ڈاکٹر زاہد مغل / مشرف بیگ اشرف
قرآن و سنت کے مابین باہمی ربط کے ضمن میں بیان کی بحث کلیدی اہمیت کی حامل ہے اور جناب غامدی صاحب نے اس حوالے سے یہ موقف اپنایا ہے کہ بیان کے لغوی طور پر دو معنی ہیں جو کسی مشترک لفظ کے دو معانی کی طرح بیک وقت مراد نہیں لئے جاسکتے:
1) اظہار الشيء: یعنی کسی شے کو ظاہر کرنا یا اس کا بعینہ ابلاغ کرنا
2) اظہار ما فی الشيء: اس موجود شے کی شرح و وضاحت کرنا ہے۔ غامدی صاحب کا “شرح و وضاحت” کا تصور بھی منفرد ہے جس میں وہ سابقہ کلام کا بیان تفسیر، بیان تخصیص و تقیید اور بیان نسخ شامل نہیں کرتے جیسا کہ اصول فقہ کے ماہرین کرتے ہیں۔ ان کے ہاں اس میں سابقہ کلام کے صرف ایسے اطلاقات شامل ہوتے ہیں جو کلام کی پیدائش کے وقت ہی سے اس میں لغوی و عقلی طور پر مضمر ہوتے ہیں اور ایک مجتہد متکلم کی مراجعت کے بغیر انہیں جان سکتا ہے۔ غامدی صاحب کے نظام فکر میں احادیث (جنہیں وہ اخبار احاد کہتے ہیں) میں مذکور توضیحات کا دائرہ صرف یہی احکام ہیں جس کے لیے وہ “بیان فرع” کی اصطلاح بھی برتتے ہیں۔ ہم نے ان کے تصور “بیان شرح” پر جو غور و خوض کیا اور ان کی فقہی جزئیات کا تجزیہ کیا، اس کے مطابق علمی اصطلاحات کے رو سے بیان شرح کے اس تصور میں صرف تین امور ہونے چاہیئں:
الف) تخریج مناط (عقلی استنباط علت)
ب) تحقیق مناط (علت یا معنی کا انطباق)
ج) کسی محتمل الوجوہ حکم کے اطلاق کی ترجیح جو غیر وجوبی ہوتی ہے۔
ان کے علاوہ ایک اور صورت “بیان فطرت” کی بھی ہے لیکن وہ قرآن سے متعلق نہیں۔ قرآن کے حوالے سے غامدی صاحب کے مطابق نبیﷺ کے فرض منصبی میں قرآن کو بعینہ پہنچانا تھا (اس کے علاوہ وہ ایک خاص مفہوم کی سنت پہنچانے کو بھی لازمی سمجھتے ہیں)، اور قرآن کی ان کے مفہوم والی شرح و وضاحت اس فرض منصبی میں شامل نہیں، اس کے برعکس اصولیین کی علمی روایت میں قرآن کی شرح بمعنی بیان تفسیر، تخصیص، تقیید و نسخ بھی نبیﷺ کا فرض منصبی تسلیم کی گئی ہے (البتہ بعض شوافع بیان نسخ کے قائل نہیں رہے)۔ اس بحث میں سورۃ النحل آیت 44 کلیدی اہمیت کی حامل رہی ہے:
وَأَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلذِّكۡرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيۡهِمۡ وَلَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ (۴۴)
اس آیت میں چونکہ “تبيين ما نزل إليهم” کو نبی کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے، اس لئے غامدی صاحب نے بھی اپنے تصور بیان پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے اس آیت کی ایسی توجیہ کی جو ان کے نظریہ بیان سے ہم آہنگ ہو۔ آیت کے حوالے سے ان کا موقف یہ ہے کہ یہاں “تبيين ما نزل إليهم” سے مراد قرآن کو “بلا کم وکاست” پہنچانا ہے نہ کہ اس کی شرح و وضاحت، یعنی یہاں بیان پہلے (اظہار الشیئ کے) معنی میں آیا ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ بنا کہ “(اے نبی جی) ہم نے یہ یاد دہانی آپ کی طرف اِس لیے اتاری ہے کہ آپ اسے بے کم و کاست ان لوگوں تک پہنچا دیں تاکہ اُس کی روشنی میں اُن حقائق کو سمجھ سکیں جن کو سمجھانا خدا کے پیش نظر ہے”۔ اس موقف کی تائید میں ان کا کہنا ہے کہ ہماری تفسیری روایت نے بھی اس آیت کے دو معنی لیے ہیں اور ان کے طے کردہ دوگانہ معانی اس علمی روایت کی صدائے بازگشت ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے بعض مفسرین (علامہ طبری (م 310 ھ)، علامہ زمخشری (م 535 ھ)، امام رازی (م 606 ھ) اور علامہ ابن کثیر (م 774 ھ)) کو نمونے کے طور پر پیش کیا ہے تاہم ان کا اصل تکیہ تیونس کے مشہور مالکی عالم علامہ ابن عاشور (م 1393 ھ / 1973 ء) پر ہے جنہوں نے ان کے مطابق وضوح کے ساتھ اس آیت کے تحت ان دو معانی کو لکھا جس کے یہ قائل ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن عاشور کی تفسیر “التحرير والتنوير” میں مذکور اس آیت کی دو توجیہات کو غامدی صاحب نے اپنے وضع کردہ بیان کے دوگانہ معنی سے مربوط قرار دیا اور اس سے قائم ہونے والے تاثر کو بنیاد بنا کر انہوں نے قدیم مفسرین کے ہاں بھی بیان کے اپنے وضع کردہ دو معنی کو پڑھنا شروع کردیا۔
اس تحریر میں ہم علامہ ابن عاشور کے کلام کا تفصیلی تجزیہ پیش کر کے یہ واضح کریں گے کہ ان کی دوگانہ توجیہات اور غامدی صاحب کے وضع کردہ دوگانہ معنی دو الگ سمت میں کھڑے ہیں اور حقیقت میں یہ توجیہات امت میں پہلے سے چلے آتے اس اختلاف کی بازگشت ہیں جو “قرآن وسنت کے باہمی نسخ” کے حوالے سے ہوا اور ہمارے مفسرین جو اصولی بھی تھے اسی کے ضمن میں اس آیت پر کلام کر رہے تھے۔ اس لیے علامہ ابن عاشور کی عبارت کے تجزیے سے پہلے اس آیت کے تحت ہونے والے اس اختلاف کو ایک لازمی مقدمے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
– سورة النحل آیت 44 اور کتاب وسنت میں باہمی نسخ
امام شافعی (م 204 ھ) ایک خاص بنا پر (جس کا بیان کے لغوی معنی سے کوئی تعلق نہیں) نسخ القرآن بالسنة اور نسخ السنة بالقرآن دونوں کے قائل نہ تھے اور بعض علمائے شوافع بھی آپ کے ہم نوا تھے۔ نسخ السنة بالقرآن کو ناجائز کہنے والوں کی بنیادی دلیل سورة النحل کی زیر بحث آیت ہی ہوتی تھی، اس سلسلے میں آیت سے مختلف وجوہ استدلال پیش کی گئیں جن میں سے دو کلیدی ہیں:
1) سنت قرآن کا بیان ہے نہ کہ بالعکس
2) نسخ بیان نہیں
نسخ السنة بالقرآن کی ممانعت کا قول اختیار کرنے والوں کی پہلی وجہ استدلال کے مطابق قرآن نے نبی کو اپنا “مبین” کہا ہے اور چونکہ نسخ بیان ہے (اس لیے کہ ناسخ منسوخ کی انتہائے مدت کا بیان ہوتا ہے)، چنانچہ اگر قرآن بھی سنت کو منسوخ کرنے والا ہو تو قرآن بھی سنت کا “مبیِن” ٹھہرے گا اور یوں دونوں ایک دوسرے کے “مبین” ہو جائیں گے، جبکہ آیت میں صرف نبیﷺ کو قران کا مبین کہا گیا ہے نہ کہ قرآن کو سنت کا مبین۔ برعکس صورت یعنی نسخ القرآن بالسنة کی ممانعت کی رائے کے لئے یہ کہا گیا کہ اس آیت میں نبیﷺ کو قرآن کا مبین قرار دیا گیا ہے نہ کہ ناسخ، اور نسخ بیان کے منافی ہے۔ امام رازی شافعی (م 606 ھ) نے یہ اعتراضات لکھ کر ان کے تین جوابات دئیے ہیں:
• اولا یہاں بیان بدون نسخ مراد لینے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آیت میں صرف “مجمل و تخصیص کا بیان” مراد ہو،
• ثانیا اگر مان لیا جائے کہ اس آیت میں بیان مجمل وتخصیص ہی مراد ہے تب بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سنت کا وظیفہ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ یعنی یہ دلیل ایسے مفہوم مخالف پر قائم ہے جو قابل قبول نہیں،
• اگر مان لیں کہ آیت بیان مجمل و تخصیص سے متعلق ہے تب بھی یہ نسخ القرآن بالسنة کے خلاف نہیں اس لئے کہ نسخ بیان ہی ہے جیسے تخصیص بیان ہے، فرق یہ ہےکہ اول الذکر زمانے کی تخصیص ہے اور مؤخر الذکر اعیان (یا افراد) کی
آپ جمہور کی رائے کو ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس آیت میں لفظ بیان ابلاغ و اظہار کے معنی میں آیا ہے نہ کہ صرف اجمال وتخصیص کے بیان کے معنی میں۔ آپ فرماتے ہیں:
وحمله على هذا أولى لأنه عام في كل القرآن أما حمله على بيان المراد فهو تخصيص ببعض ما أنزل وهو ما كان مجملا أو عاما مخصوصا وحمل اللفظ على ما يطابق الظاهر أولى من حمله على ما يوجب ترك الظاهر (المحصول فی الاصول)
مفہوم: اور بیان سے یہ (ابلاغ کا معنی) مراد لینا اولی ہے کیونکہ یہ پورے قرآن کے بارے میں عام ہے جبکہ اسے (سابقہ کلام کی) بیان مراد پر محمول کریں تو اس میں صرف مجمل و تخصیص کا بیان شامل ہوتا ہے اور یہ اسے نازل شدہ (قرآن) کے بعض کے ساتھ خاص کردینا ہے۔ چنانچہ (زبان فہمی کا قاعدہ ہے کہ) لفظ کے ظاہری معنی لینا اس مراد سے بہتر ہے جس سے ظاہر کو چھوڑنا پڑے (یعنی عام معنی خاص ہوجائے)۔
اسی طرح آپ کہتے ہیں:
أن النسخ لا ينافي البيان لأنه تخصيص للحكم بالأزمان كما أن التخصيص تخصيص للحكم بالأعيان (المحصول فی الاصول)
مفہوم: نسخ بیان کے منافی نہیں کیونکہ یہ حکم کی زمانوں کے لحاظ سے تخصیص ہے، جس طرح حکم کی افراد کے لحاظ سے تخصیص ہوتی ہے۔
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس آیت کے تحت اختلاف کی نوعیت یہ نہ تھی کہ “پہلے معنی دوسرے میں شامل نہیں اور دوسرے پہلے میں نہیں اور نیز ان میں تباین کی نسبت ہے”، بلکہ ان دونوں توجیہات میں لفظ کے ایک معنی کے اطلاقات میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے کہ پہلی توجیہ کے مصداق میں دوسری توجیہ کا مصداق شامل ہی شامل ہے۔ با الفاظ دیگر یہاں بات یوں ہے:
• بیان: پوری شریعت کا ابلاغ [= بیان ابتدائی + بیان بنائی]
• بیان: شریعت کے بعض کا ابلاغ [= بیان بنائی بصورت مجمل کا بیان]
یہ “ابلاغ بمقابلہ شرح و وضاحت نہیں” بلکہ “ابلاغ بمقابلہ ابلاغ” ہی ہے، بس دونوں توجیہات میں فرق یہ ہے کہ پہلی میں ابلاغ کا مفعول دوسری سے زیادہ عام ہے۔
امام رازی کے کلام میں نسخ القرآن بالسنة کے عدم جواز والوں کی طرف سے جس دلیل کی طرف اشارہ ہوا کہ نسخ رفع ہے نہ کہ بیان لہذا نسخ القرآن بالسنة جائز نہیں ہونا چاہئے، اس کا جواب علامہ آمدی شافعی (م 631 ھ) نے بھی مختلف مدارج میں دیا جس میں سے ایک نکتہ وہی ہے جو اوپر گزرا کہ یہ مقدمہ ہی قبول نہیں کہ نسخ بیان نہیں۔ دوسرا جواب بھی اوپر اجاگر ہوچکا کہ زیر بحث آیت میں عموم مراد ہونا چاہیے کہ اللہ کے نبی سب کچھ ظاہر فرمائیں جس میں نسخ بھی شامل ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
يجب حمل قوله “لتبين للناس” على معنى لتظهر للناس لكونه أعم من بيان المجمل والعموم لأنه يتناول إظهار كل شيء حتى المنسوخ، وإظهار المنسوخ أعم من إظهاره بالقرآن (الاحکام فی اصول الاحکام)
مفہوم: اللہ تعالی کے فرمان: “لتبين للناس” کو لوگوں کو ظاہر کرنے کے معنی میں ہونا چاہیے کیونکہ یہ بیان مجمل و بیان عموم (بیان تخصیص) سے زیادہ وسیع ہے کہ اس میں ہر شے کا اظہار شامل ہے حتی کہ نسخ کا بھی، اور منسوخ کا (مطلق) اظہار قرآن کے ذریعے منسوخ کے اظہار سے زیادہ وسیع اور عام ہے۔”
علامہ آمدی کا کلام اس حوالے سے بالکل واضح ہے کہ انہوں نے انہی خطوط پر جواب دیا جن پر امام رازی کا جواب تھا اور سورة النحل کی زیر بحث آیت میں پہلی توجیہ کو ترجیح دیتے ہوئے آپ نے اسے دوسری توجیہ سے زیادہ عام کہا یہاں تک کہ سنت میں مذکور نسخ بھی اس میں شامل ہوسکے۔
امام رازی و امام آمدی سے بہت قبل علامہ جصاص حنفی (م 370 ھ) نے بھی اس آیت کے تحت چلے آنے والے اس اختلاف کو اسی رنگ میں پیش کیا کہ اگر جمہور کے معنی مراد لیے جائیں تو امام شافعی کے موقف کی رو سے آیت کا جو مصداق تشکیل پاتا ہے وہ اس میں شامل ہی شامل ہے۔ مزید برآں اگر امام شافعی صاحب کا موقف مراد لے کر اس آیت کو بیان مجمل میں بند کر دیا جائے تب بھی اس سے غیر مجمل کے بیان کی نفی نہیں ہوتی کہ آیت ماسوا کی نفی پر دلالت نہیں کر رہی۔ آپ نسخ القرآن بالسنة کے جواز کے لیے سورة النحل کی اسی آیت کو بنیاد بنا کر واضح کرتے ہیں کہ نسخ چونکہ انتہائے مدت کا بیان ہی ہے لہذا اس آیت کی رو سے نسخ القرآن بالسنة بطور تبیین جائز ہوا کہ آیت کو تبیین کی تمام صورتوں پر حاوی ہونا چاہیے۔ اس کے بعد آپ کہتے ہیں کہ اگر کوئی یہ کہے کہ ‘نسخ تو بیان نہیں ہوتا لہذا نبیﷺ نسخ نہیں کرسکتے’، تو یہ محل نزاع ہی کو دلیل بنا لینا ہے کہ ہمارے اور نسخ القرآن بالسنة کے مانعین کے مابین محل نزاع اسی پر ہے کہ نسخ بیان ہے یا نہیں، لہذا مانعین کا یہ دعوی مصادرة على المطلوب ہونے کی وجہ سے درست نہیں۔ اسکے بعد آپ مانعین کی جانب سے ایک دلیل یہ بھی لاتے ہیں کہ اس آیت میں تبیین کے معنی “تبلیغ مانزل الیھم” ہے، لہذا نسخ یہاں مراد نہیں ہوسکتا۔ اس کا جواب آپ یوں دیتے ہیں:
فإن قال قائل: المراد به إظهار ما أنزل وتبليغه. قيل له: هذا أحد ما تناوله اللفظ، ولم ينف غيره من سائر ضروب البيان (الفصول فی الاصول)
مفہوم: اگر کوئی کہنے والا کہے کہ اس سے مقصود اتارے گئے کا اظہار وتبلیغ ہے، تو اس سے کہا جائے گا کہ لفظ بیان کے مصداق میں سے یہ (صرف) ایک ہے اور اس سے بیان کی دیگر صورتوں کی نفی نہیں ہوتی۔
آپ سورة النحل کی توجیہ میں بیان کی تمام انواع واقسام، خاص طور سے نسخ، کو شامل کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ اگرچہ قرآن کا اظہار اس میں شامل ہے لیکن صرف یہی شامل نہیں بلکہ بیان کی دیگر اقسام، بشمول نسخ، بھی اس میں شامل ہیں۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ امام شافعی صاحب سے اختلاف کرتے ہوئے اس آیت کے مفہوم کو “مجمل کے بیان” کے ساتھ خاص نہیں کر رہے تھے، دراصل وہ اس میں ہر قسم کا بیان شامل ہونا مراد لے رہے تھے اور محل نزاع یہ نہ تھا کہ کسی چیز کو “بلا کم وکاست پہنچانا” مراد ہے یا “اس کی صرف شرح و وضاحت کرنا” مراد ہے جیسا کہ غامدی صاحب کا خیال ہے بلکہ دونوں ہی فریق “بلا کم وکاست” پہنچانے کی بات کر رہے تھے لیکن بحث یہ تھی کہ شریعت کے کتنے حصے کا ابلاغ اس آیت کا مصداق ہے۔ یہ وہ تناظر تھا جس میں اس آیت کے تحت اصولی و تفسیری روایت یکسوئی کے ساتھ گفتگو کرتی رہی جہاں دونوں کا اتفاق تھا کہ اس آیت کے تحت نبیﷺ کی جانب سے “مجمل کا بیان تفسیر” شامل ہے اور اختلاف اس امر میں تھا کہ آیا اس کے علاوہ بھی کچھ اس میں شامل ہے یا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی توجیہ والے دوسری توجیہ والوں کو جواب دیتے ہوئے اس پر زور دیتے ہیں کہ ہماری توجیہ زیادہ عام ہے کہ اس سے پوری شریعت کے معنی شامل ہوجاتے ہیں (بشمول بیان ابتدائی و بنائی، یعنی قرآن کا وہ حصہ بھی جو بیان کا محتاج نہیں اور وہ بھی جو محتاج ہے، اور وہ سب بھی جو آپﷺ نے اس کے بیان میں فرمایا چاہے مجمل کا بیان ہو یا تخصیص و نسخ)۔ اس طرح اصولیین ابلاغ و بیان بنائی میں عموم خصوص کی نسبت قائم کرتے ہوئے اسے ان دو اطلاقات میں برتتے ہیں۔ ان دونوں استعمالات کا لفظ بیان کے دو لغوی معنی ہونے سے سرے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان سے اظہار الشیء اور اظہار مافی الشیء کے مابین تباین کی نسبت کا کوئی استدلال کیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں توجیہات میں “ابلاغ و اظہار بمقابلہ شرح” نہیں بلکہ “ابلاغ و اظہار بمقابلہ ابلاغ و اظہار” ہی ہے، بس پہلی توجیہ میں ابلاغ و اظہار کا متعلق (یعنی جس کا اظہار کیا جا رہا ہے) دوسری توجیہ کے متعلق سے زیادہ وسیع اور عام ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس بحث میں “تبیین مانزل الیھم” کے تحت “صرف قرآن بلاکم و کاست پہنچانا” کوئی بھی فریق مراد نہیں لیتا۔
اس مقدمے کے بعد اب ہم علامہ ابن عاشور کی عبارت کی وضاحت کرتے ہیں۔
– علامہ ابن عاشور کے کلام کا تجزیہ
اس تناظر کے واضح ہونے کے بعد ہم علامہ ابن عاشور کے کلام کے تجزیے کی طرف آتے ہیں۔ علامہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی جن دو توجیہات کا ذکر کیا وہ دراصل اسی بحث سے متعلق ہیں جسے اوپر اصولیین کے ہاں کتاب وسنت کے باہمی نسخ کی بحث میں ملاحظہ کیا جاچکا۔ نیز علامہ نے جہاں اپنا تفسیری شاہکار امت کو پیش کیا اور اس میں زیر بحث آیت پر کلام کیا وہیں علامہ قرافی مالکی کی “شرح تنقيح الفصول” پر ایک تفصیلی حاشیہ لکھا جس میں اس آیت پر آپ نے نسخ القرآن بالسنة کے مسئلے کے تحت گفتگو کی۔ اس حاشیے سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ آپ تبیین کی بحث میں وہی بات کررہے ہیں جو ہم اصولیین کے ہاں اس کے استعمال کے حوالے سے اوپر ذکر کر آئے۔ آپ کی عبارات کا مطالعہ کرنے سے قبل پہلے اہم نکات کو سمجھ لینا چاہئے:
سب سے پہلے علامہ ابن عاشور “تبیین” کے لغوی معنی واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ “إيضاح المعنى” ہیں یعنی معنی کو واضح کرنا۔ یہاں اس پر نظر رہے کہ علامہ کے نزدیک بھی اس کے لغوی معنی ایک ہی ہیں نیز اس معنی میں یہ بھی ملحوظ رہے کہ بیان کی حقیقت اس وقت تک نہیں پائی جا سکتی جب تک متکلم “معنی” کو واضح نہ کر دے۔
آیت پر آپ کی تفسیر کو سمجھنے کے لیے یہاں تین امور کو طے کرنا ضروری ہے:
الف) “الذكر” اور “مانزل إليهم” کے مابین ربط کی نوعیت کہ آیا دونوں کا مصداق ایک ہے یا مختلف؟ اس حوالے سے آیت کی دو توجیہات ہیں۔
ب) دونوں میں سے جو بھی توجیہ مانی جائے اس کی روشنی میں “انزال قرآن” اور “تبیین” کے مابین ربط کیا ہے؟
ج) اور اسی کے تناظر میں تبیین کی نسبت اللہ کے نبی کی طرف کس حیثیت سے ہے؟
پہلی توجیه: پہلی توجیہ کے مطابق چونکہ یہاں ضمیر نہیں لائی گئی اور یہ نہیں کہا گیا کہ “لتبينه” (تاکہ اپ “اسے” بیان کردیں)، اس لیے “مانزل إليهم” کا مصداق اور “الذكر” کے مصداق الگ الگ ہیں۔ اس کے روشنی میں تینوں امور مندرجہ ذیل ہیں:
• “ما نزل إليهم” سے “پوری شریعت” مراد ہے جسے اللہ نے اپنے نبی حضرت محمد مصطفیﷺ کو عنایت فرمایا اور تبیین سے پوری شریعت کا بیان مراد ہوا۔
• اس توجیہ پر پوری شریعت کے بیان اور قرآن کے انزال میں ربط یہ ہے کہ قرآن کے بلیغ الفاظ اور اس کے معنی کی گوناگونگی اصولی طور سے تمام شرائع کی جامع ہے۔ علامہ کے مطابق یہ ایسا ہی ہے جیسے اسی سورت کی آیت ۸۹ میں قرآن کو “ہر شے” کا جامع کہا گیا ہے۔ نیز اس آیت ۸۹ کی تشریح میں علامہ نے اس جامعیت کی تشریح میں “نبی، صحابہ اور اس امت کے علما” کی توضیحات کو بھی شامل کیا ہے۔ بالفاظ دیگر چونکہ قرآن ایسے اصول و مبادی پر مشتمل ہے کہ اس کے ذریعے سے دین سے متعلق ہر حکم شرعی کو پہچانا جاسکتا ہے خواہ وہ بالواسطہ ہو یا بغیر واسطے کے، اس لیے قرآن تمام شرائع کا جامع ہوا اگرچہ وہ سب کی سب صراحت سے قرآن میں بیان نہیں ہوئیں۔ چنانچہ یہاں بیان سے مراد صرف قرآن کے الفاظ نہیں بلکہ پوری شریعت کا بیان مراد ہے، چاہے بیان ابتدائی ہو یا بیان بنائی، یعنی قرآن میں مذکور مبیَن احکام ہوں یا سنت میں مذکور تفاصیل، چاہے وہ مجمل کا بیان تفسیر ہو یا عام کی تخصیص یا کسی حکم کا ناسخ۔ اس توجیہ پر “لام تعلیل” سے مقصود نبی کی بعثت کی “علت اصلیہ” یا مقصد حقیقی کی طرف اشارہ ہے جو ظاہر ہے کہ “پوری شریعت کا بیان” ہے اور جو کفار یہ اعتراض کرتے تھے کہ فرشتہ براہ راست ہم تک کیوں نہیں آتا انہیں باخبر کرنا ہے کہ اللہ تعالی کا مقصود صرف الفاظ کو بلا کم وکاست پہنچانا نہیں بلکہ اپنے پیمبر کے ذریعے سے اس کا بیان وتوضیح بھی مقصود ہے اور یہ اللہ تعالی کی سنت ہے۔
• تبیین کی نسبت نبی کی طرف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ نبی اس “بیان” کو لوگوں تک پہنچانے والے ہیں اس لیے اس کی نسبت اللہ کے نبی کی طرف کی گئی ہے۔
غامدی صاحب کا فرمانا ہے کہ پہلے معنی کے لحاظ سے نبی کا وظیفہ صرف “مبلغ قرآن” ہونا ثابت ہوتا ہے جو اظہار الشیء ہے، یعنی “قرآن کو بلا کم وکاست پہنچانا” جس میں آپﷺ کی توضیحات شامل نہیں۔ تاہم ان کا یہ دعوی بے محل ہے اس لئے کہ اس توجیہ میں نبی کو صرف قرآن بلاکم و کاست پہنچانے والا”مبلغ” قرار ہی نہیں دیا گیا بلکہ ساری شریعت پہنچانے والا قرار دیا گیا ہے۔ علامہ ابن عاشور جسے شریعت کہتے ہیں اس میں مجمل کا بیان وغیرہ سب شامل ہیں اور اس کے پیش نظر یہ فرض ہی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ صرف قرآن ظاہر کرنے کی بات کررہے ہوں۔ غامدی صاحب کے نزدیک قرآن پوری شریعت کا جامع ہے ہی نہیں اس لئے کہ وہ سنت کو قرآن سے مستقل ماخذ مانتے ہیں، نیز وہ قرآن میں مجمل کے قائل بھی نہیں اور نہ بذریعہ حدیث کسی حکم میں تخصیص و نسخ کے قائل ہیں جیسا کہ ابتدا میں گزر چکا، ایسے میں اپنے نظام فکر کی رو سے وہ سورۃ النحل کی آیت ۴۴ کی مراد “صرف قرآن کو بعینہ پہنچانے” کا دعوی کرسکتے ہیں (اگرچہ ان کی فکر کے اندر بھی اس پر سوالیہ نشان ہے، تاہم یہ الگ بحث ہے)۔ مگر آیت کی ایسی تفسیر علامہ ابن عاشور سمیت ان اصولیین کے حاشیہ خیال میں آنا بھی محال ہے جو قرآن میں ایسے مجملات کے قائل ہیں جن کا بیان تفسیر و تخصیص نبیﷺ کی جانب سے ہوتا ہے نیز جو اس سے آگے بڑھ کر نسخ القرآن بالسنۃ کے بھی قائل ہیں۔ نیز علامہ ابن عاشور اس توجیہ کے تحت علما کی توضیحات بھی اس آیت کے تحت شامل کرتے ہیں جو کسی بھی طرح غامدی صاحب کے مخصوص “إظهار الشيء” نہیں بن سکتیں۔ اگر ان توجیہات کو کچھ قرب ہو، تو وہ غامدی صاحب کے تصور “إظهار ما في الشيء” سے ہو۔
دوسری توجیه: علامہ ابن عاشور کے مطابق دوسری توجیہ یہ ہے کہ یہاں “ما نزل إليهم” اور “الذكر” دونوں کا مصداق ایک ہی ہے اور یہ “إظهار في موضع الإضمار” کے قبیل سے ہے کہ اگرچہ ضمیر لانا بھی کافی تھا تاہم متکلم مختلف بلاغی وجوہ سے سابقہ اسم کو کسی دوسرے عنوان سے لے آتا ہے۔ اس توجیہ کی رو سے یہاں لفظ “مجمل” مقدر ماننا ہوگا اور آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن میں جو مجمل نازل ہوا آپﷺ اس کی تبیین (یعنی بیان تفسیر) کردیں۔ علامہ ابن عاشور اصول فقہ کی کتاب میں واضح کرتے ہیں کہ دراصل یہ توجیہ امام شافعی کے موقف کے طرفداران کی جانب سے کی گئی ہے جو اس آیت کو کتاب و سنت کے باہمی نسخ کی ممانعت میں پیش کرتے ہیں جس کی تفصیل پیچھے گزر گئی۔ اس توجیہ کے روشنی میں تینوں امور مندرجہ ذیل ہیں:
• “مانزل إليهم” سے قرآن مراد ہے اور تبیین سے قرآن کی وہ تفصیلات مراد ہیں جو آپﷺ کی وضاحت کی محتاج ہیں جیسے مجمل کا بیان تفسیر۔ اس توجیہ پر یہاں قرآن کا وہ بعض حصہ مراد ہے جو نبیﷺ کی توضیحات کا محتاج ہے اور مطلب یہ ہوا کہ آپﷺ قرآن کے مجمل امور کی تفسیر فرمادیں، یوں اس توجیہ کی رو سے پورا قرآن اور پوری شریعت کی تبیین آیت کا موضوع نہیں۔
• یہاں قرآن کے بیان اور قرآن کے انزال میں ربط یہ ہے کہ قرآن کے جو امور نبیﷺ کی وضاحت کے محتاج ہیں آپﷺ ان امور کی تبیین فرمادیں، یعنی مجمل کی تفسیر۔ اس وجہ سے علامہ فرماتے ہیں کہ یہاں “لام تعلیل” نزول قرآن سے وابستہ حکمتوں میں سے بعض امور کے لیے قرار پاتا ہے۔ علامہ نے قرآن کی اس تفسیر کے معنی کے لیے جس آیت کو نظیر کے طور پر پیش کیا وہ سورة آل عمران کی آیت ۱۸۷ ہے جس میں قرآن اہل کتاب سے لیے گئے عہد وپیمان کا تذکرہ ہے وہ اسے “بیان کریں گے” اور کتمان سے کام نہیں لیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ غامدی صاحب اس جیسی آیات کو اپنے دوگانہ معنی میں سے پہلے معنی کے لیے دلیل بناتے ہیں یعنی “بلا کم وکاست” بلاغ مبین اور شرح و وضاحت کے معنی کو اس سے الگ کرتے ہیں، لیکن علامہ ابن عاشور اسی آیت کو اس دوسری توجیہ کے تحت لا رہے ہیں جس کی بابت غامدی صاحب کا ماننا ہے کہ اس کے تحت “شرح و وضاحت” مراد ہوتی ہے (یاد رہے کہ مجمل کا بیان غامدی صاحب کے نزدیک سنت کا وظیفہ ہے نہ وہ اسے شرح کہتے ہیں)۔
• یہاں بھی تبیین کی نسبت اللہ کے نبی کی طرف اسی طرح ہے جس طرح پچھلی توجیہ میں ہے۔
علامہ ابن عاشور دوسری توجیہ کو مرجوح کہتے ہیں کیونکہ اس صورت میں لفظ “مجمل” مقدر ماننا پڑے گا اور نتیجتاً لفظ سے خاص چیز مراد ہوگی جبکہ کلام فہمی کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ جب ایک توجیہ میں متکلم کے الفاظ پر زائد بات مقدر ماننے کی ضرورت پڑے جبکہ دوسری توجیہ میں اس کی ضرورت نہ ہو اور لفظ اپنے عموم پر رہے تو دوسری توجیہ کا پلڑا بھاری ہوگا کیونکہ مقدرات ضروریات کے باب میں سے ہے اور جب ضرورت ہی نہ رہی تو انہیں اختیار نہ کرنا اولی ہوا۔ آیت کی اس دوسری توجیہ میں لفظ “مجمل” فرض کرنا ہوگا، یہ وہی بات ہے جو امام رازی نے بھی فرمائی۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب علامہ ابن عاشور کی تفسیر اور اصول فقہ کے حاشیے کی عبارات بھی ملاحظہ کرلی جائیں:
والتبيين إيضاح المعنى. والتعريف في “الناس” للعموم. والإظهار في قوله تعالى: ما نزل إليهم يقتضي أن ما صدق الموصول غير الذكر المتقدم، إذ لو كان إياه لكان مقتضى الظاهر أن يقال لتبينه: للناس. ولذا فالأحسن أن يكون المراد بما نزل إليهم الشرائع التي أرسل الله بها محمدا صلى الله عليه وسلم فجعل القرآن جامعا لها ومبينا لها ببليغ نظمه ووفرة معانيه، فيكون في معنى قوله تعالى: ونزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء [سورة النحل: 89] . وإسناد التبيين إلى النبيء- عليه الصلاة والسلام باعتبار أنه المبلغ للناس هذا البيان. واللام على هذا الوجه لذكر العلة الأصلية في إنزال القرآن. وفسر ما نزل إليهم بأنه عين الذكر المنزل، أي أنزلنا إليك الذكر لتبينه للناس، فيكون إظهارا في مقام الإضمار لإفادة أن إنزال الذكر إلى النبيء صلى الله عليه وسلم هو إنزاله إلى الناس كقوله تعالى: لقد أنزلنا إليكم كتابا فيه ذكركم [سورة الأنبياء: 10] . وإنما أتي بلفظه مرتين للإيماء إلى التفاوت بين الإنزالين: فإنزاله إلى النبيء صلى الله عليه وسلم مباشرة، وإنزاله إلى إبلاغه إليهم. فالمراد بالتبيين على هذا تبيين ما في القرآن من المعاني، وتكون اللام لتعليل بعض الحكم الحاقة بإنزال القرآن فإنها كثيرة، فمنها أن يبينه النبيء صلى الله عليه وسلم فتحصل فوائد العلم والبيان، كقوله تعالى: وإذ أخذ الله ميثاق الذين أوتوا الكتاب لتبيننه للناس [سورة آل عمران: 187].
مفہوم: تببین معنی و مراد واضح کرنے سے عبارت ہے۔ (اس آیت میں) لفظ الناس (کو الف لام کے ذریعے سے جو) معرفہ بنایا گیا ہے اس کا مقصود عموم ہے (کہ تمام انسان مراد ہیں)۔ نیز اللہ تعالی کے فرمان: “مانزل إليهم” کے ذریعے سے (لتبين کا مفعول بہ) اسم ظاہر لایا گیا ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسم موصول کا مصداق پیچھے مذکور “ذکر” سے الگ ہو کیونکہ اگر یہ وہی ہوتا تو بظاہر یوں کہا جاتا: “کہ آپ اسے لوگوں کے لئے بیان کریں”، اس لیے بہتر یہ ہے کہ “ما نزل إليهم” سے وہ احکام و شرائع مراد ہوں جن کے ساتھ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور قرآن کو اپنے بلیغ الفاظ اور کثرت معانی سے ان کا جامع ٹھہرایا۔ پس اس کے وہی معنی ہوں گے جو سورة النحل آیت ۸۹ کے ہیں کہ “ہم نے آپ پر کتاب اتاری جو ہر شے کا بیان ہے”۔ تبیین کی نسبت اللہ کے نبی کی طرف اس حیثیت سے ہے کہ وہ لوگوں تک ‘یہ بیان’ پہنچانے والے ہیں۔ اس توجیہ کے مطابق (حرف جر) لام سے مقصود قرآن اتارنے کی اصل علت کا بیان ہے۔ تاہم “مانزل إليهم” کی ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سے ذکر (یعنی قرآن) ہی مراد ہے۔ یعنی آیت کی مراد یہ ہوئی کہ: “ہم نے آپ پر یہ قرآن نازل کیا تاکہ آپ اسے لوگوں کو بیان کر دیں”۔ پس یہ ضمیر کی جگہ اسم ظاہر لانا ہوا تاکہ یہ واضح کیا جاسکے کہ نبی کی طرف قرآن کا اتارنا لوگوں ہی کی طرف اتارنا ہے جیسے سورة الأنبياء، آیت ۱۰ میں اللہ تعالی نے فرمایا: “ہم نے تم پر کتاب اتاری جس میں تمہارا ذکر ہے” نیز یہاں انزال کا تذکرہ دو مرتبہ اس بات کے اشارے کے لیے ہوا کہ دونوں قسم کے انزال میں فرق ہے: نبی کی طرف اس کا انزال براہ راست ہوا جبکہ باقی لوگوں کی طرف بالواسطہ۔ پس اس توجیہ پر تبیین سے مراد قرآن کے معانی کا بیان ہے۔ اور (حرف جر) لام سے مقصود انزال قرآن سے وابستہ حکمتوں میں سے بعض کا بیان ہے جو فی نفسہ بہت زیادہ ہیں۔ چنانچہ ان حکمتوں میں سے ایک نبی کا اسے بیان کرنا بھی ہے جس سے (مخاطبین کو) علم و بیان حاصل ہوتا ہے جیسا کہ سورة آل عمران، آیت ۱۸۷ میں اللہ تعالی نے فرمایا: “اور (یاد کرو) جب اللہ تعالی نے ان لوگوں سے عہد وپیمان لیا جنہیں کتاب دی گئی کہ وہ اسے لوگوں کو بیان کر کے رہیں گے”۔
اسی طرح علامہ نے ابن عاشور اصول فقہ کی کتاب پر اپنے حاشیے میں نسخ السنة بالقرآن پر گفتگو کرتے ہوئے امام شافعی صاحب کے موقف پر تجزیہ کیا اور وہاں بعینہ اسی آیت کے تحت یہ دو توجیہات لکھی ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
(قوله حجة الشافعي إلخ) (۔۔۔) فان الله تعالى جعل النبي مبينا للقرآن ولم يجعل القرآن بيانا وذلك وإن كان لا يقتضي الحصر لكنه اقتصار في مقام البيان لأنه مقام ذكر خصائص القرآن (۔۔۔) ويقتضي المنقول عن الشافعية أن المراد بقوله نزل إليهم هو عين الذكر وأنه إظهار في محل الإضمار وأصله وأنزلنا إليك الذكر لتبينه للناس أي ليقع بيانه منك وليس المراد من الذكر السنة إذ لا يقوله مثل الشافعي لأنها لا تسمى ذكرا ولا هي منزلة والجواب أن تعليل إنزال لذكر بالبيان لا يفهم إلا بتقدير مثل أنزلناه مجملا والأصل عدم التقدير ولا نحتاج إليه فيتعين أن يكون الذكر هو القرآن وما أنزل هو أصول الشريعة أي وأنزلنا القرآن لتبين للناس ما نزل إليهم من كليات الشريعة نحو أن الدين عند الله الإسلام ونحو شرع لكم من الدين فيكون معنى هذه ناظرا إلى معنى قوله {ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ} ولمعنى {وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ}
مفہوم: (قولہ: (اس مسئلے میں) امام شافعی کی دلیل الخ) (…) کہ اللہ نے نبیﷺ کو قرآن کا مبیِن بنایا ہے جبکہ قرآن کو (سنت کا) بیان نہیں قرار دیا، اور اگرچہ یہ (لفظی طور پر) حصر پر دلالت نہیں کرتا لیکن یہ مقامِ بیان میں (کسی ایک بات پر) اکتفا کرنا ہے جبکہ یہ قرآن کے خصائص ذکر کرنے کا مقام ہے (اس لئے اس قرینے سے حصر پر استدلال ہوسکتا ہے)۔ (…) اور شوافع سے منقول کلام کا تقاضا یہ ہے کہ آیت میں “نزل الیھم” سے مراد خود “ذکر” ہو اور یہ “ضمیر کی جگہ اسم ظاہر لانے” کے قبیل سے ہو. پس (اگر ضمیر ہی لائی جاتی تو) اصل میں عبارت یوں ہوتی: “وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَهُ لِلنَّاسِ” یعنی اپ کی طرف سے بیان ہو۔ اور (یہ بات واضح رہے کہ امام شافعی کے ہاں) یہاں ذکر سے مراد سنت نہیں کہ امام شافعی جیسی شخصیت ایسا نہیں کہہ سکتی کیونکہ سنت پر نہ لفظ “ذکر” کا اطلاق ہوتا ہے نہ تنزیل کا۔ (امام شافعی صاحب کے استدلال) کا جواب یہ ہے کہ تبیین کا نزول قرآن کی علت ہونا (اس توجیہ پر) اس وقت تک ناقابل فہم ہے جب تک کلام کی تقدیر “أنزلناه مجملا” نہ مانی جائے اور کلام میں اصل اصول مقدر نہ ماننا ہے اور (یہاں) اس کی ضرورت بھی نہیں۔ پس ثابت ہوا کہ ذکر سے مراد قرآن ہے، اور جو نازل ہوا اس سے مراد شریعت کے اصول ہیں اور مراد یہ ہوئی کہ ہم نے قرآن اس لیے اتارا کہ آپ لوگوں کو وہ شرعی کلیات بیان کریں جو آپ پر اتارے گئے جیسے قرآن کا فرمان “إن الدين عند الله الإسلام” اور جیسے “شرع لكم من الدين”۔ پس اس کے وہی معنے ہیں جو سورة القيامة، آیت ۱۹ کے ہیں: “ثم إن علينا بيانه” اور سورة النحل، آیت ۸۹ کے ہیں: “ونزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء”
یہاں نسخ السنة بالقرآن کے عدم جواز میں جسے امام شافعی کی دلیل کہا گیا ہے، یہ درج بالا دو میں سے دوسری توجیہ ہے اور دیکھا جاسکتا ہے کہ آپ اسے اس بنا پر مرجوح قرار دے رہے ہیں کہ اس صورت میں لفظ مجمل فرض کرنا پڑتا ہے جبکہ اس کی ضرورت نہیں۔ تفسیر میں درج پہلی توجیہ پوری شریعت کا بیان ہے، یہاں آپ اسے ان “اصول شریعت” کے بیان سے تعبیر کرتے ہیں جو پوری شریعت کے جامع ہیں۔ نیز دونوں توجیہات پر علامہ نے جو دوسرے قرانی نظائر پیش کیے ہیں وہ بھی دونوں جگہ یکساں ہیں۔
– ابن عاشور کے نزدیک آیت کے مصداق میں شامل امور
اگرچہ آیت کے درج بالا تجزیے ہی سے واضح ہے کہ ابن عاشور پہلی توجیہ میں وہ معنی لے ہی نہیں رہے جو غامدی صاحب کی دانست میں ان کی مراد ہے، تاہم ذیل میں ہم علامہ ابن عاشور ہی کی تفسیر وغیرہ سے ان بعض امور کی نشاندہی کیے دیتے ہیں جس سے مزید نکھر کر سامنے آ جائے کہ وہ “ما نزل الیھم” میں کیا کیا شامل کرتے ہیں:
الف) اليوم أكملت لكم دينكم: سورة المائدة آیت ۳ میں دین کی تکمیل کے سلسلے میں آپ فرماتے ہیں کہ سورة النحل کی دونوں آیات میں جس تبیین کا تذکرہ ہے، یہ آیت اس کی تکمیل ہے کہ قرآن وسنت سے جو مجموعی احکام حاصل ہوئے وہ اس تبیین میں شامل ہیں۔ چنانچہ علامہ ابن عاشور اکمال دین سے سورة النحل کی آیت تبیین کی وابستگی واضح کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ:
بحيث صار مجموع التشريع الحاصل بالقرآن والسنة، كافيا في هدي الأمة في عبادتها، ومعاملتها، وسياستها، في سائر عصورها، بحسب ما تدعو إليه حاجاتها، فقد كان الدين وافيا في كل وقت بما يحتاجه المسلمون. ولكن ابتدأت أحوال جماعة المسلمين بسيطة ثم اتسعت جامعتهم.
مفہوم: (ان آیات میں جو بیان مراد ہیں وہ) اس طرح (مکمل ہوا) کہ کتاب وسنت سے ماخوذ شریعت عبادات، معاملات اور سیاست میں تمام زمانوں کے لیے حسب ضرورت کافی ہو گئی۔ دین تو ہر وقت (یعنی اس اکمال دین کی آیت کے نزول سے پہلے بھی) مسلمانوں کے لیے ان کی ضروریات کا تکفل کیے ہوئے تھا تاہم چونکہ اسلامی سماج ابتدا میں سادہ تھا پھر (رفتہ رفتہ) اس میں پھیلاو ہوا۔
غور کیجیے یہاں “بحيث صار مجموع التشريع الحاصل بالقرآن والسنة، كافيا في هدي الأمة” میں کس قدر وضوح کے ساتھ آپ بتا رہے ہیں کہ “تبیین ما نزل الیھم” میں سنت میں مذکور امور شامل ہیں۔ یہاں واضح ہے کہ جب آپ پوری شریعت کے جامع قرآن کے بیان کی بات کرتے ہیں تو سنت اس میں لازما مراد ہوتی ہے، اور کیوں نہ ہو کہ اس کے بغیر قرآنی احکام کا بیان مکمل نہیں ہوتا!
ب)استئذان کے تفاصیل کا بیان: اسی طرح آیت استئذان کے تحت فرماتے ہیں کہ قرآن نے اس کا اجمالی حکم دیا اور اس کی تفاصیل کے لیے سنت کے حوالے کر دیا۔ اور اس حوالگی کی دلیل کے طور پر سورة النحل کی یہی زیر بحث آیت کو بنیاد بنایا۔ یہاں یہ واضح رہے کہ علامہ ابن عاشور کے ہاں پہلی توجیہ راجح ہے جس کے تحت تمام شریعت اس میں داخل ہے۔
ج) جانوروں سے رفق کا بیان: علامہ ابن عاشور کے مطابق قرآن میں اگرچہ جانوروں کے ساتھ رفق واحسان کے معاملے کے حوالے سے کوئی خاص نص نہیں آئی تاہم سورة النحل کی مذکورہ آیت ہی کے تحت اللہ کے نبی کے فرمان اور ان کا عمل جانوروں کے حوالے سے قرآن ہی کے تحت ہے۔ غور کیجیے کہ یہ دراصل شریعت کے رفق واحسان سے وابستہ آیات کا اطلاق ہے جسے غامدی صاحب “إظهار ما في الشيء” کہتے ہیں۔ اب علامہ ابن عاشور پہلی توجیہ کو راجح کرتے ہوئے اس میں وہ امور شامل کر رہے ہیں جو غامدی صاحب کے مطابق دوسری توجیہ میں ہونی چاہیے۔ (ابن عاشور، جمهرة مقالات و رسائل الشيخ الإمام محمد الطاهر ابن عاشور: 1/ 334.)
– خلاصہ بحث
اس بحث سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ علامہ ابن عاشور کا سورة النحل آیت 44 کی ترجیح یافتہ تفسیر کے تحت “شرائع” کی تعبیر برتنا اور اسی آیت کے تحت اصول فقہ کے حاشیے میں “كليات الدين” کی تعبیر لانا یہ سب ایک ہی بات سے عبارت ہیں اور وہ یہ کہ اس میں پوری کی پوری شریعت کا بیان و اظہار مراد ہے۔ یہ بات پوری احتیاط و وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ علامہ ابن عاشور کے ہاں لفظ بیان کے لغوی طور پر دو نہیں ایک ہی معنی نہیں ہیں جسے آپ “ایضاح المعنی” کہتے ہیں، آپ بھی متقدمین کی طرح صرف اس کے دو چیزوں پر اطلاق کی بات کررہے ہیں، نیز ان کے ہاں اطلاق کی اس بحث کی نوعیت “کسی چیز کو بعینہ پہنچانے” اور اس کی “شرح کرنے” کی نہیں بلکہ پورے قرآن کی شریعت ظاہر کرنے یا اس کے بعض کی شریعت ظاہر کرنے کی ہے۔ یہ بھی واضح ہوگیا کہ علامہ ابن عاشور دونوں توجیہات کو یکساں نہیں سمجھتے بلکہ آپ پہلی توجیہ کو ایک دلیل کی بنا پر ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ اصول فقہ کے حاشیے میں گزرا، ایسا نہیں جیسا کہ غامدی صاحب نے صرف التحرير والتنوير سے یہ تاثر لیا کہ علامہ نے ترجیح کے لیے کوئی دلیل نہیں دی بلکہ محض ذوقی بنیاد پر پہلے کو اختیار کرلیا۔ اس ترجیح شدہ توجیہ کی رو سے آپ کے نزدیک “مانزل الیھم” میں آپﷺ کی سنت کے بیانات شامل ہیں۔ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ پہلی توجیہ کی رو سے نہ علامہ ابن عاشور اور نہ ہی امت کے متقدمین اصولیین “صرف قرآن پہنچانا” مراد لیتے تھے۔
یوں یہ بات پورے تیقن سے کہی جاسکتی ہے کہ غامدی صاحب نے جس طرح علامہ ابن عاشور کی دو توجیہات کو اپنے طے کردہ بیان کے دوگانہ معنی کا عکس سمجھا ہے وہ درست نہیں، آپ نے لفظ کے “متعدد اطلاقات” کی بحث کو لفظ کے “متعدد معنی” کی بحث بنادیا جس کی غلطی اہل علم پر واضح ہے۔ کسی آیت کی توجیہ دو طرح ہونے کا لازماً یہ مطلب نہیں ہوتا کہ لفظ کے معنی بھی دو ہیں بلکہ ایک ہی معنی کے اطلاقات میں عموم خصوص کی نسبت سے بھی ایسا ہوتا ہے اور یہاں یہی کیفیت ہے لیکن غامدی صاحب نے اسے دو معنی قرار دے کر تباین کی نسبت بنا دیا۔
هذا ما عندنا والعلم عند الله العلي العليم!
کمنت کیجے