Home » التکمیل فی اصول التاویل کا علمیاتی تجزیہ
زبان وادب شخصیات وافکار عربی کتب

التکمیل فی اصول التاویل کا علمیاتی تجزیہ

ڈاکٹر خضر یسین

مولانا فراہی رحمہ اللہ اصول التاویل طے کرنے سے قبل تاویل کی تعریف کرتے ہوئے سوال اٹھاتے ہیں ؛ ماھو التاویل؟ اس سوال کا بلاواسطہ جواب دینے کے بجائے قران مجید میں سے دو جلیل القدر انبیاء حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خواب بیان کرتے ہیں اور اس سے تاویل کے معنی و مدلول اخذ کرتے ہیں۔ بظاہر یوں لگتا ہے جیسے نیند میں دیکھے جانے والے خواب کی عالم بیداری میں رونما ہونے والی شکل کو تاویل مولانا تاویل سمجھتے ہیں۔ قران مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے خواب اور ایک زمانی و مکانی واقعے کی ظاہری شکل کی باہمی نسبت کو تاویل کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ مولانا فراہی لفظ تاویل کا مفہوم و مدلول اسی سے اخذ کرتے ہیں۔ حالانکہ قرآن مجید کی تاویل کا محل لفظ تاویل کو ایک اصطلاح کی شکل دیتا ہے۔ جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تاویل کا محل صرف آیات متشابہات ہیں اور قرآن مجید کی ہر آیت محل تاویل نہیں ہے اور نہ محتاج تاویل ہے۔ لفظ تاویل سے تاویل کی اصطلاحی معنویت اخذ نہیں کی جا سکتی۔ مولانا چونکہ علم تفسیر کے مقدمات اور انتہائی نتائج کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوئے اور نہ کبھی قرآن مجید کی اس تنبیہ کو درخور اعتناء سمجھا ہے جس میں آیات متشابہات کی تاویل سے منع کیا گیا ہے اس لیے وہ تاویل کو “تاویل حق” اور تاویل باطل کے درمیان فرق کرنے والے اصول کی وضع و تشکیل کی جانب رواں دواں ہو پڑتے ہیں۔ حالانکہ تاویل و تفسیر کا محل ایک نہیں ہے اور نہ دونوں کی غرض و غایت ایک ہے۔ تفسیر سے قبل محل تفسیر یا متن کی بابت یہ بتانا ضروری ہوتا ہے کہ ان ان مقامات پر کلام میں یہ یہ لفظی یا معنوی تعقید ہے جب تک اس کو نہ کھولا جائے، ماتن کا مقصود بیان مبہم اور غیر واضح رہے گا۔ اس کے برعکس متن کی عبارت قطعی الدلالہ کے بجائے متشابہ الدلالہ ہو تو اس کی معنوی دلالت ایک سے زیادہ معنی پر یکساں محیط ہوتی ہے۔ ان میں سے کسی ایک معنی (جس کی نسبت یہ گمان ہو کہ یہی ماتن کی اصل مراد ہے) کو قرائن کے ذریعے متعین کرنے کی عقلی جدوجہد تاویل کہلاتی ہے۔ چنانچہ تفسیر اور تاویل کا محل ایک ہے اور نہ ہی تفسیر تاویل ہوتی ہے یا تاویل، تفسیر ہوتی ہے۔ مولانا فراہی محل کا تعین کیے بغیر تاویل کو تفسیر کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ علم تفسیر میں تاویل کو خاص اہمیت دیتے ہیں اور بزعم خویش قرآن مجید کی آیات محکمات و متشابہات کو احتمالات باطلہ کا یکساں مبداء مانتے ہیں۔ ان کی جدوجہد کی غایت یہ ہے کہ ان باطل تاویلات سے مفسر کی راہ محفوظ و مامون بنائی جائے جن کا مبداء کسی نہ کسی سطح پر متن خود ہے، اصول التاویل بیان کرنا اس لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ لفظ تاویل بھی لفظ تفسیر کی طرح اپنا ایک لغوی مفہوم و مدلول رکھتا ہے، لیکن جب آپ تاویل کے لفظ کو بطور اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس کے اصطلاحی مفہوم صرف لغوی دلالت سے طے کرنا اسی طرح ممکن نہیں ہوتا جیسے لفظ تفسیر کا اصطلاحی مفہوم و مدلول صرف لغت سے میسر نہیں آتا۔
بالفرض اگر لغت ہی کو اصل الاصول بنانا ہے تو بھی تاویل کا مفہوم و مدلول اصل معنی اور اصلی مدلول کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مولانا فراہی لفظ تاویل کے لغوی اور اصطلاحی مفہوم و مدلول سے تعرض کیے بغیر تاویل اقسام کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک تاویل کی دو قسمیں ہیں ایک حق اور دوسری باطل۔ اپنی اس تقسیم کے پیش نظر وہ فرماتے ہیں کہ یوسف علیہ السلام کی تاویل حق تھی اور ابراہیم علیہ السلام نے اپنے خواب کی جو تاویل کی تھی وہ چونکہ خلاف عقل تھی یعنی اس خواب کی درست تاویل تک رسائی کے لیے ابراہیم علیہ السلام نے عقل سے کام نہیں لیا تھا چنانچہ ان کی تاویل باطل یا غلط تھی۔ مولانا فراہی کے نزدیک ابراہیم علیہ السلام کمال التعبد حاصل کرنے میں جذباتی ہو گئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو زیغ یا کج روی سے بچا لیا حالانکہ وہ غلط تاویل کے نتیجے میں ایک غلط اقدام کی جانب چل پڑے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی غلط تاویل اور اس کے نتیجے میں غلط اقدام کو بھی سراہا ہے۔ مولانا فراہی کی اس یاوہ گوئی پر تو میں بات نہیں کرونگا جو ابراہیم علیہ السلام کے خواب کے متعلق کی ہے۔ البتہ ایک بات جو مولانا کی قرانی متن کے نظم کلام کے بھی منافی ہے اس کی طرف نشاندہی ضرور کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کے خواب اور اس کی تعمیل کے پورے واقعے کو بیان کرنے کے بعد فرمایا ؛ ان ھذا لھو البلأ المبین، سوال یہ ہے کہ سیاق کلام کا نظم کیا بتا رہا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی جذباتیت کو بڑا امتحان کہا جا رہا ہے یا ابراہیم علیہ السلام کے اس امتحان کو بلائے مبین کہا جا رہا ہے؟ یہاں شاید ادنیٰ درجے کے تأمل کی ضرورت بھی نہ ہو کہ بلاءمبین اس پورے واقعے میں ابراہیم علیہ السلام کے لیے جو امتحان تھا اسے کہا جا رہا ہے۔ لیکن مولانا فراہی نے اپنے موقف کے دفاع میں اس نظم کلام کو بھی قربان کرنے سے گریز نہیں کیا جسے دبستان شبلی سے وابستہ حضرات اپنا ذورۃ السنام بتاتے پھرتے ہیں۔ اب آپ فراہی صاحب کی تاویلات کا بھی ایک نظارہ کر لیں۔ وہ فرماتے ہیں؛
ان ابراہیم علیہ السلام فہم من رویاہ انہ مامور بذبح ولدہ ( حالانکہ ایسا نہیں تھا)۔
ان ابراہیم علیہ السلام لم یصبر للتاویل بل صدق الرویأ التی رأھا، و لم یعمل رایاً لیأولھا الی مایکون اقرب الی العقل۔ ( ابراہیم علیہ السلام نے خواب ہی کو سچا بنانے میں لگ گئے اور اقرب الی العقل تاویل سے کام نہیں لیا) اس کے بعد مولانا فراہی کو خیال آیا کہ ابراہیم علیہ السلام کا اقدام اگرچہ خلاف عقل تھا پھر بھی اسے کریڈٹ دینا چاہیے۔ اس کریڈٹ دہی میں وہ جو شاعری فرماتے ہیں، اسے یہاں نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جو کوئی مولانا کی عربی دانی اور عربی زبان و بیان پر عبور کی سطح دیکھنا چاہتا ہے، وہ خود اس کتاب کو پڑھ لے۔
استحسن (اللہ )منہ ھذا الفہم و کان ذلک ابتلاً کما قال تعالیٰ ( ان ھذا لھو البلأ المبین)
بعض اوقات شک سا ہونے لگتا ہے کہ یہ حضرات نظم کلام سے کچھ مراد لیتے بھی ہیں یا محض لفاظی کرتے رہتے ہیں۔ نظم کلام سے سیاق کلام پیدا ہوتا ہے جو لفظ کی معنوی جہت طے کرتا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ نظم کلام ایک جبر پیدا کرتا ہے جو اس لفظ کی معنوی جہت کو قہراً طے کر دیتا ہے جو ایک سے زیادہ مدلولات کی نشاندہی کرتا ہو۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں