Home » ریاست کے حقوق کے حوالے سے مفتی عبد الرحیم صاحب کی بات کا جائزہ
سیاست واقتصاد شخصیات وافکار

ریاست کے حقوق کے حوالے سے مفتی عبد الرحیم صاحب کی بات کا جائزہ

جامعہ الرشید کے مفتی عبد الرحیم صاحب کے بعض شذرات ریاست کے حقوق کے حوالے سے ان دنوں میں فیس بوک پر نشر کیے جا رہے ہیں۔ ان میں جو بعض میں نے دیکھے اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ دراصل علما یا طلبہ سے گفتگو کر رہے ہیں جنہوں نے آگے چل کر قوم کی دینی رہنمائی کرنی ہے۔

ظاہر ہے کہ ریاست اور رعایا کے تعلق میں کلیدی بات مقتدرہ کے حقوق اور موجودہ طاقت کے مرکز کے خلاف مسلح جدوجہد بنیادی عنصر ہے۔ پچھلی دہائیوں میں اس ایک پہلو کی وجہ سے ملک خداداد نے خون کی ہولی بھی دیکھی ہے۔ نیز ابھی کچھ عرصے پہلے ہمارے پڑوس سے بعض لوگوں نے پاکستانی ریاست کو “امامت باطلہ” کا مصداق قرار دیا۔ سامنے کی بات ہے کہ اس طرح کی باتوں سے ایک مخصوص طبقے کے لیے راہ ہموار ہوتی ہے۔ اس حالت میں، مفتی صاحب کا ریاست کی شرعی حیثیت پر گفتگو کرنا برمحل ہے۔ نیز انتخابات کے دنوں میں خاص طور سے یہ بات چلائی جاتی ہے کہ چونکہ یہ ریاست اس دور کا طاغوت ہے اس لیے اس کے کسی عمل میں شمولیت طاغوت کا ساتھ دینا ہے۔ جن لوگوں کا معاشرے کے نوجوانوں سے واسطہ ہے وہ اس طرح کے جذبات سے بخوبی واقف ہیں۔

اس سب میں مفتی صاحب کا ان امور کو واضح کرنا بالکل برمحل ہے۔ تاہم اس پر مندرجہ ذیل تنقید کی گئی:

مذہبی دانش مقتدرہ کی چوکھٹ پہ:

ریاست جب ایک اژدھے کے مانند اپنے شہریوں کو کھا رہی ہو تو ایسے میں ریاست کے حقوق کا ذکر چے معنی دارد؟ ایسے میں کیا ریاست کو شہریوں کے حقوق کی تلقین نہیں کرنی چاہیے؟
اسی طرح ریاست کے حقوق کا تصور شریعت میں کہاں پایا جاتا ہے ؟ ریاست کی تو ذمہ داریاں ہوتی ہیں حقوق کہاں سے آگئے؟
موصوف فرماتے ہیں کہ ریاست پہ شیطان صفت حکمران مسلط ہوجاے تب بھی صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ یہ ہے وہ مذھبی دانش جو ہاتھ باندھے مقتدرہ کی چوکھٹ پہ ہر وقت کھڑی رہتی ہے۔ ان سے ہم شریعت کہ آزادانہ تعبیر و تشریح کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔

کسی بھی ایسے موقف یا رائے کے حامل کو “علمائے سوء” میں سے دکھانا بہت آسان ہے جس سے مقتدرہ کی تائید ہوتی ہو۔ یہ ایک مبتذل (Cliche) بات بن چکی ہے۔ ڈاکٹر یوسف قرضاوی صاحب جیسی شخصیت کو بھی ان کی بعض آرا کی وجہ سے، جیسے کسی مسلمان کا بعض تفصیل کے ساتھ امریکی فوج میں نوکری کرنا جبکہ افغانستان پر امریکا کی فوج کشی جاری تھی، لوگوں نے مغرب اور شرق اوسط میں اس کی چھاونی کا پیروکار قرار دیا اور “من فقهاء السلطة وعلماء الشرطة” کا عنوان چسپاں کیا جبکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ انہیں مغرب میں دہشتگرد قرار دیا گیا۔ اسی طرح، ان کی دختر کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بہر کیف، اس اعتراض میں اٹھائے گئے امور کا جواب مندرجہ ذیل ہے:

۱: کسی بھی مکلف پر ذمے داری اس کے بالمقابل حق کے بغیر کوئی تصور نہیں رکھتی۔ یہ فقہ کا مسلمہ اصول ہے۔ بڑا عجیب سوال اٹھایا ہے۔

اب یہاں یہ سوال نہ اٹھائیے گا کہ اسلام میں شخص قانونی جیسے شے کا کوئی تصور نہیں کیونکہ اس صورت میں ریاست کی ذمے داریوں کی بات بھی لغو قرار پائے گی۔

۲: ریاست یا مقتدرہ یا جسے حاکم وقت کہتے ہیں اس کے حقوق جاننے کے لیے فقہ اور علم کلام کے متعلقہ ابواب کا مطالعہ ضروری ہے جہاں یہ امور تفصیل سے بتائے جاتے ہیں۔

۳: اگر ریاست وہ ظلم کر رہی ہو جس کا تذکرہ اعتراض میں کیا گیا ہے، تو کیا لوگوں کو مسلح جد وجہد کی ترغیب دی جائے؟ اگر معترض کا جواب نفی میں ہے، تو یہ وہی بات ہوئی جس پر مفتی صاحب کی بات پر تنقید کی گئی (اور ریاست کا حق مان لیا گیا) اور اگر اس کا جواب ہاں میں ہے، تو اعتراض کنندگان صاف الفاظ سے یہ کہتے کیوں نہیں کہ اس حالت میں مسلح جدوجہد ضروری ہے؟ نیز وہ یہ فریضہ کیوں سرانجام نہیں دیتے؟

۴: جب ریاست ظلم کر رہی ہو، وہی وقت مقتدرہ یا حاکم وقت کے حوالے سے عوام الناس پر عائد ذمے داری بیان کرنے کا ہے کہ کیا وہ مسلح جد وجہد پر نکل آئے یا نہیں؟

الغرض اسی طرح کی فکر نے پچھلی دہائی میں اس ملک کو ایک بحران سے دوچار رکھا اور اب ایک مخصوص طبقے کے طرف سے ایسی لہریں پھیلائی جار رہی ہیں کہ جس سے ریاست کے خلاف اقدام لوگوں کے لیے ایک واضح شرعی اخلاقی تقاضا بن جائے۔ نیز ہمارے ہاں دینی دائرے اور ریاست میں جو مخاصمت کا رشتہ چلا آ رہا ہے اس میں جو اعتدال کی راہ ہموار ہو رہی ہے اس کی راہ میں یہ رویہ بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ تاہم امید ہے کہ دینی قیادت اس طرح کی تنقید کو نظر انداز کر کے اپنی شرعی ذمے داری نبھائے گی۔

والله أعلم!

مشرف بیگ اشرف

مولانا مشرف بیگ اشرف روایتی دینی علوم کے استاذ ہیں اور بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے فلسفہ وعقیدہ میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔

m.mushrraf@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں