جن کا قلم براے فروخت ہو، ان کو سنجیدہ نہیں لینا چاہیے، بالخصوص جبکہ وہ بے بنیاد دعوے کرتے ہوں، اور وہ بھی دھڑلّے سے۔
مثلاً یہ کہنا کہ قرآن کے نسخوں یا مخطوطات میں ایسے یا ویسے اختلافات ہیں، اس بات کی دلیل ہے کہ بندے نے ادھر ادھر سے کچھ چیزیں اچک لی ہیں اور اس موضوع پر کوئی سنجیدہ مطالعہ نہیں کیا، یا کیا ہے تو سمجھ میں ہی نہیں آیا۔ کچھ نہیں، تو صرف محمد مصطفیٰ اعظمی کی دو کتابیں ہی بندہ پڑھ لے، تو کبھی ایسا بے بنیاد دعوی نہ کرے:
The History of the Qur’anic Text from Revelation to Compilation: A Comparative Study with the Old and New Testaments
اس کتاب میں اعظمی صاحب نے نہ صرف قرآن کی تدوین پر بہترین تحقیق پیش کی ہے، بلکہ اس تدوین کا موازنہ بائبل کے عہدنامۂ قدیم (تورات، زبور اور دیگر صحفِ انبیاء) اور عہدنامۂ جدید (انجیل اور دیگر صحف) کی تدوین کے ساتھ کیا ہے۔
Ageless Qur’an, Timeless Text: A Visual Study of Surah 17 Across 14 Centuries and 19 Manuscripts
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس کتاب میں اعظمی صاحب نے قرآن مجید کی سترھویں سورت (بنی اسرائیل/اسراء) کے متعلق 14 صدیوں پر محیط 19 مخطوطات کا تصویری موازنہ کرکے پیش کیا ہے۔
نام نہاد ادیب اگر واقعی ادیب ہے، اور ساتھ ہی اسے واقعی تحقیق کا شوق بھی ہے، تو یہ دو کتابیں اس کے چودہ طبق روشن کرنے کےلیے کافی ہیں۔
قرآن مجید کے متعلق نام نہاد ادیب کا دعوی تو بس ایویں ہی ہے، اس لیے اس پر میں مزید بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، لیکن اس سے زیادہ مضحکہ خیز دعوی تورات کے متعلق ہے۔ ”ہزاروں سال“ پرانے نسخوں کی بات کرتے ہوئے انھیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ موسیٰ علیہ السلام آج سے بس ساڑھے تین ہزار سال پہلے ہی گزرے ہیں اور جسے آج تورات کہا جاتا ہے، اس کے کسی نسخے کو ہزاروں سال پرانا کسی صورت نہیں کہا جاسکتا۔
بات صرف مبالغے کی نہیں ہے کہ یہ کہہ کر جان چھڑائی جائے کہ شاعر و ادیب ویسے بھی مبالغے کے عادی ہوتے ہیں۔ بات اس کی ہے کہ ان نام نہاد ادیب نے تورات کے متعلق بھی کچھ پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تورات کی تدوین کے موضوع پر میرے ایک پرانے مقالے سے کچھ اقتباسات پیش کیے جائیں۔
تورات کے نسخوں پر بات سے پہلے یہ متعین کرنا ضروری ہے کہ ”تورات“ سے ان نام نہاد ادیب کی مراد کیا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تورات یا اسفارِ خمسہ؟
ہم مسلمانوں کا عقیدہ تو یہ ہے کہ تورات وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے جلیل القدر پیغمبر سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمائی۔ آج کل عام طور پر یہ فرض کیا جاتا ہے کہ تورات کا نزول یکبارگی ہوا تھا، جبکہ سلف میں ایک قول مسلسل یہ رہا ہے اور ماضیِ قریب اور عصرِ حاضر میں بھی کئی محققین علماء کا موقف یہ ہے کہ قرآن مجید کی طرح تورات کا نزول بھی بتدریج کئی برسوں میں ہوا۔ راقم نے اس موضوع پر برسوں پہلے ایک مقالہ لکھا ہے جو موقر مجلہ ”تحقیقاتِ اسلامی“، علی گڑھ، انڈیا، میں شائع ہوا تھا۔ اس کا لنک کمنٹ میں دیا جارہا ہے۔ ایک اور مقالہ جس میں برصغیر کے بعض نامور اہلِ علم کی آرا کا تجزیہ کیا گیا ہے، پشاور کے ایک تحقیقی مجلے میں شائع ہوا تھا، اس کا لنک بھی کمنٹ میں دیا جارہا ہے۔
یہ تو رہی مسلمانوں کے عقیدے کی بات، لیکن جسے یہود اور نصاریٰ تورات کے طور پر پیش کرتے ہیں اور جو ان کی بائبل کا حصہ ہے، وہ اس تورات سے مختلف ہے۔
یہود ونصاریٰ اپنی بائبل کے پہلے پانچ صحیفوں – پیدائش، خروج، احبار، گنتی اور استثنا – کو تورات کہتے ہیں اور روایتی طور پر مانا جاتا ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام ان پانچ صحیفوں، اسفارِ خمسہ (Pentateuch) ، کے ”مصنف“ ہیں۔ تاہم اس روایتی تصور پر خود یہود ونصاریٰ میں صدیوں سے سوال اٹھایا جاتا رہا ہے کیونکہ ان صحیفوں میں کئی باتیں ایسی ہیں جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے دور سے صدیوں بعد کی ہیں۔ اس تفصیل میں جائے بغیر صرف اس ایک حقیقت پر نظر رکھیے کہ پانچویں صحیفے ”استثنا“ میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی وفات بلکہ تدفین کا بھی ذکر ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ ”آج تک اس کی قبر کسی کو معلوم نہیں“۔ اب ظاہر ہے کہ اپنی وفات، تدفین اور اس کے بعد کے حالات سیدنا موسیٰ علیہ السلام تو لکھ نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ یہود و نصاریٰ کے علماء عام طور پر یہ بات مانتے ہیں کہ یہ آخری باب سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی تصنیف نہیں ہے۔ ان کے کئی علماء نے عام طور پر یہ راے اختیار کی ہے کہ اس باب کے مصنف سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے شاگرد اور جانشین سیدنا یوشع علیہ السلام ہیں۔ واضح رہے کہ ان پانچ صحیفوں کے بعد چھٹا صحیفہ سیدنا یوشع علیہ السلام کی طرف منسوب ہے۔ چنانچہ یہود و نصاریٰ کے ان علماء کے نزدیک یہ باب دراصل صحیفۂ یوشع کا حصہ ہے!
یہ تو رہا یہود و نصاریٰ کا روایتی موقف۔
اٹھارویں صدی عیسوی میں بائبل پر آزادانہ تحقیق کا سلسلہ چل پڑا، تو اسفارِ خمسہ کے متعلق کئی نئے نظریات سامنے آئے۔ اگلی ڈھائی صدیوں میں مغرب میں ”نقدِ بائبل“ (Biblical Criticism) کی جو روایت تشکیل پائی، اس کے بعد مغرب کے علمی حلقوں میں یہ نظریہ قطعی طور پر مسترد کردیا گیا ہے کہ اسفارِ خمسہ کے مصنف سیدنا موسیٰ علیہ السلام یا سیدنا یوشع علیہ السلام ہیں؛ بلکہ عام طور پر اب یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ یہ صحائف سیدنا موسی علیہ السلام سے تقریباً ایک ہزار سال بعد لکھے گئے ہیں!
نقدِ بائبل کی اس مغربی روایت پر کچھ گفتگو ضروری ہے۔
کمنت کیجے