
ڈاکٹر خضر یسین
خبر واحد کی حجیت اور ہماری معروضات میں واضح فرق ہے، جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ہم وہ نہیں کہتے جو کچھ روایتی فقہی مسالک کا مؤقف ہے۔
روایتی فقہی مسالک میں خبر واحد کی دینی حجیت سے مراد نبوت کے محتویات میں ترمیم و تنسیخ اور توسیع و تنقیص کی اہلیت ہے۔ اس سے قبل کہ ہم مزید آگے بڑھیں پہلے یہ سمجھ لیں کہ قانون میں توضیح و تشریح اور ترمیم و تنسیخ ایک شے ہوتی اور نہ کوئی صاحب عقل انہیں ایک شے سمجھ سکتا ہے۔ توضیح و تشریح میں معنوی تحریف ممکن نہیں ہوتی، فقط اظہار و بیان سہل اور عام فہم بنایا جاتا ہے۔ ترمیم و تنسیخ کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ قانون اپنے حقیقی تصور میں جامد لکیر ہے جو لچکدار نہیں ہے۔ جس میں لچک ہوتی ہے وہ قانون نہیں ہوتا اور جو قانون ہوتا ہے، وہ لچکدار نہیں ہوتا۔ بالعموم قانون کی نسبت کہا جاتا ہے کہ زندہ، متحرک اور روبہ ارتقاء عمل ہے۔ اس کی زندگی، تحرک اور ارتقائیت قانون سازی اتھارٹی کے ہاتھ میں ہوتی ہے، قانون فی نفسہ جبر محض ہے اور بس۔ قانون ساز اتھارٹی جب کسی قانون میں بذریعہ قانون سازی ترمیم و تنسیخ کرتی ہے تو پہلے سے نافذ العمل قانون کو منسوخ کرتی ہے اور جدید قانون کو اس کی جگہ نافذ کر دیتی ہے۔
خبر واحد اگر محتویات نبوت کی توضیح و تشریح ہے تو منزل من اللہ قانون میں اس کے ذریعے ایسی معنوی تحریف نہیں ہو سکتی جس کے ذریعے منزل قانون کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہو یا تنگ کیا جا سکتا ہو۔ حدیث، خبر واحد ہو، مشہور ہو یا متواتر ہو وہ كافة الأمة کا مجمع علیہ نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ ہر حال میں حدیث کا مدار اعتبار راوی ہوتا ہے۔ صحیح، حسن، ضعیف اور موضوع سند کی صفات ہیں جس کی تاثیر کے افاضہ سے متن متاثر کرتا ہے۔ حدیث اپنی ہر شکل میں راوی ہی پر منحصر ہوتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب قول و عمل کی وجہ سے وہ صحیح ہوتی ہے اور نہ حسن ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کا ضعف اور موضوعیت کا مدار بھی منسوب الی الرسول قول و عمل نہیں ہوتا۔
ہم یہ کہتے ہیں؛ سند کی قوت و ضعف کا کوئی بھی درجہ ہو، اسے نبوت کے محتویات میں شامل کرنے کا وہ اہل ہو سکتا ہے اور نہ سبب بن سکتا ہے۔
ھم اس قول و عمل کو محتویات نبوت میں ادنی ترین درجے پر بھی قبول کرنے کو نبی اور نبوت کے منافی مانتے ہیں جس کا مدار اعتبار غیرنبی ہو۔
جو لوگ غیرنبی کو نبوت میں مؤثر مانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ کسی نہ کسی درجے میں نبوت میں کچھ کنٹربیوٹ کر سکتا ہے، وہ ختم نبوت اور اس لیے نبوت کا منکر ہے۔ ہم یہ فتویٰ نہیں جاری کر رہے بلکہ اپنا ایمان باللہ بیان کر رہے ہیں۔
خبر واحد جس نوع کے علم کا سبب بنتی ہے، وہ انسانی استعداد کا زائیدہ علم ہے، وہ علم بالوحی نہیں ہے۔ ہم خبر واحد کو مفید علم مانتے ہیں، لیکن مفاد نبوت کا اہل نہیں مانتے اور نہ حامل مانتے ہیں۔ جن کا خیال ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان بالغیب میں کوئی غیرنبی شامل مانا جا سکتا ہے، وہی خبر واحد کو نبوت کے مفاد کا اہل اور حامل مانتے ہیں۔
خبر واحد کا سب سے پہلے مظاہرہ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ہوا جو الائمة من قريش کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ ہم الائمة من قريش کو محتویات نبوت میں شامل ماننے والوں کو ختم نبوت کا منکر مانتے ہیں، پھر میں عرض کر رہا ہوں کہ ہم فتویٰ جاری نہیں کر رہے، اپنا ایمان بالرسالت بیان کر رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خود سے یہ قول گھڑ لیا تھا، میں فقط یہ کہتا ہوں کہ وہ قول جس کا مدار اعتبار صدیق اکبر جیسے راوی کیوں نہ ہو، نبوت کے محتویات میں اسے شامل نہیں مانا جا سکتا تو اور کسی کا ذکر ہی کیا!!!




کمنت کیجے