مسیحیت میں رہبانیت کے ادارے سے متعلق ایک اہم سوال یہ ہے کہ آیا رہبانیت کا تصور مسیحیوں نے ازخود ایجاد کر لیا تھا یا اس کی کوئی مذہبی اساس حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات میں موجود تھی؟ اس ضمن میں قرآن مجید کی متعلقہ آیت کی تفسیر میں جو آرا عموماً پیش کی جاتی ہیں، ان کی مختصر وضاحت یہاں پیش کی جا رہی ہے۔
اس آیت کے دو ترجمے ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں۔ جاوید احمد غامدی صاحب نے آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے۔
مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔
آیت کے چار حصے ہیں جو الگ الگ تجزیے کا تقاضا کرتے ہیں۔
۱۔ وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ
اس کے ترجمے میں دونوں اصحاب علم کا اتفاق ہے۔ ’’رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کر لی تھی، ہم نے لازم نہیں کی تھی۔’’
۲۔ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ
اس جملے کے اعراب میں دونوں مترجمین ایک پہلو سے متفق ہیں کہ یہ ما کتبنھا علیھم سے متعلق نہیں ہے۔ البتہ مولانا تقی صاحب کے ترجمے میں اس کا عامل ابتدعوا یا اس سے مفہوم کوئی فعل ہے۔ گویا جملہ یوں ہے کہ ابتدعوھا ابتغاء رضوان اللہ، انھوں نے اللہ کی رضا کے لیے رہبانیت خود ہی ایجاد کر لی۔ غامدی صاحب کے ترجمے میں یہ استثنائے منقطع ہے جس کا عامل ایک محذوف فعل ہے، جیسے کتبنا علیھم ابتغاء رضوان اللہ۔ ہم نے ان پر رہبانیت تو لازم نہیں کی تھی، البتہ اللہ کی رضا کا حصول لازم کیا تھا (جس کو انھوں نے خود ہی رہبانیت کی صورت دے دی)۔ تاہم یہ صرف اعراب کا اختلاف ہے۔ جملے کا حاصل دونوں ترجموں میں ایک ہی بنتا ہے۔
۳۔ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا
اس کی تفسیر میں بھی دونوں مترجم مختلف الرائے ہیں۔ مولانا عثمانی کی تفسیر میں مطلب یہ ہے کہ جو رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کی، بعد میں اس کی بھی پوری پابندی نہ کر سکے کیونکہ وہ غیر فطری تھی۔ غامدی صاحب کے ترجمے میں اس جملے کا تعلق ابتغاء رضوان اللہ سے ہے۔ مراد یہ ہے کہ ہم نے تو ان پر صرف حصول رضائے الہی لازم کی تھی لیکن وہ اس کے حدود کی رعایت نہیں کر سکے اور اس کو رہبانیت کی شکل دے دی۔
۴۔ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
غامدی صاحب اس کی تفسیر یوں کرتے ہیں کہ اگرچہ رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کی تھی، لیکن چونکہ اچھی نیت سے کی تھی، اس لیے خلوص سے اس پر عمل کرنے والوں کو ہم نے ان کا اجر دیا، لیکن زیادہ تر مخلص نہیں بلکہ بدکار تھے۔ مولانا عثمانی نے اپنی تفسیر میں اس جملے کے مفہوم پر کوئی روشنی نہیں ڈالی۔ البتہ ان کے ترجمے سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ اس جملے کو بالکل متصل سابق جملے سے یعنی رہبانیت سے معنوی طور پر مربوط نہیں کرتے، بلکہ ایک عمومی اصول کا بیان سمجھتے ہیں جو یہ ہے کہ اچھے عمل کرنے والوں کو ان کا صلہ دیا جاتا ہے، لیکن ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔
ہماری رائے میں یہ دونوں تفسیریں نحو واعراب کے قواعد اور جملوں کے اسالیب کی رو سے محل نظر ہیں۔ ہم اپنے طالب علمانہ فہم کے مطابق یہاں ان آرا کا تجزیہ پیش کریں گے۔
آیت کے متعلقہ جملوں کو بالترتیب دیکھتے ہیں۔
۱۔ وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا
اس کا اعراب اور ترجمہ واضح ہے۔ ’’رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کر لی۔’’ تاہم اس جملے کی حد تک یہ دونوں مفہوم محتمل ہیں۔ ایک یہ کہ رہبانیت کا تصور فی نفسہ مشروع نہیں تھا اور مسیحیوں نے خود سے گھڑ لیا۔ دوسرا یہ کہ رہبانیت جس صورت میں موجود ہے، یہ مسیحیوں نے خود بنا لی ہے (اگرچہ فی نفسہ رہبانیت غیر مشروع نہیں تھی)۔ ان میں سے کسی ایک احتمال کی تعیین باقی جملوں کی روشنی میں ہی ہو سکتی ہے۔
۲۔ مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ
ہمارے نزدیک یہ پورا جملہ ایک ہی مکمل جملہ ہے۔ جملے کو روانی میں اور بے تکلف پڑھا جائے تو ترجمہ یہ بنتا ہے کہ ’’ہم نے اس کو (یعنی رہبانیت) کو ان پر لازم نہیں کیا تھا مگر صرف اس لیے کہ وہ اس سے اللہ کی رضا حاصل کریں۔’’ مطلب یہ کہ رہبانیت تو ہم نے لازم کی تھی، لیکن وہ صرف اس حد تک تھی کہ رضائے الہی کا حصول ہو سکے۔ اگر پہلا احتمال یعنی ’’رہبانیت کا تصور ہی انھوں نے خود ایجاد کر لیا’’ مراد ہوتا تو ’’كَتَبْنَاهَا ’’ میں ضمیر منصوب زائد بلکہ مفہوم میں خلل پیدا کرنے والی بن جاتی ہے۔ یہ معنی مراد ہوتا تو کلام یوں ہوتا کہ ’’وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ’’۔ لیکن کلام یوں ہے کہ ’’مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ’’۔
ضمیر منصوب کی وجہ سے مترجمین کو ’’الا ابتغاء رضوان اللہ’’ کا تعلق ما کتبناھا سے منقطع کرنا پڑا ہے، لیکن اس انقطاع کے بعد اس کے اعراب کی ہر صورت مبنی بر تکلف بنتی ہے۔ اگر اس کو ابتدعوا سے متعلق مانا جائے تو ’’الا’’ کی کوئی تک نہیں بنتی۔ مزید یہ کہ ترتیب کلام بھی یوں ہونی چاہیے ’’وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ ’’۔ یا ترتیب یہ نہ بھی ہو تو الا کے بغیر جملہ یوں ہونا چاہیے ’’وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ’’۔ اس ترتیب میں بھی اگرچہ حسن نہیں ہے، لیکن الا کے ہوتے ہوئے تو ابتغاء کو ابتدعوھا سے کسی طرح متعلق نہیں کیا جا سکتا۔
غامدی صاحب کے ترجمے میں اس قباحت کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور ابتغاء کو ابتدعوا سے متعلق کرنے کے بجائے ایک فعل محذوف سے متعلق قرار دیا گیا ہے۔ ترتیب کلام یوں بنتی ہے کہ ’’وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ (ما کتبنا) إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ’’۔ رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کر لی، ہم نے لازم نہیں کی تھی۔ ہم تو صرف رضائے الہیٰ کا حصول لازم کیا تھا۔ اس اسلوب کی عربیت کی رو سے گنجائش موجود ہے، لیکن اس سے اگلا جملہ اس احتمال کی تائید نہیں کرتا۔
۳۔ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا
غامدی صاحب کے ترجمے میں ’’رعوھا’’ کی ضمیر منصوب کا مرجع رضوان اللہ بنتا ہے، لیکن یہ جملے کے متبادر اور بے تکلف مفہوم کے خلاف ہے۔ اول تو ضمیر مونث واضح طور پر رھبانیۃ کی طرف مشیر ہے۔ دوسرے کماحقہ رعایت نہ رکھنے کی تعبیر بھی رضائے الہی کے بجائے رہبانیت ہی کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ صاف مفہوم یہ بنتا ہے کہ ہم نے رہبانیت ان پر صرف اس حد تک لازم کی تھی کہ اس سے رضائے الہیٰ کا حصول ہو سکے، لیکن وہ اس کو اس کے جائز حدود میں محدود نہیں رکھ سکے۔
مولانا تقی عثمانی کے ترجمے میں اس جملے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اگرچہ اللہ نے رہبانیت لازم نہیں کی تھی، لیکن پھر بھی اللہ کو شکایت ہے کہ جو چیز انھوں نے خود ایجاد کی، خود ہی اس کی پابندی بھی نہیں کر سکے۔ یہ عجیب سی بات ہے۔ اگر رہبانیت جائز ہی نہیں تھی تو اللہ تعالیٰ یہ شکایت کیونکر کر سکتے ہیں؟ جملہ اپنے اسلوب میں واضح ہے کہ ایک چیز کی رعایت اللہ کو ’’مطلوب’’ تھی، لیکن مسیحی وہ ملحوظ نہیں رکھ سکے جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو زجر کیا ہے۔
۴۔ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
مذکورہ تشریح کی روشنی میں آخری جملے کا مفہوم بھی بالکل موزوں بن جاتا ہے۔ اللہ نے ان کے لیے رہبانیت کچھ خاص حدود میں مشروع کی تھی، لیکن وہ ان حدود کو غلو کی وجہ سے ملحوظ نہیں رکھ سکے اور ایسی تشدیدات اس میں شامل کر دیں جو مطلوب نہیں تھیں۔ چونکہ یہ اخلاص نیت سے اور اچھے جذبے سے ہوا تھا، اس لیے صدق دل سے اس پر عمل کرنے والے اللہ کے نزدیک اجر کے حق دار ہیں۔
آیت رہبانیت کی جو تاویل عرض کی گئی، ظاہر ہے جمہور مفسرین نے اس طرح اس کو نہیں دیکھا۔ البتہ امام رازی نے حتمی طور پر نہ سہی، ایک احتمال کے طور پر ہی آیت کا جو مفہوم بیان کیا ہے، وہ اس کے بہت قریب ہے۔ ملاحظہ ہو۔
’’الا ابتغاء رضوان اللہ’’ کا ایک امکانی مفہوم واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
الثّانِي: أنَّهُ اسْتِثْناءٌ مُتَّصِلٌ، والمَعْنى أنّا ما تَعَبَّدْناهم بِها إلّا عَلى وجْهِ ابْتِغاءِ مَرْضاةِ اللَّهِ تَعالى، والمُرادُ أنَّها لَيْسَتْ واجِبَةً، فَإنَّ المَقْصُودَ مِن فِعْلِ الواجِبِ دَفْعُ العِقابِ وتَحْصِيلُ رِضا اللَّهِ، أمّا المَندُوبُ فَلَيْسَ المَقْصُودُ مِن فِعْلِهِ دَفْعُ العِقابِ، بَلِ المَقْصُودُ مِنهُ لَيْسَ إلّا تَحْصِيلَ مَرْضاةِ اللَّهِ تَعالى.
’’دوسری تاویل یہ ہے کہ یہ استثناء متصل ہے اور مراد یہ ہے کہ ہم نے نصاریٰ کے لیے رہبانیت کو صرف اس پہلو سے مشروع کیا تھا کہ وہ اس سے رضائے الٰہی حاصل کریں۔ مراد یہ کہ رہبانیت واجب نہیں تھی (صرف مستحب تھی)، کیونکہ واجب کی ادائیگی کا محرک (نافرمانی کی) سزا سے بچنا اور رضائے الہی حاصل کرنا ہوتا ہے، جبکہ مستحب کی ادائیگی کا محرک سزا سے بچنا نہیں، بلکہ صرف حصول رضائے الٰہی ہوتا ہے۔’’
اسی طرح ’’فما رعوھا حق رعایتھا’’ کی ایک تاویل یوں بیان کرتے ہیں:
وثانِيها: أنّا ما كَتَبْنا عَلَيْهِمْ تِلْكَ الرَّهْبانِيَّةَ إلّا لِيَتَوَسَّلُوا بِها إلى مَرْضاةِ اللَّهِ تَعالى، ثُمَّ إنَّهم أتَوْا بِتِلْكَ الأفْعالِ، لَكِنْ لا لِهَذا الوَجْهِ، بَلْ لِوَجْهٍ آخَرَ، وهو طَلَبُ الدُّنْيا والرِّياءِ والسُّمْعَةِ.
’’دوسرا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ ہم نے ان پر رہبانیت صرف اس لیے لازم کی تھی کہ وہ اس کے ذریعے سے رضائے الٰہی حاصل کریں، لیکن انھوں نے یہ افعال اس غرض سے کرنے کے بجائے دوسری غرض سے ادا کرنے شروع کر دیے، یعنی طلب دنیا اور شہرت اور ریاکاری کے پہلو سے۔’’
امام صاحب کی بیان کردہ تاویل اس لحاظ سے ہماری رائے کی موید ہے کہ اس کے مطابق رہبانیت فی نفسہ مشروع تھی اور اللہ تعالیٰ کا اس کو بدعت قرار دینا دراصل ایک اضافی وجہ سے ہے۔ البتہ اس تاویل کے مطابق وہ اضافی وجہ یا تو یہ تھی کہ مسیحیوں نے ایک مستحب چیز کو واجب بنا لیا اور یا یہ کہ اس کا محرک رضائے الہی کے حصول کے بجائے ریاکاری اور شہرت قرار پائی۔ ہماری رائے میں یہ مفہوم اس لیے درست نہیں کہ اس کے لیے ’’ابتداع’’ کی تعبیر ناموزوں ہے۔ کسی مستحب چیز کو واجب کا درجہ دے دینا ایسی چیز نہیں کہ اس پر اللہ تعالیٰ بدعت ہونے کا حکم لگائیں۔ مزید یہ کہ ’’ما کتبناھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللہ’’ بھی اس مفہوم کے لیے ناموزوں ہے کہ ’’ہم نے اس کو صرف مستحب قرار دیا تھا۔’’ اسی طرح ’’فما رعوھا حق رعایتھا’’ کی تعبیر باطنی محرکات یعنی ریاکاری وغیرہ کی طرف اشارہ نہیں کرتی، بلکہ ظاہری حدود وقیود کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔
اس وجہ سے ہمارے نزدیک امام رازی کی ذکر کردہ نحوی تاویل تو درست ہے، البتہ اس کا مفہوم جو انھوں نے ذکر کیا ہے، وہ کلام میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ زیادہ واضح مفہوم یہی بنتا ہے کہ رہبانیت کا اہتمام اللہ نے کچھ حدود وقیود میں نصاریٰ پر لازم کیا تھا جس کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول تھا، لیکن غلو اور شدت پسندی سے کام لیتے ہوئے انھوں نے مطلوبہ حدود سے تجاوز کیا اور اسے ایک غیر فطری نظام کی صورت دے دی۔
اس مفہوم کی مزید تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں مختلف اعمال کو امت محمدیہ کی ’’رہبانیت’’ کہا گیا ہے۔ مثلاً یہ کہ ہر امت کی ایک رہبانیت ہوتی ہے اور میری امت کی رہبانیت جہاد ہے۔ اسی طرح یہ کہ میری امت کی رہبانیت مسجدوں میں ٹھہر کر نماز کا انتظار کرنا اور حج اور عمرہ کرنا ہے۔ مراد یہ ہے کہ زہد اور ترک دنیا کے کچھ نہ کچھ طریقے ہر شریعت میں رہے ہیں۔ انھی کو رہبانیت کہا جاتا ہے اور یہ فی نفسہ غیر مشروع نہیں ہے۔ واللہ اعلم
استاد عمار خان ناصر صاحب نے جو تعبیر آیت مبارکہ کی پیش کی ہے ، شاید ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے (کتاب البدعہ ) اور جاء الحق میں مفتی نعیمی گجراتی صاحب کا موقف بھی یہی ہے اور امام زجاجؒ کتاب معانی القرآن واعرابہ میں اس کی طرف اشارہ کرچکے ہیں ۔۔۔۔واللہ اعلم