Home » کیا کوانٹم مکینکس نے اصول علیت کی نفی کردی ہے؟
سائنس فلسفہ کلام

کیا کوانٹم مکینکس نے اصول علیت کی نفی کردی ہے؟

ایک بھائی نے سوال کیا ہے کہ علم فزکس میں کوانٹم مکینکس کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر حادث کے لئے محدث ہونا لازم نہیں کیونکہ اس علم کے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض امور بغیر کسی علت کے بھی ظاھر ہوجاتے ہیں۔ پس ذات باری کے اثبات کے لئے دی جانے والی دلیل حدوث کا یہ مقدمہ جدید سائنس کی رو سے مشتبہ ہوگیا ہے کہ حادث کے لئے محدث ہوتا ہے۔

تبصرہ

یہ تصورات ذہن نشین رہیں جن پر متعدد مرتبہ پہلے گفتگو ہوچکی ہے:

* حادث کا معنی وہ وجود ہے جو مسبوق بالعدم ہو
* ہر حادث ممکن الوجود (contingent       being) ہوتا ہے
* ممکن ایسا وجود ہے جو عدم و وجود دونوں کی جانب مساوی رجحان رکھے اور اس لئے کسی ایک جانب ترجیح کے لئے وہ وجہ ترجیح کا محتاج ہوتا ہے، اس وجہ ترجیح کو محدث یا علت یا مؤثر کہتے ہیں
* وجہ ترجیح چونکہ وجودی شے ہے لہذا محدث لازماً وجودی حقیقت ہوگا نہ کہ عدمی۔ یہ لازمی وجودی حقیقت ہے جس کا انکار مکابرہ ہے۔

درج بالا سوال کا جواب دو پہلووں سے ہے: شاہد (physical           domain) اور غائب (metaphysical           domain) کے لحاظ سے۔ پہلے ہم شاہد کے لحاظ سے جواب دیتے ہیں۔

کوانٹم مکینکس کی فیلڈ کازیلٹی کے تصور پر نہیں بلکہ اس کے ایک خاص تصور پر سوال اٹھاتی ہے جسے کلاسیکل تصور کازیلٹی بھی کہا جاتا ہے۔ اس تصور کے مطابق ہر واقعے یا حادث کی ایک متعین (deterministic) علت ہوتی ہے جسے ہم تیقن کے ساتھ متعین طور پر جان سکتے ہیں۔ کوانٹم مکینکس نے اس ڈٹرمنزم (determinism) کے مفروضے پر سوال اٹھایا ہے نہ کہ اصول علیت پر۔ کوانٹم مکینکس کازیلٹی کے اصول کو تخمینی یا پراببلسکٹ منہج پر بیان کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ کوانٹم مکینکس کے بعض تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض حوادث بغیر محدث کے ہوسکتے ہیں، یہ نتیجہ خود کوانٹم مکینکس والوں کے ہاں اس طرح نہیں ہے۔ کوانٹم مکینکس کے بعض تجربات سے اگر کچھ ثابت ہوا تو صرف یہ کہ ہر حادث کے لئے ایک معین علت ہونا لازم نہیں بلکہ یہ ممکن ہے کہ حادث پر متعدد فیکٹر اس طرح اثر انداز ہوں کہ ہمارے لئے کسی معین فیکٹر کی جانب بطور محدث اشارہ کرنا ہر بار ممکن نہ ہو۔ پس کوانٹم مکینکس نے امور عادیہ کے تحت کاز اور ایفکٹ سمجھے جانے والے امور میں کازیلٹی کے ایک خاص تصور پر سوال اٹھایا ہے نہ کہ بالذات کازیلٹی کے تصور پر۔ خود کوانٹم مکینکس کے نظریات و ماڈلز اپنے کازیلٹی کے خاص تصور پر ہی علم کی دریافت کرتے ہیں۔

اس ضمن میں دوسری بات یہ کہ کوانٹم مکینکس کے ان تجربات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کوئی حادث وجود نرے عدم (absolute          nothingness) سے بھی ظاہر ہوجاتا ہے، بلکہ یہاں unpredictable طریقے سے جو حادث ظاہر ہوتا ہے وہ something ہی سے ہوتا ہے (یعنی وہ کوانٹم سسٹم کے اندر ہوتا ہے)، اسے عدم سے بدون محدث وجود ہونا نہیں کہتے۔ چنانچہ ہمیں کسی حادث کی معین علت تیقن کے ساتھ معلوم نہ ہوسکنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ علت ہے ہی نہیں، چہ جائیکہ یہ بھی کہا جاسکے کہ حادث از خود عدم سے وجود میں آسکتا ہے یا عدمی ہونا بھی وجہ ترجیح ہونا ہوسکتا ہے (یہ جملہ ہی متضاد ہے)۔ پس یہ امور شاہد میں بھی دلیل حدوث کے اس مقدمے کو رد نہیں کرتے کہ “ہر حادث کے لئے محدث ہے”۔

اب آئیے غائب کے لحاظ سے۔ علت کا لفظ چند معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ کبھی اس کا مطلب کسی شے پر مؤثر (effective) ہونا ہوتا ہے اور کبھی اس کی علامت یا نشانی ہونا۔ علم (symbol) ہونے کے مفہوم میں علت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ب الف کے وجود کی نشانی ہے، یعنی ہمارا مشاہدہ و تجربہ بتاتا ہے کہ جب ب ہوتا ہے تو اس کے ساتھ یا اس کے بعد الف بھی ہوتا ہے۔ یوں ب کا وجود و عدم الف کے وجود و عدم کی نشانی بن جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ب الف پر مؤثر بھی ہے (یعنی وہ الف کی وجہ ترجیح بھی ہے)۔ اس دنیا میں جن امور کو عادتاً علت یا محدث کہا جاتا ہے وہ بمعنی مؤثر (effective) علت نہیں ہیں بلکہ بمعنی علم یا نشانی (symbol) علت ہیں، یہاں کوئی شے حقیقتاً کسی دوسری شے کی وجہ یا اس کا سبب نہیں ہے۔ علت بمعنی مؤثر صرف وہ ارادہ باری ہے جو حادث کی تخصیصات مقرر کرتا ہے۔ یہاں جسے ہم علت (مثلا ھاکی کی ضرب) کہتے ہیں وہ بھی حادث ہے اور جسے معلول کہتے ہیں (مثلا گیند کی حرکت) وہ بھی حادث ہے۔ گیند کی حرکت کے لئے ھاکی کی ضرب نہ ہی ضروری ہے اور نہ ہی کافی۔ یعنی مؤثر چاہے تو ھاکی کی ضرب کے بغیر بھی گیند کو حرکت دے اور چاہے تو اس کے باوجود بھی حرکت نہ دے۔ تو یہاں چار امکانات ہیں:

1۔ مؤثر یا محدث معین طور پر ب حادث کو الف حادث کی نشانی مقرر کرتے ہوئے ہر بار الف کے ساتھ ب کو ظاہر کرے۔ یہ صورت کلاسیکل تصور علت کی مظہر ہے

2۔ مؤثر الف کے لئے ب حادث کو معین طور پر نشانی مقرر نہ کرے بلکہ مثلاً ب، ج اور د حوادث کو پراببلیٹی کے ساتھ علامت مقرر کرے۔ یہ صورت کوانٹم مکینکس کے تصور علت کی مظہر ہے

3۔ مؤثر ہمارے حساب سے الل ٹپ طریقے پر حوادث ظاہر کرے، مثلاً کبھی مرغی کے انڈے سے چڑیا کا بچہ نکالے و کبھی خرگوش کا اور کبھی شیرنی کے رحم سے ہرن کا بچہ تو کبھی شتر مرغ کا (ٰیا مثلا وہ پہاڑ سے اونٹنی برآمد کردے) وغیرہ

4۔ مؤثر حادث الف کے لئے کوئی نشانی مقرر کئے بغیر اسے ظاہر کرے جس سے ہمیں یہ تاثر ملے کہ الف حادث کسی متصل علامتی علت کے بغیر ظاہر ہوگیا ہے

ان چاروں میں سے کوئی بھی صورت اس کی دلیل نہیں کہ حوادث بدون محدث ظاہر ہورہے ہیں۔ پس کوانٹم مکینکس کے تجربے یا اس سے باہر اگر کوئی ایسا حادث ظاہر ہو جس کے پس پشت کوئی اور حادث بطور نشانی علت نہ ہو تب بھی اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ حادث کسی محدث بمعنی مؤثر کے بغیر ہے۔ اثر کے لئے مؤثر کا ہونا تو لازم ہے، یہ علم بدیہی و وجودی حقیقت ہے۔ چنانچہ کوانٹم مکینکس میں جو حادث شے ہمارے علم کے حساب سے randomly ظاہر ہوجاتی ہے، حادث ہونے کے اعتبار سے وہ محدث یا مؤثر کی محتاج ہی ہے کیونکہ حادث کی علت کی جانب احتیاج کی بنیاد یہ نہیں کہ حادث کے ساتھ کوئی متعین علامتی علت بھی موجود ہوتی ہے بلکہ اس کی بنیاد خود اس کا حادث ہونا ہے۔ کسی تجربے میں کسی حادث کے ظہور کی کوئی علامتی علت نہ مل پانا بھلا اس بات کی کہاں سے دلیل ہوگئی کہ اس حادث کی کوئی وجہ ترجیح سرے سے نہیں؟ اس غلط فہمی کا شکار وہی شخص ہوسکتا جو علامتی علتوں ہی کو بلا دلیل مؤثر سمجھ بیٹھا ہو حالانکہ وہ سب حادث ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ امور عادیہ کو آپ علامتی علل کیوں کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مشاھدے سے متعلق یہ امور حادث یعنی اثر ہی تو ہیں، انہیں مؤثر کیسے کہا جائے؟

خلاصہ یہ کہ کوانٹم مکینکس اصول علیت کو عالم مشاھدہ کے اعتبار سے بھی غلط ثابت نہیں کرتی بلکہ صرف اس کی ایک نئی تعبیر پیش کرتی ہے نیز کوانٹم مکینکس کا کوئی تجربہ نرے عدم سے وجود آنے پر دلالت نہیں کرتا۔ رہا غائب، تو کوانٹم مکینکس ہو یا کوئی اور تجرباتی علم، ان میں سے کوئی علم اس اصول کو غلط ثابت نہیں کرسکتا کہ حادث کے لئے محدث ہے کیونکہ تجرباتی علم صرف علامتی علتوں سے بحث کرتے ہیں اور کسی حادث کی کوئی علامتی علت ہونا یا نہ ہونا اس بات کا ثبوت نہیں کہ حوادث بدون مؤثر رونما ہو رہے ہیں۔ حادث بدون محدث، ایسی بات کہنا صرف مکابرہ ہے۔ انسانی عقل جس طرح جمع بین النقیضین کی خلاف ورزی قبول کرنے پر تیار نہیں اسی طرح حادث بدون محدث ماننے پر بھی تیار نہیں۔ دونوں حقائق کی بنیاد یہ وجودی حقیقت ہے کہ عدم وجود نہیں ہوسکتا۔ لازمی وجودی حقائق کی نفی کرنے والا خود اپنے ہی دعوے کی نفی کررہا ہوتا ہے: عدم بھی وجود کا سبب ہوسکتا “ہے”، ایک متضاد جملہ ہے کہ یہ عدمیت (nothingness) کو “ھویت” (is-ness) کہے بغیر بامعنی نہیں۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں