Home » نفس الامر بصورت اعیان ثابتہ کے لزوم پر سپائیکر صاحب کا سرکلر استدلال
شخصیات وافکار فلسفہ

نفس الامر بصورت اعیان ثابتہ کے لزوم پر سپائیکر صاحب کا سرکلر استدلال

شیخ حسن سپائیکر صاحب کا مقدمہ ہے کہ حس و عقل پر مبنی علمی قضایا کے پس پشت اگر اعیان ثابتہ کی صورت کسی نفس الامر کو نہ مانا جائے تو نتیجتاً کسی بھی علمی قضئے، بشمول اولیات عقلیہ، کا اعتبار ثابت نہ ہوگا بلکہ یہ گمان گزرے گا کہ یہ نرے خیال ہیں جو کسی حقیقت سے متعلق نہیں، لہذا ان علمی قضایا کے وجودی اعتبار و ثبوت کے لئے اعیان ثابتہ کی صورت نفس الامر کا ثبوت فراہم کرنا لازم ہے (اور پھر اس نفس الامر کو ماننے کی دلیل میں سے ایک اہم دلیل وہ “زید انسان ہے” سے دیتے ہیں جس پر بات ہوچکی)۔ ان کی دلیل میں چند داخلی مسائل بھی ہیں، یہاں آپ کے اس پراجیکٹ میں ایک بنیادی قسم کی سرکولریٹی کو بیان کیا جاتا ہے جسے آسان الفاظ میں یوں سمجھا جاسکتا ہے:
• جس نفس الامر یعنی اعیان ثابتہ کی وہ بات کررہے ہیں، یا وہ بدیہی طور پر سب کو معلوم ہے اور یا نہیں ہے۔ اس کے علم کو بدیہی کہنا نرا دعوی ہی ہوگا جو سپائیکر صاحب بھی نہیں کرسکتے، لہذا اس کا علم غیر بدیہی ہوا۔
• جب یہ غیر بدیہی علم ہے، تو سوال یہ ہے کہ اس کا ثبوت کیا اولیات عقلیہ (یا فرسٹ پرنسپلز) کے صدق کے مفروضے پر ثابت ہوتا ہے یا اس کے بغیر؟ یعنی اس نفس الامر کا ثبوت یا اولیات کی صحت پر موقوف ہوگا اور یا نہیں ہوگا۔
• اگر موقوف ہے، تو معلوم ہوا کہ نفس الامر ان کے صدق کا گراؤنڈ و دلیل نہیں ہوسکتا بلکہ ان قضایا کی سچائی ماقبل طور پر متحقق ہونا لازم ہے اور اسی لئے یہ نفس الامر کی سچائی کا گراؤنڈ فراہم کرتی ہیں۔ اس صورت میں سپائیکر صاحب کو یہ بتانا ہوگا کہ نفس الامر جانے بغیر انہیں اولیات کی سچائی کیسے معلوم ہوئی؟
• اگر وہ ان پر موقوف نہیں، تو وہ کونسا ذریعہ ہے جس میں اولیات عقلیہ سے ماورا رہتے ہوئے اعیان کا ثبوت فراہم کرنا ممکن ہے؟ اگر اس کے وسائل یہی حسی و عقلی قضایا ہیں تو معلوم ہوا کہ حسی و عقلی قضایا کا صدق نفس الامر پر مبنی نہیں ہے بلکہ نفس الامر کا صدق ان پر مبنی ہے۔
• اگر وہ کہیں کہ نفس الامر کی تصدیق کا طریقہ کشف ہے (جسے وہ henological        experience کہتے ہیں)، تو اس میں چند مسائل ہیں:
الف) تمام اہل علم بشمول محقق صوفیا کا اس پر اجماع ہے کہ کشف ایک ظنی ذریعہ علم ہے۔ کیا ایک ظنی ذریعے سے اولیات عقلیہ جیسے قطعی امور کے صدق کی دلیل فراہم کرنا ممکن ہے؟ کیا ایسی ظنی چیز ان کی قطعیت میں کچھ اضافہ بھی کرسکتی ہے؟ ہرگز نہیں، یہ استدلال تو از خود قطعیات کو ہی ظنی ثابت کرنے کی کاوش معلوم ہوتی ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی چیونٹی پر ہاتھی کا بار ڈال دینا چاہتا ہو۔ کشف اتنا ظنی ذریعہ ہے کہ اس کے ذریعے مسائل اصولیہ و قطعیہ سے بحث کرنے والے کسی متکلم تو کجا، مسائل ظنیہ سے بحث کرنے والے ایک فقیہہ کو راضی کرنا بھی مشکل کام ہے جو ظنیات کا اعتبار کرنے میں کھلا ہاتھ رکھتے ہیں۔
ب) کشف کی قبولیت کی پہلی شرط ہی اہل علم، بشمول صوفیا، کے نزدیک یہ ہے کہ وہ اولیات عقلیہ کے خلاف نہیں ہونا چاہئے، یعنی کشف میں ایسا کچھ ظاہر نہیں ہوسکتا جسے عقل محال لعینہ کہتی ہے اور نہ ہی کشف کی بنیاد پر ان اولیات کو غلط ثابت کیا جاسکتا ہے، کشف میں ایسی چیز ظاہر ہونا شرط اول ہے جو ممکنات میں سے ہو اور “کیا ممکن ہے اور کیا نہیں” یہ اولیات سے طے ہوتا ہے۔ پس جب کشف کی قبولیت و صحت کے لئے اولیات کی سچائی کی پابندی شرط کی حیثیت رکھتی ہے تو بھلا کشف سے ان کی ویلیڈیشن یا گراؤنڈ کے تعین کا مطلب ہی کیا ہوا؟ الغرض ایسا استدلال بے معنی ہوگا۔ کشف تو ایک طرف، علمائے امت اس مسئلے میں اس حد تک واضح ذہن پر ہیں کہ نبی سے موصول ہونے والی خبر بھی اولیات کے خلاف نہیں جاسکتی، باالفاظ دیگر اولیات ان پر بھی لاگو ہیں اور وحی سے بھی اس کے صدق کی تصدیق کا دعوی کرنا درست نہیں۔ ایسے میں شیخ حسن سپائیکر صاحب کا کشف اولیات کے صدق کا گراؤنڈ فراہم کرنے میں کیسے کام آسکتا ہے؟
ج) سپائیکر صاحب کے دلائل کا حاصل یہ ہے کہ اگر اعیان ثابتہ کے نفس الامر کو تم نے قبول نہ کیا تو تمہارے علمی قضایا کا اعتبار ناقص و کھوٹا رہے گا۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اس کھوٹے کو کھرا بنانے کا جو طریقہ وہ بتاتے ہیں، وہ ظنی ہونے کے ساتھ ساتھ اتنا ایلیٹسٹ ہے کہ اسے مان لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں، اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ علمی اعتبار سے میرے سب قضایا اس وقت تک اتنے ہی بے اعتماد رہتے ہیں جتنے کہ وہ ابھی ہیں، یہاں تک کہ مجھے اعیان سے متعلق بذریعہ کشف علم حاصل ہو! چنانچہ ایک ایسی چیز جو ایک طرف اتنی ظنی ہو کہ اس میں دوسرے پر الزام کا پہلو نہ ہو (یعنی وہ اس پر بائنڈنگ نہ ہو) اور دوسری طرف ایلیٹسٹ بھی ہو، اس ذریعہ علم پر تمام قطعی علمی قضایا کا اعتبار قائم کرنے کا ایسا استدلال کھڑا کرنا کہ اگر اسے نہ مانا جائے تو علم کی معروضیت کا تمام محل دھڑام سے زمین پر آگرنے کا خطرہ ہو، یہ استدلال مبالغہ آرائی نہیں تو کیا ہے؟
چنانچہ سوال یہ ہے کہ اعیان ثابتہ کا صدق اولیات عقلیہ کا صدق جاننے پر موقوف ہے یا اولیات کا صدق اعیان کا صدق جاننے پر موقف ہے؟ پہلی صورت میں سپائیکر صاحب کا مقدمہ جاتا رہا کہ اعیان کے صدق کا تحقق اولیات کے صدق کے لئے لازم ہے کیونکہ انہیں اعیان سے ماقبل اولیات کے صدق کو مستقل حیثیت میں متحقق ماننا ہوگا اور نتیجتاً اولیات کا صدق متحقق ہونے کے لئے اعیان ضروری حیثیت نہیں رکھتے، دوسری صورت میں انہیں وہ ذریعہ بتانا چاہئے جس سے اعیان کا صدق اولیات سے ماوراء معلوم بھی ہوجاتا ہے اور وہ اولیات کے قطعی قضایا کے صدق کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔
سپائیکر صاحب کا اصرار ہے کہ کلی کے بغیر جزئی متحقق نہیں ہوسکتی (جیسے ان کے بقول “زید انسان ہے” کی مثال)۔ تاہم یہی بات بطور الزام انہیں بھی کہی جاسکتی ہے کہ چاہے آپ کتنی ہی کلیاں جمع کرلیں ان سے کسی جزئی کا علم حاصل نہیں ہوسکتا بجز اس کے کہ اولیات و حسی قضایا کو از خود صدق کا حامل سمجھا جائے۔ الغرض جزئی کا صدق کلی کے سوا ہی کسی طریقے سے حاصل ہوسکتا ہے۔ چنانچہ سوال پلٹ کر ان کی جانب یوں متوجہ ہے کہ آپ کی کلیات کا علم فرض کرلینے کے باوجود ان سے کسی بھی جزئی کا علم کیسے ممکن ہے؟ یہ سوال پچھلے سوال کے ساتھ مل کر ان کے پراجیکٹ کے لئے مزید داخلی مشکلات کھڑی کردیتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ ہماری اب تک کی گفتگو سے یہ معلوم ہوگیا کہ جملہ “زید انسان ہے” انسانیت نامی کلی کے خارجی وجود کی دلیل فراہم نہیں کرتا نیز اولیات عقلیہ کا اعتبار بھی اعیان ثابتہ نامی نفس الامر سے ثابت نہیں ہوسکتا بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ مزید یہ کہ محض کلیات کے زور پر کسی بھی جزئی کے علم کا صدق متحقق نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے بھی حسی قضایا و اولیات کو بھی اعیان نامی نفس الامر سے علی الرغم صدق سے متصف ماننا ہوگا۔ پس ان امور کو واضح کئے بغیر اعیان نامی نفس الامر کو تمام علمی قضایا کی معروضیت کی بنیاد فراہم کرنے والا فرض کرلینا زبانی جمع خرچ ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں