Home » قرآن سے راہنمائی (سوال و جواب)
تاریخ / جغرافیہ شخصیات وافکار کلام

قرآن سے راہنمائی (سوال و جواب)

ایک صاحب دانش سے، جو سیکولر انداز فکر رکھتے ہیں، کل تفصیلی گفتگو ہوئی۔ گفتگو کا ایک بڑا محور یہ سوال تھا کہ آج کے دور میں ہم سماجی اخلاقیات اور قانون وغیرہ کے باب میں قرآن سے کیوں راہنمائی حاصل کریں جب کہ قرآن کی ہدایات واضح طور پر اس دور کے تمدن میں embedded دکھائی دیتی ہیں اور ادھر انسانی سماج اور سیاست ومعیشت کے ارتقا کے ساتھ آج ہمارے پاس سماج کی تنظیم کے لیے اس سے بہتر اور ترقی یافتہ اخلاقی اصول موجود ہیں۔

سیکولر فریم ورک میں یہ سوال درست ہے۔ مولانا وحید الدین خانؒ نے غالباً‌ نہرو کے حوالے سے بھی اسی قسم کا سوال کہیں نقل کیا ہے۔ اس سوال میں قوت پیدا کرنے کا کام دو طرح کے مذہبی مواقف بھی کرتے ہیں۔ ایک، ’’اسلامی نظام’’ کا بیانیہ جو یہ باور کراتا ہے کہ تاریخ اور تمدن کے تغیرات سے پیدا ہونے والے ہر سوال اور ہر مسئلے کا ایک ریڈی میڈ حل پہلے سے اسلامی نظام میں موجود ہے، اور بس اس کو اختیار کر لینے کی ضرورت ہے۔ اور دوسرا، قرآن کی ہدایات کو دیکھنے کا وہ مذہبی زاویہ جو یہ کہتا ہے کہ جو معاملہ ’’نص’’ میں آ گیا ہے، وہ تو گویا متحجر ہو گیا ہے اور اس میں انسانی فہم وبصیرت کے لیے کرنے کا کوئی کام باقی نہیں رہا۔ تاہم یہ تو مذہبی فکر کی ایک داخلی بحث ہے۔

سیکولر انداز فکر کے حاملین کے لیے غور وفکر کا اصل سوال یہ ہے کہ ایک مذہبی معاشرے اور مذہبی تہذیب سے اپنے عقیدے، عبادات، اور انفرادی اخلاقیات کا ماخذ اپنی دینی روایت کو اور اجتماعی وسماجی اخلاقیات کا ماخذ سیکولر عقلی روایت کو بنانے کا مطالبہ کس بنیاد پر کیا جا سکتا ہے؟ یہاں اصل سوال اطلاقی اور تطبیقی نہیں بلکہ اصولی ہے، یعنی سوال یہ نہیں کہ دینی روایت، جدید دور کے ’’ترقی یافتہ’’ اخلاقی اصولوں اور اقدار کے ساتھ حسب ضرورت ہم آہنگی پیدا کر سکتی ہے یا نہیں۔ بنیادی سوال اصولی ہے، یعنی دینی روایت خود اپنے معیارات پر ہم آہنگی پیدا کرنے یا نہ کرنے کا عمل چھوڑ کر سیکولر فکر کا یہ مطالبہ کیوں تسلیم کرے کہ اجتماعی اخلاقیات کا اصل مصدر اسے ہی تسلیم کیا جائے؟ اور ایسا کرتے ہوئے دینی فکر اور روایت اپنی داخلی وحدت کو کیسے برقرار رکھے جو ہدایت الٰہی کو صرف فرد سے نہیں، بلکہ اجتماع سے بھی متعلق مانتی ہے؟ اس سوال پر کوئی سنجیدہ غور وفکر مجھے سیکولر اہل فکر کے ہاں دکھائی نہیں دیتا جو مذہبی فکر کے ساتھ کوئی بامعنی مکالمہ کرنا چاہتے ہوں۔

یہ سوال نہرو اٹھا سکتے ہیں، کیونکہ وہ دینی روایت کے ساتھ کوئی مکالمہ کر ہی نہیں رہے۔ کسی موقع پر دیکھیں گے کہ فکری سفر کی ابتدا میں قائد اعظم کے ہاں بھی یہی رجحان تھا، لیکن جیسے جیسے وہ مسلم تشخص اور مسلم شناخت کے نمائندہ بنتے چلے گئے اور جدید دور میں مسلمانوں کی تہذیبی شناخت کے سوال نے ان کے ذہن میں ایک واضح شکل اختیار کرنا شروع کی، ان کا انداز فکر اس سوال کے حوالے سے بھی تبدیل ہوتا چلا گیا۔ وہ زاویہ فکر کیا تھا اور مذہبی فکر کے مذکورہ دونوں رجحانات سے (یعنی ’’اسلامی نظام ہر مسئلے کا حل ہے’’ اور ’’نص میں زیربحث معاملہ تاریخ میں متحجر ہو گیا ہے’’) کیسے مختلف تھا، اس پر بھی بات کریں گے۔

محمد عمار خان ناصر

محمد عمار خان ناصر گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ کے شعبہ علوم اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔
aknasir2003@yahoo.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں