عمران شاہد بھنڈر
بیسویں صدی کی ادبی و فنی تنقید میں جن نقادوں کا نام عظمت کی معراج تک پہنچا ہے ان میں اکثریت مارکسی نقادوں کی ہے۔ ان ناقدین میں لوکاش، اڈورنو، والٹر بینجمن، پیئر ماشیرے اور لوسیئن گولڈ مان سمیت کئی اور اہم نام شامل ہیں۔ عمومی طور پر مارکسی ادبی و فنی تنقید میں سب سے بڑا اور اہم نام لوکاش کا سمجھا جاتا ہے۔ تاہم اس سے اختلاف کرنے والے بھی مارکسی نقاد ہی ہیں، جو لوکاش کو اصلاح پسند کہتے ہیں، محض اس لیے کہ لوکاش فن و ادب کے لیے پروپیگنڈے کو ضروری نہیں سمجھتا۔ لوسین گولڈ مان کا نام بھی بیسویں صدی کی ادبی و فنی تنقید میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ گولڈمان نے لوکاش کے مارکسزم اور ہیگلیائی جمالیات کا دلچسپ امتزاج پیش کیا۔ ٹیری ایگلٹن اپنی ایک مختصر تصنیف ’’مارکسزم اور ادبی تنقید ‘‘ میں گولڈمان کے تصورِ نقاد کا دلچسپ احاطہ کرتا ہے۔ ایگلٹن وضاحت کرتا ہے کہ گولڈمان کو ادبی متن، ورلڈ وژن اور تاریخ کے درمیان ساختوں کی دریافت مقصود تھی۔ جب بھی کوئی ادب یا فن پارہ وجود میں آتا ہے تو ضروری نہیں کہ اس کی تخلیق کے دوران میں ادیب یا فن کار کے ذہن میں متذکرہ بالا تینوں عوامل کے درمیان ، سماج میں طبقات کی حیثیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، ساختیاتی تعلق صاف طور پر موجود ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ فن کار کے ذہن میں مادی بنیادوں پر استوار تاریخ کا مفہوم ہی واضح نہ ہو۔ جب ہم ورلڈ وژن یا تاریخ کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں متن کا وہ مفہوم بھی موجود ہونا چاہیے جو وہ خود سے باہر دیگر عوامل سے رکھتا ہے ، یعنی متن کی وہ ساختیں ، جن کو محض تاریخ اور ورلڈ وژن سے ارتباط میں ہی عیاں کیا جاسکتا ہے۔ گولڈ مان کا خیال ہے کہ ہمیں تنقید میں اس جدلیاتی طریقہ کار کی ضرورت ہے جو متن، ورلڈ وژن اور تاریخی عوامل کو ایک دوسرے کے ساتھ ارتباط میں دیکھتے ہوئے ان تینوں جہات کے درمیان ساختیاتی رشتوں کو واضح کرے۔ یہیں سے نقاد کے اس کردار کا آغاز ہوتا ہے، جو متن، ورلڈ وژن اور تاریخ کے درمیان تعلق کو سامنے لاتا ہے۔ متن کی حد تک مصنف کا کردار اہم ہوسکتا ہے، لیکن متن کی وہ خارجی ساخت جو دیگر عوامل سے ارتباط میں رہتی ہے، اس کا احاطہ کرنا کسی بھی ’’تخلیق کار‘‘ کا بس کا روگ نہیں ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں ہم نے گولڈ مان کے تنقیدی نظریے کا ذکر کیا ہے اور ضروری نہیں کہ جو کچھ گولڈ مان نے کہا ہے اس سے اتفاق بھی کیا جائے، لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ جب ہم کسی بھی نکتے پر اعتراض کرتے ہیں تو دو باتیں ذہن میں رہنی ضروری ہیں: ایک یہ کہ جس نکتے پر اعتراض کیا ہے ، کیا ہمیں اس کی تفہیم ہو پائی ہے؟ دوسرا یہ کہ اعتراض رقم کرتے ہوئے ہم نے کون سا علمی منہج اختیار کیا ہے؟ اگر ہم کانٹین فلسفے سے آگاہ ہوں تو ہمیں گولڈمان کے تنقیدی نظریے کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے۔ کانٹین مقولات کو ماہر نفسیات پیازے نے اپنے جینیاتی ساختیات کے نظریے کی بنیاد رکھنے کے لیے استعمال کیا اور گولڈمان نے پیازے کی اسی جینیاتی ساخت کو اپنے تنقیدی نظریے کی تشکیل کے لیے استعمال کیا۔ کانٹین مقولات ایک طرح کی جامد ساختیں تھیں، جبکہ پیازے نے بچے کے ذہن میں ساختوں کے متحرک کردار پر زور دیا۔ گولڈ مان ، چونکہ ہیگلیائی شعوری فلسفے پر بھی گہری نظر رکھتا تھا اس لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ تبدیلی و ارتقا سے عاری ساختوں کے کردار پر وقت برباد کرتا۔ یہ بھی واضح رہے کہ نقاد دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جن کی توجہ کا مرکز و محور صرف اور صرف فن پارہ ہوتا ہے، اور اسی کو سامنے رکھتے ہوئے وہ صرف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فن پارہ کیسے وجود میں آیا ہے، کن تکنیکی اصولوں سے فنی پیداوار ممکن ہوئی ہے، لیکن ان کے پیشِ نظر ان تکنیکی اصولوں کے تجزیے سے یہ مقصود نہیں ہوتا کہ سماج میں وہ ان تکنیکی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے اس پیداواری کردار کا احاطہ کر سکے، جس سے کہ فن پارہ اس انداز میں معروضی کردار کا حامل بن جاتا ہے کہ اس کی اپنی حرکت سے اس کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ رہا یہ سوال کہ تخلیق کار کا ولڈ وژن بہت گہرا ہوتا ہے اور گولڈمان کے مفہوم میں وہ اس کے وضع کردہ اصولوں کے تحت متن، ورلڈ ویژن اور تاریخ کا ایک واضح مفہوم تخلیقی عمل کے دوران میں اپنے ذہن میں رکھتا ہے تو اس کا فیصلہ صرف اسی وقت کیا جا سکتا ہے جب ایسا تخلیق کار گولڈ مان کے انہی اصولوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی تخلیق کا تجزیہ پیش کرے۔ اپنے ذہن کے اندر ان گہری ساختوں کا سراغ لگائے جن کی حیثیت طبقاتی ہوتی ہے، اور پھر ان ساختوں کو جدلیاتی نقطہ نظر سے نہ صرف اپنے ولڈ وژن سے ربط میں دیکھے بلکہ تاریخ کا وہ مفہوم اخذ کرے جو ان ساختوں سے ہم آہنگ ہو۔ ایسی کوئی مثال کم از کم میں نے اُردو کی تنقید میں نہیں دیکھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ گولڈمان کے تنقیدی نظریے کی سچائی صرف اس خیال تک محدود ہے کہ وہ کس حد تک جدلیاتی نقطہ نظر اختیار کرتا ہے۔ جن ساختوں کا نظریہ وہ پیش کرتا ہے، بقول ایگلٹن، ان میں ہیگلیائی شعوری عوامل زیادہ کارفرما ہیں کہ جس سے سماج کے اندر حقیقی قوتیں جو شعور کا بھی محرک ہوتی ہیں، ان کا احساس مفقود ہے۔ اب ایگلٹن کو بھی یہ بتانا پڑے گا کہ جب انھوں نے اپنی کتاب ’’تنقید اور آئیڈیالوجی‘‘ لکھی تھی تو وہ بھی اسی طرح ماشیرے کی ساختیات کے زیرِ اثر تھے، جیسے کہ گولڈمان پر ساختیات کے اثرات نمایاں طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا متن کی کوئی خارجی ساخت موجود ہے جس سے باہر وہ قابل فہم ہو سکے؟ مابعد ساختیاتی تنقید نے متن کو اس کے داخلی لسانی رشتوں، افتراقات، انسلاکات اور تضادات کی بنیاد پر خلا میں معلق کر دیا ہے۔ اگر متن کی داخلی لسانی ساخت پر نظر رکھی جائے تو ایسا کوئی لمحہ نہیں آتا کہ جس سگنی فائڈ، معنی یا اس میں پیش کیے گئے ورلڈ وژن پر مکمل گرفت ہو سکے۔ اس طرح متن اپنے داخلی رشتوں سے باہر نہیں نکل پاتا۔ دوسری مشکل یہ ہے کہ متن کو اس کے خارجی پہلووں سے کیسے جوڑا جائے کہ وہ تاریخی اور ورلڈ ویو کے اعتبار سے قابل فہم ہو سکے۔ یہ ایسا “اصول موضوعہ” ہے جس کی تحلیل ممکن نہیں ہو پائی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تحلیل ممکن ہو بھی نہیں سکتی اور متن اپنے ہی داخلی رشتوں کے ایک وسیع اور لامتناہی گورکھ دھندے میں پھنسا رہے گا۔ لسانی معروضیت پر موضوعیت چسپاں تو کی جا سکتی ہے۔ اس طرح، بہرحال، زبان کو بطور سائنس سمجھنے کے تصور سے انحراف کرنا پڑے گا، جو میری نظر میں “بددیانتی” کے زمرے میں آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب یو۔کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔
کمنت کیجے