Home » تعلیم اور ریاست کا باہمی تعلق (2)
تعلیم و تعلم شخصیات وافکار

تعلیم اور ریاست کا باہمی تعلق (2)

وحید مراد

تعلیم، ریاست اور انسان
علم کی معنویت، طاقت کے نظام اور انسانی آزادی
جدید تعلیم پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کا بنیادی مقصد محض علم کی ترسیل نہیں بلکہ انسانی رویّوں کی تشکیل اور موجودہ سماجی نظام کی بقا ہے۔ میشل فوکو (Michel        Foucault) کے مطابق علم اور طاقت ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ ایک دوسرے کو تشکیل دیتے ہیں۔ طاقت علم کو پیدا کرتی ہے اور علم طاقت کو جواز فراہم کرتا ہے۔ جدید ریاست نے تعلیم کو اسی طاقت-علمی نظام (Power-Knowledge        System) کا سب سے مؤثر آلہ بنا دیا ہے، جس کے ذریعے وہ افراد کے شعور، سوچ اور رویّے کو منظم کرتی ہے۔ یوں تعلیم کا بنیادی مقصد آزاد شعور کی تخلیق نہیں بلکہ قابلِ نظم اور کارآمد شہری کی تیاری بن گیا ہے۔
اسی نکتے کو بوردیو (Pierre        Bourdieu) نے واضح کیا کہ تعلیم محض علم کی منتقلی نہیں بلکہ طاقت کے رائج ڈھانچے کی تجدید ہے۔ اسی طرح گرامشی (Antonio        Gramsci) نے تعلیم کو فکری غلبے کا ذریعہ قرار دیا، یعنی یہ ایک ایسا نظام ہے جو انسان کو فکری غلامی اختیار کرنے پر راضی کر لیتا ہے۔ گرامشی کے نزدیک طاقت صرف جبر کے ذریعے نہیں بلکہ شہریوں کی رضامندی سے قائم رہتی ہے اور تعلیمی ادارے حکمران طبقے کے نظریات، اقدار اور مفروضات کو قابلِ قبول بنا دیتے ہیں۔ نصاب، امتحان، گریڈنگ اور ڈسپلن وہ آلات ہیں جن کے ذریعے آزادی کا تاثر پیدا کیا جاتا ہے مگر درحقیقت سوچنے کے دائرے محدود کر دیے جاتے ہیں۔ تعلیم کا سماجی اور سیاسی کردار اس طرح ایک دوسرے میں گھل مل جاتا ہے کہ طبقاتی امتیاز اور سماجی نا ہمواری پوشیدہ رہتی ہے۔ ریاست تعلیم کے ذریعے اپنا بیانیہ مستحکم کرتی ہے اور سماج اسی بیانیے کے اندر سوچنا اور عمل کرنا سیکھتا ہے۔
تاہم، تعلیم صرف ریاستی میکانزم نہیں بلکہ ایک تہذیبی عمل بھی ہے۔ ہر تہذیب تعلیم کے ذریعے اپنے اخلاقی، فکری اور روحانی تصورات کو نسل در نسل منتقل کرتی ہے۔ جب تعلیم ریاستی ضرورت کے تابع ہو جاتی ہے تو تہذیب کا روحانی مواد زائل ہو جاتا ہے۔ یوں علم “معرفت” سے جدا ہو کر صرف “مہارت” بن جاتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں رٹّا کلچر جنم لیتا ہے ، سیکھنے کا مقصد سمجھنا نہیں بلکہ دہرانا ہوتا ہے اور تعلیم کا ہدف انسان نہیں بلکہ کارکردگی رہ جاتی ہے۔
جان ڈیوی (John        Dewey) نے کہا تھا کہ تعلیم کا مقصد بچے کو سماج کے ساتھ “تجربے کے رشتے” میں جوڑنا ہے مگر جب تجربہ صرف معاشی کامیابی سے وابستہ ہو جائے تو وہ تعلیمی تجربہ نہیں رہتا بلکہ مارکیٹ کا تجربہ بن جاتا ہے۔ ٹالسٹائی کے نزدیک حقیقی تعلیم وہ عمل ہے جو انسان کے اندر بیداری پیدا کرتا ہے، نہ کہ اسے کسی سانچے میں ڈھالتا ہے۔ مگر جدید نصاب بیداری کے بجائے مطابقت سکھاتا ہے۔ اس طرح وہ شعور، جو انسان کو اس کی روحانی حقیقت سے جوڑتا تھا، مسخ ہو چکا ہے اور انسان محض ایک پیداوار کی اکائی بن کر رہ گیا ہے۔
تعلیم کی اصل قوت تضاد میں پوشیدہ ہے۔ طاقت اور آزادی، نظم اور تخلیق، علم اور معرفت ؛ یہ وہ متقابل عناصر ہیں جن کے بیچ شعور کی نمو ہوتی ہے۔ جب تعلیم ان تضادات کو مٹا دیتی ہے تو وہ جبر میں بدل جاتی ہے اور جب یہ تضادات تخلیق کا حصہ بنتے ہیں تو تعلیم شعورِ انسانی کی تطہیر بن جاتی ہے۔ یہی تضادات دراصل وہ محرک ہیں جو انسان کو سوال کرنے، غور کرنے اور خود کو دریافت کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ تعلیم کا حقیقی مقصد اسی تخلیقی کشمکش کو برقرار رکھنا ہے تاکہ ایک طرف نظم و ضبط قائم رہے اور دوسری طرف اس نظم سے بالاتر سوچنے کی جرات بھی باقی رہے۔ جدید تعلیم نے انہی تضادات کو مٹا کر اسے یک رُخے نظم میں بدل دیا ہے اس لیے اب اس کا مقصد آزاد شعور کی بجائے منظم ذہن کی تیاری بن گیا ہے؛ ایسا ذہن جو طاقت کے ڈھانچے میں آسانی سے فٹ ہو جائے۔
اگر ریاست تعلیم کو مکمل طور پر کنٹرول کرے تو آزادی اور تخلیق دم توڑ دیتی ہے اور اگر وہ اسے مکمل طور پر آزاد چھوڑ دے تو طاقتور طبقات اس پر قابض ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا مسئلہ ریاستی مداخلت کے ہونے یا نہ ہونے کا نہیں بلکہ ریاست کے فکری کردار کا ہے۔ ریاست کو کنٹرول نہیں بلکہ سرپرستی اور رہنمائی کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ وہ فریم ورک مہیا کرے مگر اس کے اندر تجربہ، تنقید، جستجو اور تنوع کی آزادی باقی رہنی چاہیے۔
“تعلیم ریاست کا فعل اور فیصلہ ہے” درست بات ہے مگر حقیقت میں تعلیم انسان کا فیصلہ ہے۔ ریاست فریم ورک فراہم کر سکتی ہے، مگر روح نہیں۔ یہ روح تب ہی پیدا ہوتی ہے جب علم و اخلاق، نصاب و تربیت، ذہانت و بصیرت ایک دوسرے سے جڑ جائیں۔ جب تک تعلیم نوکری کے ساتھ خود آگاہی کا عمل نہیں بنتی، تب تک ریاستیں بدلیں یا نظام، مگر انسان نہیں بدلے گا۔
تعلیم کو محض ریاستی فیصلہ کہنا انسانی تاریخ کے ارتقائی عمل کو نظر انداز کرنا ہے۔ ریاست نے ضرور تعلیم کو منظم کیا مگر وقت کے ساتھ تعلیم معاشی مواقع، سماجی مقام اور فردکی بقا سے جڑ گئی۔ یوں تعلیم اب محض ریاستی نظم نہیں بلکہ ایک سماجی و معاشی قوت بن چکی ہے۔ جب تعلیم کا مقصد پیسہ یا مرتبہ بن جائے تو وہ اپنے اخلاقی اور روحانی جوہر سے خالی ہو جاتی ہے۔ مگر حقیقی اصلاح کا راستہ ریاست یا مارکیٹ کو رد کرنے میں نہیں بلکہ تعلیم کے روحانی و فکری پہلو کو نئے فریم ورک میں بحال کرنے میں ہے۔
جدید ریاست کی طرف سے تعلیم کے ذریعے شہریوں کو نظام کے کل پرزے کے طور پر استعمال کرنے کے باوجود ریاست کا کردار مکمل طور پر منفی نہیں۔ دوسری بات یہ کہ دنیا کی تمام جدید ریاستوں کو ایک ہی خانے میں رکھنا بھی درست نہیں کیونکہ ان کے مقاصد، ترجیحات اور طریقے مختلف ہیں۔ کئی ریاستیں تعلیم کے مسائل سے آگاہ ہیں اور حقیقی تعلیمی مقاصد کے حصول کے لیے سنجیدہ جدوجہد کر رہی ہیں۔ بالخصوص اسکینڈینیوین ممالک اس سمت میں نمایاں بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ وہاں تعلیم کو محض نظم و ضبط کے لیے نہیں بلکہ انسانی خوش حالی، اخلاقی توازن اور اجتماعی شعور کی بیداری کے لیے بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ انہوں نے تعلیم کو سماجی خدمت بنایا ہے نہ کہ منافع کا ذریعہ۔ امتحانات اور گریڈنگ کے بجائے انہوں نے سیکھنے، اظہار اور تخلیق پر زور دیا ہے۔ ترقی پذیر معاشروں کے لیے یہی وہ ماڈل ہے جو انہیں تعلیم کو دوبارہ انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر استوار کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ جب رٹے کے سماجی و ادارہ جاتی محرکات ختم ہو جائیں گے تو ریاست اور تعلیمی اداروں سے وہ شکایات بھی کم ہو جائیں گی جو آج عام ہیں۔ اس لیے ریاست کو مکمل طور پر رد کرنے کے بجائے اس کے اصلاحی کردار کو سمجھنا اور مضبوط بنانا ضروری ہے۔
حقیقی سوال ریاست کا نہیں بلکہ مقصدِ تعلیم کا ہے۔ ہم یہ طے ہی نہیں کر سکے کہ تعلیم سے ہم چاہتے کیا ہیں۔ اگر ہمارا مقصد صرف روزگار یا سماجی مرتبے کا حصول ہے تو موجودہ نظام کامیاب ہے، لیکن اگر مقصد ایک باکردار، باشعور اور تخلیقی انسان پیدا کرنا ہے تو ہمیں حقیقی تعلیم کی طرف بڑھنا ہوگا۔ رٹے کے اس نظام نے علم کو انسان سازی کے بجائے محض سماجی مسابقت کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ جب تک تعلیم کا مقصد انسان کی تکمیل اور شعور کی بیداری نہیں بنتا، تب تک ہر اصلاح خواہ وہ ریاستی ہو یا انقلابی ،سطحی ہی رہے گی۔
جدیدریاست کورد کرنا یا تعلیم کو ریاست سے مکمل طور پر آزاد کر دینا کافی نہیں۔ حقیقی تبدیلی تب آئے گی جب سماج خود اپنی تعلیمی ذمہ داری پہچانے گا۔ ریاست کا کام نظم ہے، مگر معنی تخلیق کرنا انسان کا کام ہے۔ جب تعلیم طاقت یا پیداوار کے ساتھ معنی اور خود آگاہی کا عمل بھی بن جائے، تب ہی علم انسان کے لیے نجات، روشنی اور ارتقا کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں