حافظ حسن علی
مکہ اور جزیرہ نمائے عرب کے دوسرے شہروں میں اقتصادی و اجتماعی مسائل وجہ نزاع نہیں تھے۔ ان شہروں کے رہنے والوں نے اقتصاد واجتماع سےمتعلق اپنے اسلاف و آباؤ اجداد سے لیےگئے افکار ونظریات پر اتفاق کر لیا تھا۔ جو صدیوں سے نسل دع نسل چلے آرہے تھے۔ معاملہ مذہبی
اعتقادات و رسومات کا تھاجس نے باشندگان عرب کو پارہ پارہ کر رکھاتھا۔ یہودی وعیسائی جو عربوں کے بیچ بستےتھے۔ بت پرستی کو عقل سلیم کی توہین گردانتے۔ اور بت پرستی کو ایک ایسا فعل شمار کرتے جو اپنی ذات میں انسانیت کی تذلیل وتحقیر پر مشتمل ہے۔ بایں طورکہ اشرف المخلوقات جبین نیاز جھکاکر اپنے ارادوں کی تکمیل کی بھیک مانگتی ہے ان غیر جاندار چیزوں سے جسکو خود اسکے ہاتھوں نے تراش رکھا ہے۔
یہودی وعیسائی عرب تاجروں کو جوگرمی واجاڑے کے موسم میں تجارتی سفر کرتے او ر روم کے عیسائیوں و یہودیوں کو دیکھتے جو تہذیب وتمدن کے سانچے میں ان بدوی عربوں سے کافی زیادہ ترقی یافتہ ہوتے یہ باور کرواتےکہ یہ دنیوی مال و متاع ،اقتدار و افتخار انکےمخصوص مذہب عیسائیت یا یہودیت کا رہین منت ہے۔
یوں بعض عربوں کےسادہ ذہنوں میں انکے بت پرستی سے جڑے اعتقادات و خیالات سے متعلق تشکیک کے بیج بوئے جاتے۔ لیکن عرب تماتر کوششوں کے باوجود یہودی وعیسائی شناخت سے علیحدہ ہمیشہ اپنی ایک جداگانہ مذہبی پوزیشن اختیار کیے رکھتے۔عربوں نے عیسائی و یہودی علماء کے تبحر علمی کا اعتراف ضرور کیا۔مگر عیسائی و یہودی اعتقادات و نظریات کو کبھی قبول کرنے کی زحمت نہیں کیں۔
عمر جو عربوں کے ایک انتہائی معزز قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ اور کافی پڑھے لکھے ذہین و فطین انسان تھے۔ ہمیشہ عربوں کے مذہبی خیالات و اعتقادات کی مضبوط حمایت کرتےاور جوکوئی شخص ان اعتقادات و خیالات پر سوال اٹھاتا عمر اسکو اپنے غیض و غضب کے شعلوں سے جلا کربھسم کر دیتے۔
ایک دفعہ عکاظ کے رنگا رنگ میلے میں کسی نے عمر کے سامنے بت پرستی کو چھوڑ کر توحید واخلاص کو قبول کرنے والی اس دعوت کا ذکر کیا جو مکہ کے قلب سے آمنہ کے لعل عبداللہ کےصاحبزادے نے شروع کر رکھی تھیں تو عمر کا غصہ اپنی انتہاؤں کو چھو گیا۔ اور عمر کی زبان اس داعی اکبر کے بارے عجیب و غریب کلمات و تراکیب انڈھیلنے لگی ۔ دراصل عمر کی دشمنی نئے دین کے داعیوں سے جہل و تعصب کی بناءپر نہ تھیں ۔ بلکہ عمر تو اس حقیقت کا سب سے زیادہ شناس تھاکہ مکہ میں محمد عربی ﷺسے زیادہ علم و حکمت والا کوئی نہیں ہے۔ اور آپ ﷺ مکہ کے سب سے بڑے عالم ہیں۔ بلکہ عمر تو آپ ﷺکے بعض اقوال سے متاثر بھی تھا۔ مگر بات یہ تھی کہ عمر کے خیال میں “بت پرستی” مکہ واہل مکہ کے لیے ایک ستون کادرجہ رکھتی تھیں۔ کیونکہ اس دور میں ریاستیں مذہبی خیالات و اعتقادات کی اساس پر قائم ہو اکرتی تھیں۔ یہی وجہ تھیں کہ اس دور میں آزادی اظہار رائے کی اجازت نہ ہواکرتی تھیں۔
سو اسلیے عمر کا خیال تھا کہ اگر محمد عربی ﷺکی دعوت کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ تو مکہ کا نظام درہم برہم ہو جائیگا۔ اور اسکی حدود میں فساد کے شعلے بھڑک جائیں گیں۔ اور اسکی ہیبت و طاقت کا شیرازہ بکھر جا ئیگا۔اسکی رفعت و عظمت کے مینارے زمین بوس ہوجائیں گیں۔ اور اسکا اقبال جاتا رہیگا۔ اور عالم عرب کے دلوں میں اسکے باشندوں کے لیے جو عزت و عظمت کےجذبات پائے جاتے ہیں مٹ جائیں گیں۔اور مکہ داخلی انتشار کا شکار ہو کر عزت و عظمت کھوبیٹھے گا۔
عمر کے یہی وہ خیالات و اگکا رتھے جن میں وہ ہمیشہ غرق رہتےاور سوچ و بچار کرتے رہتےکہ آخر اس نئی دعوت کا راستہ کیسے روکا جائے۔ اس دعوت کو قبول کرنیوالے ابو بکر، عشمان ابن عفان، طلحہ بن عبیداللہ، ابو عبیدہ ابن الجراح، جیسے جلیل القدر لوگ ہیں۔ جنہیں باوجود مذہبی خیالات کے اختلاف کے قتل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انکے قبائل انکی پشت پرکھڑے ہیں۔
بہرحال عمر اس نئی دعوت کے مکمل خاتمے کے لیے تفصیل سے سوچنے لگے۔ اور دل ہی دل میں یہ خیال آیا کہ اگر کامیاب ہوا تو مکہ و اہل مکہ کو اطمینان نصیب ہو جائے گا۔ اور اگر کوئی دوسری صورت پیش آتی ہے تو پھر بھی کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اہل مکہ کے سکون واطمینان کے لیے جس کسی ناگوار صورت کا سامنا عمر کو کرنا پڑاعمر اسکو بخوشی قبول کر لے گا۔
سورج کی کرنیں مکہ کی ریتلی زمین کو روشن کر رہی تھیں۔ صبح اپنی پوری بے تابیوں کیساتھ جلوہ گر ہو رہی تھیں۔اور ام عبداللہ بنت ابی حثمہ اپنا سازوسامان سمیٹ رہی تھیں۔ مکہ کے باسیوں کا ایک چھوٹا ساقافلہ حبشہ کی کالی گھٹاؤں کیطرف رخت سفر باندھ رہا تھا۔ خطاب کا بیٹا چہرے پر
رقت کے آثار لیے ام عبداللہ سے انتہائی غمگین انداز میں پوچھ رہا تھا ” جانا یقینی ہے”ام عبداللہ جواب دے رہی تھی کہ خطاب کے بیٹے تمہاری تکلیفوں وایذاؤں نے ہمیں مجبور کر دیا وگرنہ شہر مکہ چھوڑنے کا خیال کسے آتا ہے؟
یہ منظر ہے مسلمانوں کا مکہ چھوڑ کر حبشہ کیطرف ہجرت کرنےکا، جس نے خطاب کے بیٹے کو ملال کر دیا ہے۔ اور وہ رنج والم میں ڈوب کر ام عبداللہ سے
کہتا ہے” اللہ تمہارے ساتھ ہوں”اور چہرے ملال ورنج لیے ام عبداللہ کے گھر سے نکل جاتا ہے۔ام عبداللہ خطاب کے بیٹے کے چہرے پر آثآر حزن کو دیکھ کر حیران ہوتی ہیں۔ کہ یہ وہی شخص تھا جو ایذاء رسانیوں میں سب سے زیادہ نمایاں تھا۔ جسکی قہر آلود نگاہیں ہر وقت مؤمنین کو تاڑتی رہتی تھیں تاکہ فرصت ملنے پر انکو آبائی مذہب ترک کرکے دین محمدی کے دائرے میں داخل ہونے کی سخت سزا دی جا سکے۔ ام عبداللہ حیرانگی و استعجاب میں مبتلا رہتی ہے۔ حتی کہ اپنے شوہر سےخطاب کے بیٹے کے اس ملال کا تذکرہ چھیڑ بیٹھتی ہے جو اس نے آخری ملاقات میں شہر مکہ سے نکلتے وقت خطاب کے چہرے پر دیکھا تھا۔ ساتھ ہی اپنا فیصلہ سناتی ہے کہ خطاب کا بیٹا اسلام قبول کرلے گا۔ ام عبداللہ کا شوہر رفیقہ حیات کے اس کلام کو سن کر اسکو نسوانی انفعالیت پر محمول کرتا ہے۔ اور گویا ہوتا ہیکہ ” خطاب کا گدھا ایمان لے آئے مگر اس شخص سے کوئی امید نہیں”۔
یہ واقعہ اظہار ہے اس عملی نفرت و کراھت کا جو خطاب کے بیٹے کے بارے نوزائدہ دین کے پیرکاروں کے دل و دماغ میں انتہائی مضبوطی سے پیوست ہو چکی تھیں۔دراصل لوگ خطاب کے بیٹے کی دوراندیشی سے ناواقف تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ مکہ کے دیگر کافروں کی طرح خطاب کا بیٹابھی محض نفرت و تعصب کی بنیاد پر انکو تکلیف پہنچا رہا ہے۔ انکا خیال تھاکہ خطاب کا بیٹا بھی بوجہل و بولہب کی مانند “لات و عزی” کو بچانے کی مہم چلا رہاہے۔اور انکو عذاب کی بھٹی میں جلا رہا ہے۔
جو چیز انکی نگاہوں سے پوشیدہ تھی وہ خطاب کے بیٹے کی پریشانی کی اصل وجہ تھیں۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ خطا ب کا بیٹا انکے شہر مکہ کے داخلی و سیاسی
استحکا م کی جنگ لڑ رہاہے۔ وہ اپنی دانست میں ملک و ملت کا وفادار ہے۔ اور جو لوگ اپنے آبائی دین کو ترک کر کے نئے دین میں داخل ہو چکے ہیں دراصل خطاب کی دانست میں ملک وملت کوانتشار واضطراب کے دھانے کیطر ف لے کر جارہے ہیں ۔ لہذا انہیں بزور بازو اس عمل سے روکنا
فرض ہے۔وگرنہ تباہی ہے تباہی، مکمل تباہی۔
قبول اسلام:
ازل سے خدائے برتر و عالی کی سنت ہیکہ جب اسکی حکمت فیصلہ کر لیتی ہے۔ اور کوئی امر نوشتہ تقدیر بن جاتا ہے۔ تب مخلوق کی تدبیر عاجز پڑ جاتی ہے۔
اور تماتر پس وپیش کے باوجود خداکا فیصلے کا ظہورپذیر ہوجاتا ہے۔پس خطاب کے بیٹے کے بارے بھی حکمت خداوندی فیصلہ لے چکی تھی کہ خطاب کے بیٹے کی عقل اسکے جوش غضب پر غالب آئے گی۔ اور خطاب کا بیٹا اس دائرہ میں داخل ہو گا جس دائرے کو وہ اپنی کمزور دانست میں ہلاکت و فلاکت کا گڑھا سمجھ رہاہے۔اور اس دائرے کے بڑھاوے کاسبب بنے گا۔ چنانچہ اسباب کی دنیا میں سب سے پہلے حبشہ کیطرف مکہ کے لٹے پٹے قافلوں کی
روانگی نے خطاب کے بیٹے کے دل میں رقت پیدا کر دی۔ اور خطاب کا بیٹا اس نئے دین سے متعلق کسی فیصلہ کن اقدام کے بارے سنجیدگی سے سوچنے لگا۔
غور وفکر:
خطاب کے بیٹے نے غور وفکر کی گرائیوں وپہنائیوں میں کودکر، سوچاکہ نئے دین کے پیروکاروں نے تمام اذیتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ہماری رکاوٹوں نے انکے یقین و اذعان میں ذرہ برابر ارتعاش پیدا نہیں فرمایا۔ بلکہ گزرتے وقت کیساتھ انکے ایمان و ایقان میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ انکی تنظیم مزید استحکام حاصل کر گئی ۔اور انکی جمعیت مزید مضبوط ہوگئی۔ مکہ سے جلا وطنی قبول کر لی ۔ مگر اپنے ایمان و اسلام پر سمجھوتہ کرنا گوراا نہیں کیا گیا۔ باوجویکہ انتہائی نامساعد حالات بھی پیدا کیے گئے۔
خطاب کے بیٹے نے محسوس کیاکہ نیا دین محض ایک جامد عقید ہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک متحرک قوت ہے۔ جو اپنے ماننے والوں کی زندگی کے مختلف گوشوں پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ انکی مکمل انفرادی و اجتماعی زندگی کو ایک نئے سانچے میں ڈھال رہی ہے۔ گویا غیر مرئی طور ابن خطاب کو مکہ میں ایک نیا نظم اجتماعی ابھرتا ہوا محسوس ہوا۔ جو عدل، انصاف، احسان، واخلاص، اور اس جیسے زریں اجتماعی اصولوں پر استوار ہے۔جو انسان کو اپنے ہاتھوں کے تراشے خداؤں کے آگےجھکنے کے بجائے اسے خالق کائنات کے آگے جھکاتا ہے۔ ا بن خطاب نے محسوس کیاکہ اعتقادی پہلو سے ہٹ کرنیا دین اجتماعی و انفرادی طور پر بھی انسان کی تکمیل کرتا ہے۔ انسان کو حیوانیت کے دائرے سے نکال کر انسانیت کی معراج عطا کرتا ہے۔ اور انسان کو جسم کی ادنی ضرورتوں سے مستغنی کرکے روح کی جاوداں بلندیوں تک لیجانے والا ہے۔ پس اسلیے یہ باقی ادیان کےمقابلے میں غالب ہے۔ کیونکہ ازلی سچ اس میں محصور ہے۔
ابن خطاب کو اس غوروفکر کے نتیجے میں اپنے اس ” بنیادی سوال”کا جواب مل گیاجو شیطان نے اس کے دل میں ڈالا تھا کہ نئے دین کے رواج کے بعد مکہ میں انتشار واضطراب پیدا ہو گا۔ اور داخلی خلفشار کا شکار ہو کر اپنی عظمت کھو بیٹھے گا۔ ابن خطاب کو معلوم ہو گیاکہ نیا دین عظمتوں وبلندیوں والا دین ہے۔ اور بلند ترین اخلاقی اقدارو روایات پر کھڑا ہے۔ اور موجودہ بت پرستی کی لعنت کے مقابلے میں خدا برتر کی طرف سے نازل شد ہ انعام ہے۔ اسلیے ابن خطاب نےانتہائی جوش وخروش کے ساتھ نئے دین کا پرچار شروع کرنیکا فیصلہ کر لیا۔
ابن خطاب کی کہانی، اسکی زبانی:
“میں اسلام سے کوسوں دور تھا ۔ جاہلیت میں شراب پتا تھا اور بڑے چاؤ سے پیتا تھا۔ ہماری ایک محفل جمتی تھی جس میں قریش کے اکثر نوجوان شامل ہوتے تھے۔ ایک رات میں اس محفل میں پہنچا تو وہاں کوئی نہ تھا۔ میں نے دل میں کہا ۔ اگر میں مکہ کے فلاں مے فروش کے پاس چلوں تو شاید مجھے خراب مل جائے اور میں پی سکوں لیکن وہ بھی مجھے نہ ملا۔ اب میں نے سوچا کہ چلوں اکھنے کے سات یاستہ طواف کرلوں ۔ اسی نیت سے مسجد میں پہنچا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ رز رخ شام کی دختر تھا اور کعبہ آپ کے اور شام کے درمیان تھا۔ آپ رکن اسود اور رکن یمانی کے درمیان نماز ادا فرمان ہے تھے۔ آپ کو دیکھ کر مجھے خیال آیا ۔ آپ کا کلام سننے کا یہ بہترین موقع ہے ۔ سنوں تو سہی۔ آخر آپ کہتے کیا ہیں ؟ لیکن اندیشہ تھاکہ آپ ﷺدیکھ کر ڈر جائیں گے۔ اس خیال میں حجر اسود کی طرف سے غلاف کعبہ میں گھس گیا اور دبے پاؤں چلنے لگا۔ آپ نماز میں قرآن پاک کی تلاوت فرمارہے تھے ۔ چلتے چلتے ہیں آپ کے بالکل سامنے پہنچ گیا۔
اب میرے اور آپ کے درمیان غلاف کعبہ کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ قرآن پاک کی آیات سن کر میرے دل پر رقت طاری ہو گئی۔ میں روپڑا اور اسلام میرے باطل میں در آیا۔ میں اپنی جگہ کھڑا رہا یہاں تک کہ ﷺ نے نماز ختم کی اور گھر جانے کے ارادے سے روانہ ہوئے میں بھی
آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا حضور گھر کے نزدیک پہنچے تو میں قریب آچکا تھا ۔ آہٹ سن کر آپ نے مجھے پہچان لیا اور ڈانٹ کر پوچھا ” ابن خطاب ! اس وقت تم کیوں آئے ہوتے میں نے عرض کی اللہ ، اس کے رسول اور اس کے دین پر ایمان لانے ! آپ نے خدا کا شکر ادا کیا اور فرمایا عمر! اللہ نے تمھیں ہدایت بخش دی ! یہ کہہ کر آپ نےمیرے سینے پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے ثبات و استقلال کی دعا فرمائی۔ اس طرح میں آپ کے دین کی دولت سے مالا مال ہو کر آپ کی خدمت سے واپس ہوگا “۔
کمنت کیجے