مفتی شرف الدین اشرف
علم الکلام: ضرورات النہضہ ودواعی التجدید کے عنوان سے زیر نظر تصنیف کسی ایک مصنف کی باقاعدہ تالیف کردہ کتاب نہیں ،بلکہ یہ جدید علم الکلام کی ضرورت اور اس کے دواعی واسباب کے متعلق مختلف اہل علم کے تحریرکردہ مضامین پر مشتمل ایک مجموعہ ہے،جسے موضوع کی مناسبت سے یکجا جمع کردیاگیا ہے،البتہ جمع کرنے لا کون ہے؟اس کے متعلق کتاب کے کسی حصے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے ۔کتاب کا برقی نسخہ درج ذیل لنک پر مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
http://alhassanain.org/arabic/?com=book&id=8
یہ مجموعہ ایک مقدمہ اورتین فصلوں پر مشتمل ہے،جن کے اہم مباحث کا مختصر خلاصہ حسب ذیل ہے:
مقدمہ کسی خاص شخص کی طرف منسوب نہیں ،البتہ اس میں اہم مضامین مختصر طورپر بیان کیے گیے ہیں ،جن میں موجودہ دور میں علم الکلام کی ضرورت ،موضوع اوراس علم کی تجدیدکے دواعی واسباب بطور خاص شامل ہیں ۔
آنحضرت ﷺکے وصال کے بعد علم الکلام کی ضرورت پر بحث کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ آنحضرت ﷺکے زمانے میں لوگ ہدایت کے مشتاق اورفطرت کے قریب ہونے کی وجہ سے اصلاحی باتوں کوجلدی قبول کرلیتے تھے اوروہ اپنے عقائد کے معاملات درست کرنے میں حق واضح ہونے کے بعد پس وپیش سے کام نہیں لیتے تھے،نیزآنحضرت ﷺکی ذات مبارکہ ان میں بنفس نفیس موجودتھی،جس کی وجہ سےوہ جوکہتے تھے ،ان کے متبعین اس کو دلیل کے مطالبہ کیے بغیر مان لیتے تھے ،اس لیے اس زمانے میں علم الکلام کے متعلق داخلی بحوث نہیں ہوتے تھے،البتہ خارجی بحوث اس زمانے میں بھی پائے جاتے تھے جیسے دوسرے مذاہب مثلا یہو ونصاری اور مشرکین کے ساتھ کلامی بحثیں ہوتی رہی ہیں ۔آنحضرت ﷺکے وصال کے بعدمسلمانوں کے درمیان باہمی اختلافات شروع ہوئے اور سب سے مشہور اختلاف وصال کے فوری بعد خلافت کے مسئلہ میں ہوا،اس لیےبعض محققین کاخیال ہے کہ علم الکلام کا سب سے پہلا پس منظر سیاسی ہی تھا،جسے دینی رنگ چڑھایاگیا۔
علم الکلام کے موضوع کے متعلق بحث کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ متقدمین حضرات نے علم الکلام کا موضو ع ذات باری تعالی اوراس کے صفات و افعال قرار دیا ہے،تاہم بعد میں بعض حضرات کی طرف سے یہ رائے سامنےا ٓئی ہے کہ علم الکلام کاکوئی خاص موضوع نہیں ،کیوں کہ متکلم کامقصد دین کادفاع اور اس پر وارد ہونے والے شبہات واعتراضات کورد کرنا ہوتاہے،تو یہی شبہات واعتراضات ہی اس کاموضوع ہوناچاہیے، لیکن چونکہ یہ شبہات واعتراضات ہر زمانے اورعلاقے میں بدلتے رہتے ہیں ،اس لیے اس کاکوئی خاص موضوع متعین نہیں کیاجاسکتا۔
علم الکلام کی تجدیدکی ضرورت پر کلام کرتے ہوئے کہاگیا ہےکہ تین وجوہات کی بناپر علم الکلام کی تجدید کی ضروت ہے۔
۱۔مسائل کی تجدید،کہ موجودہ دور کے کلامی مسائل ماقبل کے دورسے مختلف ہیں۔
۲۔مناہج کی تجدید،کہ اس دور میں بحث ومباحثہ کااسلوب قدیم زمانہ کے اسلوب سے مختلف ہے۔
۳۔زبان کی تجدید،کہ قدیم کلامی مسائل اب مختلف زبانوں کی طرف منتقل ہوگئے ہیں ،جس کی وجہ سےاب دوسرے لوگوں کی عقلی آراسے استفادہ ضروری ہے۔
پہلی فصل دو مضامین بعنوان’’علم الکلام الجدید‘‘ پرمشتمل ہے،جس میں علم الکلام میں تجدیدکے مختلف پہلووں سے بحث کرتے ہوئے کہاگیاہےکہ علم الکلام میں مختلف جہتوں سے تجدیدکی ضرورت ہے،جن کی تفصیل ذیل میں ذکر کی جاتی ہے:
۱۔مسائل کی تجدید:،جدید دور کےبہت سارے مسائل سےقدیم زمانہ کے مسائل مختلف ہیں ،جیساکہ علامہ شبلی نعمانی نے لکھاہے کہ قدیم علم الکلام میں صرف عقائد سے بحث ہوتی تھی،جب کہ جدید علم الکلام میں بہت سارے خلاقی اورقانونی مسائل سے بھی بحث کرنی پڑتی ہے،جیسے تعدد زوجات،طلاق میں صرف مرد کاحق،غلامی اورجہاد وغیرہ۔
۲۔مبادئی کی تجدید:قدیم زمانے کے بہت سارے معرفت اور وجودکے طریقے بدل چکے ہیں ،جس کی وجہ سے مبادی کی تجدید کی ضرورت ہے۔
۳۔مناہج کی تجدید:یہ سب سے اہم پہلوہے،جس کی وجہ سے علم الکلام کی تجدید ضروری ہے،چنانچہ قدیم علم الکلام میں صرف جدل کے منہج کواپنایاجاتاتھا،کہ ایسے قضایاسے استدلال کیاجاتاجو فریقین کے ہاں مسلم ہو۔بعد میں نصیرالدین طوسی کے زمانے میں اس میں تبدیلی آئی کہ علم الکلام میں فلسفہ کی آمیزش در آئی ، اورموجودہ زمانے کے کلامی مسائل میں ایسے منہج کواختیار کرناپڑتاہےجو عقل کے بنیادی تقاضوں کے مطابق ہو۔
اس کے علاوہ اس فصل میں یہ بحث بھی کی گئی ہے کہ درج بالاجہتوں سے تجدید کےبعد آیا علم الکلام کےلیے قدیم اورجدید کی اصطلاحات استعمال کرنا درست ہےیانہیں ؟
اس سلسلہ میں محققین کے درمیان زبردست بحث ہوئی ہے،بعض حضرات مثلاًجواد آملی وغیرہ اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے،جب کہ دیگر بعض حضرات مثلاًٍاحمد فرامرزقراملکی اور محمد اسفندیاری وغیرہ ذکرکردہ تغیرات کے بعد اس علم کے نام کی تبدیلی کوضروری خیال کرتے ہیں اور وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ مبادی،مسائل اور منہج کی تبدیلی کی وجہ سے موجودہ علم الکلام، قدیم علم الکلام سے یکسر مختلف اور مستقل علم کی حیثیت اختیارکرچکا ہے۔مقالہ نگار نے آخر میں تین وجوہات ایسی ذکر کی ہیں ،جن کی وجہ سے اس علم کے نام کی تبدیلی اور علم الکلام جدید کی اصطلاح درست معلوم نہیں ہوتی۔
(الف)۔متعدد علوم کے درمیان امتیاز ان کے اغراض ومقاصد کے اعتبار سے کیاجاتاہے،علم الکلام خواہ قدیم ہویا جدید ،دونوں کی غرض دینی اعتقادات کی توضیح وتشریح اوران پر وارد ہونے والے شبہات کودور کرنا ہوتاہے،جب دونوں کا مقصد اور غرض ایک ہی ہے توپھراس علم کےلیے قدیم اور جدید کی اصطلاح استعمال کرکے دونوں میں تفریق کی کوئی ضرورت نہیں۔
(ب)۔بسا اوقات قدیم اورجدید کا یہ اشتباہ علم الکلام اورفلسفۃ الدین میں فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتا ہے ،کہ بعض لوگ فلسفۃ الدین کو علم الکلام جدید سمجھتے ہیں،حالانکہ ان دونوں کے درمیان بڑا فرق موجودہے ،وہ یہ کہ دینی فلاسفی اپنے آپ کو کسی معین دین کاتابع نہیں سمجھتاکہ اس کادفاع کرے ،بلکہ وہ اپنے ٓپ کو آزاد سمجھ کر حق وباطل میں تفریق کیے بغیرتمام ادیان کامطالعہ کرتاہے،جب کہ علم الکلام میں، خواہ وہ جدید ہویاقدیم ،متکلم ایک خاص دین کو حق سمجھ کر اس کادفاع کرتاہےاورخاص نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے،اس لیے بعض لوگ دینی فلسفہ کو علم الکلام سمجھتے ہوئے اس کے لیے علم الکلام الجدید کی اصطلاح کی ضروت محسوس کرتے ہیں ،حالانکہ وہ علم الکلام ہوتاہی نہیں بلکہ وہ فلسفۃ الدین کی بحث ہوتی ہے۔
(ج)۔اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہر علم کے مسائل اور تقاضے بدلتے رہتے ہیں ،جیسے علم فقہ میں اپنے تاسیسی زمانے کی بہ نسبت آج کل ہزاروں جدید مسائل پیش آئے ہیں ،اوران مسائل کے بیان کا منہج اور اسلوب بدل گیا ہے،لیکن اس کے باوجود اب بھی کسی شخص کی طرف سے علم فقہ قدیم اورجدید کی اصطلاح استعمال کرکے تفریق نہیں کی جاتی،اسی طرح علم الکلام میں مسائل اور منھج کی تبدیلی کے باوجود قدیم وجدید کی تفریق کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی۔
دوسری فصل میں تین مضامین ہیں ،جن کا موضوع ایک ہی ہے کہ آیا حق دین ایک ہی ہے یا اس میں تعدد ہوسکتا ہے؟
اس سلسلہ میں مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں ،جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
۱۔بعض حضرات کانظریہ یہ ہے کہ حق دین صرف ایک ہی ہے، البتہ حوار بین المذاہب کو اپناتے ہوئےمختلف مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مکالمہ کر کے مشترکات کو قبول کیاجائے گا اور اختلافی مسائل کو چھوڑدیاجائےگا۔
۲۔بعض لوگوں کامانناہے کہ دنیا میں رائج تمام ادیان حق ہیں ،وہ اس نظریہ پر مختلف آیات،آثار اوراقوال سے استدلال کرتے ہیں ،مقالہ نگار نے ان تمام دلائل کاتفصیل سےذکر کرکےان کی تردید بھی بیان کی ہے۔
۳۔بعض لوگوں کانظریہ یہ ہے کہ اللہ تعالی حق تک پہنچنے کےلیے خلوص سےکی گئی جد وجہد اور کوشش ہرشخص کی طرف سے قبول کرتے ہیں ،خواہ وہ کسی بھی دین کاپیرو کار ہو۔
آخری فصل میں دو مضامین ہیں ،جن میں اسلام اورتجدید(Modernity) کے مفہوم کو بیان کرنے کے بعد ان دونوں میں باہمی تقابل کرکے یہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہےکہ اسلام تجدید کابالکلیہ مخالف نہیں ،بلکہ بہت ساری چیزیں باہمی مشترک ہونے کی وجہ سے اسلام انہیں قبول کرتاہے۔البتہ بعض مقامات میں اسلام کے اصولوں سے مخالفت کی بنیادپراسلام ایسی تجدید کو قبول نہیں کرتا۔
تنقیدوتبصرہ:
درج بالا خلاصہ کے بعد چند مناقشات حسب ذیل ہیں:
(۱)۔۔۔کتاب کے بعض مضامین انتہائی دلچسپ اور گہرائی کے حامل ہیں ،تاہم ان کےلیے فلسفہ کے علوم سے شناسائی ضروری ہے،ورنہ وہ انتہائی خشک اور لایعنی معلوم ہوتے ہیں۔
(۲)۔۔۔جیسا کہ شروع میں ذکر کرلیاگیاتھا کہ زیر نظر کتاب باقاعدہ کوئی تصنیف نہیں ،بلکہ موضوع کے متعلق مختلف لوگوں کے مضامین کا مجموعہ ہے،اس لیے اس کے مضامین میں کوئی عقلی ومنطقی ترتیب کا لحاظ نہیں برتاگیا ہے،جس کی وجہ سے دوران مطالعہ قاری کےلیے یکسوئی برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہےاور کسی مضمون کو اپنے پورے سیا ق وسباق کے ساتھ سمجھنے میں کافی دشواری رہتی ہے۔
(۳)۔۔۔ بعض آسان مضامین کوعربی کی مشکل تعبیرات سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے،جس کی وجہ سے قاری کی توجہ نفس مضمون سے زبان وبیان کی موشگافیوں کی طرف منتقل ہوجاتی ہے ،جس سے استفادہ کافی مشکل ہوگیا ہے۔
(۴)۔۔۔مجموعہ کی ترتیب وتدوین میں بھی عام مروجہ ترتیب کا کا لحاظ نہیں کیا گیاہے،چنانچہ شروع میں کوئی پیش لفظ لکھا گیا ہےاور نہ ہی مقدمہ میں کوئی ایسی صراحت کی گئی ہے کہ یہ مجموعہ کس نے اور کس مقصد کے لیے مرتب فرمایاہے،یہاں تک کہ مقدمہ کس کی طرف سے لکھا گیا ہے؟کتا ب کس نے چھاپی ہے؟ وغیرہ کا بھی ذکر تک نہیں ،صرف چند مضامین کی اکھٹی بائنڈنگ کی گئی ہے،جس کی وجہ سے قاری کو مطالعہ شروع کرتے وقت کتاب کے مصنف اور مقصد تالیف وغیرہ کچھ معلوم نہیں ہوتا،ایک معتد بہ حصہ کے مطالعہ کے بعد جاکر پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی ایک مصنف کی تالیف نہیں بلکہ متعدد اہل کے مضامین کا مجموعہ ہے،جنہیں بغیر کسی تمہید وتعارف کے یکجا جمع کردیاگیا ہے۔
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم
کمنت کیجے