جہانگیر حنیف
عقل اور “ضروری” علم کا تعلق esoteric نہیں کہ سمجھ میں نہ آ سکے۔ ہمارے دوست خواہ مخواہ کا زور لگا رہے ہیں۔ ان کی منشاء تھی کہ عقل سر تا سر “ضروری” ثابت ہو جائے۔ وہ بھلا ہو امام باقلانی کا، جنہوں نے اپنی ترجیح میں “بعض” کے لفظ کا اضافہ فرما دیا۔ (ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہو۔ انھوں نے علم الکلام کے ساتھ ساتھ اصول فقہ کی تنظیم کو علمی بنیادیں فراہم کی۔) البتہ زور لگانے کے باوجود “لازمی وجودی حقائق” کی سند ابھی تک نہ مل پائی۔ کوشش جاری رکھیں۔ یہ کامیاب نہیں ہوگی۔ علم “اضطراری” ہو یا “نظری”، یہ شعور کی پراپرٹی ہے۔ مراد آپ کی وجودی حقائق ہیں اور مثالیں آپ اجتماعِ ضدین کے امتناع کی دیتے ہیں۔ “خلط مبحث میں اتم مہارت” کا سرٹیفیکیٹ پہلے ہی جوہر صاحب آپ کو دے چکے ہیں۔ یہ ان کی سخاوت ہے۔ ہم اس پر راضی ہیں۔ البتہ امام عالی مقام الغزالی رحمہ اللہ کا ایک قول آپ کے لیے نقل کرنا چاہوں گا، تاکہ “عقل” پر اجارہ داری قائم کرنے کے آپ کے عزائم کا صحیح محل متعین ہوسکے۔ غور کریں، امام الغزالی نے کچھ ایسے ہی حالات کو بھانپتے ہوئے، یہ بات کہی ہوگی۔ بڑا آدمی بڑا ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ ہمارے مستقبل میں جیتا ہے۔ فرماتے ہیں:
إذا قيل ما حد العقل، فلا تطمع أن تحده بحد واحد؛ فانه هوس.
جب پوچھا جائے کہ عقل کی تعریف کیا ہے؟ تو اس بات کی طمع مت کرو کہ تم اس کی واحد تعریف کرو۔ یہ محض “ہوس” ہے.
المستصفی من علم الاصول
ہوس پر غور فرمائیں۔ نالج کو monopolize کرنا۔ یعنی اس کے کسی آبجیکٹ کو اپنے مکمل حصار میں لے لینا۔ آپ نے بولا تھا کہ “عقلِ محض” پر کانٹ کی اجارہ داری نہیں۔ امام صاحب کا کہنا ہے کہ عقل آپ کی “باندی” نہیں۔ اسے اپنی ہوس کا شکار نہ بنائیں۔ یہ حکم ہمارے لیے بھی اتنا ہی مؤثر ہے، جتنا آپ کے لیے۔ لہذا اسے پرسنل نہ لیں۔ یہ آفاقی پیغام ہے۔ عقل کو اس حد تک esoteric بنانے سے اس کی کلیت، جامعیت اور حد درجہ مطلوب آفاقیت متاثر ہوتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ عقل اثبات نبوت کا بہترین ٹول ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ٹول اسی وقت کارگر ہو سکتا ہے، جب ہم سب کارِ عقل میں شریک ہو سکیں۔ جب آپ کی عقل آپ کی ہو اور میری عقل میری، تو شرکت کہاں سے پیدا ہوگی۔ اس سیاق میں دیکھیں، تو عقل کا “ضروری علم” سے لیس ہونا، اس کی بنیاد کو واضح کرتا ہے اور اس میں شمولیت کے عنصر کو داخل کرتا ہے۔ عقل ایک قابلیت اور صلاحیت کا عنوان ہے۔ یہ صلاحیت “علم ضروری” سے پیدا ہوئی ہے۔ یعنی وہ امور جو ابتداءً عقل کو حاصل ہیں۔ امام ابو ولید الباجی رحمہ اللہ “الحدود فی الاصول” میں فرماتے ہیں:
والعقل العلم الضروري الذى يقع ابتداءاً و يعم العقلاء
عقل علم ضروری ہے، جو ابتداءً واقع ہوتا ہے اور تمام اہل عقل کو شامل ہے۔
علمِ ضروری میں تعمیم کی شرط کو ہم آپ کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا ہونا ناممکن ہے کہ عقل خدا داد صلاحیت کی حیثیت میں محض زاہد مغل صاحب کو حاصل ہو اور وہ اس میں “لازمی وجودی حقائق” کے پیچیدہ codes کو نہ صرف decode کرنے میں کامیاب ہو جائیں، بلکہ اس سے ایک مکمل کلامی ڈسکورس بھی پیدا کرلیں۔ عقل کی متفقہ تعریف کو سامنے رکھیں، تو اس کا کوئی امکان نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ زاہد صاحب ہم جیسوں کو عقلاء میں شامل ہی نہ کرتے ہوں۔ پھر شاید ممکن ہو جائے۔ لیکن یہ بات بھی جان لیں کہ عقل کی “نظری” ابتداء کی شرط “ضروری” علوم ہیں۔ یہ کل عقل نہیں۔ امام الحرمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وليس العقل من العلوم النظرية، اإذ شرط ابتداء النظر تقدم العقل؛ و ليس العقل جملة العلوم الضرورية، فإن الضرير و من لا يدرك يتصف بالعقل مع انتفاء علوم ضرورية عنه. فاستبان بذلك أن العقل بعض من العلوم الضرورية و ليس كلها.
ارشاد فی اصول الاعتقاد، امام الحرمین 16
ترجمہ: عقل محض نظری علوم نہیں، کیونکہ نظر کی ابتداء کے لیے عقل کا مقدم ہونا شرط ہے۔ اور نہ عقل ساری کی ساری ضروری علوم سے مملو ہے۔ جیسے ایک اندھا اور جو ادراک کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اسے عقل سے متصف مانا جاتا ہے، جب کہ وہ ضروری علوم (کے فہم) سے عاری ہوتا ہے۔ تو واضح ہو گیا کہ عقل بعض ضروری علوم کا محل ہے، یہ اس کی کلیت نہیں۔
یہاں مناسب محسوس ہوتا ہے کہ نظر کی تعریف بھی پیش کردی جائے، تاکہ “ضروری” علم کی تعمیم کی شرط کے ساتھ ساتھ “نظر” کا محل بھی متعین ہو جائے۔ علامہ آمدی فرماتے ہیں:
النظر عبارة عن التصرف بالعقل في الأمور السابقة بالعلم والظن للمناسبة للمطلوب بتأليف خاص قصدا لتحصيل ما ليس حاصلا في العقل وهو عام للنظر المتضمن للتصور والتصديق والقاطع والظني
الاحکام فی اصول الاحکام
ترجمہ: نظر عقلی تصرفات سے عبارت ہے۔ وہ امور جو پہلے سے یقینی یا ظنی طور پر معلوم ہوتے ہیں۔ ایک خاص تالیف کے ساتھ اور مطلوب کی رعایت کرتے ہوئے عقل ان امور میں تصرف کرتی ہے، تاکہ اس چیز کا علم حاصل کرے، جو فی الوقت اسے حاصل نہیں۔ یہ تعریف عقل کے تمام نظری مواقف کو شامل ہے۔ چاہے وہ تصور ہو یا تصدیق۔ وہ قطعی ہو یا ظنی۔
لہذا یہ بات واضح ہے کہ عقل ضروری قضایا کو مستحضر رکھتی ہے۔ یہ اس کے وہ مسلمات ہیں، جن سے وہ روگردانی بربنائے فطرت نہیں کر سکتی۔ اسی وجہ سے ان مسلمات کو تعمیم حاصل ہوتی ہے۔ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ “لازمی وجودی حقائق” زاہد صاحب کی پرسنل دریافت ہیں۔ ان کو تعمیم حاصل نہیں۔ اگر “لازمی وجودی حقائق” سے ان کی مراد “علمِ اضطراری” اور “ضروری علم” ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ آئمۂ دین کی اصطلاحات کو چھوڑ کر وہ اپنی ایک نئی اصطلاح متعارف کروانا چاہتے ہیں۔ اس سے ان کے پیش نظر مقاصد کیا ہیں اور جس روایت کے وہ علم بردار ہیں، یہ مقاصد اس روایت سے کس درجہ موافقت رکھتے ہیں۔ ایک نئی اصطلاح اس وقت بنائی جاتی ہے، جب روایتی اصطلاح میں کچھ کمی رہ جائے اور وہ مفیدِ مطلب نہ رہے۔ تو ہم زاہد صاحب سے سوال کرنا چاہیں گے کہ روایتی اصطلاح میں کیا کمی تھی اور وہ کیوں مفیدِ مطلب نہ رہی؟ انھیں نئی اصطلاح بنانے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی؟
کمنت کیجے