ڈاکٹر تزر حسین
حاشر ارشاد صاحب نے کسی بھی نظریے کو علمی اور غیر عقلی ثابت کرنے کے لیے ایک اصول پیش کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جو نظریہ اس اصول پر پورا نہیں اترتا وہ غیر علمی اور غیر عقلی ہے اور اس پر بات کرنا ہی وقت کا ضیاع ہے۔ میری رائے میں کوئی شخص مذہب کے لیے دلیل پیش کرتا ہو یا مذہب کے خلاف اسکو ایمانداری سے اس علم کو اور اسکے استدلال کو درست طریقے سے مربوط انداز میں پیش کرنا چاہیے۔ اپ سائنس کی کسی تھیوری کو رد کرنا چاہتے ہیں اس لیے علمی دیانت کا تقاضہ ہے کہ سائنس کے پورے استدلال کو سمجھ کر کوئی بات کی جائے۔ اور یہی اصول مذہب پر تنقید کرنے لیے بھی لازم ہے۔ یہ درست رویہ نہیں کہ اپ درست استدلال کی بجائے اپنی قوت خطابت سے rhetoric انداز میں کسی بات کو درست یا غلط کہہ دے۔ سب سے پہلے تو الفاظ کا چناو محتاط انداز سے کرنا چاہیے یعنی کسی نظریے کو درست اور غلط کہنے سے اگے جاکر اسکو غیر عقلی اور غیر علمی قرار دیتے ہیں تو اسکے لیے اپنے استدلال کا جائزہ مختلف پہلو سے لینا لازمی ہے۔ اسی طرح اپ جس استدلال کو پیش کررہے ہیں تو اسکے نتائج سے بھی واقف ہونا چاہیے۔
حاشر صاحب کی رائے میں کسی بھی نظریے کو عقلی اور غیر کہنے کا اصول سائنسی استدلال ہے یعنی ہر وہ مقدمہ جو سائنس طریقے پر استوار ہو وہ علمی مقدمہ ہے۔ ظاہری بات ہے کہ کہ جو مقدمہ یا نظریہ سائنسی طریقہ کار پر پورا نہیں اترتا وہ غیر علمی اور غیر عقلی ہے۔ اب اس مقدمے کو اگر اپلائی کیا جائے تو اسکی زد میں نہ صرف مذہب ائیگا بلکہ ہر وہ انسانی علم ائیگا جس کی بنیاد سائنسی طریقہ کار پر مبنی نہیں جیسا کہ اخلاقیات، سیاست، فلسفہ، تاریخ وغیرہ۔ اس رویے کو سادہ الفاظ میں سائنٹزم کہا جاتا ہے۔ نیچرل سائنسز اور اسکے طریقہ کار (methods) پر مبالغہ امیز حد تک اعتماد کرکے ہر شعبے (چاہے وہ سماجیات ہو، فلسفہ یا ادب) پر اسکا اطلاق کرنا اور اسکو حقیقت تک پہنچنے کا واحد یا بہترین ذریعہ قرار دینا سائنٹزم کہلاتا ہے۔ سائنس کے کئی فلاسفرز سائنٹزم کو خود سائنس اور دوسرے علوم کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان فلاسفرز کے مطابق کئی بڑے بڑے سائنسدان جیسا کہ سٹیفن ہاکنگ، سٹیون وائن برگ، نیل دی گراس ٹائسن وغیرہ سائنٹزم کا شکار ہیں۔ اور اسکی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ ان سائنسدانوں کا دعوی ہے کہ فلسفے کی موت واقع ہوچکی اور اب یہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔ Sam Harris نے اپنے ایک کتاب میں یہ دعوی کردیا کہ سائنس اور صرف سائنس تمام اخلاقی سوالات کا جواب دے سکتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سام ہیرس کو اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے بھی فلسفیانہ دلائل کا ہی سہارا لینا پڑا۔ اسی طرح سٹیفن ہاکنگ نے ایک طرف فلسفے کی موت کا اعلان کردیا اور دوسری طرف غیر شعوری طور پر کاسمولجی پر ساری فلسفیانہ گفتگو کرلی۔ اسکے علاوہ کئی لوگ جو conscious یا اخلاقی اور سماجی اقدار کو سائنس تک محدود کرتے ہیں یہ سب سائنٹزم ہیں۔ اسکی ایک اور مثال ڈیوڈ ہیوم کی یہ بات ہے جو کہ اس نے اپنی کتاب An enquiry concerning human understanding میں لکھی ہے جس کے مطابق اگر کسی کتاب میں ریاضی اور ایمپیریکل سائنس کی بات موجود نہیں تو ایسی ہر چیز اس قابل ہے کہ اسکو جلایا جائے کیونکہ یہ ایک فضول چیز ہے۔ ڈیوڈ ہیوم کی یہ کتاب خود جس میں نہ ریاضی ہے اور نہ سائنس لیکن یہ کتاب پھر بھی بہت اہم اور کارامد ہے۔
سوزن ہیک Suzan Haack جو کہ اکسفورڈ اور کیمبرج کی فیلو رہ چکی ہے سائنٹزم کی چھ نشانیاں ذکر کرتی ہے۔ اس میں بنیادی نقطہ یہ ہے کہ جب سائنس کو اسکے دائرے کارسے نکال کراسکو ہر فیلڈ کے لیے معیار قرار دیا جائے تو اسکا منطقی نتیجہ یہی نکلے گا کہ سائنس کے علاوہ سماجیات، فلسفہ اور ادب وغیر سب غیر ضروری قرار پاتے ہیں۔ حاشر صاحب کی استدلال کا بھی یہی لب لباب ہے کہ ہر وہ چیز جو سائنسی یا ایمپیریکل نہیں وہ غیر عقلی ہے۔ سائنٹزم کا یہ رویہ اچانک پیدا نہیں ہوا اسکے پیچھے ایک تاریخ ہے اور اسکی بنیادیں جڑیں logical positivism یعنی منطقی اثباتیت کی تحریک میں پائی جاتی ہے۔ یہ تحریک بیسوی صدی کے اوائل شروع ہوئی اور اور اسی صدی کے وسط تک جاری رہی۔ یہ اس دور کی بات ہے جب سائنس کا عروج تھا اور سائنس ہر جگہ اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی تھی۔ اور Vienna Circle کے نام سے فلسفہ کی اصلاحی تحریک کا اغاز ہوگیا۔
منطقی اثباتیت کی اس تحریک کی بنیاد Verification Principle تھی۔ ویریفیکیشن کا مطلب ہے کہ صرف اور صرف وہ نظریہ یا دعوی meaningful یعنی بامعنی ہے جو کہ ایمپریکلی ویریفائبل ہو یا وہ analytical statement ہو۔ یعنی اگر کوئی کہتا ہے کہ “بارش ہورہی ہے” تو کیا یہ دعوی کوئی بامعنی دعوی ہے اسکو ٹسٹ کرنے کا معیار یہ ہے کہ باہر دیکھ اسکو ویریفائی کیا جائے کہ بارش ہورہی ہے یا نہیں۔ اسی طرح “تمام کوے کالے ہیں” اسکو بھی ایمپیرکلی ویریفائی کیا جاسکتا ہے اس لیے یہ بھی ایک بامعنی بات ہے۔ اس طرح analytical statement کی مثال یہ ہوگی کہ تمام انسان فانی ہے، زید بھی انسان ہے اس لیے فانی ہے۔ لاجیکل پازیٹوسٹ کے مطابق analytical statement ہمارے علم میں کوئی اضافہ نہیں کرتی یہ اپنی تعریف میں ہی درست ہے یعنی جب کوئی کہتا ہے کہ تمام انسان فانی ہے تو اسکا ایک منطقی نتیجہ نکلنا ہے اسکو tautology بھی کہتے ہیں۔ منطقی اثباتیت کے اس اصول کو Theory of Meaning کہتے ہیں۔ اس تحریک کے مطابق ہر وہ نظریہ جو ویریفیکیشن کے اصول پر پورا نہ اترے وہ بے معنی ہے کیونکہ اس کو ویریفائی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ “میرے گھر کے باہر ایک یونی کارن ہے” تو باہر جاکر یونی کار کو دیکھا جائے اگر ہے تو بامعنی بات ہے اور اگر نہیں ہے تو یہ ایک بے معنی بات ہے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ “میرے گھر کے باہر ایک نظر نہ انے والا، بغیر کسی رنگ وہ بو یونی کارن ہے جس کو ڈیٹیکٹ نہیں کیا جاسکتا”۔ لاجیکل پازیٹوسٹ کے مطابق یہ دعوی اگرچہ گرائمر کے لحاظ سے درست ہے اور اس دعوی کامطلب بھی واضح ہے۔ لیکن یہ دعوی درست ہے یا غلط ہمیں نہیں پتہ بلکہ ویریفیکیشن کے اصول کے مطابق یہ ایک بے معنی بات ہے۔
اب ویریفیکشن کے اصول کو مان کر اسکے ماننے والوں کو کچھ مسائل کا سامنا رہا مثلا یہ کہ اگر کوئی کہے کہ پلوٹو کا مرکز پنیر کا بنا ہے تو ویرفیکیشن کے اصول کے مطابق یہ بھی ایک بے معنی بات ہے کیونکہ اسکو ویریفائی نہیں کیا جاسکتا لیکن اس میں انکے لیے چیلنج یہ تھا کہ مستقبل میں اگر سائنس اسکو ویرئیفائی کرلیتی ہے اور ہم اس قابل ہوجائے کہ پلوٹو کے مرکز کو دیکھ سکے تو یہ ایک بامعنی دعوی ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی دعوی کرتا ہے کہ “تمام کوئے کالے ہیں” تو یہ ایمپریکلی ناممکن ہے کہ تمام کووں کا مشاہدہ کیا جائے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم لاکھوں کوئے دیکھے لیکن تمام کوئے کالے والا نتیجہ ویریفایبل نہیں بنتا۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے اس تحریک کے ایک نامور فلسفی A. J. Ayer “نے عملی ویریفیکیشن اور اصولی ویریفیکیشن” کا اصول پیش کیا یعنی اسکا مطلب یہ کہ عملی طور پر اج ہم پلوٹو کے مرکز کو نہیں دیکھ سکتے لیکن یہ اصول میں ایک ویریفائبل دعوی ہے۔ اسی طرح دوسرے مسئلے کو حل کرنے کے لیے “weak verification ” اور”Strong Verification” کا تجویز کیا۔ یعنی اب ہم جب یہ کہتے ہیں کہ تمام کوے کالے ہیں اسکو ہم سو فیصد درست نہیں کہتے لیکن یہ ہمارے تجربے کے مطابق اپنے غالب امکان میں درست ہے اگرچہ weakly verifiable ہے۔
یہ وہ نظریہ ہے جس کا کافی عرصہ تک مغرب میں بول بالا رہا ہے اور اسکے مطابق فلسفہ، مذہب، اخلاقیات سب کچھ بے معنی ہوجاتا ہے۔ چوری کرنا بری بات ہے boo. سچ بولنا اچھی بات ہے Yay. اسی Yay-Boo اخلاقی تھیوری کے مطابق اپنے اخلاق کے اظہار کے علاوہ کچھ نہیں۔ اسی طرح اپ اپنا کوئی اندرونی موضوعی تجربہ بیان کرتے ہیں مثلا کسی چیز پر خوشی یا غم کا اظہار کرتے ہیں تو اسکا مطلب صرف یہ ہے کہ ہم اپکے تاثرات کو دیکھ سکتے ہیں اور یہی اسکا مطلب ہے اسکے علاوہ یہ کچھ بھی نہیں۔ اور اس لحاظ سے یہ ایک کافی انتہاپسند تھیوری ہے کہ جو نظریہ یا دعوی ویریفائبل نہ ہو وہ بے معنی ہے۔ یعنی اگر اپ یہ کہینگے کہ خدا ہے تو اسکا کیا ثبوت ہے کوئی اگے سے کہتا ہے کہ کائنات میں ڈیزائن ہے تو وہ کہینگے کہ یہ تو ڈیزائن کا ثبوت ہے خدا کا نہیں کیونکہ جسکو ویریفائی کیا جاسکتا ہے وہ ڈیزائن ہے۔ یعنی انکے مطابق خدا موجود ہے یا خدا موجود نہیں ان دونوں باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ دونوں باتیں نہ درست ہے اور نہ غلط یہ بس بے معنی ہے۔ اب حاشر صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اسی پس منظر میں لکھاہے اور اس نے اسی معیار کو پیش کیا ہے۔ لیکن اس ساری بحث میں ویریفیکیشن کی جگہ فالسیفیکیشن کا اضافہ کیا۔ اور فالسیفیکیشن اور ویریفیکیشن کو ہم معنی استعمال کیا اور لکھا کہ جو چیز قابل تغلیط نہ ہو یا ویریفائبل نہ ہو وہ غیر منطقی اور غیر عقلی ہے۔ لیکن اس اصول کے مطابق ایک غلطی کردی کہ سورج کے گرد گھومنے والا چھوٹا سا برتن چونکہ ویریفایبل نہیں اس لیے یہ ایک ناقابل توجہ بات ہے لیکن جیسا کہ پہلے بتایا گیا یہ اصولی طور پر ویریفایبل ہے عملی طور پر ویریفائبل نہیں۔
اسی طرح حاشر صاحب نے منطقی اثباتیت کی اس تھیوری کو بنیاد بنا کر ویریفیکیشن کی بجائے فالسیفیکیسن کا اصول بیان کیا۔ اب یہاں پر دو چیزوں بلکہ دو انتہائی مختلف چیزوں کو مکس کیا گیا۔ فالسیفیکیشن کا اصول کارل پاپر نے پیش کیا اور اس اصول کو پیش کرنے سے پہلے کارل پاپر نے لاجیکل پازیٹوسٹ پر سخت تنقید کی ہے اور ان کے ویریفیکیشن کے اصول کو مکمل طور پر نہ صرف رد کردیا بلکہ فالسیفیکیش کا متبادل اصول پیش کیا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نے فالسیفیکیشن کے اصول کو سائنس کو نان سائنس اور سوڈو سائنس سے ڈیمارکیٹ کرنے کے لیے پیش کیا انکا مقصد چیزوں کو بامعنی اور بے معنی کہنا مراد نہیں تھا۔ بلکہ انہوں نے لکھا ہے کہ میرا مقصد پازیٹوسٹ کی طرح کسی theory of meaning کو پروپوز کرنا نہیں تھا بلکہ اسکا مقصد سائنس کو ریاضی، میٹافزکس اور دوسرے فیلڈز سے ڈیمارکیٹ کرنا تھا تاکہ سائنس کو ایک مستحکم منطقی بنیاد فراہم کیا جاسکے۔ لیکن پاپر نے اس فالسیفیکیشن کے اصول کو لاجیکل پازیٹوسٹ کی طرح ہر جگہ معیار بناکر استعمال نہیں کیا۔ بلکہ اس نے یہاں تک لکھا ہے کہ لاجیکل پازیٹوسٹ کا مقصد میٹافزکس کو kill کرنا تھا لیکن میرا مقصد یہ نہیں بلکہ میں میٹافزکس کی نہ صرف اہمیت کو تسلیم کرتا ہوں بلکہ اسکو سائنس کے لیے بھی اہم سمجھتا ہوں۔ اسی طرح وہ اخلاقیات، سیاست مذہب اور دوسرے شعبوں پر اپنے فالسیفیکیشن کا اصول اس طرح اپلائی نہیں کرتا بلکہ اپنے ڈسکورس کی بنیاد critical analysis پر رکھتا ہے تاکہ ہم dogmatism کا شکار نہ ہو بلکہ ہر نظریے اور بات کا بہادری سے تنقیدی جائزہ لے۔ اب دلچسپ بات یہ ہے کہ پاپر کے مطابق dogmatism صرف مذہبی لوگوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ غیر مذہبی لوگ بھی اسکا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس لیے وہ ہر جگہ چاہے مذہب ہو سائنس ہو، فلسفہ ہو سیاست ہو تنقیدی جائزے کے بغیر کسی چیز کو تسلیم نہیں کرتے اور اسی تنقیدی رویے کو اگے جانے کے سفر کو اہم سمجھتا ہے۔ اس بنیاد پر وہ مذہب کو بھی تنقیدی نگاہ ہی سے دیکھینگے لیکن وہ لاجیکل پازیٹوسٹ کی طرح مذہب، سیاست، اخلاقیات کے لیے فالسیفیکیشن کو معیار نہیں بنائیگے۔ اس لیے انکے ہاں دوسرے علوم اس طرح غیر ضروری اور غیر اہم قرار نہیں پاتے جس طرح لاجیکل پازیٹوسٹ کے ہاں یہ غیر ضروری ہیں۔ کیونکہ لاجیکل پازیٹوسٹ کو انکا طے کردہ معیار اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ ایسا کریں۔ اس کے برعکس پاپر باقی علوم کی اہمیت کے قائل ہیں اور مذہب کو بھی اخلاقیات اور وجود سے متعلق سوالات کے تعلق سے اہم سمجھتے ہیں۔
اب حاشر صاحب نے اصولی طور پر اپنی مقدمہ کی بنیاد لاجیکل پازیٹوسٹ کی طرز پر رکھا ہے کہ ہر وہ نظریہ غیر عقلی ہے اور غیر علمی ہے جو کہ سائنسی استدلال پر پورا نہ اترے۔ لیکن اس میں فالسیفیکیشن کا پیوند لگایا۔ وہ ان دونوں نظریوں کے پس منظر اور پیچیدگیوں کو نظر انداز کرکے اسکو ایک rhetoric انداز میں پیش کیا ہے۔ اب یہ الگ بحث ہے کہ لاجیکل پازیٹوسٹ کی تحریک دم توڑ چکی ہے اور اسکا اعتراف A. J. Ayer جیسے لوگ کرچکے ہیں جو اس تحریک کے روح رواں تھے۔ لیکن ہمارے ہاں اب بھی سائنس سے شغف رکھنے والے لوگ اس تحریک کی بنیاد پر اپنی نظریات کی پیش کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ فالسیفیکیشن کا اصول جو سائنس میں اہم معیار ہے لیکن یہ بھی کوئی حتمی معیار نہیں بلکہ وہاں پر بھی مسائل ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں چیزوں کو انکے پیچیدگیوں کی بجائے سیاہ اور سفید میں دیکھنے کا رواج ہے کیونکہ یہ رویہ میرے یا اپ کے مذہبی یا غیر مذہبی پوزیشن کو تقویت فراہم کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تزر حسین صاحب نے السٹر یونیورسٹی (یوکے) سے کمپوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور اسی مضمون سے بطور لیکچرار منسلک ہوں۔
ای میل : tazar.hussain@gmail.com
کمنت کیجے