دنیا میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اللہ نے آدم کے اعتراف تقصیر اور اظہار عجز و تواضع کے ساتھ ہی ایک پیکر کبر و نخوت کو آزادانہ کھل کھیلنے کے لیے میدان دے دیا تاکہ ساری دنیا کا جھکاؤ نیکی، پرہیزگاری، عجز، توبہ، بے بسی اور خود سپردگی کی طرف ہی نہ ہو جائے بلکہ احساس ذات، اعتراف کمال شخصیت، اپنی عظمت و رفعت، تگ و تاز کے جذبہ پیہم اور ذاتی سعی و کاوش کی نتیجہ خیزی کے بدرقہ کے ذریعے توازن تخلیق کیا جائے. یہ ساری کائنات، اس میں موجود تمام نظام ہر لمحے اپنا توازن برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اگر کہیں بھی ذرا سا توازن بگڑ جائے تو سارا نظام دھڑام سے گر جائے گا. قرآن نے انسان کو یہی توازن برقرار رکھنے کا کہا:
واقیموا الوزن بالقسط ولا تخسروا المیزان
میرا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ انسانوں میں توازن کا حقیقی نمونہ صرف ایک اور ایک ہی ذات تھی. (صلی اللہ علیہ و سلم)
لیکن انسانوں سے یہ مطالبہ کہ وہ اپنے آپ کو اسی ذات کی طرح متوازن بنائیں ایک ناقابل حصول مطالبہ تھا، اس لئیے اللہ نے اپنے مادی، روحانی اور ہمہ جہتی نظاموں میں آسانی پیدا کرنے کے لیے توازن کی دوطرفہ حدود کا تعین کر دیا، اسے مائیکرو لیول پر یوں سمجھیں کہ ہمارے بدن میں بلڈ پریشر یا شوگر کا کم از کم اور زیادہ سے زیادہ لیول جو زندگی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے متعین ہے، گویا ان دونوں حدود کے اندر شوگر یا بلڈ پریشر سو فیصد متوازن تو نہیں لیکن اسے متوازن ہی سمجھا جائے گا کہ اس کے اندر زندگی کو کوئی خطرہ نہیں. اگر آپ اس حوالے سے نظام شمسی کو دیکھیں تو سردیوں اور گرمیوں میں سورج کے طلوع و غروب کے مقامات اور رہگزر مختلف ہوتے ہیں اور وہ حقیقی توازن یعنی خط استوا سے ادھر ادھر ہونے کے باوجود توازن کے وسیع دائرے کے اندر ہوتے ہیں.
روحانی کائنات میں ہمیں مختلف ادوار میں نازل ہونے والی الہامی کتب اور مختلف انبیاء کی شرائع اور سوانح اسی تغير پذیر توازن کی مثالیں نظر آتی ہیں. صحابہ کرام میں اختلاف توازن کا نمونہ بہت واضح ہے جہاں ایک طرف صدیق اکبر کی نرم دلی اور دوسری طرف فاروق اعظم کی سخت گیری، عثمان غنی کی سماحت اور ابوذر غفاری کی احتساب پژوہی، خالد بن ولید کی خارا شگافی اور حسان بن ثابت کی امن پسندی اسی توازن کی دو طرفہ حدود کاتعین کرتی ہیں. سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سیاسی طور پر کامیاب نہ ہو سکنے کی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ وہ ساری زندگی براہ راست آغوش نبوت کی تربیت میں رہے اور نبوی توازن کو ، جو ان کا آئیڈیل تھا، برقرار رکھنے کا دور گزر چکا تھا، شاید یہ بات منشاء الہی سے بھی ہم آہنگ نہیں تھی کہ نبوی توازن کی کوئی دوسری مثال سامنے آئے. اللہ نے خود کو ہی وحدہ لاشریک نہیں رکھا اپنی تخلیق کے معیار کمال (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو بھی وحدہ لا شریک رکھا ہے.
اگر ہم انسان کی سیاسی، فکری، علمی ،سماجی اور اقتصادی تاریخ کا اس حوالے سے مطالعہ کریں تو حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ جن امور اور رویوں کو ہم سخت ناپسند کرتے ہیں وہ قدرت کے نظام توازن کو برقرار رکھنے کی سکیم کا حصہ ہیں. مثلاً علمی طور پر مجھے ظاہریہ اور ان کی طرف مائل محدثین کا رویہ بہت غیر معقول لگتا ہے لیکن مجھے خیال آتا ہے کہ اگر زمام علم حنفیہ اور معتزلہ کے ہاتھ میں رہتی تو آگے چل کر منصب نبوت غیر متعلق نہ ہو جاتا؟ اور اگر کاروان علم کی قیادت ظاہریہ وغیرہ کے پاس ہوتی تو دانش و معقولیت پٹ نہ جاتی؟
ابن عربی اور ابن تیمیہ تصوف میں توازن برقرار رکھنے کے لیے با یک دگر بر سر پیکار ہیں.
آپ اپنے ہاں کی فرقہ واریت کو ہی نہیں بلکہ سیاسی عمل کو بھی جس میں متحارب قوتیں برسر پیکار رہتی ہیں اسی زاویے سے دیکھیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ پس پردہ بیٹھے ہوئے “پردہ نشین” نے صرف اور صرف توازن برقرار رکھنے کے لیے یہ کارگہ اختلاف سجائی ہوئی ہے.
لیکن وہ توازن جسے قران نے صراط مستقیم کہا ہے اور بتایا ہے کہ
ان ربی علی صراط مستقیم
اسے حاصل کرنا ممکن نہیں تاہم بندے کو کوشش جاری رکھنا چاہئیے کہ وہ خط استوا سے قریب تر رہے
ممکن اس لئے نہیں کہ یہ زمین جس پر ہماری بود و باش ہے یہ بیضوی کرہ ہے اور کسی بیضوی وجود پر سیدھی لائن کھینچنا ممکن نہیں
بہت دنوں سے اس خیال میں غلطاں ہوں کہ عہد خلافت راشدہ کے بعد ایسی متوازن شخصیات پیدا ہونا بتدریج کم ہوتی گئیں جن پر اسلامی تمدن کے ارتقا کا دار و مدار تھا حتی کہ دو تین صدیوں کے اندر ہی علم و تمدن کی زمام انتہا پسند یا یک رخی شخصیات کے ہاتھوں میں آ گئی اور انہیں کو امام مشتہر کر دیا گیا جس کے باعث قرون اولی کا توازن ڈوب گیا اور معیار اسلام وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتے رہے اگرچہ ہمارا ایمان تو باقی رہا لیکن سیرت رسول امی کا دامن ہمارے ہاتھ سے سرک گیا.
مجھے لگتا ہے کہ اللہ نے جس دن سے شیطان کو مکمل اختیارات، آزادی اور زندگی بخش کر launch کر دیا، اسی روز سے اس کائنات میں ارتقاء کے لیے جدلیاتی اصول کی کارفرمائی رکھ دی. نہ صرف ارتقاء بلکہ اعتدال اور توازن کی راہ کی تلاش اور تعین کے لیے بھی جدلیاتی روییے ہی نشان منزل کا کام دیتے ہیں. اس تناظر میں بے شمار متخالف و متحارب افکار، نظریات، فرقوں اور شخصیات کا مقارنہ اور ان کی آراء میں سے راہ اعتدال کی تلاش ایک دلچسپ سرگرمی ہو سکتی ہے اور ہر علم و فن سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے موضوع تحقیق. مثالیں تو بے شمار ہیں لیکن تفہیم میں آسانی کے لئے عرض ہے کہ مستحکم سیاسی نظام کی راہ جمہوریت اور آمریت /بادشاہت کے بیچ سے نکلے گی، معاشی نظام کو کیپیٹل ازم اور کمیونزم کے بیچ میں تلاش کیا جائے، تاریخ کی سچائیاں دو طرفہ مورخین کے بیچوں بیچ کہیں خفتہ ملیں گی. اسلام کی ابدی صداقتیں جہادیوں اور صوفیاء کے درمیان تلاش کیجئے، جیسے کلامی حقائق معتزلہ اور محدثین کے درمیان میں تھے، اسی طرح عقیدت شیعیت اور ناصبیت کے درمیان تلاش کی جانی چاہیے، راست رو مسلمان کہیں سلفیت اور بریلویت کے بیچ میں پایا جاتا تھا، جو اب مفقود ہوتا جا رہا ہے.
جس طرح ماتریدیت، اعتزال واشعریت کی ممنون ہے اسی طرح بر صغیر میں اہمیت سنت پرویز وغیرہ کی منت شناس ہے.
لیکن دو انتہاؤں کے درمیان صراط مستقیم تلاش کرنا انتہائی مشکل کام ہے بالخصوص اگر زمین کے بیضوی ہونے کا نظریہ، جسے آج کل زیادہ شدت سے چیلنج کیا جا رہا ہے درست ہے تو ریاضی کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ بیضوی سطح پر خط مستقیم کھینچنا ممکن نہیں ہوتا
پوری کائنات توازن پر قائم ھے اور اللہ اسے قائم رکھناچاھتا ھے اس لئے وہ اس کا طبعیاتی توازن بگڑنے نہیں دیتا۔یہی حال ادیان، مذاہب، افکار، نظریات اور مسالک کا ھے ۔اسنے حنفیہ کو متوازن کرنے کے لئے شافعیہ کو، معتزلہ کو متوازن کرنے کے لئے اشاعرہ، کو قدریہ کو متوازن کرنے کے لئے مرجیئہ کو اور ہمارے دور میں دیو بند کو متوازن کرنے کے لئے علی گڑھ کو اور سنی فکر کو متوازن کرنے کے لئے شیعہ کوپیدا کیا اور یہ سب ایک دوسرے کو متوازن کرنے کی الوہی پالیسی پر جانے بوجھے بغیر گامزن ہیں ۔ بریلوی دیوبندی اور اہل حدیث ایک دوسرے کو متوازن کرنے کی خدمات انجام دے رھے ھیں ۔یہی حال عثمانی اورغامدی مکاتب فکر کا ھے ۔ حیاتی اور مماتی یہی کام کر رھے ہیں ۔۔اگر آپ انتہائ باریک بینی سے جائزہ لیں تو جہاں کجی پیدا ہوئ قدرت نے مخالف قوت پیدا کر کے اعتدال کو برقرار رکھا ۔جماعت اسلامی، اصلاحی اور اسرار تحریک تصوف کے توازن کے لئے تشکیل دی گئیں ۔خوش نصیب ھے وہ شخص جو اپنی ذات میں متوازن ھے اور ایسا وہی ہو سکتا ھے جو مکمل طور پر اتباع مصطفوی کا پیکر ہو کیونکہ رسول اللہ کی ذات کا سب سے بڑا اعجاز آپ کا ہمہ پہلو متوازن ہونا تھا ۔




کمنت کیجے