Home » قرآن فہمی کی ناکام سعی
اسلامی فکری روایت تفسیر وحدیث

قرآن فہمی کی ناکام سعی

زبیر حفیظ

مفسرین کی پوری فوج کا ولقد یسرنا القرآن سے شدید اختلاف رہا ہے ، ان کا ماننا تھا کہ یہ اتنا آسان بھی نہیں کہ ہر بندہ اسے سمجھ سکے۔
پھر انھوں نے جو سمجھانا شروع کیا سیوطی سے لے کر مودودی تک سب تفسیروں کی جلدوں پر جلدیں لکھی گے مگر آج بھی امہ اس بات پر ماتم کناں ہے کہ ہم قرآن کے صحیح پیغام کو سمجھ نہ پائے ۔

سمجھتے بھی کیسے ، محدثین نے وحی خفی اور غیر متلو تیار کر کے اسے اس کا پابند بنا دیا ، ابن کثیر نے جو تفسیر لکھنی شروع کی تو اسرائیلی روایات اور احادیث کا صحیفہ بنا دیا ، رازی نے جب قلم تفسیر لکھنے واسطے سیدھا کیا تو وحی کو معقولات و منطق کی کتاب بنا دیا ، تفسیر رازی مذھب سے ذیادہ فلسفے کی کتاب لگتی ہے ۔

غزالی جب تعبیر قرآن پیش کرنے لگے ، چونکہ سابق فلسفی تھے بعد میں صوفی بن گے تھے ، ان کی تعبیر اسلام میں کنفیوژڈ فلسفی اور حال بے حال صوفی ہی نظر آتا ہے۔

شاہ ولی اللہ کو دیکھیے ، ہر صدی میں ایک عدد ایسا بشر مسلمانوں میں آتا ہے جسے لگتا ہے وہی امت کی کایا پلٹ سکتا ہے ، شاہ صاحب کو بھی ایسا لگا ،مگر بدقسمتی سے وہ امت کی کایا تو نہ پلٹ پائے مگر ان کے صدقے ابدالی نے بسی بسائی دہلی کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ، شاہ صاحب کی تفسیر اسلام سنیے ، اسلام کو سیاسی نظام کی گھٹی پہلی مرتبہ شاہ صاحب نے ہی ڈالی تھی ۔۔۔مگر اس نخل کہن کو پانی صحیح معنوں میں مودودی صاحب نے لگایا ۔

ادھر سرسید کی سنیے ،وہ تو سب کو کراس مار گے ، رازی کی معقولات بھی ان پر انگشت بدنداں ہیں ،معتزلہ کی عقلیات میں پریشان ہیں ، سید احمد خان جب سے سر بنے تھے ، قرآن کی منطقی تفسیر کرنے لگے ، وحی اور منطق کا کیا جوڑ ، انھیں لگا کہ قرآن بھی علی گڑھ کے نصاب میں پڑھائی جانے والی کوئی نصابی کتاب ہے ، یہ سمجھ کر تفسیر کرنی شروع کی تو وہ وہ بلنڈر مارے کہ جن کے اثرات بعد میں اسلم جیراج پوری ،عبد آللہ چکڑالوی اور سب سے زیادہ پرویز نے بھگتے ۔
میں نے جب سمندر کا موسی ع کے لیے راستے بنانے والی آیت کی تفسیر سرسید کی لکھی پڑھی تو میری بس ہو گی ، سرسید یہ ماننے کو تیار نہیں کہ مذہب کے جثے میں دماغ نہیں صرف دل ہوتا ہے ، وہاں عقل نہیں صرف جذبات چلتے ہیں،سرسید نے جو عقل سے بھرا دماغ سرجن بن کر مذھب پر فٹ کیا ، اور طرح بے طرح کی تفسیر کرنے بیٹھے تو اس وقت کے بعد سے صرف علی گڑھ والے سر سید کا مداح ہوں ،مفسر سید سے بیعت توڑدی ۔

پرویز کو دیکھیے وہ بھی سرسید والی لائن پر چلے ،مگر ذرا الگ چال سے ، انھیں گمان ہوا کہ خدائے لم یزل قرآن کے ذریعے عربوں کی گرائمر بہتر کرنا چاہتا ہے ، اسے وہمے کے تحت لغات القرآن اور مفہوم القرآن لکھ بیٹھے ، اور لغت کا وہ حشر کیا ، خود ساختہ مفہوم کا ستیا ناس مار کے قرآن پر وہ وہ معانی چڑھائے کہ جو شاید چودہ سو سال میں کسی کو بھی نہ سوجھے تھے ، پرویز کی تفسیر تفسیر کم اور گرائمر کی کتاب زیادہ ہے ۔

دوسری طرف سے غلام جیلانی برق بھی چپ نہیں رہتے ، انھیں محسوس ہوا کہ قرآن میں صرف گرائمر ہی نہیں سائنس بھی چھپی ہوئی ہے ، وہ سائنس جسے غزالی جیسے فلسفی ،رازی جیسے متکلم ، سیوطی جیسے مفسر نہ دیکھ پائے اس کا ٹینڈر غلام جیلانی برق نے لیا ،اور وحی سے سائنسی انکشافات برآمد کر کے “دو قرآن” لکھنے بیٹھ گے ، چونکہ برق صاحب الحاد کا حقہ بھی گڑگڑا چکے تھے ، بیسویں صدی کے “سابقہ ” ملحدین کو یہ مرض رہا کہ جب وہ مذہب کی طرف لوٹے تو سادے مسلمان بن کر نہیں بلکہ نیوٹن علی تھانوںی اور گلیلیو شاہ بریلوی بن کر لوٹے ، برق صاحب بھی اسی مرض کا شکار تھے ، دو قرآن پڑھیں تو گمان ہوتا ہے مکہ ریگستان نہیں بلکہ سرن لیبارٹریز تھا ، اور اسلام کا مقصد لوگوں پر فلکیات ، حیاتیات اور نباتات کے سائنسی انکشافات افشا کرنا تھا ، آج کل سائنسی اسلام کا ٹینڈر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے پاس ہے۔

عبد الماجد دریابادی چونکہ سابقہ ملحد تھے مگر وہ تھانہ بھون کی خانقاہ کی وجہ سے سائنسی مسلمان ہونے سے بچ گے ، میں نے اُردو آب بیتی کی صنف میں عبد الماجد دریابادی سے زیادہ اپنے بارے میں اتنا خوفناک سچ لکھتے کسی کو نہیں پڑھا ، عبد الماجد دریابادی نے آپ بیتی اس دور میں لکھی جب تحریک ختم نبوت زوروں پر تھی اور اس وقت اعتراف کیا انھیں الحاد سے واپس اسلام میں جس تفسیر نے لایا تھا وہ ایک قادیانی مولانا محمد علی لاہوری کی لکھی انگریزی تفسیر تھی ( آب بیتی ص 254)

جہاں سائنسی اسلام کے پرچارک تھے وہاں سیاسی اسلام والے کہاں پیچھے رہتے ، اس کشتی کو چلانے واسطے چبو اٹھائے مودودی صاحب نے ، اور جب چلانا شروع کیئے تو سب کو پیچھے چھوڑ دیا ، مودودی صاحب نے قرآن کو سیاسی آئین کی کتاب بنا دیا ، اور اس میں سے سیاسی ،معاشی نظام سمیت وہ وہ نظام نکال لائے جو عربوں کو بھی معلوم نہ تھے ، صرف تفہیم القرآن کا مقدمہ ہی پڑھیں جس میں وہ زور و شور سے بتاتے ہیں کہ قرآن صرف حجروں میں پڑھی جانے والی کتاب نہیں بلکہ یہ عمل کی کتاب ہے جس سے دنیا میں غالب آکر اسلامی نظام قائم کیا جا سکتا ہے۔

مگر مودودی صاحب سمیت کسی مفسر نے یہ نہیں بتایا کہ عرب خطے کے مخصوص تاریخی حالات کی وجہ سے دنیا میں غالب آئے تھے ،ایسے حالات دنیا کے جس خطے میں پیدا ہو جائیں وہ قرون اولیٰ کے عرب مسلمانوں کی طرح غالب آسکتے ہیں۔
جب ایسے حالات ناروے کے وحشی وائکنگز میں پیدا ہوئے تو انھوں نے یورپ کو تلپٹ کر کر رکھ دیا ،بغیر کسی وحی کے ، یہ تاریخی عمل جب منگولیا کے قبائل میں شروع ہوا تو بغیر کسی نبی کے یا آسمانی کتاب کے یورپ تک فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیے ۔

بات تفسیر کی ہو رہی تھی ، مودودی صاحب کی سیاسی تفسیر خاصی دلچسپ ہے مگر ان مذکورہ تفسیری مہم جوؤں میں سے سب سے زیادہ دلچسپ حمید الدین فراہی ہیں ، ان پر بھی نزول کے تیرہ سو سال بعد یہ آشکار ہوا کہ قرآن کی آیات میں نظم کا پورا نظام موجود ہے ، یکدم جو آیات میں موضوع تبدیل ہو جاتے ہیں ، یہ بے تربیتی نہیں بلکہ منظم خدائی سکیم ہے ، پھر کیا تھا ، فراہی صاحب نے نظام القرآن لکھی ، اور ایک آیت کا نظم دوسری آیت سے یوں جوڑا کہ گمان ہوتا ہے فراہی تفسیر نہیں کر رہے بلکہ ریاضی کا کوئی دقیق تھیورم حل کر رہے ہیں ۔

اور ہاں جب وہ ولقد یسرنا القرآن کی تفسیر لکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اپنی تمام ریاضی ساختہ تفسیر کا خود ہی رد کر رہے ہیں ۔

المختصر یہ کہ قرآن اور کلیات اقبال دو ایسے صحیفے ہیں جن سے شارحین میموری چپ سے لے کر ایٹم بم تک سب کچھ نکال سکتے ہیں ۔

 

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں