ایک محترم دوست نے حنفی مذہب کے اصولوں کی بابت کچھ سوالات بھیجے، تو اس پر درج ذیل تبصرہ کیا:
1۔ مجتہد جب اجتہاد کرتا ہے تو یا وہ مصیب ہوتا ہے یا مخطی، یعنی جس نتیجے تک وہ پہنچتا ہے وہ یا درست ہوتا ہے یا غلط۔ ہم حق کے تعدّد کے قائل نہیں، بلکہ ظنی مسائل میں بھی، فروعی مسائل میں بھی، ہمارے نزدیک حق ایک ہی ہوتا ہے، درست رائے کوئی ایک ہی ہوتی ہے۔ جیسے طلاق کے مسئلے میں اگر صحابہ کے درمیان مختلف آرا ہوں، یا ربا الفضل کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مختلف رائے منقول ہو، یا کسی بھی فقہی مسئلے میں صحابہ کا اختلاف ہو، تو امام ابو حنیفہ کا مذہب یہ ہے کہ صحابۂ کرام کی آرا سے باہر نہیں جانا چاہیے اور ان میں سے کسی ایک رائے کو اختیار کرنا چاہیے۔ جیسے ان معاملات میں ہم کہتے ہیں کہ ہمارے اصولوں کی روشنی میں یہ رائے برحق اور وہ رائے غلط ہے، ایسے ہی مشاجرات کے متعلق بھی حنفی مذہب یہی ہے کہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ ان میں برحق تھے، وہ امام برحق تھے، ان کی خلافت منعقد بھی تھی اور بالکل درست بھی تھی؛ یعنی آپ کی خلافت شرعاً بالکل صحیح تھی، اور آپ واجب الاطاعت امام تھے۔ آپ امام برحق تھے اور اپنی تمام جنگوں میں، چاہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہوئی ہوں یا بعد میں، جس کے خلاف بھی آپ لڑے، تو آپ حق پر تھے، اور آپ کے خلاف لڑنے والے غلطی پر تھے۔
2۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی کرّم اللہ وجہہ خصوصی طور پر اس کام کے لیے منتخب کیا تھا، جو سب سے مشکل کام تھا۔ کفار، مشرکین، اہل کتاب اور مجوس کے ساتھ جنگ دنیاوی لحاظ سے مشکل جنگیں تھیں، لیکن عقیدے کے پہلو سے بھی اور عملی تکلیف کے اعتبار سے بھی سب سے مشکل معاملہ مسلمانوں کی آپس میں جنگوں کا معاملہ تھا، اور اس مشکل سے نبرد آزما ہونے کی ذمہ داری حضرت علی کرّم اللہ وجہہ پر ڈالی گئی۔ قرآن کریم اور سنت نبویہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام سے جنگوں کی مختلف جو نوعیتیں معلوم ہوتی ہیں، ان میں آخری نوعیت یہی تھی، مسلمانوں کے آپس میں خانہ جنگی، اس میں مسلمانوں کےلیے مطلوب عملی رویہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کے ذریعے دکھایا۔ یہ موقع ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں نہیں آ سکتا تھا، نہ آنا چاہیے تھا۔ صحابۂ کرام میں سے ہی کسی کو یہ بوجھ اٹھانا تھا، اور اللہ تعالیٰ نے یہ بوجھ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ پر ڈالا۔ مرتدین کے ساتھ کیسے لڑنا ہے، یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دکھایا؛ اہل کتاب اور شبہ اہل کتاب یعنی مجوس کے ساتھ کیسے لڑنا ہے، وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دکھایا؛ اسی کا تسلسل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں رہا؛ لیکن مسلمانوں کی آپس میں خانہ جنگی میں کیا ہوگا، یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے طرزِ عمل، ان کے اقوال اور افعال سے معلوم ہوا۔ عملی سنت اس معاملے میں ہمیں انھی سے ملی۔
3۔ اسی وجہ سے امام ابو حنیفہ کا موقف ہے، اور امام محمد نے کئی جگہ اس کی صراحت کی ہے جس کی مزید تفصیلات امام سرخسی نے دی ہیں، کہ اس معاملے میں حضرت علی کرّم اللہ وجہہ ہی امام ہیں، انھی کی اتباع کی جائے گی اور وہی حق پر تھے؛ جنھوں نے بھی ان کے خلاف جنگ لڑی، چاہے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے ہوں یا خوارج وغیرہ میں، ان سے غلطی ہوئی۔ تاہم اس معاملے میں صحابہ کرام کا ذکر پورے احترام کے ساتھ کیا جائے گا، ان کے ادب، مرتبے اور مقام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا جائے گا، اور اسلوب بھی مناسب ہوگا؛ لیکن جب دو آرا موجود ہوں، تو ان میں سے ایک ہی درست ہو سکتی ہے، اور یہ طے شدہ ہے کہ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ برحق تھے۔ جو ان کے خلاف لڑے، چاہے کسی بھی وجہ سے لڑے ہوں، ان سے غلطی ہوئی؛ لیکن جب صحابۂ کرام کا ذکر کریں گے، تو اسے اجتہادی خطا کہیں گے۔ اجتہادی خطا میں، ظاہر ہے، ہمارا یہ ماننا ہے کہ جب ایک مجتہد اپنی پوری کوشش کر کے کسی نتیجے تک پہنچتا ہے، تو چاہے وہ نتیجہ عند اللہ حق ہو یا نہ ہو، وہ گنہگار نہیں ہوتا، بلکہ اسے اجر ملتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے حکم تک پہنچنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کی۔ لہٰذا وہ گنہگار نہیں ہے، بلکہ اجر کا مستحق ہے، کیونکہ اس نے دیگر تمام چیزوں کو بالائے طاق رکھ کر اللہ کا حکم سمجھنے کی کوشش کی، چاہے ہمارے نزدیک وہ غلط ہو۔
4۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ دوسرے صحابہ کرام میں سے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ تھے، وہ حق پر تھے، لیکن جو ان کے خلاف تھے، چاہے ہم کچھ بھی سمجھیں، اللہ کے نزدیک وہ اجر کے مستحق ہیں، کیونکہ انھوں نے بھی اللہ کے حکم تک پہنچنے کے لیے اپنی پوری کوشش کی اور کسی اور چیز کو اس پر مقدّم نہیں کیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور دیگر جلیل القدر صحابہ کرام کے ساتھ بھی انھیں ٹکر لینی پڑی، اور انہوں نے ایسا کیا، کیونکہ ان کے نزدیک یہی حق تھا۔اسی لیے، ان میں اور دیگر افراد میں، جو حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کے خلاف لڑے، درجے، مرتبے، مقام اور عمل کے لحاظ سے ضرور فرق کریں گے۔ بنیادی طور پر، ہم اس بات پر متفق ہیں کہ چاہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف یہ گروہ لڑا ہو یا وہ گروہ، ان سے غلطی ہوئی۔ لیکن جب صحابہ کرام کا ذکر کریں گے تو اسے اجتہادی خطا کہیں گے اور نہ انہیں گنہگار ٹھہرائیں گے، بلکہ انہیں اجتہاد کے اجر کا مستحق سمجھیں گے۔ ان کے بارے میں صحیح بات کریں گے، کوئی ہلکی بات نہیں کہیں گے، اور ان کے ادب، احترام اور مقام کا مکمل لحاظ رکھتے ہوئے بات کریں گے۔ کسی کے بارے میں بری بات نہیں کہیں گے اور ہر معاملے میں وہ توجیہ اختیار کریں گے جو زیادہ بہتر ہو۔ ہم یہ سب کچھ مانتے ہوئے یہ کہیں گے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بہرحال برحق تھے۔
5۔ حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کے خلاف لڑنے والوں کے پاس تاویل تھی۔ اسی تاویل کی بنا پر صحابہ کرام نے خود یہ طے کیا تھا کہ جو خون بہایا گیا یا جو مال لیا گیا، اگر وہ تاویل کی بنا پر تھا، تو اس پر نہ قصاص کا حکم لاگو ہوگا اور نہ ہی دیگر اسی نوعیت کے احکام لاگو ہوں گے۔اس کے باوجود، جو افراد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف لڑے اور وہ صحابہ نہیں تھے، ان کو ہم صحابہ کرام کے مرتبے پر نہیں سمجھتے، لیکن چونکہ انھوں نے صحابہ کرام کا ساتھ دیا، تو ان کی پوزیشن نسبتاً بہتر ہوگی۔ تاہم، جن کے پاس کسی صحابی کا قول یا فعل نہیں تھا، یا انہیں کسی صحابی کی معیّت میسر نہیں تھی، اور انھوں نے اپنی ذاتی تاویل پر عمل کرتے ہوئے خود کو برحق سمجھا اور حضرت علی کرّم اللہ وجہہ کے خلاف تلوار اٹھائی، تو ان کا مرتبہ مختلف ہوگا۔ اس لحاظ سے، ہم مدارج اور مراتب میں فرق کریں گے۔
6۔ اہل سنت کے ہاں، اور بالخصوص حنفیہ کے ہاں، جب ان صحابہ کرام کا ذکر آتا ہے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف لڑے، اور ان کی طرف ’بغی‘ کا لفظ منسوب کیا جاتا ہے، تو اس کا مطلب اجتہادی خطا ہوتا ہے، کیونکہ ان کی نیت درست تھی۔ ہم ان کی بہتر تاویل کریں گے، انہیں گنہگار نہیں سمجھیں گے، بلکہ انہیں اجتہاد کے اجر کا مستحق مانیں گے، اور ان کے حق میں دعا بھی کریں گے، جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے:
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (سورہ الحشر: 10)
اسی طرح، عقیدۃ طحاویہ میں بھی تصریح ہے کہ ہم کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ کے متعلق ہلکی بات نہیں کہیں گے، اور نہ ہی کسی کی محبت میں اتنا غلو کریں گے کہ باقی صحابہ کے خلاف برا بھلا کہنا شروع کر دیں۔
نتیجہ:
اہل سنت نے صحابہ کرام کے احترام، تقدس اور مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ امام برحق حضرت علی کرّم اللہ وجہہ تھے، اور ان کے خلاف نکلنا درست نہیں تھا؛ لیکن جو ان کے خلاف نکلے، ان میں کچھ صحابہ کرام تھے، جن کے بارے میں ہم بہتر تاویل کریں گے، انھیں اجتہاد کی وجہ سے اجر کا مستحق سمجھیں گے، اور ان کے بارے میں کوئی بری بات نہیں کریں گے۔ باقی افراد کا جو مقام ہے، وہ درجہ بدرجہ الگ الگ متعین ہوگا۔ اس لیے سب کو ایک ہی پیمانے سے جانچنا یا سب پر ایک ہی عمومی حکم لگانا درست نہیں ہوگا۔
ھذا ما عندي، والعلم عند اللہ
مشاجراتِ صحابہ کے متعلق چند اصولی باتیں

کمنت کیجے