حافظ حسن علی
یہ ذوالقعدہ کا مہینہ تھا۔ عرب سوار جوق در جوق مانند طوفان امڈ رہے تھے۔ جو ہر سال کیطرح حج سے پہلے عکاظ کے میلے میں شرکت کرنے کے لیے آرہے تھے ۔ حسب معمول اس سال بھی عکاظ کا میلہ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سج چکا تھا۔ رنگا رنگ تقریبات و محافل کا انعقاد کیا جا رہاتھا۔ تاجروں نے خیمے گاڑ دیے تھے۔ جہاں انہوں نے شام و یمن کی مصنوعات کو بچھا رکھا تھا۔ دوکانوں پر مرد وعورتوں کا جمگھٹاتھا۔ عورتیں زیادہ تر کپڑوں کی دوکانوں پر مختلف بناوٹ کے کپڑے اٹھاتیں ، اور الٹ پلٹ کر انہیں دیکھتیں۔ ان میں اگر کوئی حسینہ ہوتی تو بے فکر نوجوانوں اور پختہ کار مردوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی۔ جو دراصل خریداری کے لیۓ آئے ہوتے مگر انہیں اصل میں کسی حسینہ کے فردا جمال سے آسودہ ہونے کا شوق بے چین کیے رکھتا ۔ تاجروں کی دکانوں کے متصل عیش و نشاط کے اڈے قائم کیے گئے تھے۔ جہاں پر دن اور رات کو نوجوانوں کی بھیڑ سی لگی رہتی۔ اور عرب کی فتنہ فروش عورتیں اپنے حسن کے بے تاب جلوؤں ہر آنے والےکو محظوظ کر رہی ہوتی ۔ رات کے اوقات میں عموما بساط طرب بچھائی جاتی۔ اور عرب کے
بادہ نشین جام و ساغر سے کھیلنے لگتے۔ جسم کی حرارت کو زبان کی شاطری سے مزید مہمیز کیا جاتا۔ اور شعر و شاعری کی باریکیوں سےرات کی تاریکیوں میں عشق و محبت کی نہاں تاریں چھیڑیں جاتی۔
ایسی ہی ایک محفل میں ایک شاعر جام و ساغر کے جام انڈھیلنے کے بعد فکر و فن کی باریکیوں کوبکھیر کر رومانوی احساسات و جذبات کو طیش دے رہا تھا۔
پہلے اس نے تشبیب سنائی۔ اپنے قبیلے کی مدح و توصیف بیان کیں۔ جس پر مجمع جھوم اٹھا۔ پھر اس نے اپنے مخالف قبیلے کی ہجو کرنا شروع کردی۔ جو سال گزشتہ اسکے قبیلے سے شکست کھا چکا تھا۔ ہجویہ اشعار سننے کے بعد مجمع تحسین و نفرین کی چیخوں سے ابل پڑا۔ اور تلواریں میان کےپردوں سے نکل کر عیاں ہوگئیں۔ اچانک ایک کار آزمود ہ شخص اٹھا اور اس نے مجمع کو وعظ و نصیحت کے بلیغ اسلوب سے متاثر کیا اوراسکے غیض و غضب سے بھرے جزبات کو ٹھنڈا کر دیا۔
مجمع میں ایک خاموش نوجوان ، عمر بیس سال سے کچھ زیادہ ۔ مضبوط کسرتی جسم ، بالا بلند اتنا کہ مجمع میں سب سے زیادہ بلند سب سے زیادہ نمایاں۔، رنگ میدہ اور شہاب ، انتہائی خاموشی سے اشعار سنتا اور سر دھنتا۔ اسکو مجمع کے غیر ضروری شور و غل سے کوئی سروکار نہ رکھتا ۔ گویا اسے اس قبیلے سے کوئی تعلق نہ تھاجسکی مفاخرت کے اشعار ببناگ دہل سنائے گئے تھے۔ اور نہ ہی اس قبیلے سے شناسائی تھیں جس کی ہجو شاعر نے کی تھی۔ قصیدہ ختم ہوا۔ اور مجمع کار آذمودہ شخص کی تلقین سننے کے بعد فرو ہو گیا۔ نوجوان انتہائی تیز قدم اٹھاتے مجمع سے نکلا۔ نوجوانوں کی ایک ٹولی اسکا پیچھا کرنے لگ گئی۔ اور اسکو باتوں میں الجھانے کی کوشش کرنے لگی۔ نوجوان چونکہ بلند قامت تھا۔اسلیے اس کے قدم دور دور پڑتے تھے۔ اور وہ اپنی بلند قامتی کے باعث آہستہ چل ہی نہ سکتا تھا۔ہوتے ہوتے بات بڑھ گئی۔ اور گفتگو میں شدت اور کرختگی پیدا ہو گئی۔
نوجوان کی آنکھیں سرخ ہو گئی۔ اور غیض و غضب کے انگارے اسکے چہرے کو جھلسانے لگے۔اس نے ایک انتہائی گہرا سانس لیا۔ اور ڈوب کر کہا
“تم مجھے اس چھوکرے سےڈراتے ہوں ۔ مین خطاب کا بیٹا نہ ہوں اگر ہاتھ ملتے ہی اس کو زمین پرنہ دے مارا”
یہ کہہ کر وہ اور تیز چلنے لگ گیا۔ اور اسکے ساتھی اسکا تعاقب کرنے لگ گئے۔ چنانچہ یہ ٹولی ایک اکھاڑے میں پہنچی ۔ جہان بہت سے دیو ہیکل تنو مند نوجوان پہلے سے موجود تھے۔ اور ایک جوڑی چھوٹی ہوئی تھی۔ ایک پہلوان دوسرے پہلوان کے سینے پر بیٹھا ہوا تھا۔ عمر کو آتے دیکھ کر سب نے راستہ چھوڑ دیا۔ اور سارے تماشائیوں سے جا ملے۔ کیونکہ انھیں یقین تھا کہ عمر کشتی دیکھنے نہیں ، بلکہ کشتی دیکھانے آیا ہے۔ عمر نے مجمع میں داخل ہوتے ہی ایک نگاہ لوگوں پر دوڑائی۔ اور اس نوجوان کو دعوت مبارزت دے ڈالی۔ جسکے متعلق راستے میں عمر نے گفتگو کی تھیں۔ نوجوان مسکراتا ہو ا اکھاڑے میں اتر ا۔ اپنے اوپر مکمل اعتمادکیساتھ،نوجوان جسمانی صلاحیتوں سے مالا مال تھا۔ اسکا عمر کے ساتھ یہ پہلا مقابلہ تھا۔ کیونکہ وہ اپنے قبیلے کے ساتھ
پہلی بار عکاط کے میلے میں شرکت کرنے آیا تھا۔ لیکن جب سے آیا تھا حریفوں کے کشتے کے پشتے لگا چکا تھا۔ اور ایک ناقابل شکست فاتح کے طور پر ابھر چکا تھا۔ عمر کی دعوت مبارزت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی۔ اور مردوں و عورتوں سے اکھاڑا کھچا کھچ بھر گیا۔ مردوں کے مانند وعورتوں اورلڑکیوں کو بھی اس مقابلے کے نتیجے کا بے صبری سے انتظار ہونے لگا۔کیونکہ ابن خطا ب نے گزشتہ مقابلوں میں نا کامی کا منہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اور ادھر بدوی نوجوان برابر اپنے حریفوں کو شکستوں سے دوچار کر چکا تھا۔ اسلیے جذبات و احساسات دونوں طرف بام عروج پر تھے۔
لڑائی شروع ہوئی ۔ ابتداء میں عمر نے بدوی نوجوان کو موقع دیا۔ اور اسکے بدویانہ داؤ پیچ سے خود کو بچاتے رہے۔ بدوی نوجوان کی پھرتی ایک خلقت کو کھینچ کر لائی تھیں۔ اور لوگوں کا خیال تھا کہ شاید یہ نوجوان عمر کو بھی پچھاڑ دے۔ کشتی زور وشور سے جاری رہی۔ نوجوان نے اپنے ترکش کے سارے تیر آزما دیے ۔ مگر خطاب کے بیٹے پر کوئی ایک بھی آزمودہ ثابت نہیں ہو ا۔ آخر کا ر بدوی نوجوان کا سانس پھول گیا۔ اور تھکن کے آثار اسکے چہرےپر نمایاں ہونے لگے۔ تب ابن خطاب نے ایک جھپٹ لگائی اور اسکے کندھوں پر سوار ہو کر دیکھتے ہی دیکھتے اسے چاروں شانے چت زمین پر گرا دیا۔ فضا تحسین کے نعروں سے گونج اٹھی۔اور مجمع میں خطاب کے بیٹےکی پہلوانی کے سابقہ کمالات دہرائے جانے لگے۔
مرد و عورتیں اس نجیب الطرفین قریشی نوجوان کی تعریف وتوصیف کے قصیدے پڑھنے لگیں۔شام ہوئی، تماشائی اپنی راہ چلے گئےاور عمر اپنے دوستوں کے ساتھ میلے کا چکر کاٹنے لگے۔ نگاہیں انکی تحسین کر رہی تھیں، دوست اسکی طاقت کے گن گارہے تھے ۔اور بطور جواب اسکی ایک مسکراہت کے طالب تھے جو گویا انکی تقدیر میں نہ تھیں۔ کیونکہ برسوں کی برسات میں وہ کبھی خطاب کے بیٹے کے لبوں پرایک بار کے لیے ظاہر ہوا کرتی تھیں۔لڑکیاں خطاب کے بیٹے کو دیکھ کر سرگوشیاں کرنے لگتی۔ اوراسکی نگاہ قبول کی بے انتہاء امیدوار بنتی۔ انکی بے چین نگاہیں انکے دلوں کی دھڑکنوں کاپیام عمر تک پہنچاتیں ۔ جسکا جواب ایک تبسم بن کر ابن خطاب کے لبوں پر کھیلنے لگتا۔
کمنت کیجے