محمد اشفاق
جن مسلم اقوام پر استعمار کو ایک عرصہ تک غلبہ حاصل رہا ، وہ اقوام آہستہ آہستہ اپنی تہذیب اور علمی ورثہ سے بے بہرہ ہوتی گئیں ،
استعمار کے چلے جانے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ اقوام اپنی علمی تراث اور تہذیب کے احیاء کی برابر کوشش کرتیں ، ان کی تمام تر کوششیں تہذیب کے صرف ایک گوشے “شناخت” کو بچانے پر صرف ہوئیں ، جس کے نتیجے میں شناخت نے عصبیت کا روپ دھار لیا ، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو کفر و اسلام کی جنگ بنا لیا گیا ۔
اس حوالے سے اگر شریعت کے عمومی مزاج کو دیکھنا اور سمجھنا ہو تو ان مسلم ممالک کو دیکھنا مناسب ہوگا جہاں کسی غیر قوم کا نسبتاً کم یا نہ ہونے کے برابر رہا ۔
ہماری درسگاہوں میں بجائے اس کے کہ ابوحنیفہ سے لیث بن سعد تک کے اساطین کی آراء زیرِ بحث آتیں ، غزالی و رازی کے افکار پر بات ہوتی ، ابن تیمیہ و ابن القیم کے اجتہادات زیرِ تبصرہ آتے ، شاہ ولی اللہ کے فلسفہ پر مقالے لکھے جاتے ، انور شاہ کے علوم سے خوشہ چینی کی جاتی ، سندھی کے افکار کو پرکھا جاتا ،
یہاں یہ ہونے لگا کہ لباس کے ماپ ہونے لگی ، ڈاڑھی کی پیمائش کی جانے لگی ، آستین کی لمبائی اور چوڑائی چیک کرنے لگے وغیرہ ۔
اس چیز کا اثر صرف ہماری تراث سے واقفیت کے بحران پر ہی نہیں ، ہمارے سماجی رویوں ، معاشرتی میل ملاپ اور ہماری ترجیحات پر بھی انتہائی گہرائی کے ساتھ آں وارد ہوا ۔
مذہبی اجتماعات میں اصحابِ جبہ و قبہ کو ڈاڑھی کے نہ کاٹنے پر تو حلف لیتے ہوئے تو دیکھا ، لیکن نہیں دیکھا تو یہ نہیں دیکھا کہ اس چیز کا حلف لیا گیا ہو کہ آج کے بعد کسی کو دھوکا نہیں دوں گا ، خرید و فروخت میں ملاوٹ سے باز رہوں گا ، وغیرہ ۔۔۔
میں پھر یہ عرض کر دوں کہ شناخت کی اہمیت سے انکار نہیں ، لیکن اسی شناخت پر ہی اتنا زور صرف کرنا کہ دیگر بہت ساری اہم چیزیں پسِ منظر میں چلی جائیں ، افسوسناک ضرور ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد اشفاق صاحب جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے فاضل و متخصص ہیں اور رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی فیصل آباد سے ایم فل علومِ اسلامیہ کی تکمیل کر چکے ہیں ۔
کمنت کیجے