ڈاکٹر ظفر اللہ خان
علم کیمیا (Chemistry) کو بطور سائنس بلا شک و شبہ مسلمانوں نے متعارف کروایا۔ سائنس کے اس شعبہ میں مسلمانوں نے سب سے زیادہ خدمات سرانجام دیں اور اسے کاملیت کے اعلیٰ درجے تک پہنچایا۔ مسلمانوں کو ان کی دریافتوں اور ان کے فہم کیمیاء کی وجہ سے سترہویں صدی تک سند سمجھا جاتا رہا ہے۔ جابر بن حیان اورالرازی کویہ امتیاز حاصل تھا کہ انہیں عہدِ متوسط کے سب سے بڑے کیمیا دان کہا جاتا تھا۔
جابر بن حیان کو جدید کیمیاء کا باپ کہا جاتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ تمام مادوں (matters) کی ابتداء کا سراغ لگایا جائے تو وہ ایک سادہ سا ذرہ ہوگا جو چمک اورآگ پر مشتمل ہوگا اور مادے کی ناقابل تقسیم اکائی (unit) ہوگی۔
اس نے انیس (۱۹) عناصر دریافت کیے اور وزن مخصوص (measurements of specific weights) کی صحیح پیمائشیں کیں۔ متعدد کیمیائی تعامل (chemical processes) مثلاً عمل کشید (distillatiion) مائع کو قلموں کی شکل میں جمانا (crystallization) اور عمل تصعید (sublimation) کے تجربات کیے۔ وہ اس لحاظ سے بھی پہلا شخص تھا جس نے سرکہ(vinegar) کو عمل کشید کے ذریعے Acetic acid میں تبدیل کیا۔ مادے کی محلول حالت سے اس کی اضافی حل پذیری یا عدم حل پذیری متعارف کروائی۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے گلاس ٹیوبز اور بوتلیں بڑے پیمانے پر استعمال کیں اور اس نے اپنی تحقیق میں جانچ پڑتال کی اہمیت پر زور دیا تھا۔
اس نے کیمیا کے دو نہایت اہم تعاملات تکلیس اور تقلیل ((reduction کی سائنسی طور پر وضاحت کی۔ اس نے عمل ہائے تبخیر (evaporation)، تصعید (sublimation)، تقطیر (filtration)، کشید (distillation) اور قلماؤ (crystallization) کو نمایاں طو رپر ترقی دی۔ سائنسی مؤرخ ہولمیارڈا پنی کتاب Makers of Chemistry میں کہتا ہے کہ جابر بن حیان کیمیائی تعامل کے دوران رونما ہونے والے تغیرات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ وضاحت کرتاہے کہ دھاتوں کو کس طرح تکلیس کے ذریعے آلائشوں سے پاک کیا جا سکتا ہے اور کن کن طریقوں سے دھاتوں کی تکلیس کی جا سکتی ہے۔ (Makers of Chemistry by E.J. Holmyard, p. 59)
جابر بن حیان نے کیمیائی مادے بشمول شنگرف cinnabar (پارے کا سلفائیڈ) اور سنکھیا (arsenic oxide) تیار کرنے کے طریقے کی تفصیل بتائی۔ ا س نے مرکری آکسائیڈ (mercury oxide) بنایا اور وہ خام سلفیورک ایسڈ(crude sul furic acid) اور نائیٹرک ایسڈ (nitric acid) بنانے کے طریقوں سے خوب آگاہ تھا۔ ایسے کیمیائی مادوں پر اس کے مقالے کئی یورپی زبانوں بشمول لاطینی میں چھپے۔ جدید کیمیا نے جابر بن حیان کی وضع کردہ کئی سائنسی و فنی اصطلاحات کو اختیار کیا ہے۔ اس نے دھاتوں کی ارضیاتی تشکیل (geologic formation of metals) کا نظریہ بھی پیش کیا اور کیمیا کے بہت سے عملی اطلاقات بتائے۔ مثلا ً دھاتوں کو مصفیٰ (refinement) کرنا، فولاد بنانا، کپڑے اور چمڑے کو رنگنا، کپڑوں کی وارنشنگ کرکے انہیں واٹر پروف بنانا اور مینگینز ڈائی آکسائیڈ (manganese dioxide) کو شیشے رنگنے کے لیے استعمال کرنا۔ علاوہ ازیں اس نے مسودوں کے لیے سستی اورچمکیلی روشنائی (ink) تیار کرنے اور شیشہ سازی کے لیے مینگینز ڈائی آکسائیڈ (manganese dioxide) کے استعمال کرنے کے طریقوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ (Makers of Chemistry by E.J. Holmyard, p. 59)
جابر بن حیان نے ایک نہایت نفیس و حساس (precise) ترازو بنایا جو چھوٹی سے چھوٹی چیز کا بھی صحیح وزن کر سکتا تھا۔ اس نے کیمیائی امتزاجوں (combinations) کو عناصر کے باہمی ارتباط سے تعبیر کیا اور انہیں ایسے اجزا (particles) قرار دیا جو اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ محدب شیشے کے بغیر نہیں دیکھے جاسکتے اور اتنے مہین ہونے کے باوجود اپنی خصوصیات برقرار رکھتے ہیں۔ اس نے یہ تصریحات جان ڈالٹن سے دس صدیاں پہلے کی تھیں۔ اس نے نئی پیداواروں (products) کا تعین کیا۔ جن میں الکلیاں (alkalines)، تیزاب (acids)، نمکیات (salts)، روغنیات (paints) اور چکنائیاں (greases) شامل تھیں۔ اس نے گندھک کا تیزاب (Sulfuric acid)، نمک کا تیزاب (nitro-hydrochloric acid) بنائے (جنہیں وہ بعض دھاتوں کو حل کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا)۔ اسی طرح اس نے کاسٹک سوڈا (caustic soda) اور متعدد سالٹس (salts) تیار کیے۔ مثلاً سلفیٹس (sulphates)، نائیٹریٹس (nitrates)، پوٹاشیم (potassium) اور سوڈیم کاربونیٹس (sodium carbonates)۔ دھاتوں اور نمکیات پر اس کی تحقیق کی بنا پر بعدازاں ڈھلائی کی طریقے (foundry techniques) اور ٹائلوں اور ظروف کو چمکانے کے نسخے تیار کرنے میں مدد ملی۔(Introduction to Islamic Civilisation by R.M. Savory, p. 113)
جابر بن حیان کی وفات کے تقریباً ایک صدی بعدالرازی نے علم کیمیا کی بنیادیں استوار کیں۔ جن سے جدید دور میں بڑی مدد ملی۔ الرازی نے اپنی کتاب رازوں کا راز (Secret of Secrets) میں اشیائے فطرت کی ایک نہایت مفید درجہ بندی (classification) پیش کی۔ اس نے مادوں کو زمینی، نباتاتی اور حیوانی مادوں میں تقسیم کیا اور ان میں کچھ مصنوعی طور پر حاصل کردہ مادوں کو بھی شامل کیا۔ مثلاً لیڈ آکسائیڈ (lead oxide)، کاسٹک سوڈا (caustic soda) اور مختلف مخلوط دھاتیں (alloys)۔ آگے چل کر اس نے اپنے تجربات کی فہرست سازی اور توضیحات کیں۔ پہلے اس نے اپنے استعمال میں لائے گئے مواد (materials) کی وضاحت کی، پھر اوزار / سازوسامان (apparatus)، طریق کار اور تجربوں کے حالات پرروشنی ڈالی۔ الرازی نے (جدید مفہوم کی حامل) لیبارٹری قائم کی، ڈیزائیننگ کی اور تفصیلات اکٹھی کیں اور بیس سے زیادہ آلات استعمال کیے۔ ( Science and Technology in Islam by M. Ali Kettani, p. 79)
مسلمہ المجریطی میڈرڈ (Madrid) میں رہنے والا ایک اندلسی تھا۔ اس کو اپنی ایک تصنیف رتبۃ الحکیم (دانشوروں کے مراتب) کی وجہ سے شہرت ملی جس میں اس نے اور باتوں کے علاوہ قیمتی دھاتوں کے فارمولے اور ان دھاتوں کی تطہیر (purification) کے لیے بھی ہدایات دیں۔ المجریطی وہ پہلا شخص بھی تھا جس نے تحفظ مادہ (mass conservation) کے تصور کا ذکر کیا۔ یہ لیوائزیر سے آٹھ صدیاں پہلے کی ایک اہم دریافت تھی۔
کمنت کیجے