ڈاکٹر ظفر اللہ خان
سائنسی فکر کا مطلب تحقیق کے انضباطی طریق کار کا اطلاق ہے جو معروضی اور مقصدی اور اصولی طریقوں پر مبنی ہو۔ اسے علم کی نئی شاخوں کی تخلیق اور اس عمل کی تسہیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تحقیق کا ایک منظم طریقہ ہے جو فطرت کے محتاط مشاہدے اور سوچ بچار سے ظہور پذیر ہوتا ہے۔ عقلِ خدا داد قرآنی تحریک برائے علمی تحقیق کا ساتھ دیتی ہے۔ قرآن مجید نے اس اسلامی مقصد کی طرف پیش قدمی کے لیے طریق کار کی تشکیل نو کی طرف دعوت ایسے دی ہے:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ. (سورۃ العلق، آیت: ۱)
(اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے سب کو پیدا کیا)
یہ وہی وحی ہے جو اعلان کرتی ہے کہ ساری تخلیق کردہ دنیا کامطالعہ کرنا خالق کی معرفت حاصل کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ فطرت تک رسائی کے لیے اس نئے طریق کار نے مسلمانوں کو راز ہائے فطرت کی بصیرت حاصل کرنے کے لیے ایک تخلیقی قوت فراہم کر دی ہے۔ قرآن مجید انسانی ذہانت کو مظاہر فطرت کی گہری بصیرت حاصل کرنے کا نہ صرف جذبہ عطا کرتا ہے بلکہ اسے مختلف اسلوب ہائے فکر اور استدلال کے مختلف انداز بھی فراہم کرتا ہے۔ قرآن پاک کے نقطۂ نظر سے فطرت اللہ تعالیٰ کی ایک واضح نشانی (آیت) ہے جو اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ ایک مرتب نظام کی نشاندی کرتی ہے۔
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ۠ وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ. (سورۃ البقرۃ، آیت: ۱۶۴)
(بیشک آسمان اور زمین کی تخلیق میں، رات اور دن کے لگاتار آنے جانے میں، ان کشتیوں میں جو لوگوں کے فائدے کا سامان لیکر سمندر میں تیرتی ہیں، اس پانی میں جو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اتارا اور اس کے ذریعے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے، ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع دار بن کر کام میں لگے ہوئے ہیں، ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں)
قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَالْبَصِيْرُ ۭاَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَ. (سورۃ الانعام، آیت: ۵۰)
(کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟)
اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ. (سورۃ البقرۃ، آیت: ۴۴ )
(کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟)
اَفَلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَى الْاِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ ۪ وَاِلَى السَّمَاۗءِ كَيْفَ رُفِعَتْ ۪ وَاِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ ۪ وَاِلَى الْاَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ. (سورۃ الغاشیہ، آیات: ۱۷ – ۲۰)
(تو کیا یہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے پیدا کیا گیا؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ اسے کیسے بلند کیا گیا ہے؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے نصب کیا گیا ہے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ یہ کس طرح بچھائی گئی ہے)
قرآن پاک کے پیدا کردہ تجسس نے قرونِ اولیٰ کے ذہین مسلمانوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی تخلیقی فکر کو صحیح معنوں میں بروئے کار لائیں۔ ان میں یہ تخلیقی فکر اور طریقۂ کار ان کی طبع زاد کتابوں میں جو انہوں نے لکھیں اور تراجم میں جو انہوں نے کیے اور قدیم یونانی، ہندوستانی اور ایرانی تہذیبوں کے سائنسی ورثے کے تحفظ میں، جس کا انہوں نے اہتمام کیا، صاف دکھائی دیتا ہے۔ ان کی کاوشیں دو نمایاں تخلیقی طریق ہائے کار میں ظہور پذیر ہوئیں جنہوں نے بنی نوع انسان کی مستقبل کی پیش رفتوں میں بے پناہ کردار ادا کیا۔ ایک تو انہوں نے ترقی یافتہ ٹیکنالوجی ایجادکی اور دوسرا یہ کہ انہوں نے تخلیقی اور تجزیاتی ذہنوں کی آبیاری کی۔
مسلمانوں نے تمام قوموں کی مثبت اور تخلیقی کاوشوں کا خیر مقدم کیا، انہیں سمجھا اور جانا اور پھر ان کا تنقیدی جائز ہ لے کر ان کے تصورات کو اسلامی عالمی تناظر کے ڈھانچے میں ضم کر لیا۔ فلپ ہٹی رقم طراز ہے:
اسلام کی وحدانیت اور سائنس کو ہم آہنگ کرنے کی استعداد کے باعث انسانی فکر میں پہلی بار ثابت ہوا ہے کہ دینیات، فلسفہ اور سائنس بالآخر ایک اکائی کے طور پر متحد ہو گئے تھے۔ اس طرح ان کا یہ کارنامہ بہت اہم تھا کیونکہ اس نے سائنسی اور فلسفیانہ فکر اور بعد کے زمانے کی دینیات پر بہت اثرات مرتب کیے۔ یہ سائنس کے ارتقا کے اسباب میں سے ایک ہے۔ غالباً یہ خدا کے ان احکامات کی وجہ سے ہے کہ قوانین فطرت کی تفتیش کی جائے۔ (The Arabs by Phillip Hitti, p. 111)
اسلام کی آمد سے پہلے لوگ اشیائے فطرت کی پرستش کیا کرتے تھے۔ اسلام نے اسے شرک قرار دے دیا (اس کامطلب خدا کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرانا ہوتا ہے) اور اپنے پیروکاروں پر زو ردیا کہ وہ ہر گز اشیائے فطرت کو نہ پوجیں بلکہ ان کا مطالعہ کریں۔ اس حکم کے نتیجے میں سائنسی سوچ اور طریق ہائے کار کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اسلام سے پہلے تجربات اور مشاہدے کا کوئی باقاعدہ تصور نہیںتھا۔ کائنات انسان کے لیے ایک پوجا کی شے تھی نہ کہ تفتیش اور تحقیق کا موضوع۔ اسلام کا یہی عظیم کارنامہ تھا جس نے زمین پر بنی نوع انسان کی تاریخ مکمل طور پر بدل دی۔ اس سیاق وسباق میں انسائیکلوپیڈیا بریٹنیکا (تاریخ ندارد) کا ایک اقتباس یہ ہے: مذاہب میں ایک وسیع پیمانے پر پھیلایا ہوا ایک سلسلہ اشیائے فطرت ہے جو قوتوں کے ساتھ خدائی صفات منسوب کرتا (دیوی دیوتا بناتا) ہے۔ اس مظہرکی وضاحت کے لیے ان اشیا کی درجہ بندی کی گئی ہے وہ یہ کہ ان میں سے کچھ آسمانی (celestial) کچھ فضائی (atmospheric) اور کچھ ارضی (earthly) ہیں۔ اس درجہ بندی کو انڈو آرین مذہب نے خود تسلیم کیا ہے: سُریا (سن گاڈ) آسمانی ہے۔ اندرا (آندھی، بارش اور جنگ و جدل کی دیوی) فضائی ہے۔ اگنی (آگ کا دیوتا) زیادہ تر زمینی سطح پر کام کرتا ہے۔(Encyclopedia Britannica, Vol. 14, p. 785)
اسلام نے دنیا کو سائنسی طریق کار دیا۔ اسلام سے پہلے لوگ قدیم روایتی علم کو کسی تجربے کی بنیاد پر پرکھے بغیر قبول کر لیا کرتے تھے۔ ممتاز برطانوی مفکر اور فلاسفربرٹرینڈ رسل کا کہنا تھا کہ یونانی لوگ تجربے اور مشاہدے کے مخالف تھے۔ وہ اپنی کتاب The Impact of Sciensces on Society میں لکھتا ہے: جدید تعلیم یافتہ لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ واقعات کو مشاہدے کی بنا پر پرکھتے ہیں۔ قدیم اہل دانش سے مشورہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ لیکن یہ بالکل ایک جدید تصور ہے جو سترہویں صدی سے پہلے بمشکل ہی پایا جاتا تھا۔ ارسطو کا موقف تھا کہ عورتوں کے دانت مردوں کے دانتوں سے کم ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس کی دوبار شادی ہوئی تھی لیکن اسے یہ خیال کبھی نہیں آیا کہ وہ اپنی بیویوں کے دانت خود گن لیتا۔ ( The Impact of Sciences on Society by Bertrand Russell, p.17)
ماہر معاشرتی بشریات (social anthropologist) رابرٹ بریفالٹ یہ اعلان کرنے کی حد تک چلا گیا ہے کہ جدید سائنس مسلمانوں کا کارنامہ ہے۔ سائنسی تحقیق یونانیوں سے شروع ہوئی لیکن یہ مسلمان عرب ہی تھے جنہوں نے سائنسی طریق، یعنی تجربے کے عمل کا طریقہ مشاہدے کا عمل اور ناپنے کا طریقہ دریافت کیا۔ اس طرح یورپ میں جدید سائنس کی بنیاد استوار ہو گئی۔ رابرٹ بریفالٹ کے مطابق: ہماری سائنس کا قرضہ جو عربوں کا قرضہ ہے وہ چونکا دینے والے انقلابی نظریات کی دریافتوں پر مشتمل نہیں ہے؛ سائنس نے اس سے کہیں زیادہ قرضہ عرب ثقافت کو ادا کرنا ہے، بلکہ اس کا وجود ہی عرب ثقافت کا مرہونِ منت ہے۔ قدیم دنیا جیسا کہ ہم جانتے ہیں سائنس سے پہلے کی دنیا تھی۔ یونانیوں کے علومِ فلکیات اور ریاضی جو غیر ملکی درآمد کاری تھے، یونانی ثقافت کے اندر کبھی کماحقہٗ رچ بس نہ سکے۔ ٹھیک ہے کہ یونانیوں نے انہیں ترتیب دی، ان کو عمومی بنایا اور ان کی نظریہ سازی بھی کی۔ لیکن صبر و تحمل کے طور طریقوں پر مشتمل تفتیش، مثبت علم کی جمع بندی، سائنس کے باریک بینی کے طریقے، تفصیل طلب اور طویل مدتی مشاہدات اور تجرباتی تحقیق وغیرہ یونانی مزاج کے لیے بالکل اجنبی تھے۔ صرف قدیم کلاسیکی دنیا (چہارم تا یکم صدی قبل مسیح) کے سکندریہ میں کچھ سائنسی کام ہو سکا تھا لیکن جس علم کو ہم سائنس سے تعبیر کرتے ہیں وہ یورپ میں ایک نئے جذبۂ تفتیش، طریق ہائے تحقیق، تجربات و مشاہدات، پیمائش اور ریاضی کی ترقی کے ذریعے آئی۔ جن سے اہل یونان بے خبر تھے۔ پوری دنیا کو اس جذبۂ تفتیش و تحقیق اور طریق ہائے کار سے عربوں نے متعارف کرایا تھا۔ (Making of Humanity by Robert Stephen Briffault, p. 190 )
قرآن مجید کائنات میں پیدا کردہ تمام اشیا پر غور و فکر کرنے پر بہت زور دیتا ہے۔ یہی اشیا ہیں جنہیں ہم آج سائنس کہتے ہیں۔ یہ با ضابطہ اور منضبط طریق کار ہمیں خدا پاک کے قریب لے جاتا ہے۔ تاریخ اسلام اس حقیقت کی گواہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنے اولین دو رمیں سائنسی علوم میں بے پناہ ترقی کی تھی۔ برٹرینڈرسل اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلمانوں نے سائنسی علوم اور تعلیم کو بہت فروغ دیا اور انہوں نے سائنس میں دنیا کی اس وقت رہنمائی کی جب یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس وقت ہندوستان سے سپین تک ایک شاندار اسلامی تہذیب اپنی ترقی کی منازل طے کر رہی تھی۔ وہ کہتا ہے: ہم تاریک دور کے الفاظ، 600ء سے 1000ء تک کے زمانے پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں چونکہ مغربی یورپ پر ہمارا غیر ضروری ارتکاز تھا۔ چین کے اس زمانے میں ٹینگ خاندان (Tang Dynasty) کا دور، چینی شاعری کے عروج کا دوراور کئی پہلوؤں سے بہت ہی قابل ذکر عہد شامل تھا۔ ہندوستان سے سپین تک اسلام کی شاندار تہذیب فروغ پا رہی تھی۔ عیسائیت کو اس وقت جوشکست ہوئی وہ تہذیب کو شکست نہیں ہوئی تھی بلکہ معاملہ بالکل برعکس تھا۔ (A History of Western Philosophy by Bertrand Russell, p.372)
کمنت کیجے