Home » جزاء و سزاء کی آیات میں لفظ “ علم” کی خدا کی طرف نسبت
تفسیر وحدیث زبان وادب کلام

جزاء و سزاء کی آیات میں لفظ “ علم” کی خدا کی طرف نسبت

مبین قریشی

کلام کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ متکلم کا علم اگر بہت وسیع ہو تو اپنی بات کے بہتر ابلاغ کے لئے وہ تنزل کرتے اپنے مخاطب کی علمی سطح کی رعایت سے کلام کرے۔ اس طرح اگر خدا کے علم کو انسان کی رعایت سے دیکھا جائے تو یہ غیب و مشہود کی دو بڑی کٹیگریز میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ انسان زمان و مکان کی جہتوں کا پابند ہے۔ ٹائم کے لحاظ سے انسان واقعات کو ماضی حال اور مستقبل کی تین جہتوں میں تقسیم کرتے دیکھتا ہے۔ حال اس کے لئے مشہود ( ظاہر ) ہوتا ہے اور ماضی و مستقبل غیب ۔ لیکن خدا کی صفت یہ ہے کہ وہ ماضی حال و مستقبل کی جہتوں میں قید نہیں ہے۔ یعنی غیب و مشہود سب کچھ اس کے لیے مشہود ہی ہے۔ اس لئے آپ قرآن مقدس میں دیکھیں گے کہ جب وہ انسانوں کی رعایت سے کلام کرتا ہے تو ماضی و مضارع ( حال و مستقبل) کے صیغوں سے بات کرتا ہے۔ لیکن جب وہ اپنے علم کی وسعتوں سے کوئی خبر دیتا ہے تو پھر مستقبل کو بھی ماضی کے صیغوں سے بدل دیتا ہے۔ اس کی آسان سی مثال دیکھنی ہو قیامت کی ہلچل بیان کرتے مثلاً سورہ التکویر کی پہلی آیت “اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ” ہی دیکھ لیں۔ اس لئے خدا کے لئے جب علم کا لفظ استعمال ہوگا تو وہ غیب و مشہود کی قید کے بغیر ہوگا، لیکن جب خدا اپنے لئے لفظ علم کو انسان سے کلام کرتے انسان کو جتلانے کے کسی معاملے سے بیان کرے گا تو پھر وہ علم مخاطب کے علم کے پہلوؤں سے مختلف کٹیگریز میں ڈھلتا چلا جائے گا۔ یعنی اس وقت دیکھا جائے گا کہ یہ کون سے علم کی بات ہورہی ہے، کیا اس علم کی بات ہورہی ہے جو انسان کے لحاظ سے قبل وقوع کی کٹیگری کا ہوتا ہے یا بعد وقوع کی کٹیگری گا۔
ایک اور پہلو کے لحاظ سے دیکھیں تو انسان میں علم صرف زمانے کی جہتوں میں ہی منقسم نہیں ہوتا بلکہ یہ ادراک کے درجات میں بھی منقسم ہوتا ہے۔ علم کا درجہ ہمیشہ معرفت و شعور سے ذیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے انسان کے لئے عالم ، عارف ( معرفت سے ) اور شاعر ( شعور سے ) کے الفاظ تو استعمال ہوتے ہیں لیکن خدا کے لئے صرف عالم یا علیم کا لفظ ہی آتا ہے ( عارف و شاعر کا لفظ نہیں آتا)۔ معرفت کسی چیز کے آثار و قرائن پر غور و فکر کرکے اس کا ادراک حاصل کرنے کو کہتے ہیں اور شعور حواس ( Perceptual        knowledge ) سے تصورات ( Conceptions ) سے پیدا ہونے کو کہتے ہیں۔ علم کی یہ دونوں جہتیں وہ ہیں جو خدا کی صفت نہیں ہیں۔ انسان کے پہلو سے بولتے جب لفظ “ علم “ بولا جائے گا تو اس میں ان ساری کٹیگریز میں سے کسی بھی کٹیگری کے لئے یہ لفظ بولا جاسکتا ہے لیکن خدا کے لئے یہ لفظ جب آئے گا تو ( قرآن مقدس میں جابجا دیگر آیات کی روشنی میں ) یہ کٹیگریز لفظ علم میں سے خود بخود ہی خارج ہوتی جائیں گی۔
علم کی تعریف کے پہلو سے دیکھا جائے تو یہ “ إدراک الشیء بحقیقته” یعنی کسی چیز کی حقیقت کے ادراک کو کہتے ہیں۔ یہ ادراک انسان کے لئے مزکورہ بالا پہلوؤں ( زمان یا درجات ) سے ہوتا ہے اور ہر ہر پہلو کے لئے لفظ “ علم “ بولا جاسکتا ہے۔ لیکن خدا کے لئے جب بھی یہ لفظ آئے گا تو دیکھنا ہوگا کہ اس کے زاتی علم کے پہلو سے یہ لفظ آیا ہے یا انسانوں سے متعلق کسی پہلو سے ۔ مثلاً انسان کے متعلق اللہ اپنے زاتی علم کو خود جابجا بیان کرتے ہیں کہ وہ اس کے دل میں پیدا ہونے والے وسوسوں کا بھی علم رکھتے ہیں ، جب انسان ماں کے رحم میں نطفے سے گوشت پوست میں بدل رہا ہوتا ہے اس وقت بھی جانتے ہیں کہ وہ آئندہ کیا کچھ کرے گا ، بلکہ خوارک سے نطفے کی اپنی پیدائش سے بھی بہت پہلے کسی کو آئندہ کی خبر دے کر بھی بتایا جارہا ہوتا ہے کہ آئندہ ایک وقت تجھے ایک اولاد دی جائے گی جو اس زمین پر فلاں کردار نبھائے گی۔ اسی طرح پیغمبروں کو رویاء کے زریعے مستقبل کے حالات مجسم کرکے دکھائے جارہے ہوتے ہیں ۔ یہ وہ علم ہے جو خدا کا زاتی علم ہے اور انسانوں کے پہلو سے علم قبل وقوع ( غیب و شہود کی کیٹیگری سے پاک) ہے۔ اس کے برعکس ایک علم وہ بھی ہے ( جو انسان کے پہلو سے ) علم بعد وقوع ہے۔ مثلاً خدا نے خود یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ انسانوں کی جزاء و سزاء کو بعد وقوع شہادت کو بنیاد بناکر کرے گا۔ عدالت کی طرز پر اس کے لئے باقاعدہ حساب و کتاب برپا کیا جائے گا اور شہادتیں اور شہید ( گواہ ) تک پیش کئے جائیں گے۔ اس عدالت سے حاصل ہونے والے علم کا ایک نتیجہ نکلے گا اور انسان اس نتیجے سے متاثر ہوگا۔ دراصل یہ سارا عدالتی پراسس اور شہادتیں خود متاثرہ انسان کو دکھانے کے لئے ہونی ہیں۔ یہاں بھی ایک واقعہ ( بعد وقوع ) کی رویت کے لئے لفظ علم ہی استعمال ہونا ہے جو ( ماضی حال و مستقبل کی جہتوں سے پاک زات) خدا کا علم ہے لیکن انسان سے متعلق ہوتے اور خود خدا کا بندوں کی عدالت لگا کر نتائج ہاتھ میں پکڑاتے انسانوں کو اس واقعہ سے گزارنے کی شرط سے جڑا ہوا اور وہ شرط فی الوقت تک پوری بھی نہیں ہوئی اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ جس مشروط واقعہ کے نتیجے کے لئے لفظ علم استعمال ہورہا ہے وہ واقعہ انسانوں کے لحاظ سے ابھی نہیں ہوا۔ اس مقام پر اس علم میں انسانوں کی شراکت کی وجہ سے خدا کے لئے لفظ “علم “ کی تفسیر ( قرآت ) کرتے ابن عباس رض لِیُرِیَنَّ ( اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے ) کے لفظ سے اس لفظ کی وضاحت فرماتے تھے۔ اس عدالت سے حاصل ہونے والے علم کا مفاد چونکہ انسان کے پہلو سے جڑا ہے اس لئے جزاء و سزاء سے متعلق آیات میں لفظ علم کی نسبت اگر خدا کی طرف ہو تو اکثر مفسرین اس کا ترجمہ صحیح طور پر “ جاننے” کی بجائے “ جتلانے “ یا واقعاتی ثبوت کے پہلو سے “ ظاہر کرنے” سے کرتے ہیں ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں