر پر لاگو کر رہے ہیں، نہ کہ حسیات سے ”تمثالی پیکر“ لے کر ان کا اطلاق سوچ پر کرتے ہیں۔ آغاز میں سوچ سے ہم جو شے لیتے ہیں وہ سوچ کی نفی ہے، اور یہ نفی خود سوچ میں موجود ہے اور سوچ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ یعنی ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سوچ کے ذریعے تشکیل پائے گئے قوانین کا حسیاتی مظاہر پر اطلاق، حقیقت میں، ہیئت کا حسی معروضات پر اطلاق ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ پیچیدہ نکتہ یہ ہے کہ ایک تو جدلیات بحیثیت کُل سوچ ہے، یعنی سوچ کی ’ہیئت‘ ہے، دوسرا یہ کہ اس سوچ میں ہیئت اور مقرونی دونوں موجود ہیں۔ جدلیاتی منطق میں ہیئت اور مافیہا دونوں سوچ میں موجود ہونے کی وجہ سے ان کا خارجی دنیا پر اطلاق ممکن ہوتا ہے۔ لیکن اگر ”معروضی سچ“ صرف حسیات کی وساطت سے ذہن میں منعکس ہوتا ہے تو اس سے سوچ کی فعال بدیہی (A priori) حیثیت تشکیل نہیں دی جا سکتی۔ شعور کا کام صرف منعکس کرنا رہ جاتا ہے، نہ کہ تشکیل کرنے کا! جب لینن یہ کہتا ہے کہ ہم مارکس کے ”داس کیپیٹل“ کا پہلا باب بھی اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک ہیگل کے لاجک کو مکمل طور پر پڑھ کر سمجھ نہ لیا جائے، اس وقت وہ سوچ کی ’اولیت‘ کو تسلیم کر رہا ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ آج بھی جو مفکر یہ مانتے ہیں کہ جدلیات ”حتمی سچ“ ہے، وہ ہیئت (سوچ) کی مافیہا پر برتری کو تسلیم کر لیتے ہیں، اگرچہ انہیں یہ تسلیم کرنے میں مشکل محسوس ہو سکتی ہے۔ حالانکہ یہ بات سمجھنے میں دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ جب ہم کسی مظہر پر جدلیات کا اطلاق کرتے ہیں تو جدلیات کے اطلاق سے پہلے جدلیاتی قوانین کی”ہیئت“ ہمارے پاس موجود ہوتی ہے جو ”فکرِ محض“ ہے۔ان قوانین میں خارج کا تصور حسیاتی خارج کا نہیں بلکہ سوچ کے ”دوسرے“ کا ہے جو سوچ خود تشکیل دیتی ہے۔ یعنی خارج بھی سوچ کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ ہیگل نے جب کہا تھا کہ مادیت کبھی بھی فلسفے کا موضوع نہیں بن سکتی تو اس سے یہی مراد تھی کہ حسیات کسی بھی صورت میں جدلیات کا احاطہ نہیں کر سکتیں۔ ہم بھی جب جدلیات کا خارجی مظاہر پر اطلاق کرتے ہیں تو سوچ کی ’اولیت‘ کو مان کر ہی کرتے ہیں۔ سوچ کی ہیئت (جو کہ سوچ بطور سائنس ہے) کو اس وقت تک فختے اور ہیگل کے فلسفے میں اولیت حاصل نہ ہوتی اگر کانٹ قبل از ادراک شعور کی وحدت کا تصور پیش نہ کرتا۔ یہی وہ عظیم کارنامہ ہے جس نے کانٹ کے فلسفے میں موجود ”دوئی“ کو کانٹ کے فلسفے کے ذریعے ختم کیا۔ کانٹ نے یہ منطقی طور پر واضح کیا کہ سوچ فعال ہے اور تصورات کو پیدا کرتی ہے۔ انہی الفاظ کو ہیگل دہراتا ہے کہ سوچ کا کردار پیداواری ہے۔ یہ فاعل اور منفعل کا تعین خود کرتی ہے۔ یہی فاعل اور منفعل جو کانٹین فلسفے میں جامد مقولات کی شکل میں موجود تھے، وہ ہیگلیائی فلسفے میں متحرک ہوگئے اور دونوں کے درمیان جدلیاتی رشتہ قائم ہو گیا۔ ایک کے بغیر دوسرا ”کچھ نہیں” ہے۔ یہ ایک دوسرے سے الگ نہیں (حسی طور پر)، بلکہ ایک دوسرے میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔
لینن نے فیورباخ کی تقلید میں جو غلطی کی تھی، اس کو مارکس نے ”فیورباخ پر تھیسس“ میں پوری طرح سے عیاں کر دیا تھا۔ مارکس پہلے تھیسس میں ہی یہ نکتہ واضح کر دیتا ہے،
”آج تک تمام مادیت کے فلسفے کی سب سے بڑی خامی (بشمول فیورباخ) یہ رہی ہے کہ کسی شے، حقیقت، حسیت کو صرف معروض کی صورت (Form) میں یا پھر سوچ بچار کی شکل میں لیا گیا ہے، اسے انسان کی حسیاتی فعلیت، عمل یا فاعلی حیثیت میں نہیں دیکھا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مادیت کے فلسفے کے برخلاف فعال پہلو کو عینیت پسندی نے تشکیل دیا، اگرچہ یہ صرف تجریدی طور پر کیا گیا کیونکہ عینیت حقیقی، حسیاتی فعلیت کو فی نفسہ نہیں سمجھتی۔“ (پہلا تھیسس)۔
اس تھیسس کو اگر توجہ سے پڑھ لیا جائے تو یہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ یہ تھیسس لینن کی ”مادیت“ کی پوری قوت کے ساتھ تنقید پیش کرتا ہے۔ کیونکہ لینن کا دعویٰ بھی یہی تھا کہ ”معروضی سچ“ ہماری حسیات اور شعور میں منعکس ہوتا ہے۔ یعنی ”معروضی سچ“ جو کہ خارج میں موجود ہے اس کی ہیئت کی ہمارے شعور میں تجرید کر لی جاتی ہے۔ یہی تمام مادیت بشمول فیورباخ اور لینن کی ”مادیت“ کی خامی ہے کہ وہ خارج میں موجود معروضی سچ کی تجرید کرتے ہیں لیکن حقیقی، حسی فعلیت کو نہیں سمجھتے۔ یہاں جو نکتہ بہت اہم ہے وہ ”حسی فعلیت“ ہے۔ یعنی گھڑے گھڑائے ”معروضی سچ“ کی ہیئت کی تجرید مادیت کی خامی ہے، جب کہ عملی حسی فعلیت کی تفہیم اصل نکتہ ہے۔ انسان اپنی عملی فعلیت کے ذریعے خود کو معروضی شکل دیتا ہے، یہ انسان سے متعلق وہ سچ ہے جس کا تعلق اس کی اپنی عملی فعلیت سے ہے۔ لہذا انسان کا سچ خود انسان ہے۔ انسان جب فطرت پر بھی عمل آرا ہوتا ہے تو اسے بھی اپنی عملی فعلیت سے سماج میں تبدیل کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں خود بھی تبدیل ہوتا ہے۔ ان معنوں میں انسان کا معروض اس کی ”عملی فعلیت“ ہے، نہ کہ فطرت اور اس کا انسانی ذہن میں مجہول انعکاس! مارکس مزید کہتا ہے کہ انسان کے اس ”فعال“ پہلو کو عینیت پسند فلسفوں میں دریافت کر لیا گیا تھا، لیکن ان فلسفوں میں حسیاتی فعلیت کو نہیں جانا گیا، بلکہ موضوعیت کی فعال جہت تشکیل دے دی گئی تھی۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ یہی وہ فعال جہت ہے جو کانٹ نے تشکیل دی، فختے نے اپنی کتاب ”سائنس آف نالج“ کے آخری باب میں ”فعلیت“ پر ایک مکمل باب رقم کر دیا۔ لوکاش اس حوالے سے لکھتا ہے کہ فختے کے فلسفے کی یہی وہ فعال جہت ہے جس کا حوالہ مارکس نے اپنے پہلے تھیسس میں دیا ہے۔ لوکاش کے الفاظ کچھ یوں ہیں،
This leads in Fichte to that strengthening of the ”active side” of classical German philosophy to which Marx refers in his First Theses
(The Young Hegel, P, 244)
لوکاش مزید لکھتا ہے کہ فختے کا فلسفہ اُس عہد کی انقلابی فعالیت کا غماز تھا۔،
Fichte’s philosophy is the revolutionary activism of the age translated into philosophy. (ibid, P, 244)
لینن نے جرمن فلسفے کے اس فعال پہلو کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے ”مادیت اور تجربی انتقاد“ میں فیورباخ کی مادیت کو بنیاد بنا کر جرمن عینیت پسندی پر تنقید شروع کر دی۔ اگر دیکھا جائے تو تاریخی طور پر لینن کی تنقید جس تناظر میں کی گئی تھی وہ غیر متعلق بھی نہیں تھی۔ لیکن “مادیت پسندوں” کا اس تنقید کو سیاق سے کاٹ کر “حتمی سچ” سمجھنا غلط ہے۔ ہیگل کو پڑھنے کے بعد لینن نے فیورباخ پر بھی تنقید کی۔ لینن کہتا ہے کہ مارکسیوں نے کانٹ پر جو تنقید لکھی ہے وہ فیورباخ کے نقطہ نظر سے ہے (لینن بھی انہی میں شامل تھا)، نہ کہ ہیگلیائی فلسفے کی رو سے۔ لینن کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ تمام ”مابعد الطبیعاتی مادیت پسند“ کانٹ پر تنقید تو کرتے ہیں، لیکن اس کی تصحیح نہیں کرتے جیسے کہ ہیگل نے کی تھی۔ کانٹ کی تصحیح کا آغاز اسی ایک نکتے سے ہونا تھا جس کا تفصیلی جائزہ اس مضمون میں لے لیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ ”شے فی الذات“ خالص فکر ہے، جو فختے اور ہیگل کے مطابق کچھ بھی نہیں، یعنی ”لا شے“ ہے۔ لینن نے شے فی الذات بارے ہیگل کے خیالات پڑھنے کے بعد دو حاشیے رقم کیے جن میں شے فی الذات کو ”خالی تجرید“ تسلیم کیا گیا۔ شے فی الذات کا قضیہ، اگرچہ، فختے اور ہیگل نے ہی حل کر دیا تھا، تاہم جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ اس کے حل ہونے کے بعد بھی ”معروضی سچ“ کی ہیئت کی ذہن میں تجرید مارکس کے پہلے تھیسس کا ہدف ٹھہرتی ہے جو کہ لینن کی ”مادیت اور تجربی انتقاد“ کا مرکزی نکتہ ہے۔
”مادیت اور تجربی انقاد“ میں ایک اور انتہائی اہم اور بنیادی نکتہ ”تھیوری اور عمل“ سے متعلق ہے۔ اس کی تنقیح دو بنیادی وجوہات کی بنیاد پر بہت ضروری ہے: ایک یہ کہ نظریے اور عمل کے درمیان وحدت مارکسی فلسفے کا مغز ہے، اسی نکتے کی اہمیت مارکس کے “فیورباخ پر تھیسس” میں عیاں کی گئی ہے۔ دوسرا یہ کہ لینن نے مذکورہ کتاب میں نظریے اور عمل کے درمیان وحدت کی جو تفہیم پیش کی ہے وہ نہ صرف یہ کہ جرمن عینیت میں انسانی موضوع کی فعالیت کو مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہے (جسے مارکس سراہتا ہے)، بلکہ نظریے اور عمل کے درمیان تعلق کی جو نوعیت بیان کی گئی ہے وہ سرے سے غلط ہے۔ مارکس کے پہلے تھیسس میں مادیت کا نقص بیان کر دیا گیا تھا، جسے لینن نے مکمل طور پر نظر انداز کیا، وجہ اس کی اوپر پیش کر دی گئی ہے۔ اہم بہرحال اس حقیقت کو عیاں کرنا ہے کہ لینن فطرتی معروض کی اسی ہیئت کو ذہن میں منعکس کرنے کے بعد اس میں سے ’عمل‘ کا جواز تلاش کرتا ہے، جو منطقی اعتبار سے غلط ہے۔ جب مادیت کا بنیادی نقص ہی یہ ہے کہ اس میں خارجی معروض کی صرف ہیئت ہی ذہن میں منعکس ہوتی ہے تو اس سے عمل کا سوال کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ لینن اس کا تسلی بخش جواب نہیں دیتا۔ مارکس کا مقدمہ یہ ہے کہ وہ انسانی فعلیت سے قبل کسی”معروضی سچ“ کے ذہن میں انعکاس کے برعکس اس فعلیت کو موضوع بناتا ہے جس میں موضوع اور معروض کی وحدت سماجی سطح پر استوار ہو چکی ہو۔ یعنی موضوع کی فعلیت معروضائی (Objectify) جا چکی ہو۔ مارکس کے پیش نظر فعلیت ہی حسی انعکاس ہے، جبکہ لینن کے نزدیک انسان سے الگ “معروضی سچ” کا انعکاس پہلے ہے۔ یعنی “معروضی سچ” پہلے سے موجود ہے۔ یعنی انسان سے الگ ”معروضی سچ“ کو جان کر عمل کیا جائے۔ جب کہ حسی فعلیت جو سماج کی شکل میں معروضائی جاتی ہے اس میں پہلے ہی موضوع (فکر و عمل) موجود ہوتا ہے۔ یہ ایسا بنیادی پہلو ہے جس کو لینن سمجھ نہ پایا اور تمام ”مابعد الطبیعاتی مادیت پسندوں“ کی طرح انسان سے الگ ”معروضی سچ“ کی تفہیم پر زور دیتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ لینن نے خود مارکس کے ”پہلے تھیسس“ کا تفصیلی تجزیہ کرنے کی بجائے ”دوسرے تھیسس“ کو تھیوری اور عمل کے درمیان تعلق کی وضاحت کے لیے دو جگہوں پر پیش کیا ہے۔ لینن لکھتا ہے،
”ہم دیکھ چکے ہیں کہ مارکس نے 1845 میں اور اینگلز نے 1888 میں عمل کی کسوٹی کو مادیت کے علم کی تھیوری کی بنیاد پر بنایا۔ حقیقی اور غیر حقیقی کا وہ تنازع جو عمل سے الگ ہو، مکمل علم الکلام کا سوال ہے۔مارکس، فیورباخ کے متعلق اپنے دوسرے مقالے میں لکھتا ہے۔ کانٹین اور ہیومین لاادریت اور اس کے علاوہ دوسری فلسفیانہ ترنگوں کا بہترین ابطال عمل ہے۔ اینگلز دہراتا ہے، ”ہمارے عمل (فعل) کا نتیجہ ہماری مدرکات کی، ادراک شدہ اشیا کی معروضی فطرت کے ساتھ مطابقت کو ثابت کرتا ہے۔“ وہ (اینگلز) لاادریوں کے جواب میں کہتا ہے۔“ (مادیت اور تجربی انتقاد، ص، 157)۔
اس بات کو سمجھنا ہرگز مشکل نہیں ہے کہ مارکس کے پہلے تھیسس اور اینگلز اور لینن کے نکالے گئے نتائج میں بعد المشرقین ہے۔ مارکس کے پیشِ نظر انسانی فعلیت ہے، جس کا تجزیہ اوپر کر دیا گیا ہے، جب کہ اینگلز اور لینن کا مارکس کی بیان کردہ ”حسی فعلیت“ سے سرے سے ہی کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان دونوں کے پیشِ نظر انسان سے الگ فطرت میں موجود ”معروضی سچ“ ہے جس سے کہ یہ دونوں ”عمل“ کے ذریعے ”مطابقت“ پیدا کرنے کے خواہاں ہیں۔ لینن کے اس اقتباس میں دوسری اہم غلطی یہ ہے کہ لینن نے مارکس کے دوسرے تھیسس کو کانٹ اور ہیوم کی ”لاادریت“ سے منسوب کر دیا ہے، جب کہ مارکس کے دوسرے تھیسس میں ”لاادریت“ کا کہیں ذکر تک نہیں ملتا۔ مارکس کی تنقید انسان سے الگ “معروضی سچ” کے تصور پر ہے۔ لینن اس اہم نکتے کو نظر انداز کرتا ہے کہ مارکس کے تھیسس فیورباخ پر ہیں نہ کہ ”لاادریت“ پر، اور ان تھیسس میں ”مادیت“ کی خامی بتائی گئی ہے (جس میں فیورباخ بھی شامل ہے)، نہ کہ اس میں لاادریت کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ انسان سے الگ فطرت میں گھڑے گھڑائے ”معروضی سچ“ کا ذہن میں انعکاس اور ”پہلے تھیسس“ میں موجود انسانی فعلیت کو جاننے کے درمیان جو فرق ہے، لینن اسے سمجھنے میں ناکام رہا۔ مارکس کے ”پہلے تھیسس“ میں پیش کیے گئے یہ الفاظ ”مادیت اور تجربی انتقاد“ کو مکمل طور پر رَد کر دیتے ہیں،
”فلسفی فیورباخ چاہتا ہے کہ حسی اشیا کو تصوری اشیا سے الگ کر کے دکھائے لیکن بذاتِ خود وہ انسانی فعلیت کو ٹھوس فعلیت شمار نہیں کرتا۔“
یہ صرف فلسفی فیورباخ کی خواہش نہیں ہے، بلکہ یہ ولادمیر لینن کی ”تجربی انتقاد“ کا بنیادی مقدمہ اور ماحصل ہے کہ حسی اشیا تصوری اشیا سے الگ معروضی سچ کے طور پر موجود ہوتی ہیں۔ لینن یہ بھی نہ جان سکا کہ ”پہلے تھیسس“ میں انسانی جرمن عینیت کے منطقی طور پر دریافت کردہ موضوعیت کے ”فعال“ پہلو کو عینیت کی خوبی کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور خامی وہی ہے جو لینن کی ”مادیت اور تجربی انتقاد“ کا بنیادی ”تھیسس“ ہے۔
مارکس فطرت اور تاریخ کے درمیان اس ”دوئی“ کو ”اٹھارہ سو چوالیس کے مسودات“ میں سمجھ چکا تھا، یہی وہ مقام ہے جب مارکس کی فکر پر ہیگلیائی خیالات کے اثرات انتہائی گہرائی میں مرتسم ہو چکے تھے۔ مارکس لکھتا ہے،
History itself is a real part of natural history – of nature develpoing into man. Natural science will incorporate into itself the science of man, just as the science of man will incorporate into itself natural science: there will be one science. (Philosophical and Economic Manuscripts, P, 143)
مارکس کے اس اقتباس کا مفہوم یہ ہے کہ تاریخ بھی فطرتی سائنس کا حصہ ہوتی ہے، اس وقت جب فطرت انسان میں تشکیل پا رہی ہوتی ہے۔ فطرتی سائنس خود میں انسان کی سائنس کو شامل کر لیتی ہے جس طرح انسان کی سائنس خود میں فطرتی سائنس کو شامل کرتی ہے۔ پھر ایک ہی سائنس باقی رہتی ہے۔ اس سائنس کو مارکس ”تاریخ کی سائنس“ کہتا ہے۔ اور کوئی تاریخ ایسی نہیں جس میں انسانی فعلیت شامل نہ ہو۔ اس اقتباس کا”حقیقی“ معنی یہ ہے کہ جوں ہی انسان کی فطرت پر ”عملی فعلیت“ شروع ہوتی ہے اس وقت وہ فطرت انسان میں تشکیل پانے لگتی ہے، چونکہ انسان فطرت پر عمل آرا ہے اس طرح فطرت بھی کوئی ایسی خود مختار شے نہیں رہتی جو انسان سے الگ کسی ”معروضی سچ“ کی حامل ہو، بلکہ سچ وہ ہے جو تشکیل پا رہا ہے، نہ کہ انسان سے الگ تیار شدہ! فطرت پر انسانی فعلیت سے جو سائنس تشکیل پاتی ہے جسے ”تاریخ کی سائنس“ کہتے ہیں، اس میں فطرت اور انسان دونوں شامل ہوتے ہیں۔ یہ انسان سے الگ کسی ”معروضی سچ“ کو جاننے کا عمل نہیں ہے بلکہ فطرت کے انسانی سائنس میں انسان کی فعلیت کے ذریعے ڈھلنے کا عمل ہے۔ مارکسزم اپنی سرشت میں ”تاریخ کی سائنس“ ہے۔ اور فطرت انسانی فعلیت سے تاریخ کی سائنس میں بدلتی ہے۔ انسانی فعلیت جو کہ فطرت پر عمل ہے وہی انسان کی سائنس ہے۔ یہ ہیگلیائی جدلیات میں موضوعی فعلیت اور اس کے معروضائے جانے کا وہ بنیادی پہلو ہے جس کے گہرے اثرات مارکس پر مرتب ہوئے ۔ تاہم مارکس اپنے ”فیورباخ پر تھیسس“ میں اس سطح پر پہنچ چکا تھا جب براہ راست انسانی فعلیت اس کی توجہ کا مرکز بن گئی اور انسان کے عمل و فکر سے الگ موجود “معروضی سچ” کا تصور اس کی تنقید کا ہدف ٹھہرا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مارکس فطرت، سماج اور انسانی فکر کو ان کے نشو و نما کے عمل میں دیکھتا تھا۔ یعنی سچ تیار شدہ نہیں ہے جسے ذہن میں منعکس کرنا باقی رہ گیا ہے، بلکہ “سچ ایک پروسیس“ ہے۔ اور وہ ”بننے“ (Becoming) کا ”پروسیس“ ہے۔ سماج و فکری نشو و نما جس سطح پر پہنچ چکی ہو، اس کی تفہیم اس کے تاریخی عمل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے وہیں سے کی جاتی ہے۔ لینن نے ”مادیت اور تجربی انتقاد“ میں جو مقدمہ قائم کیا وہ اس لیے غیر تاریخی تھا کہ تاریخ اس سے آگے بڑھ چکی تھی، جسے لینن سے قبل مارکس نے شناخت کر لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس نے ”فیورباخ پر تھیسس“ لکھے اور ”ساری مادیت“ کی بنیادی خامی کو عیاں کیا۔ اس میں لینن کی ”مادیت“ کو بھی کوئی استثنا حاصل نہیں ہے۔
کمنت کیجے