امام ابن عبد البرؒ نے ’’جامع بیان العلم وفضلہ’’ میں ایک مستقل فصل ’’باب حکم قول العلماء بعضھم فی بعض’’ کے عنوان سے قائم کی ہے جس میں طالبان علم کے لیے یہ راہنما بات واضح کی ہے کہ اہل علم ایک دوسرے کے متعلق جو تبصرے کرتے اور حکم لگاتے ہیں، ان کو زیادہ وزن نہ دیا جائے کیونکہ یہ انسانی کمزوریوں کا اظہار ہوتا ہے جن سے کبار اہل علم بھی مبرا نہیں ہوتے۔ فصل کے آخری حصے میں ابن عبد البرؒ نے اس طرح کے تبصروں کی درجنوں مثالیں نقل کرنے کے بعد نتیجہ یہ ذکر کیا ہے کہ
’’جو شخص ثقہ اور ثبت ائمہ اور علماء کے ایک دوسرے کے بارے میں کہے گئے اقوال کو قبول کرنا چاہتا ہے تو اسے صحابہ نے ایک دوسرے کے متعلق جو باتیں کہیں، ان کو بھی ماننا پڑے گا اور ایسا کرنے والا دور کی گمراہی اور کھلے خسارے میں جا پڑے گا۔ سعید بن المسیب کے بارے میں عکرمہ کے یا شعبی یا اہل حجاز یا اہل مکہ یا اہل کوفہ یا اہل شام کے متعلق یا امام مالک اور شافعی کے متعلق دوسرے ائمہ کے تبصروں کو قبول کرنے کی بھی یہی حیثیت ہے۔ اگر کسی شخص کی اللہ صحیح راہنمائی فرمائے تو اس کو چاہیے کہ جس عالم کا حسن کردار اور علم کے ساتھ اس کا اعتنا ثابت ہو اور وہ کبائر سے مجتنب رہا ہو اور اس کے اعمال پر خیر غالب ہو تو اس کے متعلق بلا دلیل کسی (بڑے یا معروف عالم) کے تبصرے یا حکم کا اعتبار نہ کرے۔’’
کمنت کیجے