’’اختلاط مردو زن کے باب میں ہماری سوچ بالعموم منفی رہتی ہے اور اس کے لیے ہماری ناقص تربیت اور ناقص تر معلومات ذمہ دار ہیں جو صدیوں کے مردانہ توہمات کی پیدا کردہ ہیں۔‘‘ (۱۱)
“رسول اکرم ﷺ ان (انصار) کے گھروں میں بکثرت جایا کرتے تھے۔ ان کے علاوہ ان کی خواتین مطہرات سے بھی ملتے، ان سے کلام و گفتگو فرماتے تھے، ان کے ساتھ کھاتے پیتے، ان کی میزبانی اور مدارات قبول فرماتے تھے۔ دوپہر سر پر آ جاتی تو ان ہی کے گھروں میں قیلولہ فرماتے تھے۔ رات چھا جاتی تو کبھی کبھی شب بسری بھی فرماتے تھے۔ خواتین انصار اور خاتونان مدینہ مہر و محبت کی پتلیاں تھیں اور اسلامی عقیدت اور نبوی محبت سے سرشار بھی۔ وہ آپﷺ کا سر دباتی تھیں، بالوں میں چمپی کرتی تھیں اور دوسری خدمات انجام دیتی تھیں۔ آپﷺ کے وجود مسعود اور پاکیزہ جسم اطہر کا گلاب جیسا پسینہ جمع کر لیتی تھیں، موئے مبارک ہاتھ آ جاتے تو سنبھال کر تبرک جان کر سینت لیتی تھیں۔ انصاری خواتین سے رسول اکرم ﷺ کے سماجی روابط پر ایک تحقیقی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔‘‘ (۲۳)
’’زبیر رضی اللہ عنہ کی وہ زمین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دی تھی، اس سے میں اپنے سر پر کھجور کی گٹھلیاں گھر لایا کرتی تھی۔ یہ زمین میرے گھر سے دو میل دور تھی۔ ایک روز میں آ رہی تھی اور گٹھلیاں میرے سر پر تھیں کہ راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قبیلۂ انصار کے کئی آدمی تھے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا۔ پھر ( اپنے اونٹ کو بٹھانے کے لیے ) کہا: ’’اخ اخ‘‘۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ مجھے اپنی سواری پر اپنے پیچھے سوار کر لیں، لیکن مجھے مردوں کے ساتھ چلنے میں شرم آئی اور زبیر رضی اللہ عنہ کی غیرت کا بھی خیال آیا۔ زبیر رضی اللہ عنہ بڑے ہی باغیرت تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی سمجھ گئے کہ میں شرم محسوس کر رہی ہوں۔ اس لیے آپ آگے بڑھ گئے۔ پھر میں زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور ان سے واقعہ کا ذکر کیا کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہو گئی تھی۔ میرے سر پر گٹھلیاں تھیں اور آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے چند صحابہ بھی تھے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا اونٹ مجھے بٹھا نے کے لیے بٹھایا، لیکن مجھے اس سے شرم آئی اور تمھاری غیرت کا بھی خیال آیا۔ اس پر زبیر نے کہا کہ اللہ کی قسم ! مجھ کو تو اس سے بڑا رنج ہوا کہ تو گٹھلیاں لانے کے لیے نکلے، اگر تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہو جاتی تو اتنی غیرت کی بات نہ تھی (کیونکہ اسماء رضی اللہ عنہا آپ کی سالی اور بھاوج، دونوں ہوتی تھیں)۔‘‘ (بخاری، رقم ۵۲۲۴)
’’شادی بیاہ، عقیقہ اور وفات وغیرہ پر صحابہ اور صحابیات کے مخلوط اجتماع ہوتے تھے۔‘‘ (۱۶۹)
ڈاکٹر صاحب کسب معاش کے ہر شعبہ میں خواتین کی آزادانہ اور بھرپور شمولیت کا ذکر تے ہیں۔ تجارت و کاروبار سے لے کر مزدوری اور بازار میں خرید و فروخت سے لے کر گھر گھر جا کر اشیا کی خرید و فروخت کرنے والی خواتین کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔ حضرت شفاء کو آپ نے بازار کی نگران افسر کے طور پر تعینات کیا تھا (۱۵۶)۔
گانے بجانے والی خواتین کا ایک طبقہ بھی تھا جو لوگوں کو اپنے گانے سے لطف اندوز کرتا اور پیسے کماتا تھا (عورتوں کا حق خرید و فروخت اور کسب معاش۱۳۹- ۱۵۴)۔ انھی میں میت پر ماتم و نوحہ کر کے پیسے کمانے والیاں بھی تھیں۔ اس طبقے کا، البتہ خاتمہ کر دیا گیا (۱۵۴، بہ حوالہ بلاذری ۱/۳۶۰- ۳۶۱)، کیونکہ نوحہ گری کی مذمت کی گئی ہے، مگر گانے بجانے والیوں کو گوارا کیا گیا۔ ان میں سے بعض خواتین نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کئی بار اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا۔ تاہم جن صحابہ کے مزاج میں سختی تھی، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ، ان کے سامنے وہ گانے بجانے سے جھجکتی تھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ ناچنے والے حبشیوں کا ایک تماشا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کو دیر تک کرایا۔
حضرت رفیدہ یا کعیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مستقل جراح و طبیب نبوی تھیں۔ مسجد کے صحن میں ان کا خیمہ مستقل طور پر لگا رہتا تھا جہاں وہ علاج کیا کرتی تھیں اور آپ ان سے مسلسل ملاقاتیں فرماتے تھے (۱۱۸)۔
جنگوں میں نہ صرف خواتین زخمیوں کو سنبھالتیں، بلکہ ان کو ان کے گھروں تک پہنچانے کی مشقت بھی کرتی تھیں۔اپنے اہل تعلق مرد و خواتین کی بیماری میں دونوں طبقات ایک دوسرے کی عیادت کیا کرتے تھے۔ امام بخاری نے ’’کتاب المرضی‘‘ میں ایک باب، ’’عیادۃ النساء الرجال‘‘ کا باب باندھا ہے، جس میں وہ ام درداء کا ایک انصاری جو مسجد میں رہتے تھے، کی عیادت کا ذکر کرتے ہیں۔
’’خواتین مرد تاجروں، خوردہ فروشوں سے خریداری کرتی تھیں اور مرد حضرات متعدد تاجر بی بیوں سے ان کا سامان تجارت خریدتے تھے۔ متعدد مردوں نے خاتون تاجرات سے مضاربت، اجرت اور اشتراک کی بنیاد پر کاروبار کیا اور ان کے گماشتے تک بننے کی جرأت کی۔ باغات، کھیتوں اور اموال میں دونوں کے شانہ بشانہ کام کرنے اور زرعی پیداوار بڑھانے کے کاموں میں حصہ لینے کا پکا ثبوت ہے۔‘‘ (۱۷۰)
نہ صرف ثیبہ (شوہر دیدہ)، بلکہ کنواری لڑکیوں کے نکاح، جو ان کی پسند کے خلاف کیے گئے، رسول اللہ کی عدالت سے رد کروائے گئے (۱۷۴)۔ اِسی طرح خواتین کی شکایت معقول پا کر آپ نے ان کے مطالبے پر ان کے شوہروں سے ان کے نکاح فسخ کرا دیے۔
’’سیرت و حدیث اور تاریخی واقعات، بلکہ قرآنی آیات سے بھی یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ اسلامی حدود و شرعی قیود کے ساتھ مردوزن کے ارتباط اورصنفی اختلاط کی پوری اجازت تھی اور نہ صرف اجازت تھی، بلکہ وہ ایک سماجی روایت بھی تھی جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی متواتر سنت کا پشتہ حاصل تھا۔ مردو زن کے اختلاط و ارتباط کا اصل اصول اور صحیح طریقہ یہی طریق نبوی اور انداز صحابہ تھا، نہ بعد کے خودپسند اور دقت پرست علماو فقہا کا طریقہ اور نہ ہی جدت طراز اور اباحت پسند سماجی دانشوروں کا بے محابا اور بے سلیقہ فکر و عمل۔دنیاوی فلاح و مسرت اور اخروی بہبود و نجات صرف سنت نبوی اور تعامل صحابہ میں ہے۔‘‘ (۲۰۵)
عمدہ انتخاب
میرے خیال میں یہ شرعی مسئلہ سے زیادہ عرف و سماجی نفسیات کا مسئلہ ہے۔اور ارتقاء پذیر ہے۔سماجی ایک جگہ رکھ نہیں سکتا۔کبھی تعامل ایسے رہے ہوں گے جیسے بتائے جا رہے ہیں۔لیکن موجودہ سماجی بگاڑ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمارا سماج شہوانی تناؤ کا سماج ہے۔اس کی ذہنی و بدنی تربیت اول ترجیح ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر معاملہ ایسا ہی تھا جیسے کہ بتایا جا رہا ہے تو کل عین زانیۃ ،و زنی العین النظر والی جیسے احادیث کا کیا کریں؟ ان احادیث سے یہ تعامل متضاد نظر آتا ہے۔
شکریہ