Home » سود اور منافع میں بنیادی فرق
فقہ وقانون

سود اور منافع میں بنیادی فرق

سود اور منافع، دونوں ہمارے معاشرے میں رائج الفاظ ہیں۔ ان کے استعمال سے اسلامی احکام سمجھنے میں بعض اوقات غلط فہمیاں لاحق ہوتی ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم اسلامی قانون کی اصطلاحات، رِبا اور رِبح، میں فرق کی بات کریں۔
رِبا حرام ہے، رِبح حلال ہے۔ دونوں میں فرق کیا ہے؟
ربا کی تعریف کل بتا دی گئی۔ اس تعریف کی رو سے ربا کے وجود کےلیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے:
ایک، یہ کہ “بیع” ہو، یعنی مال کا مال کے ساتھ تبادلہ ہو؛
دوسری، یہ کہ اس تبادلے کے معاہدے میں ایک فریق کےلیے اضافے کی شرط رکھی جائے جس کا ماننا دوسرے فریق کےلیے لازم ہو؛ اور
تیسری، یہ کہ اس اضافے کے مقابلے میں دوسرے فریق کو ایسا کچھ نہ ملے جو شرعاً اس اضافے کا عوض بن سکے۔
اب ربح، جسے ہمارے ہاں کاروبار کا منافع کہتے ہیں، کیا ہوتا ہے؟
امام کاسانی کہتے ہیں کہ ربح کا مستحق ہونے کےلیے تین میں کسی ایک چیز کا ہونا ضروری ہے:
مال، عمل یا ضمان (نقصان اٹھانے کی ذمہ داری)۔
تاہم آگے وہ خود واضح کرتے ہیں کہ “صرف مال” پر آپ ربح نہیں لے سکتے، کہ یہ تو ربا ہوجائے گا؛ مال پر ربح آپ تب لے سکتے ہیں، جب اس مال کو پہنچ سکنے والے نقصان کی ذمہ داری (ضمان) بھی آپ اٹھائیں؛ بہ الفاظِ دیگر، آپ مال کی وجہ سے نہیں، بلکہ ضمان المال کی وجہ سے ربح کے مستحق ہوتے ہیں۔
چنانچہ اگر مضاربہ میں رب المال نے یہ شرط رکھی کہ مال تو میں دے رہا ہوں، لیکن نقصان کےلیے میں ذمہ دار نہیں ہوں گا، تو وہ ربح کا مستحق بھی نہیں رہ جاتا اور صرف راس المال ہی لے سکتا ہے۔
اسی طرح امام کاسانی واضح کرتے ہیں کہ “صرف عمل” پر آدمی “اجرت” کا مستحق ہوتا ہے، نہ کہ ربح کا؛ اور یہ کہ ربح کا مستحق وہ تب ہوتا ہے جب وہ عمل کو پہنچ سکنے والے نقصان کی ذمہ داری بھی اٹھائے؛ یعنی عمل نہیں، بلکہ “ضمان العمل” آپ کو ربح کا مستحق بناتا ہے۔
چنانچہ اگر عمل کرنے والے نے یہ شرط رکھی کہ اسے نقصان سے غرض نہیں، بس اسے اس کے عمل کا معاوضہ چاہیے، تو یہ مضارب نہیں ہے، بلکہ عامل, یعنی ملازم ہے جو عمل پر اجرت کا مستحق ہوتا ہے؛ مضارب وہ تب بنتا ہے جب وہ اس پر راضی ہو کہ نقصان کی صورت میں اس کا عمل ضائع ہو؛ یہ مان کر وہ ربح کا مستحق ہوجاتا ہے۔
تیسری بنیاد جو امام کاسانی نے ذکر کی، وہ تو ہے ہی ضمان کی۔ مثلاً دو آدمی خالی ہاتھ ہیں لیکن وہ لوگوں کے نزدیک قابلِ اعتماد ہیں، وہ کسی دکاندار سے سامان خریدیں کہ اس کی قیمت (ثمن) وہ یکم تاریخ کو ادا کریں گے اور دونوں آدھی آدھی قیمت کےلیے ذمہ دار ہوں گے، پھر وہ یہ چیز آگے فروخت کریں اور اس میں ربح ملے، تو وہ دونوں اس ربح میں آدھے آدھے کے مستحق ہوں گے۔
یوں ربح کی تین بنیادیں یون گئیں: ضمان المال، ضمان العمل اور ضمان؛ اور خلاصہ یہ ہوا کہ ضمان ہی ربح کے استحقاق کی بنیاد ہے۔
یہی بات ہے جو حدیث مبارک میں یوں بیان ہوئی ہے کہ:
الخراج بالضمان (منافع کے حصول کا استحاق نقصان کی ذمہ داری اٹھانے پر ملتا ہے)۔
یہ اصول – الخراج بالضمان – ناجائز ربا اور جائز ربح میں فرق کےلیے معیار کی حیثیت رکھتا ہے؛ یہ ایک yardstick ہے؛ یہ litmus        test ہے جس پر بہت آسانی سے معلوم کرکے بتایا جاسکتا ہے کہ ربا کہاں ہے اور کہاں نہیں ہے۔
یقین نہ ہو، تو مختلف معاملات پر اس اصول کا اطلاق کرکے خود ہی دیکھ لیجیے۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ شریعہ وقانون کے چیئرمین ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ذیلی ادارہ شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

(mushtaq.dsl@stmu.edu.pk)

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں