ہر تہذیب جب تاریخ میں تحول سے گزرتی ہے تو کافی عرصے تک تاریخ کے leftovers اس کے ساتھ رہتے ہیں جو تاریخی عمل سے گزر کر ہی کسی طرف لگتے ہیں۔ مسلم تہذیب کے leftovers تو بہت ہی زیادہ ہیں اور انھی کا بوجھ ہے جو تیز تر حرکت کے باوجود اس کے سفر کو سست رفتار رکھے ہوئے ہے، جبکہ اردگرد کی قومیں کہیں آگے نکل رہی ہیں۔ باقی چیزوں کو چھوڑیے، شیعہ سنی تقسیم کو ہی لے لیجیے۔ اس نے اولین مسلم سلطنت یعنی عرب ایمپائر کے حکمران خاندان، قریش کے اندر سامنے آنے والے ایک سیاسی تنازع سے جنم لیا تھا۔ اب وہ سلطنت قصہ ماضی ہے، وہ خاندان ایک سیاسی عصبیت کے ساتھ کہیں موجود نہیں، عرب نسل اور عرب معاشرے تاریخ میں کہیں سے کہیں پہنچ چکے ہیں، لیکن بنو ہاشم اور بنو امیہ کی لڑائی آج بھی ہمارے مذہبی تشخص کا عنوان ہے۔
مذہبی پیشواوں کی قیادت میں سیاست وحکومت کا تصور انھی میں سے ایک ہے جو شرق اوسط سے لے کر جنوبی ایشیا تک موجود ہے اور جسے تاریخ کے حوالے ہونے میں ابھی کچھ وقت لے گا۔ ہمارے خاص خطے کی حد تک غیر ریاستی جنگجو جتھے، قبائلی معاشرے اور سرداری نظام وغیرہ بھی اسی کیٹگری میں آتے ہیں اور جدید معاشرہ اور جدید ریاست، دونوں کو ان سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔ ان کی تاریخی نوعیت کو سامنے رکھا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ ان سے ایک دم گلو خلاصی نہیں ہوگی، یہ اپنا وقت لیں گے اور ریاست اور معاشرے کو بھی اسی لحاظ سے دور بینی اور تحمل کے ساتھ اپنا ذہنی رویہ اور حکمت عملی متعین کرنی ہوگی۔
تاریخ کے یہ leftovers مذہبی بیانیوں اور توقعات کی صورت میں کیسے گروہوں اور قوموں کے انداز فکر پر اثرانداز ہوتے ہیں، اس کا ایک ہلکا سا نقشہ بارہ پندرہ سال پہلے ایک تحریر میں کھینچا تھا جو پیش خدمت ہے۔
کمنت کیجے