عمران شاہد بھنڈر
جناب محمد دین جوہر صاحب کی ایک تحریر نظر سے گزری ہے جسے پڑھ کر حیرت نہیں ہوئی کیونکہ ہمیشہ کی طرح انہوں نے اس تحریر میں بھی منطقی مغالطوں کا ارتکاب کیا ہے۔ وہ سب سے بھیانک جس منطقی مغالطے کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں اسے Ad Hominem کہتے ہیں۔ اب تو منطق کے معمولی طالبِ علم بھی اس مغالطے کے مطلب سے آگاہ ہو چکے ہیں کہ کسی کے خیالات کی بجائے اس کی ذات کو نشانہ بنانا کوئی سنجیدہ عمل نہیں ہوتا۔ آنجناب کی ساری تحریر ہی ذاتی حملوں سے بھری ہوئی ہے۔ لہذا ذاتی حملوں کو موضوع بنانا میری تحریر کا مقصد نہیں ہے۔ دوسرا منطقی مغالطہ جس کا وہ شکار ہوئے ہیں، اسے Appeal to Authority کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب بھی واضح ہے کہ کسی شخص،کسی کتاب کو ”سند“ کے طور پر پیش کیا جائے، نہ کہ ان کے پیش کیے گئے دلائل کا منطقی تجزیہ کیا جائے۔ جنابِ جوہر نے ماہرینِ طبیعات کو اپنے اور میرے لیے اتھارٹی کے طور پر پیش کیا ہے، اور خود سے یہ طے کر لیا ہے وہ فزکس کا علم رکھتے ہیں جبکہ مجھے اس بارے کوئی آگاہی نہیں ہے۔ میں اس نکتے کو واضح کرتا چلوں کہ ماہرینِ طبیعات آنجناب کے لیے تو کوئی اتھارٹی ہو سکتے ہیں، لیکن وہ ماہرینِ طبیعات ایک دوسرے کے لیے کسی قسم کی کوئی اتھارٹی نہیں ہوتے۔ اگر اس کے باوجود وہ سائنسدانوں کو اتھارٹی مانتے ہیں تو میں ملحد سائنسدانوں کی ایک فہرست تیار کر دیتا ہوں۔ سائنسدانوں کے ہاں ایک ہی موضوع پر متضاد خیالات کا انبار لگا ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے فقط نام کو بطورِ دلیل پیش کرنا درست نہیں ہے۔ ورنہ جوہر صاحب کے لیے اپنے مذہب کی اساس کو بچانا بھی ناممکن ہو جائے گا۔ کیونکہ مذہبی قصے کہانیوں کا تعلق قدیم اساطیر کے ساتھ ہے جنہیں کسی بھی صورت میں عقلی مباحث میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔ جوہر صاحب بھی انہی دیومالائی کہانیوں کے حصار میں مقید ہیں اسی لیے آنجناب ہمیشہ اپنی تحریر میں متضاد خیالات کو یکجا کر دیتے ہیں۔ ان کے قارئین کا بھی یہی خیال ہے کہ ان کی تحریریں بہت مشکل ہوتی ہیں، جبکہ اس میں کوئی سچ نہیں ہے۔ ان کی تحریریں ذہنی و فکری الجھاؤ کی ”اعلیٰ“ مثال ہوتی ہیں جن میں ربط اور تسلسل کی کمی ہوتی ہے۔ میں اگلی چند سطور میں یہ واضح کروں گا کہ جوہر صاحب کو خود بھی علم نہیں ہے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔
مجھے ان کی اس بات سے قطعی طور پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ”علت و معلول“ ایک عقلی تصور ہے، اور اس عقلی تصور کی تصدیق مظاہر میں ہوتی ہے اور اگر مظاہر موجود نہ ہوں تو اس تصور کا اطلاق تجربے پر نہیں ہو سکتا۔ عین ممکن ہے کہ اس کا اطلاق مظاہر سے پرے یعنی ”شے فی الذات“ پر کرنے کی کوشش کی جائے، اس سے ایک منطقی تصور تو حاصل ہو سکتا ہے، جس کا تعلق مافیہا کی بجائے صرف بنتر کی درستی سے ہو، لیکن اس سے کوئی علم حاصل نہیں ہو سکتا۔ وجہ اس کی یہ کہ علم صرف مظاہر کا ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ میں نے ”علتِ اولیٰ“ کو واوین میں رکھ کر مذہبی لوگوں کو مخاطب کیا تھا، کیونکہ وہ ”علتِ اولیٰ“ کو خدا کے متماثل گردانتے ہیں۔ خدا کا ایک ایسا تصور ہے کہ جس کی تجربے میں تصدیق ممکن نہیں ہے۔ وجہ اس کی صاف ظاہر ہے کہ وہ کوئی مظہر نہیں ہے، اگر وہ مظہر ہوتا تو تجربے میں اس کے شواہد دستیاب ہوتے۔ چونکہ وہ ایک ”خالی تصور“ ہے کہ جو اپنا کوئی مافیہا نہیں رکھتا اس لیے اس کی تصدیق بھی ممکن نہیں ہے۔ مذہبی لوگ خدا کو ”علت اولیٰ“ مانتے ہیں، اور اسلامی علم الکلام کی ساری تاریخ خدا کی ماہیت کو جانے بغیر اس تصور کے اطلاق پر مبنی خیالات سے بھری ہوئی ہے۔ میں جب کہتا ہوں کہ خدا پر علتِ اولی کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا، تو اس سے میری مراد یہی ہے کہ وہ ایک ایسا تصور ہے جس کی تصدیق کے وسائل ہمارے پاس موجود نہیں ہیں، یعنی ہم پوری سہولت کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا مظہر نہیں ہے، مطلب وہ وجود ہے، نہ مادہ، اور وجود اور مادے سے تعلق رکھنے والے متعینات کی پہنچ سے ماورا ایک مفروضہ ہے جس کے بارے میں مذہبی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ زمان و مکاں سے ماورا ہے۔ اب جوہر صاحب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ علتِ اولیٰ زمان و مکاں سے ماورا ہے، لیکن اگلے ہی لمحے وہ ہمیں یہ باور کراتے ہیں،
”مبدائے وجود کا مسئلہ بڑا ہے، اور یہ مسئلہ عقلی منطقے سے باہر کا ہے۔ وجود کے تعاقب میں شعور اس مسئلے میں تحلیل ہو جاتا ہے، اور آخر کار صرف وجود کا مسئلہ باقی رہتا ہے۔ اگر کوئی فلسفی یہ نہیں جانتا کہ مبدا کا مسئلہ عقلی نہیں ہے، اور نہ وسائل عقل سے اس کا حل پایا جا سکتا ہے، تو اسے کوئی اور کام کرنا چاہیے۔“
سب سے پہلے تو یہ نکتہ واضح رہے کہ جدید فلسفے میں مرکز، ماخذ، مبدا جیسے تصورات عقلی تقاضے کے طور پر ابھرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مابعد جدید فکر میں مرکز، مبدا اور ماخذ کو حذف کر دیا گیا ہے۔ ماخذ، مرکز اور مبدا کو بھی عقلی تشکیلات قرار دیا جاتا ہے۔ متن ادبی ہو یا کائناتی اس کی مثال پیاز کے چھلکے سے دی گئی ہے کہ جس میں سے کوئی مبدا اور ماخذ برآمد نہیں ہوتا۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہم ”مبدا اور ماخذ“ کی تلاش میں رہتے ہیں کہ اس سے اپنے توہماتی عقائد کو کوئی جواز دے سکیں۔ آنجناب کے الفاظ کا اطلاق مجھ پر تو نہیں ہوتا، البتہ اسے اسلامی علمِ الکلام کی ساری روایت پر تنقید کہا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر کائنات کے ”ماخذ“ کا مسئلہ عقل کی حدود سے ماورا ہے تو اس کائنات کو کسی خدا کی تخلیق بھی نہیں کہا جا سکتا۔ کائنات کی تخلیق کا قضیہ اپنی اساس میں اساطیری ہے، جب کہ سائنس کائنات سے قبل کوئی بھی حکم لگانے کو مناسب خیال نہیں کرتی۔ اگر آنجناب واقعی کائنات کے مبدا کے مسئلے کو عقل کی پہنچ سے ماورا سمجھتے ہیں تو پھر اس کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے کہ بگ بینگ کے وقت کوئی علت موجود تھی؟ یعنی کائنات سے پہلے ایک علت موجود تھی؟ لیکن آنجناب تو کہتے ہیں کہ کائنات سے پہلے علت و معلول کا اطلاق ہی نہیں ہوتا، پھر کائنات سے پہلے ایک علت کو کیونکر فرض کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر کوئی علت موجود تھی تو پھر یہ علت تو ایک عقلی تصور ہے، اگر اس کا اطلاق بگ بینگ سے قبل کی صورتحال پر کیا جا سکتا ہے تو پھر اس قضیے سے آنجناب کے مقدمے کی تردید ہو جاتی ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ”علتِ اولیٰ میں معلول تو یقیناََ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہی اس علت کو فرض کیا جا رہا ہے، لیکن کوئی معلل نہیں ہوتا۔“ ہمارے پاس یہ جاننے اور تسلیم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ جس کو جوہر صاحب ”علتِ اولیٰ“ کہتے ہیں، وہ واقعی ”علتِ اولیٰ“ ہے۔ اس قسم کے دعوے صرف ایک کنفیوژڈ ذہن ہی کر سکتا ہے۔ اگر علت و معلول زمانی و مکانی تصورات ہیں تو کائنات سے پہلے ان کو لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ”علتِ و معلول“ عقلی تصورات ہیں، اور زمان و مکاں میں قابلِ دریافت ہیں۔ لیکن آنجناب تو ہمیں باور کراتے ہیں کہ ان کا اطلاق زمان و مکاں سے ماورا نہیں ہوتا، تو کیا”علتِ اولیٰ“ زمان و مکاں کے اندر موجود ہے؟ اگر وہ زمان و مکاں یا کائنات کے اندر موجود ہے تو ہمارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟ بطورِ مظہر یا بطورِ شے فی الذات؟ جوہر صاحب یہاں مکمل طور پر بھٹک گئے ہیں۔ اگر بگ بینگ سے پہلے معلول، علت کے اندر موجود تھا تو کیا وہ علت معلول کو وجود دے کر خود ماورائے وجود ہو چکی ہے؟ بگ بینگ سے قبل تو کائنات بھی موجود نہیں تھی، نہ زمان و مکاں، تو پھر یہ ممکن نہیں ہو سکتا کہ علتِ اولیٰ کا سوال اٹھایا جائے، وجہ یہ کہ ایسا کر کے جوہر صاحب علت و معلول کا ماورائے زمان و مکاں اطلاق کر دیتے ہیں، جہاں و ہ خود بھی اس عقلی و منطقی تصور کو قابلِ اطلاق نہیں سمجھتے۔ لیکن وہ اپنی فکر میں اس تضاد کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اگر زمان و مکاں سے ماورا علت کا قضیہ قابل اطلاق ہے تو پھر جوہر صاحب کا قائم کیا ہوا”علتِ اولیٰ“ کا تصور مضحکہ خیز بن جاتا ہے۔ کیونکہ وہ اس علت کو ”علتِ اولیٰ“ مان رہے ہیں، جو بگ بینگ سے قبل ”موجود“ ہے، اور جسے علت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، ممکن ہے اس کی بھی کوئی علت ہو، اور یہ علت اس علت کا معلول ہو جس میں کئی علتیں مجتمع ہو گئی ہوں۔ یہ سوال غیر علمی و غیر فلسفیانہ نہیں ہے، بلکہ ہمیشہ سے فلسفے کی تاریخ میں اٹھایا جاتا رہا ہے۔
اب آتے ہیں مذہبی مقدمے کی طرف، کیونکہ ”علتِ اولیٰ“ کا مقدمہ متکلمین نے پوری شدت کے ساتھ قائم کر رکھا ہے اور ہمیشہ اس کی وکالت بھی کرتے رہے ہیں۔ جوہر صاحب کہتے ہیں کہ جدید فلسفے کے ”بعد عقل اور مابعد الطبیعات کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔“ اگر واقعی ایسا ہو جاتا ہے تو پھر ان کا یہ دعویٰ بھی کسی اساس پر تشکیل نہیں پاتا کہ
”اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ مذہب کا انکار نہ صرف غیر عقلی ہے بلکہ اس انکار کی اساس صریح بدعقلی اور بددیانتی ہے۔“
یہاں وہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ عقل اور مابعد الطبیعات کا تو خاتمہ ہو جاتا ہے لیکن مذہب کی خاتمہ نہیں ہوتا اور نہ ہی مذہب غیر عقلی ہے۔ اب یا تو جوہر صاحب کو خود سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور یا وہ قارئین کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ ان کو کوئی ڈھنگ کی بات بتائی جائے۔ مذہبی مقدمات کو سائنسی بنیاد پر پرکھنا غلطی ہے۔ مذہب کوئی بھی ہو، اس کو اس کے اپنے قائم کیے ہوئے مقدمات کی بنیاد پر جانچا چاہیے۔ مذہب کے اندر باہر سے عقلیت نہیں ڈالی جا سکتی۔ مذہب کو اپنے واہموں کو خود شفاف انداز میں پیش کرنا ہے۔ مذہب کہتا ہے کہ جب کائنات موجود نہیں تھی، تو خدا کا تخت پانی پر تھا۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا ایک مادی وجود ہے۔ دوسری طرف پانی بھی موجود تھا اور تخت بھی۔ یعنی کائنات عدم سے تخلیق نہیں کی گئی، بلکہ ایک وجود موجود تھا۔ کیا بگ بینگ تھیوی مذہب کے اس مقدمے کی تصدیق کرتی ہے؟ خدا نے کائنات کو چھ دن میں بنایا، ان میں سے صرف زمین پر دو دن لگائے اور باقی چار دنوں میں ساری کائنات بنائی۔ اس نے کہا ”ہو جا اور ہو گیا۔“ مذہب کا مقدمہ بس یہی ہے۔ اس میں سے عقل کا کوئی پہلو نکالنا غیر عقلیت کی انتہا ہے۔ اور پھر جب آنجناب کہتے ہیں کہ جدید فلسفے کے بعد فلسفے اور مابعد الطبیعات کا خاتمہ ہوجاتا ہے تو پھر الٰہیات میں عقل کا کون سا تصور حلول کر جاتا ہے، اس سوال کا جواب مذہب پرستوں کو دینا ہے؟
اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ علتِ اولیٰ کائنات سے پہلے موجود تھی، تو پھر اس کی ماہیت کے بارے میں سوال اٹھتا ہے اور اس علتِ اولیٰ سے ایک مادی کائنات کیسے جنم لیتی ہے؟ اور ہمارے پاس اس بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے کیا دلائل ہیں کہ جس خدا کو علتِ اولیٰ تسلیم کیا جاتا ہے وہ خود دیگر قوتوں کا مجموعہ نہیں ہے، یعنی وہ خود معلول نہیں ہے؟ جوہر صاحب کہتے ہیں کہ علت کے اندر معلول موجود تھا، یعنی مادہ، وجود، کائنات علت کے اندر موجود تھے، اور وہ علت غیر مادی تھی، لیکن اس کے اندر مادہ موجود تھا۔ اس تناقض کو مذہب پرستوں نے حل کرنا ہے اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ایک ”جادوگر“ کی مدد کے بغیر اس مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہی ”جادوگر“ وہ قدیم اساطیری کہانیوں کا ”مرکزی“ کردار ہے جو مختلف قصے، کہانیوں کے ساتھ ہر مذہب میں موجود ہے۔ اس کو عقلی ثابت کرنے کی ہر کوشش کی جاتی ہے اور یہی وہ مقام ہے کہ جہاں عقل غیر عقل میں تبدیل ہوجاتی ہے اور منطق غیر منطقی ہو جاتی ہے۔آئن سٹائن کا عمومی اضافیت کا نظریہ یہ واضح کرتا تھا کہ جس زمان و مکان کا آغاز بگ بینگ کی غرابت (Snigularity) پر ہوا تھا، اس کا اختتام Crunch پر ہو گا تو کیا معلول دوبارہ اس علت اولیٰ میں تحلیل ہو جائے گا؟ یعنی مادہ غیر مادی میں تبدیل ہو جائے گا؟ میرے لیے یہ کہیں زیادہ عقلی ہے کہ تمام عقلی تصورات کا اطلاق زمان و مکان کی حدود میں کیا جائے۔میرے نزدیک خدا یا علتِ اولیٰ کا تصور اپنی سرشت میں غیر عقلی ہے۔ میں گزشتہ چند برس سے مختلف مذہبی لوگوں سے اسی حوالے سے مکالمہ کرتا رہا ہوں۔ میرے نزدیک جس طرح عقلی تصورات کی تصدیق تجربے میں ہوتی ہے، اسی طرح علتِ اولیٰ کے تصور میں وجود، مادے اور کائنات کی احتیاج پائی جاتی ہے۔ جوہر صاحب نے یہ ٹھیک کہا ہے کہ عقل وجود اور عدم سے بحث کرتی ہے، تاہم میرے نزدیک تکون (Becoming) بھی ایک عقلی مقولہ ہے، اور پچیس سو برس پرانی تاریخ رکھتا ہے۔ خدا یا علتِ اولیٰ کا تصور کائنات کے بغیر عدمِ محض ہے اور صرف عقل ہی وجود کے بغیر بے بس نہیں بلکہ خدا کے تصور کا بھی وجود کے بغیر کوئی سہارا نہیں ہے، یہ تصورِ محض ہے۔ دونوں میں، بہرحال، یہ بنیادی فرق موجود ہے کہ عقلی تصورات کی تصدیق ممکن ہوتی ہے۔ اگر ان کی تصدیق ممکن نہ ہو تو فلسفے میں انہیں ”خالی تصور“ کہا جاتا ہے، خالی تصور وہ ہوتا ہے جو شے، وجود اور مادہ نہ ہو، بلکہ لاشے ہو، عدم ہو۔ توہم پرست مذہبی تصورِ خدا کو عقلی جواز نہیں دیا جا سکتا، ان معنوں میں مذہبی تصور خدا توہم پرستی کی آماجگاہ ہے۔ سائنس کی حقیقی روح اس کے منہج میں ہوتی ہے۔ وہ تجربے، مشاہدے کو بنیاد بناتی ہے۔اکیسویں صدی کے آغاز میں جہاں بہت سے روایتی تصورات سے نجات پائی جا چکی ہے تو وہاں قدیم اساطیری کہانیوں نے عقلی تصورات کو چھوا بھی نہیں ہے۔ متکلمین نے جو مباحث اٹھائے ہیں، وہ عقلی علاقے میں پہنچ کر ہی ممکن ہو سکتے تھے۔ تاہم جونہی وہ اساطیری قصوں اور کہانیوں میں پناہ لیتے ہیں، وہاں وہ خلافِ عقل توہماتی خیالات کا انبار لگا دیتے ہیں، جن کی تصدیق عقل کرتی ہے، نہ تجربہ! مذہبی لوگ اساطیر میں سے خدا کا تصور گھڑتے ہیں اور نئی ایجادات اور دریافتوں کو ماضی کے مزاروں میں تلاش کرتے ہیں۔ یہ عقلی نہیں نفسیاتی مسائل ہیں، اور عقیدے کی یہی وہ جہت ہے جو فلسفیانہ فکر کے ساتھ متصادم رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عقیدے کو عقل کے حریف کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ عقیدے اور عقل کے درمیان یہ علیحدگی میری پیدا کردہ نہیں ہے، بلکہ تاریخِ فلسفہ کا اہم باب ہے۔آنجناب کو اس علیحدگی کی وجوہ کو توجہ سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بصورتِ دیگر ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ آنجناب فلسفے کی تاریخ سے یکسر نابلد ہیں، اور اس کمی کو دو کرنے کے لیے سائنسی نظریات کی آغوش میں پناہ لیتے ہیں، جبکہ مذہب کو خود اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی کوتاہیوں اور مہمل خیالات کو اپنے اندر سے درست انداز میں پیش کرے۔ آنجناب جب کہتے ہیں کہ مذہبی تصورات عقلی ہیں، تو انہیں ان تصورات کی عقلی ماہیت کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ محض ”خلا“ یا شگاف دیکھ کر اس پر خدا کا تصور چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔
کمنت کیجے