بیسویں صدی کی ابتدا میں ایک نئے نظام کی تشکیل’مجلسِ اقوام‘ کی صورت میں کی گئی لیکن اس کی ناکامی کے بعد دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر ’اقوامِ متحدہ کی تنظیم‘ وجود میں لائی گئی اور اس کی ’سلامتی کونسل‘ کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی ایسی ریاست کے خلاف فوجی اقدام کرے جس سے’عالمی امن کو نقصان کا خطرہ‘ ہو ۔ اس کونسل میں پانچ ریاستوں کو ، جو دوسری جنگِ عظیم میں فاتح تھیں، مستقل رکنیت دی گئی اور انھیں ’ویٹو‘کا حق بھی دیا گیا۔ سوویت یونین کے بکھر جانے، نائن الیون کے بعد کی دنیا اور انٹرنیٹ کے انقلاب کے بعد اقوامِ متحدہ تقریباً غیر متعلق ہوگئی ہے۔اس کے غیر متعلق ہوجانے کی سب سے بڑی شہادت ابھی پچھلے دنوں ایران پر اسرائیلی و امریکی جارحیت نے دی جب اس پورے تنازعے میں اقوامِ متحدہ کی تنظیم کا کوئی کردار کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ اقبال نے مجلسِ اقوام کے متعلق جو کچھ کہا تھا، وہ آج اقوامِ متحدہ پر صادق آتا ہے:
بے چاری کئی روز سے دم توڑ رہی ہے
ڈر ہے خبرِ بد نہ مرے منہ سے نکل جائے
یہ درست ہے کہ کسی مستقل رکن یا اس کے اتحادی کے خلاف سلامتی کونسل کوئی اقدام نہیں کرسکتی کیونکہ ایسے کسی بھی اقدام کو مستقل رکن ’ویٹو‘ کے ذریعے روک سکتا ہے، لیکن ماضی میں سلامتی کونسل کا اجلاس تو ہوتا تھا اور کارروائی کی کوشش تو ہوتی تھی۔ مثلاً 1950ء میں سلامتی کونسل نے شمالی کوریا کو جارحیت کا مرتکب قرار دیا لیکن اس کے خلاف فوجی اقدام کو روس نے ویٹو کردیا۔ 1956ء میں اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے سویز کینال کے مسئلے پر مصر کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا، تو سلامتی کونسل نے اس پر کارروائی کی کوشش کی جسے برطانیہ اور فرانس نے ویٹو کیا۔ 1979ء میں جب روس نے افغانستان میں فوجیں داخل کیں، تو اس کے خلاف سلامتی کونسل کی کارروائی کو روس نے ویٹو کیا۔ تاہم ان تینوں مواقع پر سلامتی کونسل کی کارروائی کو روک دینے کے بعد معاملہ جنرل اسمبلی میں لایا گیا اور تینوں مواقع پر جنرل اسمبلی نے ’امنِ عالم کےلیے اتحاد‘ کے نام پر قراردادیں منظور کرکے جارح ریاست کے خلاف عالمی راے عامہ ہموار کی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ شمالی کوریا کے خلاف فوجی کارروائی کرنے والے اتحاد کو اخلاقی جواز مل گیا، سویز کینال بحران میں برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کو فوجیں واپس بلانی پڑیں اور صحراے سینا کا قبضہ واپس مصر کو دینا پڑا اور افغانستان کے مسئلے میں مزاحمت کاروں کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی۔
نوے کی دہائی میں پہلی بار سلامتی کونسل نے عملی کارروائیاں کیں۔ چنانچہ جب اگست 1990ء میں عراق نے کویت پر قبضہ کیا، تو سلامتی کونسل نے اسے جارحیت قرار دے کر عراق کو کویت سے نکل جانے کا حکم دیا۔ اس کی خلاف ورزی پر جو ممالک عراق کے خلاف فوجی کارروائی کرنا چاہتے تھے ان کے اتحاد کو جنوری 1991ء میں سلامتی کونسل نے حملے کا اختیار تفویض کردیا۔ اگلے چند سالوں میں سلامتی کونسل نے اس طرح کی کئی کارروائیوں کےلیے اختیار تفویض کیا اور بعض مواقع پر (جیسے یوگوسلاویا اور روانڈا میں) باقاعدہ فوجداری عدالتیں تشکیل دے کر جنگی جرائم کے مرتکبین کو سزا دینے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔
تاہم نائن الیون نے دنیا تبدیل کرلی۔ امریکا زخم خوردہ تھا اور وہ اپنے مخالفین کو ملیا میٹ کرنے پر تلا ہوا تھا۔ چنانچہ اس نے سلامتی کونسل سے منظوری کے بغیر افغانستان پر حملہ کیا، لیکن اس حملے سے قبل اتنا ضرور ہوا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلا کر اس سے نائن الیون کے واقعات کو دہشت گردی قرار دے کر طالبان سے مطالبات کیے گئے اور تمام ریاستوں کو ان کے ساتھ تعاون سے روک دیا گیا۔ 2003ء میں عراق پر حملے سے قبل بھی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا گیا اور عراق سے کچھ مطالبات بھی کیے گئے، پھر حملے کی اجازت کےلیے برطانیہ کی خواہش پر قرارداد بھی لائی گئی، لیکن روس اور فرانس کی جانب سے ویٹو کے خطرے کی وجہ سے اس پر ووٹنگ نہیں کی گئی اورسلامتی کونسل کی اجازت کے بغیر امریکا اور برطانیہ نے عراق پر حملہ کیا۔ افغانستان پر حملے کی طرح عراق پر حملہ بھی بین الاقوامی قانون کی رو سے یکسر ناجائز تھا۔ تاہم دونوں مواقع پر سلامتی کونسل کا کچھ نہ کچھ کردار رہا۔
اس دفعہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ایران کے خلاف اسرائیل نے بلا جواز حملہ کیا، لیکن سلامتی کونسل کا اجلاس نہیں بلایا گیا۔ فریقین کی جانب سے ایک دوسرے پر میزائل برسائے گئے اور پھر امریکا بھی جنگ میں کود پڑا اور اس نے ایران کے خلاف بدترین جارحیت کا ارتکاب کیا، جواب میں ایران نے قطر اور چند دیگر ممالک میں امریکی فوجی اڈوں پر حملہ کیا، لیکن اقوامِ متحدہ اس پورے معاملے سے یکسر لاتعلق نظر آئی اور اس کے سیکرٹری جنرل چند رسمی بیانات تک محدود رہے۔
دوسری طرف ’جی-سیون‘ کی تنظیم نے سربراہان کا اجلاس بلایا اور اپنا وزن امریکا اور اسرائیل کے حق میں ڈال دیا۔ جی-سیون میں تین ممالک (امریکا، برطانیہ اور فرانس) تو پہلے ہی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں اور انھیں وہاں ویٹو کا اختیار بھی حاصل ہے۔ پھر انھیں اقوامِ متحدہ سے ماورا ایک اور ادارہ کھڑا کرنے اور فیصلہ سازی کا ایک اور فورم بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا جی-سیون نے سلامتی کونسل کے ’پی-فائیو‘ (پانچ مستقل ارکان) کی جگہ لے لی ہے؟ جی-سیون نے ہی ’فنانشل ایکشن ٹاسک فورس‘ کے نام سے ایک مستقل الگ نظام بنایا ہے جو اقوامِ متحدہ سے بالا بالا مختلف ممالک کو کبھی ’گرے لسٹ‘ میں تو کبھی ’بلیک لسٹ‘ میں ڈالتی ہے اور دھونس دھڑلے سے ان سے اپنی مرضی کے فیصلے منواتی ہے۔ یاد رہے کہ 1997ء میں جی-سیون میں روس کو بھی شامل کیا گیا اور اسے ’جی-ایٹ‘ کہا جانے لگا، لیکن 2014ء میں روس اس تنظیم سے نکل گیا اور یہ واپس جی-سیون ہوگیا۔
1996ء میں چین اور روس نے قزاقستان، کرغیزستان اور تاجکستان کے ساتھ مل ’شنگھائی-فائیو‘ کے نام سے تنظیم بنائی۔ 2001ء میں اس میں ازبکستان کو بھی شامل کیا گیا اور اسے ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ (ایس سی او) کا نام دیا گیا۔ 2017ء میں پاکستان اور بھارت بھی اس کے رکن بنے؛ اور 2021ء میں ایران اور 2022ء میں بیلاروس کو بھی رکنیت ملی۔ ان کے علاوہ منگولیا اور افغانستان کو ’مبصر‘ کی حیثیت جبکہ سری لنکا، ترکیہ، کمبوڈیا، آزربائیجان، نیپال، آرمینیا، مصر، قطر، سعودی عرب، کویت،مالدیپ، میانمر (برما)، متحدہ عرب امارات اور بحرین کو ’ڈائیلاگ پارٹنر‘ کی حیثیت دی گئی ہے۔ ایران پر اسرائیل کی جارحیت کے خلاف ایس سی او نے واضح موقف اختیار کیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت نے اس موقف سے خود کو الگ کیا۔
اقوامِ متحدہ کی تنظیم قصۂ پارینہ بننے جارہی ہے۔ پرانے عالمی نظام سے چمٹے رہنے کے بجاے ہمارے پالیسی سازوں، تجزیہ کاروں اور دانشوروں کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ نئے عالمی نظام کی تشکیل کن خطوط پر کی جارہی ہے اور اس میں ہمارے لیے کیا امکانات اور خدشات ہیں؟
دیکھا ہے ملوکیتِ افرنگ نے جو خواب
ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے۔
بشکریہ روزنامہ 29 نیوز
کمنت کیجے