Home » جہاد گروپ آف انڈسٹریز لمیٹیڈ
تہذیبی مطالعات سیاست واقتصاد

جہاد گروپ آف انڈسٹریز لمیٹیڈ

زبیر حفیظ

لشکری دنوں کی بات ہے۔ کشمیر میں جب کوئی لڑکا شہید ہو جاتا تو اس کے گھر والوں کو شہادت کی اطلاع دینے کا طریقہ بڑا دلچسپ ہوتا ۔ جماعت کی طرف سے تین چار بھائی ۔جن کے جماعتی نام یوں ہوتے ۔ابو دجانہ بھائی ۔ابو تراب بھائی ،ابو طلحہ یا ابو القاسم بھائی وغیرہ ۔سب کے ناموں میں ابو کنیت کے طور پر مشترک ہوتی۔
یہ گینگ شہید کے گھر اطلاع دینے جاتا کہ آپ کا بچہ فلاں فدائی حملہ میں رگڑا گیا ہے ۔یہ آپ کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ نیز آپ کے بچے کی غائبانہ نماز جنازہ حافظ صاحب یا عبد الرحمٰن مکی یا سیف اللہ خالد یا کوئی اور امیر المجاہدین صاحب پڑھائیں گے۔
نہ تو شہید کی ماں اپنے جگر پارے کے لاشے پر بین کر پاتی نہ بوڑھا باپ اپنے لخت جگر کے جنازے کو کندھا دے پاتا نہ بہنیں اپنے بھائی کی لاش پر ماتم کر پاتیں کیونکہ ان کے عزیز کی لاش نہ جانے کس کے دھندے کا رزق بن کر سرینگر کے چوک میں لٹک چکی ہوتی۔

مگر جماعت کے ہفت روزہ میں باقاعدگی سے شہید کی کرامات اور اس کے گھر والوں کے حوصلے کی مبالغہ آمیز داستانیں اور بڑے غائبانہ نماز جنازہ کا ذکر چھپتا ۔
مگر یہ نہیں چھپتا کہ شہادت کی ڈیل میں اس دھندے کے سی ای او نے کتنے نوٹ چھاپ لیئے ۔
آپ کے بیٹے یا بھائی کی موت کی تشہیر سے کتنا چندہ ان کھاتے میں گیا ہے۔آپ کا بیٹا یا بھائی تو اس انڈسٹری کی ایک انویسٹمنٹ تھے جسے امیر احمزہ جیسے لکھاری شہید کی لاش سے کئی سال بعد بھی تازہ خون بہنے اور ان کی قبروں سے خوشبو برآمد ہونے والے چتیاپے کے پیچھے چھپائیں گے ۔
یہ جہاد درحقیقت بہت بڑی انڈسٹری ہے۔ جہاں اربوں کا دھندہ ہوتا ہے۔ یہاں کروڑوں کی فنڈنگ ہڑپ ہو جاتی ہے۔کہیں سعودیہ سے ریالوں کا من و سلویٰ اترتا ہے ہیں ،کہیں لمبر ون کی تجلیات انہیں مستفید کرتی ہیں۔
ان کا یہ کاروبار انتہائی منظم ہوتا ہے۔بڑی پارٹیوں سے فنڈ نکالنے میں یہ بڑے ماہر ہوتے ہیں۔

یہاں تک کہ اسامہ بن لادن کے استاد عبداللہ عزام سے بھی کروڑ روپے نکلوا لیئے تھے انھوں نے مریدکے مرکز کی تعمیر کے لیئے ۔ جماعت کے عسکری ونگ کے سربراہ زکی الرحمان لکھوی کے عرب کنکشن کافی مضبوط ہیں۔ان کی بہن ایک عربی شیخ ابو عبداللہ صحرائی سے بیاہی ہیں ۔ صرف ابو عبداللہ نے دس ملین روپے دیئے تھے مریدکے کا مرکز تعمیر کرنے کے لیئے ۔

چندے کے لیئے ان کے پاس ایک سے ایک بڑا فنکار ہوتا ہے۔برصغیر میں سرسید کے بعد چندے جمع کرنے کا ہنر ان کو ہی عطا ہوا ہے۔
“,کشمیر کی بیٹی اپنی لہو میں تر چادر اوڑھے تمھاری راہ تک رہی ہے۔ سرینگر کے زنداں میں قید مجاہدین تمہاری مدد کے منتظر ہیں۔ ہندو بنیئے کی سنگینوں تلے زندگی گزارنے والے کشمیری بھائیوں کو تم کیا منہ دکھاؤ گے آخرت میں ۔”
اس طرح کے بھاشن سن کر تو مجھ جیسا منکر انسان بھی پگھل جائے تو نارمل مسلمان کو تو چھوڑئیے ۔

پانچ سو ملین روپے صرف چندے کہ مد میں اڑا لے جاتے ہیں۔۔۔اس میں شہدا فنڈ کے نام سے بھی جیب بھری جاتی ہے۔خاص کر قربانی کی کھالیں جمع کرنے بھی ید طولیٰ رکھتے ہیں۔
سیلاب زدگان یا زلزلہ زدگان یا فلسطینی یا برما کے مسلمانوں کی مدد کے نام پر اچھی خاصی دیہاڑی لگائی جاتی ہے۔اس کی ایک دلچسپ مثال بالاکوٹ کے زلزلے کی ہے۔اس کی فنڈنگ کے نام پر پانچ ملین برطانوی پاونڈ یہاں ان کے پاس آئے تو ان میں سے آدھے بھی متاثرین کو نہیں دیئے گئے ۔۔۔۔بلکہ ادارہ خدمت خلق نامی ڈمی جماعت بنا کر انھیں ہڑپ کر لیا گیا۔

جہاد انڈسٹری رئیل اسٹیٹ میں بھی کافی انویسٹ کرتی ہے۔”۔jihad        inc….back        in         business “کے مصنف عامر رانا لکھتے ہیں صرف ایک جماعت کے لاہور اور حیدرآباد میں ایک سو اسی ملین کے پلاٹ ہیں جنھیں رئیل اسٹیٹ کے دھندے میں استعمال کیا جاتا ہے۔
سید داؤد گیلانی عرف Howard        headly بڑا دلچسپ کردار ہے امریکی نژاد لشکر طیبہ کا رکن تھا ۔حافظ صاحب کے بڑا قریب تھا۔ امیر کے کہنے پر ہی اس نے ممبئی حملوں کے لیئے ممبئی جاکر ریکی کی تھی۔بعدازاں یہ امریکی اداروں کے ہاتھوں گرفتار ہوا ۔اس کے انکشافات چونکا دینے والے تھے۔اس نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ۔
“تنظیم غیر قانونی اسلحے اور منشیات کے دھندے میں بھی ملوث ہے۔”
اس نے پاکستانی خفیہ اداروں کی عسکری تنظیموں کو فنڈنگ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ۔ “جب وہ انڈیا کے مشن پر جارہا تھا تو پاکستانی خفیہ ادارے کے میجر اقبال نے مجھے پچیس ہزار ڈالر کی تین گڈیاں دیں ۔”

جہادی تنظیموں کی منشیات کے دھندے میں ملوث ہونے کی تصدیق کئی سورسز سے کی جاسکتی ہے۔طالبان کی آمدن کا بڑا حصہ افیون کی کاشتکاری سے آتا تھا ہمارے کئی مقدس ادارے کے افسر اس میں ملوث ہیں۔
سہیل وڑائچ اپنی کتاب “غدار کون “میں نواز شریف سے ایک انٹرویو کا ذکر کرتے ہوئے نواز شریف کا یہ اعتراف بیان کرتے ہیں۔
“نواز شریف کو خفیہ ادارے کے دو افسران نے افغانستان کی منشیات سے ہونے والی آمدنی کی بابت بریفنگ دی اور وزیراعظم کو آمادہ کرنے کی کوشش کی ریاست کو اس دھندے میں انویسٹمنٹ کرنا چاہئیے ۔”

مولانا مسع ود اظہر کی الرشید ٹرسٹ بھی کافی تگڑی فرنچائز ہے۔اس کے مجموعی ڈونر سعودی اور اورسیز مسلمان ہیں۔پہلے اس کی روزی روٹی افغان جہا د کے دم پر چلتی تھی بعد میں مارخور کے کہنے پر اس نے اپنا رخ کشمیر کی جانب موڑ دیا ۔
کشمیر میں پہلے حزب المجاہدین اور حرکت الانصار زروں پر تھے مگر لشکر طیبہ والوں نے ان کی دوکان چوپٹ کردی۔۔کشمیر کے اندر مقامی تنظیمیں بھی ہیں۔جیسے کشمیر لبریشن فرنٹ وغیرہ۔ان کی زیادہ تر فنڈنگ کا انحصار پاکستان پر ہے۔

آل پارٹیز حریت کانفرنس اس فنڈنگ کی سب سے بڑی beneficiary ہے۔صرف سید علی گیلانی نے 1995 میں دس کروڑ روپے کی دیہاڑ لگائی تھی اس فنڈنگ سے۔
بیرونی چندے کو صاف اور قانونی کے لیئے کئی ٹرسٹ کام کررہی ہیں کشمیر میں ۔جیسے اقبال میموریل ٹرسٹ، اسلامک ویلفئر سوسائٹی یا کشمیر میڈیکل ٹرسٹ یہ سب ان کی بیرونی فنڈنگ کو پاکیزہ کرنے کا کام کرتی ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی نے Financing         structure          o         terrorist          organization          in          Kashmir کے نام سے ایک آرٹیکل بپلش کیا تھا۔وہ آرٹیکل پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔اس میں بڑی باریکی سے ان جہادی تنظیموں کے بجٹ سے لے کر ایک عام مجاہد کی ٹرینگ اور اس کے سازو سامان ہر ہونے والے اخراجات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

یہ جہاد کے نام جو کشمیر کی آزادی اور بھارت کی بربادی والا چورن لگاتے ہیں ۔سیدھی بات یہ ہے کہ نہ آج تک کشمیر آزاد ہوا ہے نہ بھارت برباد ۔برباد ہوتا ہے تو صرف غریب کارکن۔
یہ حافظ سعید کا بچہ کیوں نہیں جاتا کشمیر ، سید صلاح الدین کے بچے تو یورپ کی یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں۔مسعود اظہر کے بچے کیوں نہیں مرتے کشمیر میں۔کیوں صرف غریب کے بچے شہادت کے بانس پر چڑھائے گئے ۔جن کے لواحقین کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا ۔
شہدا فنڈ کے نام پر آٹے کا ایک تھیلا اور خشک کھجوروں کا ایک پیکٹ سال میں ایک مرتبہ رمضان میں ورثاء شہداء کے منہ پر مارنے کا منظر اگر کوئی شہید موت سے پہلے دیکھ لیتا تو کبھی جہاد انڈسٹریز لمیٹیڈ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش نہ کرتا ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں