Home » کانٹین فکر سے دھوکا کھانے والے مذہبی مفکرین کی غلطی
اسلامی فکری روایت فلسفہ کلام

کانٹین فکر سے دھوکا کھانے والے مذہبی مفکرین کی غلطی

کانٹ کی گمراہ کن فکر سے متاثر ہوکر مذہبی حلقے بھی طرح طرح کی غلط فہمیوں میں پڑ گئے ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کانٹ نے یہ بتا کر وحی کی ضرورت کو اجاگر کیا کہ عقل سے مابعد الطبعیاتی حقائق، بشمول وجود باری تعالی، کا اثبات ممکن نہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ کانٹ نے صرف یونانی فلسفے پر قائم عقلی مابعد الطبعیات کو غیر معتبر ثابت کیا ہے، رہے وحی پر مبنی حقائق تو وہ اپنی جگہ ثابت شدہ ہیں اور نبی کی صداقت کی بنا پر ان حقائق پر قابل فہم طور پر ایمان لایا جاسکتا ہے۔ یعنی ان حضرات کا خیال یہ ہے کہ کانٹ کے فلسفے کی ذد صرف عقلی مقدمات سے ثابت ہونے والے مابعد الطبعی خدا اور اس کی صفات پر پڑتی ہے نہ کہ وحی سے ثابت ہونے والے خدا پر۔

ہمارے نزدیک یہ دعوی سادہ لوحی ہی نہیں بلکہ کم فہمی پر مبنی ہے۔ اگر کانٹ کی یہ بات درست ہے کہ انسان زمان و مکان سے ماورا وجود سے متعلق کسی بھی وجودی دعوے کا فہم نہیں رکھ سکتا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وحی کے الفاظ سے ثابت ہونے والے باصفات خدا کا کیا مطلب ہے؟ مثلاً وحی کہتی ہے کہ خدا قادر ہے۔ کانٹین کہے گا کہ یہ جملہ ناقابل فہم ہے کہ یہ بات ایک ایسی ذات کے بارے میں کہی جارہی ہے جو زمان و مکان سے ماوراء ہے اور اس کے بارے میں ہم کچھ بھی سمجھ نہیں سکتے۔ تو کیا اب صفت قادر کی بھی تاویل کی جائے یا اس کے معنی کی تفویض کی جائے؟ اہل علم جانتے ہیں کہ وہی آیات متشابہ شمار نہیں ہوتیں جن کے بارے میں ہم یہ اصولی بات مانتے ہوں کہ انسان ان کے الفاظ کے مدلول کے کسی پہلو کو سمجھ سکتا ہے اور جن آیات کے کوئی بھی حقیقی معنی عقل کی گرفت میں نہ آئیں وہ متشابہات کہلاتی ہیں اور ان کے بارے میں اہل سنت کا معیاری موقف یہ ہے کہ ان کے حقیقی معنی عند اللہ تو ثابت ہیں مگر ہمیں معلوم نہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ “اللہ کی قدرت” کا حقیقی مفہوم ہمارے نزدیک قابل فہم ہے لیکن “یداللہ” کا حقیقی معنی چونکہ ذات باری کی جناب میں کسی طور قابل فہم نہیں ہے لہذا اس بارے میں “تفویض معنی” درست موقف ہے (بعض حضرات تاویل، یعنی ثانوی معنی مراد لینے، کے بھی قائل ہیں) جبکہ قدرت کے حقیقی معنی ذات باری کے لئے مراد لئے جائیں گے۔ اب اگر کانٹ کی بات درست ہے کہ زمان و مکان سے ماورا کوئی بھی بات قابل فہم و بامعنی نہیں تو اس سے ماورا ذات کے بارے میں اگر وحی میں کوئی لفظ آجائے تو اس لفظ کا معنی بھلا کیا ہوسکتا ہے کہ اس کا اقرار کیا جائے؟ تو ہمارے ان دوستوں کو چاہئے کہ آیت “ان اللہ علی کل شیئ قدیر” کو بھی متشابہہ کہیں اور یا پھر “معنی معلوم و کیفیت نامعلوم” جیسا غیر معقول و ناقابل فہم موقف اختیار کرلیں، یعنی یہ بھی کہتے رہیں کہ اللہ کی بارگاہ میں قدرت کا مفہوم ناقابل فہم بھی ہے لیکن اس کے حقیقی معنی ہمیں معلوم بھی ہیں! اتنا ہی نہیں بلکہ کانٹ کی بات درست مان کر انہیں یہ بھی کہنا ہوگا کہ “اللہ موجود ہے” یہ ایک ایسا جملہ ہے جس کے معنی ہمیں معلوم نہیں، اس کا جو بھی مطلب عند اللہ ثابت ہے ہم بس اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ وہ منطقی لوازم ہیں جو کانٹ کی بات درست ماننے کے بعد پیدا ہوتے ہیں۔ الغرض ہمارے لئے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ آخر کانٹین فلسفہ وحی کے الفاظ سے ثابت ہونے والے خدا اور اس کی صفات پر کیوں کر ھاتھ صاف نہیں کرتا جبکہ وہ وحی میں درج ذات باری سے متعلق ہر ہر لفظ کو ناقابل فہم قرار دیتا ہے؟

متکلمین کو بیوقوف گرداننے والے کانٹ سے متاثر یہ مذہبی مفکرین “مابعد الطبعیات” اور “غیب” کے مابین ایک جعلی فرق پیدا کرکے اپنی خوشی کا سامان پیدا کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں، لیکن یہ اس بات پر توجہ نہیں کرتے کہ کانٹ جب مابعد الطبعیات کو گراتا ہے تو وہ حسی علم کے ماسوا ہر دعوی علم کو بے معنی قرار دیتا ہے۔ اس کے بعد اس ماورائے حس ڈومین میں محض وحی کے الفاظ سے ذات باری اور اس کی صفات کو معنی خیز ثابت کرنے کا کوئی راستہ نہیں بچتا کیونکہ آپ پہلے قدم پر یہ مان چکے ہیں کہ قابل فہم و بامعنی صرف وہ دعوی علم ہے جو حسی مشاھدے سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد حس سے پرے کسی ذات کے بارے میں جو بھی لفظ بولا جارہا ہے، سوائے تفویض معنی کے اقرار کرنے کے ہمارے حق میں اس کا کوئی حقیقی معنی ثابت نہیں رہتا۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں