Home » معجزے کی وجہ دلالت
شخصیات وافکار کلام

معجزے کی وجہ دلالت

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ جن حضرات کو نبوت کے منصب پر فائز کیا گیا ان کی سچائی کے لئے نشانیاں مقرر کی جاتیں جنہیں معجزہ کہا جاتا ہے (جیسے مثلاً محمدﷺ کے حق میں قرآن، عیسی علیہ السلام کے لئے مادر ذاد اندھوں کو بینا کردینا، موسی علیہ السلام کے لئے لاٹھی وغیرہ)۔ معجزہ وہ خرق عادت فعل ہے جو دعوی نبوت کرنے والے شخص کے حق میں اس کی جانب سے اس چیلنج کے ساتھ ظاہر کیا جاتا ہے کہ مخاطبین اس کا مقابلہ نہ کرسکیں گے۔ متکلمین کے ہاں اس پر بحث ہوئی کہ آخر معجزے کی دعوی نبوت کی سچائی پر وجہ دلالت کیا ہے؟ اس حوالے سے متکلمین نے خطاب و فعل کی دلالتوں پر نہایت باریک بینی سے کلام کیا ہے، دستیاب کتب میں قاضی ابوبکر باقلانی (م 403 ھ / 1013 ء) کے ہاں اس پر مفصل گفتگو ملتی ہے۔ زیر بحث سوال یہ ہے کہ معجزہ ایک فعل ہے، آخر علمیاتی طور پر فعل سے کسی شخص کے دعوی نبوت کی سچائی کیسے ثابت ہوسکتی ہے؟ نیز کیا اس میں کذب کا احتمال نہیں؟

اس کے جواب میں جو طریقہ اختیار کیا گیا، جدید مباحث میں اسے speech-act theory کہتے ہیں۔ کبھی متکلم کچھ کہہ کر کچھ کرتا ہے اور کبھی فعل کرکے کچھ کہتا ہے، جب وہ فعل کرکے کچھ کہے تو یہ فعل قول کے قائم مقام پوتا ہے۔ مثلاً اگر کسی پولیس والے کے سامنے سوال ہو کہ “کیا کوئی پولیس والا زید کو تھپڑ مار سکتا ہے (یعنی اس کی جرات رکھتا ہے)”، اور وہ پولیس والا اٹھ کر زید کو تھپڑ لگا دے تو سائل بلا تردد جواب سمجھ جائے گا اور پولیس والے کا یہ تھپڑ رسید کرنا اس کی جانب سے “ہاں” کہنے کے قائم مقام ہے۔ قاضی صاحب کہتے ہیں کہ معجزے کی وجہ دلالت بھی اسی قسم کی ہے۔ کسی شخص کے دعوی نبوت کا مطلب یہ کہنا ہوتا ہے کہ “خدا نے مجھ سے کلام کیا ہے اور اپنا پیغام پہنچانے کے لئے مجھے تمہاری طرف نمائندہ بنایا ہے، اگر تم نے میری بات مانی تو وہ تمہیں ثواب دے گا ورنہ عقاب”۔ یہ شخص اپنے دعوے میں سچا ہے، قوم کے لئے اس کی نشانی یا دلیل مقرر کی جاتی ہے جس کی نوعیت یہ ہوتی ہے:

* دعوی نبوت کرنے والا کہتا ہے کہ میری سچائی میں ایک ایسا فعل ظاہر ہوگا جو صرف خدا کرسکتا ہے
* یہ فعل میرے کہنے سے ظاہر ہوگا
* تم ویسا فعل ظاہر کرنے میں میرا مقابلہ نہ کرسکو گے
* پھر وہ شخص خدا کی جانب متوجہ ہوکر کہتا ہے کہ میرے حق میں نشانی مقرر کرکے انہیں بتائیے کہ میں اپنے دعوی نبوت میں سچا ہوں؟
* اس پر ایک ایسی نشانی ظاہر ہوتی ہے جس کے مقابلے سے لوگ عاجز آجاتے ہیں۔ یہ نشانی جو ایک فعل ہوتا ہے اس کے ذریعے متکلم یا فاعل یہ کہتا ہے: “ہاں تم سچے ہو”۔

اس کی مثال امام جوینی (م 478 ھ / 1085 ء) یوں دیتے ہیں جیسے ایک بادشاہ کسی کو رعایا پر افسر مقرر کرے، جب وہ شخص لوگوں کے پاس جائے تو لوگ اس سے سچائی کی دلیل طلب کریں۔ وہ شخص لوگوں سے کہتا ہے کہ تم دیکھنا میری سچائی ظاہر کرنے کے لئے بادشاہ اپنی عادت کے برخلاف ایک فعل کرے گا جو تمہارے کہنے سے نہیں ہوگا۔ پھر وہ مثلاً بادشاہ سے کہتا ہے کہ “بادشاہ سلامت آپ اپنی نشست سے تین مرتبہ اٹھ بیٹھ کر انہیں بتائیں کہ میں اپنے اس دعوے میں سچا ہوں کہ آپ نے مجھے افسر مقرر کیا ہے؟” بادشاہ تین مرتبہ اٹھ کر بیٹھ جاتا ہے اور اس فعل کے ذریعے وہ یہ کہتا ہے: “ہاں تم سچے ہو”۔ اس مثال میں بادشاہ لوگوں کے سامنے ہے، دلیل کو مکمل کرنے کے لئے آپ کہتے ہیں کہ اب یہ فرض کرو کہ بادشاہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے اور اس کے محل میں کسی مقام پر ایک ایسا پردہ ہے جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اس کی پہنچ صرف بادشاہ تک ہے اور اس کے سوا اسے کوئی جنبش نہیں دے سکتا۔ افسر لوگوں سے کہتا ہے کہ دیکھنا میرے کہنے پر بادشاہ اس پردے کو جنبش دے گا، پھر وہ بادشاہ سے کہتا ہے کہ “اس پردے کو جنبش دے کر انہیں بتائیے کہ میں اپنے دعوے میں سچا ہوں؟” بادشاہ پردے کو جنبش دے کر کہتا ہے: “ہاں تم سچے ہو”۔ یہ طریق استدلال معجزے کی وجہ دلالت ہے۔

قاضی صاحب کہتے ہیں کہ معجزے کی اس وجہ دلالت میں جھوٹ و مجاز وغیرہ کا وہ احتمال نہیں جو قولی اخبار میں ہوتا ہے اس لئے کہ یہ فعل خبر نہیں انشا کی قبیل سے بن جاتا ہے۔ یعنی یہ کسی واقعے کی خبر دینے کے بجائے “مقرر کردینے کی خبر دینے” کی کیفیت ہے۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے بادشاہ لوگوں کے سامنے زید سے کہے: “میں نے تمہیں ان پر افسر بنایا”، یہاں وہ کسی واقعے کی خبر نہیں دے رہا بلکہ زید کو افسر بنا رہا ہے (یا جیسے بعض مذاہب میں نکاح کے وقت قاضی کہتا ہے: “میں اپنے اختیار سے تم دونوں کو میاں بیوی کہتا ہوں (یعنی بناتا ہوں)”)۔ چنانچہ معجزے کی بذریعہ فعل یہ دلالت قولی دلالت سے زیادہ مضبوط ہے۔

کسی شخص کا دعوی نبوت کرنا ایک خبر دینا ہے اور بطور خبر اس میں صدق و کذب دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ پھر جب اس شخص کا یہ دعوی بطریق معجزہ ثابت ہوجائے تو اس کی خبر میں کذب کا احتمال رفع ہوجاتا ہے اور اب اس کی خبر صرف سچ ہی ہوسکتی ہے۔ معجزہ دراصل خدا کی جانب سے اس شخص کی عصمت کی دلیل ہوتی ہے کہ “یہ شخص میری بات کہنے میں سچا ہے”، اس کے بعد وحی میں موجود خبر کی سچائی کی دلیل طلب کرنے کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا (یہاں ضمناً عرض ہے کہ معجزہ ذات باری کے حق میں “کلام نفسی” اور اس کلام نفسی میں صرف سچ ہونے پر بھی دلیل ہے، اس نکتے کو نہ سمجھنے کی بنا پر اشاعرہ کے مخالفین انہیں یہ الزام دیتے آئے ہیں کہ حسن و قبح عقلی کا انکار کرکے یہ خدا کی جانب سے کذب جاری ہونے کو ممکن سمجھتے ہیں)۔ نسخ القرآن بالسنة کی ممانعت میں جن حضرات کا یہ کہنا تھا کہ نبی قرآن کو بدل نہیں سکتے، اس کے جواب میں اصولیین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ہلکی بات ہے اس لئے کہ جس شخص کا سچا ہونا معجزے سے ثابت ہوچکا ہو اس کے بارے میں یہ گمان کرنا بھی ممکن نہیں کہ وہ اپنی طرف سے خدا کا حکم بدلنے والا ہوسکتا ہے۔

بعض لوگ یہاں یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ جھوٹے مدعی نبوت کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر ہوجائے؟ تاہم یہ صرف خلط مبحث بلکہ oxymoron ہے: جس کے حق میں درج بالا کیفیت پر معجزہ آجائے وہ جھوٹا ہوگا ہی نہیں، وہ سچا ہی ہوگا (پس یا کوئی جھوٹا مدعی نبوت ہے اور یا اس کی سچائی کی دلیل ہے، یہ دونوں ایک ساتھ نہیں ہوسکتے)۔ معجزہ دلیل ہے اور مدعی نبوت کا سچا ہونا مدلول، دلیل ہو اور مدلول نہ ہو ایسی بات کہنا حقائق کو خلط ملط کرنا ہے۔

رہا یہ سوال کہ آخر نبوت کے ثبوت کے لئے کوئی خرق عادت فعل ہی کیوں دلیل ہے؟ تو اس کا جواب متکلمین یہ دیتے ہیں کہ کسی کو نبی مقرر کردینا از خود خدا کا ایک خرق عادت فعل ہے اور کوئی عادی فعل اس پر دلیل بننے کا فائدہ نہیں دے سکتا اس لئے کہ یہاں دلیل کا مقصد ایک شخص کے خرق عادت دعوے کو دیگر عادی دعووں سے ممیز کرنا ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں