ایک فاضل ناقد کا کہنا ہے کہ ہم اشاعرہ کے تصور علت کو غلط بیان کررہے ہیں، ان کے بقول اشاعرہ سیکنڈری کازیلٹی نہیں بلکہ اللہ کے افعال کے معلل بالغرض ہونے کی نفی کرتے تھے۔ فاضل مصنف کا بلند و بانگ دعوی ہے کہ یہ بات کہہ کر ہم اشاعرہ کی بات کو غلط بیان کررہے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ پورا حادث عالم معلول یا اثر ہے نیز یہاں جو بھی ترتیب نظر آتی ہے یہ اللہ کے فعل کرنے کی عادت کی بنا پر ہے نہ کہ اشیاء کے مابین تاثیری روابط ہونے کی بنا پر۔ اس موقف کو ثابت کرنے کے لئے موصوف چند اشاعرہ کی ایسی عبارات لائے ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے افعال معلل بالغرض نہیں۔ اس سے محقق نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ اشاعرہ سیکنڈری کاز کی نفی نہیں کرتے بلکہ صرف افعال کے معلل بالغرض ہونے کی نفی کرتے ہیں۔
تبصرہ:
ناقد کا تجزیہ سطحی بھی ہے اور غلط بھی۔ ہم اس کے جواب میں امام اشعری سمیت متعدد اشاعرہ کی عبارات لا سکتے ہیں جن کے مطابق عالم مشاھدہ کی تمام ترتیبات اللہ کی عادت سے عبارت ہیں جن کے مابین کوئی تاثیری نسبت نہیں، یعنی اللہ کے سوا کوئی مؤثر نہیں۔ لیکن اس کے بجائے ہم اشعری سسٹم کے اصول کو واضح کرنا زیادہ مفید سمجھتے ہیں تاکہ کتب میں درج عبارات سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو۔ اس لئے آئیے سب سے پہلے علت کا معنی سمجھتے ہیں جسے یہ فاضل ناقد نہیں سمجھے۔
علت وجہ ترجیح (preponderant) کو کہتے ہیں، اس کا ایک حقیقی معنی ہے اور ایک مجازی۔ حقیقی معنی کی رو سے علت کا مطلب مؤثر ہونا اور مجازی کی رو سے “علت کی نشانی ہونا” ہے۔ یہاں ہمیں حقیقی معنی پر فوکس کرنا ہے۔ مؤثر ہونے کے معنی میں علت کے دو مفہوم ہیں:
1) موجب (necessitating) ہونا
علت موجبہ وہ ہے جس سے معلول کا صدور قصد کے بغیر بطریق لزوم ہو (جیسے سورج سے روشنی کا صدور)۔ اس معنی میں علت یا تاثیریت کسی شے کی طبع یا ماہیت کا تقاضا ہوتا ہے اور اس لئے اسے essential or efficient cause کہتے ہیں۔ اس معنی میں علت و معلول ساتھ پائے جاتے ہیں، علت قدیم ہو تو معلول بھی قدیم ہوگا۔ جن لوگوں نے علت سے مراد موجب سمجھا انہوں نے کہا کہ عالم کی اشیاء میں ایسی تاثیرات پائی جاتی ہیں جس کی بنا پر وہ ایک دوسرے پر اس طرح مؤثر ہیں کہ ان میں اقتران (concurrence) اٹوٹ ہے، یعنی الف کا وجود و عدم ب کے وجود و عدم پر دائر ہے نیز اس سلسلے کے آخری سرے پر ایک “علت اولی” ہے جس سے ان تاثیرات کا صدور ہورہا ہے۔ یعنی اس علت اولی کی ماھیت سے بطریق لزوم اشیاء کی ماھیتوں میں بھی تاثیرات منتقل ہوتی ہیں جس کے بنا پر یہ ایک دوسرے پر مؤثر ہوتی ہیں، اشیاء کے مابین جاری علتوں کے اس سلسلے کو ثانوی علتیں (secondary causes) کہا جاتا ہے جو اپنی سند علت اولی سے حاصل کرتی ہیں۔ ارسطو اور اس کے پیروکار مسلم فلاسفہ کا علت کے بارے میں یہی تصور ہے اور اسی لئے یہ لوگ قدم عالم کے قائل ہوئے۔ علت موجبہ دو طرح کی ہے:
* وہ جسے اپنے معلول کا شعور نہ ہو
* وہ جسے معلول کا علم و شعور تو ہو مگر وہ اس کے صدور و عدم صدور میں اختیار نہیں رکھتی
2) مختار یا موجد (existence granting) ہونا
اختیار کے معنی میں علت کا مطلب ایسی وجہ ترجیح ہے جو بطریق قصد چاہے تو فعل کر کے اثر کو ظاہر کرے اور چاہے تو نہ کرے، اس معنی میں علت ممکن الوجود کو لاحق عدم و وجود کے مساوی امکان میں سے کسی ایک جانب ترجیح قائم کرتی ہے، اس لئے اسے موجد یا فاعل (agent) بھی کہتے ہیں۔ فاعل کے معنی میں علت اور اس کے اثر کا ایک ساتھ پایا جانا شرط نہیں۔ یہ علت بھی دو طرح کی ہے:
* وہ جس کے افعال معلل بالاغراض ہوں۔ یہ غرض یا تو فاعل کی جانب لوٹنے والی ہوگی (یعنی اس کے مقصد کو پورا کرنے والی ہوگی جیسے انسان کے افعال ذاتی اغراض سے معلل ہوتے ہیں) یا معلول و اثر کی جانب۔ جو غرض فاعل کی جانب لوٹے اسے حاجت کہتے ہیں اور جو اثر کی جانب لوٹے اسے احسان کہتے ہیں۔ ذات باری کے لئے ذاتی غرض ماننا کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں، لہذا یہ غرض معلول کی جانب لوٹے گی۔ چنانچہ ان کی رائے میں عالم کا موثر ایک فاعل مختار ہے جو اپنی حکمت کے تقاضوں کے تحت مخلوقات کے مصالح کی رعایت کرنے والا ہے
* وہ جس کے افعال معلل بالاغراض نہ ہوں بلکہ ارادہ و اختیار محض ہوں۔ یعنی عالم کا موثر ایک ایسا فاعل مختار ہے کہ وہ جو چاہتا ہے کرنے والا ہے اور اپنے افعال میں اس پر کسی قسم کی مصلحت کی رعایت کرنا لازم نہیں اور نہ اس کے ارادے سے ماوراء و مقدم کوئی غرض اس کے ارادے پر حد بندی کرنے والی ہے
یہ کل ملا کے علت چار مفہوم ہوئے:
الف) موجب محض ہونا (یہ خالص میکانکی تصور خدا ہے جسے کائناتی خدا، خدا ایک قوت، علت اولی وغیرہ بھی کہہ دیتے ہیں جس سے بالطبع ایک میکینکل کائنات کا صدور ہوا ہے)
ب) موجب بمع شعور ہونا (یہ مسلم فلاسفہ کا موقف ہے، اس سے بھی ایک میکینکل کائنات کا صدور ہوتا ہے)
ج) مختار بالغرض ہونا (یہ معتزلہ و ماتریدیہ و صوفیہ کا موقف ہے، اس فرق کے ساتھ کہ ہر ایک کے تصور حکمت و غرض کی تفصیل فرق ہے)
د) مختار محض ہونا (یہ اشاعرہ کا موقف ہے)
کسی اشعری کی ایسی عبارت جس میں یہ لکھا ہو کہ “خدا کے افعال معلل بالاغراض نہیں ہوتے”، کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اشعری اس عالم میں “علت موجبہ بطور سیکنڈری کازیلیٹی” کے قائل ہیں؟ یہ دلیل صرف یہ ظاہر کرتی ہے کہ فاضل محقق کو علم کلام و اسلامی فلسفہ پڑھنے کی فرصت میسر نہیں آسکی اور وہ کسی خاص جذبے کی تسکین کے لئے بے معنی طور پر عبارات اکٹھی کررہے ہیں۔ کسی سسٹم کو سمجھے بغیر جزوی عبارات اکٹھی کرکے استدلال کرنا اکثر مضحکہ خیز نتائج جنم دیتا ہے۔
بعض متکلمین و دیگر کے ماڈلز میں سیکنڈری کازیلٹی بصورت “علت موجبہ” (essential causality) جس طرح آتی ہے، اسے سمجھنے کے لئے ان کے اٹامسٹ ماڈل اور وجود و ماھیت سے متعلق ان کے نظریات کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس سب تفصیل کا یہ موقع نہیں، اشعری سسٹم میں سیکنڈری کازیلٹی کا امکان نہیں ہے اس لئے کہ وہ وجود اور ماھیت کو ایک کہتے ہیں نیز ان کے نزدیک اعراض کو بقا نہیں۔ امام اشعری اور ان کے ٹھیٹ اشعری پیروکاروں کا وجود و ماھیت کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ کسی شے کا وجود اس کی ماھیت سے الگ نہیں بلکہ ہر شے کا وجود وہی ہے جو اس کا ماھیتی تشخص ہے اور وجود اس ماھیت پر زائد نہیں (یعنی ہر شے کے لئے وجود = ماھیت)۔ اشعری سسٹم کے مطابق خدا جب شے کو وجود دیتا ہے تو وہ اس شے کی ماھیت یعنی وجود کو جنم دینا ہے، وجود اس سے سوا الگ سے کچھ بھی نہیں اور اعراض کو بقا نہ ہونے کی وجہ سے یہ ماھیت ہر لمحے خلق جدید کے اصول پر حادث ہوتی ہے۔ پس جب شے کی ماھیت (essence) ھر لمحے جنم لے رہی ہے تو اشعری سسٹم میں ایجابی معنی میں سیکنڈری کازیلٹی کہاں سے آئے گی جو نام ہی ماھیت کی اثر پزیری کا ہے؟ جب الف اور ب ایک ساتھ ایک ہی لمحے میں پیدا ہوتے ہیں اور اس لمحاتی وجود کے سوا ان کی کوئی ماھیت و حقیقت الگ سے ثابت نہیں بلکہ وہ عدم ہوجاتے ہیں تو “موجب” (something that necessitates something else) کے معنی میں آپ کسے علت کہیں گے اور کسے معلول؟ اسے تکنیکی زبان میں یوں کہتے ہیں کہ اشیاء ایک دوسرے “کے ساتھ” ہوتی ہیں نہ کہ ایک دوسرے کی “وجہ سے”۔ سیکنڈری کازیلٹی اس سسٹم میں آسکتی ہے جہاں یا وجود ماھیت پر زائد ہو اور یا جہاں اعراض کو بقا ہو۔
الغرض ہمارے ان فاضل دوست کو نہ اشعری سسٹم کی بنیادوں کا علم ہے اور نہ ہی علت کے معنی کا، اشعری سسٹم صرف ایک علت پر چلتا ہے اور وہ ہے “فاعل مختار محض” (اسی لئے اس سسٹم کے بارے میں کہتے ہیں: لا فاعل الا اللہ، لا مؤثر الا اللہ، لا موجد الا اللہ)۔ اشعری سسٹم کو اگر سیکنڈری کازیلیٹی میں دلچسپی ہوتی تو وہ بندے کے لئے ایسی قدرت مانتے جو مؤثر ہو لیکن ان کے ہاں تو بندے کے لئے بھی یہ ثابت نہیں جیسا کہ مسئلہ جبر و قدر میں امام اشعری کا مشہور موقف ہے کہ قدرت محدثہ مؤثر نہیں، اور ہمارے یہ دوست جمادات کے لئے ان کے سسٹم میں ایسی تاثیر ثابت کرنے کے خواہاں ہیں۔ فیا للعجب۔ اشعری سسٹم میں اس عالم میں جاری سب علتیں مجازی معنی میں علتیں ہیں، یعنی نشانی ہونا۔
کمنت کیجے