قیصر صاحب احمد راجہ وغیرھم عموما سائنس پر فلسفہ سائنس کی پوزیشن لے کر تنقید کرتے ہیں۔ اس نقد کا ایک بنیادی مسئلہ اُن کی جانب سے خود سائنسی طریق کار اور کارٹیزن طریق کار میں فرق نہ کرنا ہے اور اگر وہ یہ فرق کرتے ہیں تو وہ سامعین کو اس سے فرق سے متعلق خبردار نہیں کرتے۔ جس سے مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ فرق سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ عموما سائنس کے خصائص کو ہم (اس فرق کے نہ پہچانے کی وجہ سے) خامیاں سمجھتے ہیں اور اسی وجہ سے ایسے لوگوں کا نقد کارگر ہوتا ہے۔
ہمارا عمومی مزاج اور تربیت — خاص طور پر مذہبی لوگوں کی تربیت کارٹیزن طرز استدلال سے قریب تر ہوتی ہے۔ کارٹیزین طریق کار میں علم کی عمارت فورا زمیں بوس ہوجاتی ہے اگر ذرا سا شک بھی پیدا ہوجائے۔ اس کے برعکس سائنس کی پوری عمارت ویسے ہی کھڑی رہتی ہے صرف وہ حصے مسئلہ بنتے ہیں جن کی تغلیط کردی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر سائنسدانوں کے باہمی اختلافات کو مکمل تھیوریوں کے رد کرنے یا ان تھیوریوں سے حاصل ہونے والے علم کو غلط ثابت کرنے کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا ٹھٹھہ اڑایا جاتا ہے کہ لو کل سائنس کچھ کہہ رہی تھی اور آج سائنس یہ کہہ رہی ہے۔ حالانکہ یہی سائنس کا “طریقہ” ہے۔ سائنس اسی طرح آگے بڑھتی ہے۔ یہ کارٹیزین مسئلہ ہے کہ جوں ہی شک پیدا ہوا تو ساری عمارت بیکار ہوگئی، یہ سائنس کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مذہب کا مسئلہ ہے کیونکہ اس کا دعوی پہلے دن آخری حقیقت تک رسائی ہے۔ سائنس کارٹیزین طرز استدلال کے برعکس صرف عمارت کے اتنے حصے پر کام شروع کرتی ہے کہ جس میں مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔
دوسرا فرق، اکثر یہ اصرار کیا جاتا ہے کہ تھیوری میں گیپ یا خلا ہیں اور اس کے باوجود یہ تھیوری قبول کی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ اس تھیوری کا پھیلاو ہوتا ہے۔ فرض کیجیے کہ ایک تھیوری مسئلہ نمبر ا، ۲، ۳ اور ۶ کو بہت اچھے سے حل کر پا رہی ہے لیکن مسئلہ نمبر ۴ اور ۵ کا حل ابھی پیش نہیں کر پا رہی اور ایک تھیوری ہے جو مسئلہ ۴ اور ۵ کا حل پیش کر پا رہی ہے لیکن ۱،۲،۳ اور ۶ کا حل نہیں ہے تو ترجیح اس تھیوری کو دی جائے گی جو زیادہ مسائل حل کر پا رہی ہے اور اسے اس وقت تک علم مانا جاتا رہے گا جب تک کوئی نئی تھیوری مسئلہ نمبر ۱،۲،۳، اور ۶ کے علاوہ مسئلہ نمبر ۵ یا مسئلہ نمبر ۴ میں سی کسی ایک یا دونوں کا حل پیش نہیں کردیتی۔ اس لیے وہ تمام لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ دیکھیں ڈارون کے مقابلے میں فلاں کی تھیوری قبول نہیں کررہے تو اس میں سائنسدانوں کے پیش نظر اس کی
explanatory value
ہوتی ہے کہ دو تھیوریوں میں سے کونسی زیادہ چیزوں کا حل پیش کر پا رہی ہے۔ اس کو دائروں کی طرح سمجھا جاسکتا ہے، چھوٹا دائرہ اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک اس کے گرد اس سے بڑا دائرہ لگا نہیں دیا جاتا اور اگر آپ کو دونوں دائروں سے بڑا دائرہ کھینچنا ہے تو پہلے لگے چھوٹے اور بڑے دونوں دائروں سے بڑا دائرہ کھینچنا ہوگا۔ سائنس میں تھیوری اس نوعیت کی ویلیو رکھتی ہے۔ اس کے بغیر نئی تھیوری پرانی تھیوری کو ناکارہ نہیں کرسکتی۔
تیسرا فرق، یہ فرق سے زیادہ ایک ایسا فیشن ہے جس کو ایڈریس کرنا ضروری ہے اور وہ موجودہ سائنسی طریق کار کو نا سمجھنے سے پیدا ہو رہا ہے۔ یہ فیشن کسی خاص موضوع پر ریسرچ پیپرز پڑھنے کا ہے۔ سائنسی علم کو علم بنانے میں ریسرچ پیپرز بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان کو پاپولر لٹریچر (پاپولر لٹریچر بہت اہم ہے لیکن اس کی نوعیت مختلف ہے) کی طرح نہیں استعمال کرنا چاہیے۔ سائنسی علم ان پرچوں میں بہت مراحل سے گزرنے کے بعد سامنے آتا ہے۔ یہ سائنس دان کا کام ہے کہ وہ اس لٹریچر سے متعلق کوئی رائے باندھ سکے۔ مثال سے سمجھ لیتے ہیں، سائنسدان جب کسی خاص موضوع پر فرض کیجیے اسٹرنگ تھیوری پر کام شروع کرتا ہے تو سب سے پہلا کام اس خاص میدان میں ہونے والی ابحاث سے مناسبت پیدا کرنا ہے۔ صرف اسٹرنگ تھیوری پر اس وقت ۱۳۰۰۰ سے کے قریب پرچے شائع ہوچکے ہیں۔ محقق اس لٹریچر سے مناسبت پیدا کرتا ہے اور اس مناسبت پیدا کرنے سے پہلے اسے طبیعات میں ایک خاص تربیت سے گزرنا پڑتا ہے اس کے بعد جا کر وہ اس لٹریچر کی طرف رجوع کرتا ہے اور پھر وہ یہ طے کرنے لائق ہوتا ہے کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔ یہ کام میں اور آپ نہیں کرسکتے اور نہ قیصر احمد راجہ کرسکتے ہیں۔ قیصر صاحب یا میں، چند مشہور پرچوں اور مشہور سائنسدانوں کے کام کو اٹھا کر اور آدھ ادھورا سمجھ کے ایک دوسرے پر چیخ چلا سکتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
قصہ مختصر، کارٹیزین طرز استدلال کے زیر اثر سائنس طرز استدلال کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے پہلے کارٹیزین طرز استدلال کو ایک طرف رکھ دیجیے اور پھر دیکھیے کہ سائنس کیسے کام کرتی ہے۔ اور اسی لیے سائنس میں نکلنے والی خامیوں پر گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ خوش ہونا چاہیے کیونکہ یہ اس کا امتیاز ہے اور گھبرا کر اس میں مذہبی صفات تو بالکل نہیں داخل کرنی چاہیے بلکہ سچ یہ ہے کہ کسی بھی علم کی ناکامی پر نہیں گھبرانا چاہیے کیونکہ اگر ایک علم ناکام ہوگا جب ہی تو بہتر اس کی جگہ لے سکے گا!
کمنت کیجے