Home » تعلیم اور ریاست کا تعلق (3)
تعلیم و تعلم شخصیات وافکار

تعلیم اور ریاست کا تعلق (3)

وحید مراد

ریاست، مذہب اور تعلیم : تصادم نہیں، تکمیل کا رشتہ
جب مذہب کو تعلیم یا ریاست کے سانچے میں ڈھالنے کی بات کی جاتی ہے تو یہ اعتراض عام طور پر سامنے آتا ہے کہ مذہب اپنی روحانیت کھو کر محض ایک “آلاتی” یا رسمی شے بن جاتا ہے۔ یہ خیال بظاہر درست محسوس ہوتا ہے مگر اس کی بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ مذہب اور دنیا دو الگ دائرے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب، عقل اور معاشرت انسان کے ایک ہی شعوری تجربے کے مختلف پہلو ہیں۔اس موضوع کا صحیح فہم اسی وقت ممکن ہے جب ہم ان تینوں کےباہمی تعلق، تضادات اور تکمیلی پہلوؤں کو سامنے رکھ کر گفتگو کریں۔
اصل سوال یہ نہیں کہ مذہب، تعلیم یا ریاست میں شامل ہو یا نہ ہو بلکہ یہ ہے کہ ان تینوں کے مابین اخلاقی اور فکری توازن کس طرح قائم کیا جائے تاکہ روحانی اقدار، عقلی آزادی اور سماجی ذمہ داری ایک دوسرے کی ضد نہ بنیں بلکہ ایک دوسرے کو مکمل کریں۔ اگر تعلیم محض سیکولر ہو تو انسان خالی القلب رہ جاتا ہے اور اگر صرف مذہبی ہو تو سوال اور جستجو کی قوت ماند پڑ جاتی ہے۔ انسانی تربیت کی تکمیل ان دونوں کے توازن ہی سے ممکن ہے۔
بعض اہلِ فکر جدید ریاست کو ایک مغربی اور مصنوعی اختراع سمجھتے ہیں جیسے یہ انسانی تاریخ کے قدرتی ارتقاء سے کٹی ہوئی کوئی بیرونی ساخت ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جدید ریاست انسانی تمدن کے طویل ارتقائی سفر کا فطری نتیجہ ہے۔ قبائلی نظم سے سلطنت، سلطنت سے بادشاہت اور بادشاہت سے نمائندہ و دستوری حکومت تک انسان نے سیاسی و اخلاقی تجربات کی ایک طویل مسافت طے کی ہے۔ یہ ارتقاء محض طاقت کے توازن کی تبدیلی نہیں بلکہ اخلاقی شعور کی ترقی کی کہانی بھی ہے۔لہٰذا جدید ریاست کو صرف سرمایہ یا طاقت کی پیداوار سمجھ کر رد کر دینا، انسانی اجتماعی شعور کے ایک اہم مرحلے سے انکار کے مترادف ہے۔
“اسلامی ریاست” بھی تاریخ میں کبھی ایک جامد یا متعین شکل میں موجود نہیں رہی۔ خلافتِ راشدہ کے بعد مختلف ادوار میں سیاسی اور تہذیبی تقاضوں کے تحت حکومت کے نظام بدلتے رہے۔ اسلام نے ریاست کے لیے کوئی تیار شدہ ماڈل نہیں دیا، بلکہ اخلاقی اصول فراہم کیے ؛ جیسے عدل، مساوات، امانت، شورائیت اور خیرِ عام۔ یہی اصول ہر زمانے میں ریاست کو انسانی اور منصفانہ بناتے ہیں۔لہٰذا آج بحث کا محور یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ریاست “شرعی” ہو یا “سیکولر”، بلکہ یہ کہ کیا وہ انسان کے ساتھ انصاف، احترامِ انسانیت اور آزادیِ ضمیر کے اصولوں پر قائم ہے؟
جہاں مذہب کو طاقت کے آلے کے طور پر استعمال کیا گیا، وہاں وہ “آلاتی مذہب” بن گیا؛ خواہ وہ نظریاتی ریاست کا نعرہ ہو یا مذہبی سیاست کا حربہ۔ لیکن جہاں مذہب ریاست کے اخلاقی ضمیر کے طور پر کارفرما رہا وہاں اس نے انصاف، ایثار اور مساوات کے اصول پیدا کیے جن سے معاشرت میں توازن اور ہم آہنگی قائم ہوئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مذہب کے غیر منظم پہلو یعنی روحانیت، اخلاق اور خیر ہر تہذیب میں جذب ہو کر اسے توازن اور ہم آہنگی عطا کرتے ہیں جبکہ منظم مذہب کے ادارے اور عقائد الگ شناخت قائم رکھتے ہیں۔
اصل مسئلہ ریاست کے مذہبی یا غیر مذہبی ہونے کا نہیں بلکہ اس کی نیت، مقصد اور طرزِ حکمرانی کا ہے۔ اگر ریاست مذہب کو طاقت کا آلہ بنائے تو روحانیت مسخ ہو جاتی ہے لیکن اگر مذہب کو اخلاقی رہنمائی اور روحانی توازن کا سرچشمہ بنائے تو وہی مذہب ریاست کا ضمیر بن جاتا ہے۔
اسلامی دنیا اور جدید تاریخ دونوں اس امر کی گواہ ہیں کہ مذہب اور ریاست کا رشتہ جامد نہیں بلکہ ارتقائی اور اجتہادی ہے۔ ایران، سوڈان، افغانستان، پاکستان یا عرب ریاستیں ؛ جہاں بھی “شرعی ریاست” کے تجربات کیے گئے وہاں ڈھانچہ جدید ہی رہا، بس اس پر مذہبی لیبل چڑھا دیا گیا۔ نتیجتاً وہ ریاستیں نہ خالص مذہبی بن سکیں نہ مکمل جدید، اور فکری تضاد و عملی الجھن کا شکار رہیں۔اسلامی دنیا کے لیے درست راستہ مذہبی اقتدار نہیں، بلکہ تطہیر اور جذب کا ہے یعنی جدید ریاست کے اندر مذہبی اخلاقیات کو جذب کر کے اسے طاقت کے بجائے خیرِ عام، عدل اور انسانی وقار کے لیے استعمال کیا جائے۔
جدید ریاست کو سرے سے باطل قرار دینا نہ علمی ہے نہ عملی۔ آج کی ریاست دراصل تاریخی ارتقاء کا تسلسل ہے اور اسلامی معاشرے اسی دائرے میں رہ کر اپنے اخلاقی و روحانی اصولوں کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔مذہب اور ریاست کے تعلق کو تصادم کے بجائے تکمیل کے زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مذہب کو ریاست پر مسلط کرنے کے بجائے اس کے غیر منظم، روحانی پہلوؤں کے ذریعے ریاست کے اخلاقی شعور کو بیدار کیا جانا چاہیے تاکہ طاقت، انصاف اور رحمت کے درمیان توازن قائم ہو۔
جہاں مذہب کو اقتدار کے جواز کے طور پر استعمال کیا گیا وہاں مذہب اور ریاست دونوں کو نقصان پہنچا۔ کیونکہ جب مذہب طاقت کا وسیلہ بنتا ہے تو وہ ضمیر کی آزادی چھین جاتی ہے اور ایمان جبر میں بدل جاتا ہے۔ ریاست، مذہب اور تعلیم ؛ تینوں انسان کی اجتماعی زندگی کے بنیادی ستون ہیں۔ اگر تعلیم صرف ریاستی ضرورت پوری کرے تو وہ مفاداتی علم بن جاتی ہے؛ اگر ریاست مذہب کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرے تو اخلاقی زوال آتا ہے؛ اور اگر مذہب علم سے کٹ جائے تو وہ روحانیت کے بجائے جمود پیدا کرتا ہے۔لہٰذا اصل ضرورت ان تینوں کے باہمی توازن کی ہے ایسا توازن جو طاقت سے زیادہ شعور دے، سماج کو نظم سے زیادہ انصاف دے اور تعلیم کو مقابلے کے بجائے معرفت اور معنویت کا وسیلہ بنائے۔
ریاست تعلیم کو منظم تو کر سکتی ہے، مگر اسے معنی نہیں دے سکتی۔ علم اور اخلاق کا سرچشمہ انسان کے اندر ہے اور یہی سرچشمہ کسی تہذیب کو زندہ رکھتا ہے۔ ریاست اگر اس سرچشمے سے رشتہ جوڑ لے تو تعلیم تخلیق اور بصیرت کا میدان بن جاتی ہے ورنہ محض ہنر اور کارکردگی کا نظام رہ جاتی ہے۔
درحقیقت مسئلہ ریاست کے شرعی یا سیکولر ہونے سے زیادہ اس کے دستوری، قانونی اور انسانی ہونے کا ہے۔ ریاست کا فریضہ ہر انسان کے روحانی و اعتقادی وجود کا تحفظ ہے۔ عقیدہ اور ایمان زندہ انسان کا وصف ہے، اداروں جیسے اعتباری وجود کا نہیں۔ریاست کا اصل کام عقیدہ نافذ کرنا نہیں بلکہ ایسا عدل قائم کرنا ہے جو ہر عقیدے کو آزادی دے۔ریاست کا ایمان دراصل اس کے شہریوں کے ایمان سے جھلکتا ہے؛ اس کا ضمیر ان لوگوں کے کردار سے بنتا ہے جو اسے چلاتے ہیں۔ اگر انسانوں کے اندر اخلاقی بیداری اور روحانی شعور ہو تو ریاست بھی عادل، منصف اور رحیم بن جاتی ہے ورنہ قوانین کے باوجود ظالم اور جابر۔
اگر جدید ریاست کا فریم ورک انصاف، مساوات، آزادیِ ضمیر اور خیرِ عام پر قائم ہے تو وہ اسلامی روح کے قریب ہے چاہے اس کا نام کچھ بھی ہو۔اسلام کسی مخصوص سیاسی قالب پر اصرار نہیں کرتا بلکہ اخلاقی روح پر زور دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اقتدار عبادت بنے، قانون عدل کا وسیلہ ہو اور نظم انسانیت کے تحفظ کا ذریعہ۔
نظریاتی ہونا بھی ریاست کی نہیں بلکہ انسان کی صفت ہے۔ جب ریاست نظریہ بن جائے تو معاشرہ منقسم ہو جاتا ہے مگر جب انسان نظریاتی ہو تو ریاست میں وسعت، رواداری اور توازن پیدا ہوتا ہے۔ریاست کو نظریہ نافذ نہیں کرنا چاہیے بلکہ نظریات کی حفاظت کرنی چاہیے تاکہ مسلمان اپنی شریعت پر آزادانہ عمل کر سکیں اور غیر مسلم اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ایمان جبر سے نہیں بلکہ شعور اور احساسِ ذمہ داری سے جنم لیتا ہے۔ ایسی ریاست ہی حقیقی معنوں میں اسلامی بھی ہے اور انسانی بھی کیونکہ اسلام کا جوہر جبر نہیں، عدل ہے اور ریاست کی اصل روح عقیدہ نہیں بلکہ انسان کا احترام ہے۔
مسلمانوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی شریعت کے مطابق گزارنے کا حق حاصل ہے ،یہ ان کا مذہبی، اخلاقی اور انسانی حق ہے جو کسی ریاست کی عطا نہیں بلکہ ایمان و ضمیر کی آزادی سے جنم لیتا ہے۔جب کوئی ریاست خود کو نظریاتی کہہ کر اس حق کی ترجمان بننے لگتی ہے تو دراصل وہ اسی حق کی حد بندی کر دیتی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ نظریاتی ریاستوں میں پیدا ہونے والے مذہبی و سیاسی گروہ رفتہ رفتہ حق کے محافظ نہیں بلکہ نگران بن بیٹھے۔ انہوں نے ایمان کو مرکز کے بجائے آلہ بنا دیا اور شریعت جو باطن میں رضا و اختیار کا درس دیتی ہے اسے ظاہری جبر کا ذریعہ بنا دیا گیا۔
لہٰذا ہمیں یہ فرق سمجھنا ہوگا کہ نظریہ روحانی و اخلاقی رہنما اصول ہے جبکہ ریاست ادارتی و قانونی نظام۔جب ریاست خود کو نظریے کی مالک و ترجمان بنالے تو نظریہ اپنی روحانیت کھو دیتا ہے اور طاقت کے کھیل میں بدل جاتا ہے۔ہمیں نظریاتی رہنے کی ضرورت ہے مگر ریاست کو نظریاتی بنانے کی نہیں۔نظریہ آئین میں نہیں، انسان کے دل میں ہونا چاہیے۔ جب نظریہ دلوں میں زندہ ہو تو ریاست آزاد، عادل اور انسان دوست بن جاتی ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک نظریاتی انسان غیر نظریاتی ریاست میں بھی اپنے ایمان و شریعت کے تقاضے پورے کر سکتا ہے مگر نظریاتی ریاست میں آزاد انسان بن کر جینا اکثر ممکن نہیں رہتا۔
خلاصہ یہ کہ نظریاتی ریاست کا تجربہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ ریاست کا اصل فریضہ طاقت یا عقیدہ نافذ کرنا نہیں بلکہ انصاف، مساوات، شناخت کے احترام اور خیرِ عام کی فضا پیدا کرنا ہے۔ایسی فضا جہاں ہر فرد کہہ سکے کہ یہ میری ریاست ہے، یہاں میری زبان، ثقافت اور عقیدہ محفوظ ہے اور مجھے انصاف ملتا ہے۔ یہی احساس قومی اتحاد کو حقیقت بناتا ہے۔
مسلم دنیا کے عوام کو اب یہ سوال اٹھانا ہوگا کہ کیا ہماری ریاست انصاف کرتی ہے؟ کیا وہ علم، اخلاق اور تخلیق کی آزادی دیتی ہے؟کیا وہ انسان کو محض شہری نہیں بلکہ اخلاقی وجود سمجھتی ہے؟اگر ان سوالات کے جواب اثبات میں ہوں تو یہی ریاست اسلامی بھی ہے، انسانی بھی اور عادل بھی۔اب وقت ہے کہ ہم شرعی اور سیکولرکی بحث سے اوپر اٹھ کر انسانی و اخلاقی ریاست کے تصور پر غور کریں ایسی ریاست جو مذہب سے روحانی توانائی اور تعلیم سے فکری بصیرت حاصل کرے؛جہاں علم عبادت بن جائے، تعلیم روشنی اور ریاست انسان کے کمال کا وسیلہ۔

منتظمین

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں