محمد حسنین اشرف
ٹالمی نے جب جیو سینٹرک (زمین کائنات کا مرکز ہے) ماڈل پیش کیا تو یہ ماڈل بہت وجدانی معلوم ہوتا تھا۔ مقبولیت کی دو وجوہات میں سے ایک، موجودہ علم (یونانیوں، رومیوں اور دیگر اقوام کے ہاں جو پنپ رہا تھا) اور دوسرا اس ماڈل کا سیدھا و سادہ ہونا تھا۔ انسان خود کو دیگر جانوروں سے ممتاز تصور کرتا، زمین ایک دیوی کے مانند پوری کائنات کا مرکز معلوم ہوتی، جیسے سورج چاند اور ستارے سب زمین کی پرستش و خدمت میں لگے ہیں۔ یہ سادہ وضاحت، ہر کسی کو سمجھ آنے کی شے تھے۔ ایک عام آدمی اگر آج بھی، باہر نکل کر مشاہدہ کرے تو اسے یہ قبول کرنے میں کوئی دقت نہ ہوگی کہ اتنی بڑی زمین، جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی اس پر چھوٹی ٹکیا سا سورج طواف کر رہا ہے، یہی حالت چاند ستاروں کی ہے۔ تو زمین اپنے وجود کے اعتبار سے نہ صرف بڑی ہوگی بلکہ سورج زمین سے چھوٹا ہوگا۔ اب اس کے خلاف جو کوئی بھی بات کرے اس کا منہ توڑ دینا ہی احسن عمل ٹہرے گا۔
سچائی کے لیے پیچیدہ ہونا ضروری نہیں ہے نہ یہ ضروری ہے کہ حقیقت بہت سادہ ہو۔ اگر مذہبی سچائی ہے اور پیچیدہ ہے تو صرف اس لئے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کو سادہ ہونا چاہیے اور اگر سائنسی حقیقت ہے اور سادہ ہے تو اس کا انکار اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ اس کو پیچیدہ ہونا چاہیے۔ سقراط سے ماقبل، بعد از سقراط، انیسیویں اور بیسیوں صدی کے اس سفر نے ہمیں اگر کچھ سکھایا ہے تو وہ یہ کہ محض اچھی وضاحت کافی نہیں ہوا کرتی۔ آج باہر نکل کوئی شخص بھی زمان و مکان کی موجودہ علم کی روشنی میں ایک وضاحت پیش کرسکتا ہے جو ہر کسی کو بہت وجدانی و کائناتی معلوم ہوسکتی ہے۔ ہاں، اس وضاحت کی خوبی و خوبصورتی کی جانچ سب سے اہم شے ہے۔ ہم نے یہ سیکھا کہ دعوی جات، کسی فریم ورک کسی متھڈالوجی کے محتاج ہوتے ہیں۔
میتھڈ یا متھڈالوجی کا مقصد صرف شے کو ثابت کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس سفر میں ہم نے سیکھا کہ اس کا مقصد غلطیوں سے بچنا بھی ہوتا ہے۔ کسی مشاہدے کے نتیجے (یا دیگر ذرائع سے) جب کوئی مفروضہ قائم کیا جاتا ہے تو کنفرمیشن بائس کا شکار ہونا بہت آسان ہے یہ کنفرمیشن بائس، تھیوری لینڈننس اور دیگر وجوہات سے پیدا ہوتا ہے۔ کنفرمیشن بائس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں اپنے مفروضے کے عشق میں مبتلا ہوجاؤں یا اپنے مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے اتنا اتاولا ہوں کہ صرف اپنے مفروضے کے حق کی چیزیں مجھے دکھائی دینے لگیں۔ تھیوری لیڈننس کا مطلب یہ ہوتا کہ میرا مفروضہ میرے نتائج فکر پر اثر انداز ہونے لگے (یہ اکثر ہوتا ہے اس لیے سائنس دان بہت محتاط ہوتے ہیں)۔ اس کو ایک مثال سے سمجھیں، چوبیس گھنٹے قبل آپ کے کمرے سے ایک قیمتی گھڑی چوری ہوگئی، اس دوران آپ نے صرف ‘احمد’ کو کمرے میں جاتے دیکھا، احمد اس سے قبل بھی چوری کرتے پکڑا جا چکا ہے۔ اپنا شک دور کرنے کے لیے آپ نے سی سی ٹی وی کیمرہ دیکھا، چوبیس گھنٹے میں صرف احمد ہی آپ کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔ یہ بہت سادہ جواب ہے کہ احمد چور ہے۔ آپ کے پاس ثبوت بھی ہے۔ یہ آپ کی حقیقت بھی بن جائے گا۔ لیکن عین ممکن ہے کہ گھڑی اڑتالیس گھنٹے قبل چوری ہوگئی ہو، چونکہ احمد پہلے بھی چوری کرتا رہا ہے اور آپ کا مفروضہ اور سی سی ٹی وی کیمرہ دکھا رہا ہے تو آپ بہت آرام سے غلط نتیجہ فکر تک پہنچ جائیں گے۔ اس مسئلے میں زیادہ بال کی کھال اتارنے کی بھی ضرورت نہیں ہے، بہت صاف مسئلہ ہے۔ اگر کوئی بال کی کھال اتارے گا تو آپ اسے چوری میں ملوث وغیرہ بھی کہیں گے یا دیوانہ ثابت کریں گے (جیسے ہماری مذہبی دوست کسی مذہبی سچائی پر سوال اٹھانے والے کو مذہب سے نکال دیتے ہیں)۔ لیکن غور کریں بہ ظاہر درست نتیجہ، اصلا غلط ہے۔ ممکنات کا ایک جہان ہے (گھڑی آپ اپنے سسرال بھول سکتے ہیں، آپ کی بیوی نے چوبیس گھنٹے قبل کہیں رکھ دی ہو، آپ نے خود گھڑی کسی کو ٹھیک کرنے کے لیے دی ہوسکتی ہے وغیرہ)۔
حقائق مذہبی ہوں، سائنسی یا غیر سائنسی ان کے پرکھ کے لیے متھڈالوجی ترتیب دیتے وقت یہ ذہن نشین رہے کہ ہمارا مقصود بات ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ غلطیاں تلاش کرنا ہے۔ پاپر اسی طرف توجہ دلانا چاہتا تھا۔ ہمارے ہاں احباب جو اس دنیا میں آفاقی معنویت اور آفاقی ربط تلاش کرکے بیٹھے ہیں وہ اصلا عمومی مشاہدات سے اپنے مفروضے ثابت کرکے سادہ جواب دینے کی کوشش میں ہیں۔ سادہ جواب، بہت اچھا لگتا ہے ہر کسی کو بلا تردد منوایا جاسکتا ہے، یوں یہ آفاقی بھی محسوس کرایا جاسکتا ہے لیکن کسی متھیڈ کے بغیر یہ ہوا میں معلق ہے۔ کارل سگان نے baloney detection kit میں بہت عمدہ بات لکھی ہے کہ
“Try not to get overly attached to a hypothesis just because it’s yours”
……
جیو سینٹرک = Geo Centric
کنفرمیشن بائس = Confirmation Bias
تھیور لیڈننس = Theory Ladenness
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد حسنین اشرف صاحب بیلیفیڈ یونیورسٹی جرمنی میں ایم ۔اے فلسفہ و تاریخ سائنس کے طالب علم ہیں ۔
کمنت کیجے