بشکریہ : روزنامہ 92 نیوز
سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے قذف اور انکارِ نسب کے مسئلے پر ایک اہم مقدمے کا فیصلہ سنایا ہے۔مقدمے کے حقائق کچھ یوں ہیں:
تیسری بچی کی پیدائش پر مرد نے اسے اپنی بیٹی ماننے سے انکار کیا اور بیوی کو طلاق دے دی ۔ سیشن جج کی عدالت میں یہ معاملہ آیا، تو مقدمے کا فیصلہ کرنے کے بجائے انھوں نے یہ کہہ کر کہ مجھے معلوم نہیں کہ مرد اور عورت میں کون جھوٹا ہے، معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔ عورت کی جانب سے اس کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں اپیل دائر کی گئی جس نے یہ فیصلہ دیا کہ مرد نے بچی کے نسب سے انکار کرکے اس کی ماں کے خلاف قذف (زنا کا الزام) کا ارتکاب کیا ہے اور چونکہ وہ زنا کا الزام ثابت نہیں کرسکا، اس لیے وہ قذف کی سزا کا مستحق ہے۔ تاہم عدالت نے قذف پر حد کی سزا کے بجائے تعزیر کی سزا سنائی اور اس کی وجہ یہ ذکر کی کہ زنا کے الزام کے متعلق گواہوں کا ”تزکیہ“ نہیں کیا گیا تھا، یعنی ان کا قابلِ اعتماد ہونا ثابت نہیں کیا گیا تھا، اور حد کی سزا کےلیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ اس فیصلے کے خلاف مرد نے سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں اپیل کی، تو اس نے تعزیر کی سزا بھی ختم کرکے مرد کو اس بنیاد پر بری کردیا کہ یہ قذف کا معاملہ بنتا ہی نہیں تھا کیونکہ اس میں شوہر نے بیوی پر زنا کا الزام لگایا تھا اور اس صورت قذف کے بجاے ”لعان“ کی کارروائی ہونی چاہیے تھی جو سیشن عدالت نے نہیں کی۔ عورت نے اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی جس پر اب شریعت اپیلیٹ بنچ نے فیصلہ سنایا ہے۔
2020ء میں جب نظرِ ثانی درخواست کی سماعت ہوئی تو بنچ نے مجھے عدالتی معاون مقرر کیا۔ میں نے مقدمے کے حقائق اور سیشن عدالت، وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلیٹ بنچ کے فیصلوں کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ موقف اختیار کیا کہ یہ معاملہ قذف کا تھا، نہ کہ لعان کا، کیونکہ لعان تو میاں بیوی کے درمیان کیا جاتا ہے، جبکہ یہاں مرد نے عورت کو طلاق دینے کے بعد اس پر زنا کا الزام لگایا تھا۔ اس لیے سیشن جج کا فیصلہ تو سرے سے فیصلہ ہی نہیں تھا کیونکہ انھوں نے نہ لعان کی کارروائی کی، نہ ہی قذف کے اصولوں کا اطلاق کیا۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے میں میرے نزدیک بنیادی غلطی یہ تھی کہ اس نے اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ مرد نے عورت پر زنا کا الزام صرف نجی محفل میں یا طلاق کی دستاویز میں ہی نہیں لگایا، بلکہ وفاقی شرعی عدالت کے سامنے بھی یہ الزام دہرایا اور اسلامی شریعت کا یہ اصول ہمارے ہاں جرمِ قذف آرڈی نینس کی دفعہ میں 6 میں شامل کیا گیا ہے کہ عدالت کے سامنے اگرقذف کا ارتکاب کیا جائے، تو اس کے ثبوت کےلیے گواہوں کی ضرورت ہی نہیں ہے، بلکہ اسے ثابت شدہ مانا جائے گا۔ اس صورت میں اسے تعزیر کے بجاے حد کی سزا دینی چاہیے تھی۔ شریعت اپیلیٹ بنچ کا فیصلہ زیادہ حیران کن تھا کہ اس نے اسے قذف کے بجائے لعان کا معاملہ قرار دیا تھا، حالانکہ مرد تو عورت کو طلاق دے چکا تھا اور اس کے بعد وہ قانون کی نظر میں اس کےلیے اجنبی عورت تھی جس پراس نے زنا کا الزام لگایا۔ ان امور کےلیے میں نے قرآن و سنت کی نصوص اور فقہائے کرام کی تشریحات سے تفصیلی دلائل پیش کرنے کے بعد نتیجہ یہ نکالا کہ اس شخص کو حد کی سزا ہی دینی چاہیے۔
اگست 2024ء میں شریعت اپیلیٹ بنچ نے نظرِ ثانی کی سماعت کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جسے اب جاری کردیا گیا ہے۔ میرے لیے مقامِ شکر ہے کہ اس فیصلے میں میرے موقف کو تسلیم کرکے قرار دیا گیا ہے کہ یہ معاملہ لعان کا نہیں، بلکہ قذف ہی کا تھا اور یہ کہ عدالت کے سامنے قذف کا ارتکاب کرکے یہ شخص حد کی سزا کا مستحق ہوگیا تھا۔ تاہم مقدمے کی سماعت کے دوران میں عورت کے وکیل ڈاکٹر اسلم خاکی نے کہا کہ ان کی موکلہ کی دلچسپی اس شخص کو سزا دلوانے میں نہیں ہے ، بلکہ اس میں ہے کہ بچی کو جائز النسب مانا جائے۔ عدالت نے قرار دیا کہ بچی کا جائز النسب ہونا تو حتمی طور پر ثابت ہے اور عدالت اس کے برعکس فیصلہ نہیں دے سکتی۔ اس ضمن میں اس نے 2015ء میں سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے ایک فیصلے (غزالہ تحسین زہرا بنام مہر غلام دستگیر خان) کا حوالہ دیا ۔ میرے لیے شکر کی بات ہے کہ اس فیصلے میں بھی مجھے جناب جسٹس جواد ایس خواجہ کی معاونت کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ (ان دونوں فیصلوں میں طے کیے گئے قانونی اصولوں پر الگ بحث کی ضرورت ہے۔) بہرحال، بچی کے جائز النسب قرار دینے پر عورت کی جانب سے مرد کے خلاف قذف کا مقدمہ واپس لینے کی بات کی گئی جس کے بعد شریعت کے اصولوں کی روشنی میں قذف کی کارروائی جاری نہیں رکھی جاسکتی تھی کیونکہ قذف کی کارروائی جاری رکھنے کےلیے مدعیہ کا دعوی ضروری تھا۔ یوں مرد کو سزا تو نہیں دی جاسکی، لیکن بچی جائز النسب قرار پائی۔
افسوس اس پر ہے کہ ایک مرد کو اپنی مردانگی کے اظہار کا یہی طریقہ نظر آیا کہ اس نے ایک عورت پر زنا کا الزام لگایا اور اس کےلیے اپنی بچی کے نسب سے انکار کا راستہ اختیار کیا اور اس انکار پر ربع صدی تک اڑا رہا۔ تاہم سارے مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ عورت کے بھائی نے مقدمہ دائر کیا، اس کی پیروی کی، اس کےلیے اہم سرکاری دستاویزات حاصل کیں جن سے اس کے سابق بہنوئی کا جھوٹا ہونا ثابت ہوا، اور اپنی بہن اور بھانجی کو ان کا حق دلوانے کےلیے طویل جدوجہد کی۔ ان کے وکیل ڈاکٹر اسلم خاکی کا کردار بھی قابلِ تحسین ہے۔
یہ مقدمہ 2000ء میں سیشن جج کی عدالت میں شروع ہوا تھا اور حتمی فیصلہ 2025ء میں سنایا گیا، یعنی ربع صدی بعد! سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں نظر ثانی کی درخواست 2016ء میں دائر کی گئی لیکن اس کی ایک سماعت 2020ء میں ہی ممکن ہوسکی۔ درمیانی 4 سالوں میں شریعت اپیلیٹ بنچ بنایا ہی نہیں گیا۔ اس پہلی سماعت کے بعد اگلے 4 سال میں پھر بنچ بنایا ہی نہیں گیا اور اگلی سماعت 2024ء میں ہوئی۔ اس دوران میں شریعت اپیلیٹ بنچ کی تشکیل اس وقت کے چیف جسٹس کی صوابدید پر منحصر تھا اور ان کی ترجیحات میں شریعت اپیلیٹ بنچ اور اس کے مقدمات کوئی جگہ نہیں پاسکے۔ یوں جس بچی کو اس کے باپ نے ناجائز کہا تھا، اسے 25 سال بعد ہی انصاف مل سکا!
’مسماۃ سعیدہ بیگم بنام ریاست‘ کے عنوان سے اس مقدمے کا فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ فیصلہ شریعت اپیلیٹ بنچ کے عالم رکن ڈاکٹر قبلہ ایاز نے لکھا ہے اور اس سے بنچ کے دیگر تین ارکان (جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن اور عالم رکن ڈاکٹر محمد خالد مسعود) اور چیئرمین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اتفاق کیا ہے۔
کمنت کیجے