محمد عامر حسینی
سوشل میڈیا پر ڈاکٹر شاہنواز کے معاملے کو لیکر سندھی میں آنے والی پوسٹوں اور ان کے نیچے کمنٹس کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہم آسانی سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ایک طرف تو سیکولر، لبرل ، قوم پرست، لیفٹ اور تکثیریت و تنوع پسند تصوف کے حامی ہیں جن کا کہنا یہ ہے کہ سندھ کی مذہبی اور روحانی اصل کے نمائندہ سندھ کے وحدت الوجودی صوفیاء ہیں جن میں شاہ عبدالطیف بھٹائی ، سچل سرمست، لعل شہباز قلندر عثمان مروندی ، عبداللہ شاہ غازی وغیرہ شامل ہیں اور اسلام کی اصل بھی تنوع و تکثیریت کو تسلیم کرنا ہے اور اسی سے سندھ کی ثقافت تشکیل پاتی ہے- اور اس تنوع و تکثیریت پسند اسلام میں موسیقی ، رقص ، گیت ، سماع اور صوفیانہ شاعری کی گنجائش ہے اور یہ غیر اسلامی نہیں ہیں – یہ اسلام کے تمام فرقوں ، مسالک اور دوسرے مذاہب ہندو مت اور مسیحیت وغیرہ کے ماننے والوں کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارنے اور ان کی مذہبی آزادی کا احترام کرتے ہیں اور ان کے درمیان اشتراک کے پہلو بھی مانتے ہیں –
دوسرا کیمپ وہ ہے جس میں ایک طرف تو اسلام کے اندر موجود ہر فرقے کی مذہبی اسٹبلشمنٹ جسے عرف عام میں ملائیت کہتے ہیں شامل ہیں تو دوسری جانب اس میں بظاہر فرقہ پرستی کی مخالفت کرنے والے وہ ماڈرن احیائیت پسند شامل ہیں جو اسلام کی یک نوعی تعبیرMonolithic interpretation
کو اولیت دیتے ہیں چاہے ان میں دیوبندی ملاں ہوں یا اہلحدیث ملاں ہوں یا جماعت اسلامی کے ماننے والے ہوں یا پھر وہ غلام احمد پرویز ، ڈاکٹر اسرار احمد ، امین احسن اصلاحی یا فرحت ہاشمی یا حق نواز جھنگوی یا ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ماننے والے ہوں۔ یہ سندھ کے صوفیاء ، فقیر، بیراگی، جوگی کو بالخصوص اور وحدت الوجودی صوفیاء کو بالعموم اسلام کے نمائندہ نہیں سمجھتے – یہ تکثیریت و تنوع پسند تصوف کو اسلام کے مدمقابل ، متضاد اور غیر اسلامی قرار دیتے ہیں اور ان کی پیروی کرنے والی سندھی عوام کو یہ شرک و بدعت میں مبتلا قرار دیتے ہیں – عقیدہ توحید کے باب میں ان سب کے نظریات شیخ ابن تیمیہ اور محمد بن عبدالوہاب کی تعلیمات کا چربہ ہیں –
بریلوی مذہبی اسٹبلشمنٹ جن میں تصوف میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود دونوں کے حامی ملاں موجود ہیں لیکن ان میں وحدت الوجود کے قائل ملاں وحدت الوجود کی تشریح تنگ نظر پیرائے میں ہی کرتے ہیں اور یہ سنی اسلام میں صوفی تکثیریت پسندی اور تنوع کے رجحان کو مسترد کرتے ہیں اگرچہ یہ توسل و استمداد اور استغاثہ کو منافی توحید قرار نہیں دیتے – بریلوی مذہبی اسٹبلشمنٹ میں شیخ احمد سرہندی کے وحدت الشہود کے نظریہ کے قائل ملاں شاہ عبدالطیف بھٹائی ، سچل سرمست ، عنایت ٹھٹھوی، عبداللہ شاہ غازی ، عثمان مروندی کی قبیل کے صوفیاء کو احترام دیتے اور انھیں اولیاء اللہ کا درجہ دیتے ہیں لیکن وہ ان کو وسیع المشرب تنوع و تکثیریت پسند اسلام کا داعی نہیں مانتے بلکہ ان کی تعلیمات کی ایسی تعبیر کرتے ہیں جس سے ان میں اور نری ملائیت میں ذرا فرق نہیں رہ جاتا- بریلوی ملائیت چاہے وہ وحدت الوجودی ہو یا وحدت الشہودی دونوں کی دونوں تصوف میں ملامتی ، بھگتی اور وحدت ادیان کے قائل صوفیانہ تعبیرات کو رد کرتے ہیں اور ان میں جو نرم ہیں وہ ان تعبیرات کو صوفیاء قرار دے کر حالت جذب میں کہی عبارتیں قرار دے کر ان پر اسلام کی صلح کلی ، تنوع اور تکثیری تعبیر کو رد کرتے ہیں-
دیوبندی مذہبی اسٹبلشمنٹ میں ایک پرت تو ان ملاوں کی ہے جو وہابی آئیڈیالوجی کو مکمل طور پر اپنا چکی ہے اور وہ تصوف کو بالکل رد کرتی ہے اور عقیدہ توحید کے باب میں وہ وہابی ذہنیت کی علمبردار ہے- ان کو ہم ریڈیکل دیوبندی ملائیت کہہ سکتے ہیں ان کی نمائندگی سپاہ صحابہ ، مماتی گروپ کرتے ہیں اور سندھ میں جمعیت علمائے اسلام کے اکثر مولوی جن میں سب سے بڑا مولوی راشد سومرو ہے بھی اسی ریڈیکل دیوبندی ازم کی طرف رجحان رکھتا ہے – جبکہ دیوبندی اسٹبلشمنٹ میں ملاوں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو تصوف میں زیادہ تر شیخ احمد سرہندی ، شاہ ولی اللہ کے خاندان کی پیروی کرتا ہے یہ توسل پر تو یقین رکھتا ہے لیکن استمداد و استغاثہ ، قبور پر قبہ بنانے اور ان پر عرس منعقد کرنے ، میلاد کا اہتمام کرنے اور محرم الحرام میں نیاز و شربت کی سبیل وغیرہ لگانے کا سخت مخالف اسے شرک خفی ( جو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرے ) اور بدعات قرار دیتا ہے – یہ بھی اسلام کی کسی متنوع اور تکثیریت پسند تعبیرات کو اسلام نہیں سمجھتا – یہ اسلام میں سندھی ثقافت کے اثر و نفوذ کی نفی کرتا ہے –
ہم کہہ سکتے ہیں کہ سندھ میں تمام فرقوں کی ملائیت اور ان کی تمام مذھبی اور سیاسی نمائندہ تنظیمیں اور جماعت اسلامی( مولانا مودودی کے پیروکار) ، تنظیم خدام الدین (ڈاکٹر اسرار کی جماعت) ، ڈاکٹر ذاکر نائیک کا فین کلب اور ان سے متاثر لوگوں کی اکثریت سندھی ثقافت میں گندھے اسلام کو کفر و شرک و بدعت کا ترجمان سمجھتی ہیں – تکفیریت اور بلاسفیمی کی مہم بھی ان کی اندر سے چلتی ہے اور بلوائی ہجوم اور اس کی طرف سے لوگوں کی لنچنگ ان کے اندر سے لوگ سرانجام دیتے ہیں – القاعدہ ، داعش ، لشکر جھنگوی ، لشکر طیبہ ، حرکت المجاہدین، جیش محمد جیسے جہادی اور فرقہ پرست دہشت گرد تنظیموں میں ریکروٹمنٹ بھی ان ہی میں سے ہوتی ہے – اس مذھبی اسٹبلشمنٹ اور اسلامی احیائیت پرستوں نے اپنے دینی مدارس ، مساجد اور جدید و قدیم تعلیمی اداروں کے ذریعے سے سندھی بولنے والے اکثریتی علاقوں میں اپنے ہزاروں پیروکار پیدا کیے ہیں – اسلامی بنیاد پرستی اب صرف سندھ کے اردو اسپیکنگ اکثریتی شہروں کا سماجی مظہر نہیں رہی یا یہ کراچی کی اردو اسپیکنگ مہاجر ، پشتون اسپیکنگ آبادیوں کا مظہر نہیں ہے بلکہ یہ سندھی بولنے والی آبادیوں میں بھی اپنی جڑیں رکھتی ہے – سعودی وہابی آئیڈیالوجی کے دیوبندی مدارس و مساجد میں نفوذ نے خود روایتی دیوبندی اسلام کو بھی بہت زیادہ تبدیل کردیا ہے – تکفیری نظریات نے بریلوی سندھی آبادی میں بھی اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں اور اس میں سنی تحریک اور تحریک لبیک جیسی جماعتوں کو بریلویوں میں تکفیری رجحان کی نمائندہ جماعتیں بنا دیا ہے –
سندھ میں شیعی اسلام میں ایران سے آنے والے ولایت فقہہ کی خمینی ازم کی تعبیر نے جسے روایتی شیعیت ولایت علی کے یکسر مخالف رجحان اور اسے اخوانی شیعیت بھی کہتی ہے جس پر سنی احیائیت پسند مفکرین جیسے سید قطب اور سید مودودی کے اثرات ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے نے ایسی مذھبی اسٹبلشمنٹ کو جنم دیا ہے جو سندھ میں تکثیریت و تنوع پسند اسلام جس میں سندھی ثقافت گندھی ہوئی ہے کی مخالفت کرتی ہے – ملائیت من الحیث کل سندھی سماج میں پائی جانے والی مذھبی روادار ثقافت کی سب سے بڑی دشمن ہے اور یہ اسے غیر اسلامی قرار دے کر مٹانے کے درپے ہے اور یہ اس روایت پر بلاسفیمی ، گستاخی اور توہین جیسے الزامات بھی عائد کرتی ہے –
سندھ ایک لحاظ سے پنجاب اور صوبہ خیبرپختون خوا سے مختلف ہے کہ یہاں سندھ کی رودار، متنوع اور تکثیریت پسند ثقافتی روایت کے خلاف مذھبی اسٹبلشمنٹ اور ملائیت کے حملے کے خلاف اجتماعی مزاحمت کا رجحان طاقتور انداز میں موجود ہے اور اپنا اجتماعی اظہار بھی کر رہی ہے جبکہ پنجاب اور کے پی کے میں مذھبی رواداری ، تنوع اور تکثیریت پسند روایت کے حامی کمزور نظر آ رہے ہیں- بلوچستان میں قومی تحریک اگرچہ اپنا سیکولر رنگ برقرار رکھے ہوئے ہے وہاں ملائیت سیاسی اعتبار سے کافی طاقتور ہے- ریڈیکل دیوبندی ازم اور اس کا سب سے بڑا اظہار سپاہ صحابہ بلوچ سماج میں کافی سرایت کرچکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد عامر حسینی صحافت کے شعبہ سے وابستہ اور مختلف اخبارات کے کالم نویس ہیں ۔ سیاسی و سماجی امور کے علاوہ تاریخ و تصوف آپ کی دلچسپی کے موضوعات ہیں ۔
کمنت کیجے