Home » علامہ شبلی نعمانی کے جدید علمِ کلام کی ایک جھلک
شخصیات وافکار کلام

علامہ شبلی نعمانی کے جدید علمِ کلام کی ایک جھلک

ماضی قریب کی جن شخصیات نے قدیم علم کلام کو ناکارہ قرار دے کر جدید علم کلام وضع کرنے کا بیڑہ اٹھایا، ان میں ایک نمایاں نام علامہ شبلی نعمانی صاحب کا ہے۔ اپنی کتاب “علم الکلام اور الکلام” میں اپنے تئیں قدیم علم کلام کے نقائص گنوانے کے بعد آپ نئے علم کلام کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے ملاحدہ کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے یونانی مفکر دیموقراطیس کے قدیم و ذاتی تاثیرات کے حامل اجزا (ایٹمز) پر اپنا نظریہ کھڑا کرتے ہیں۔ یعنی عالم کے اجزا کو قدیم اور ذاتی تاثیرات کا حامل ماننا، یہ جدید علم کلام ہوا! علامہ شبلی نعمانی صاحب اس نظرئیے کی جانب کیوں مائل ہوئے؟ اس کی وجہ بظاہر ان کے دور میں پائی جانے والی فزکس میں قوانین فطرت (جیسے نیوٹن کے قوانین حرکت) وغیرہ کا غلغلہ تھا، اس کی توجیہہ کے لئے آپ نے دیموقراطیس کے دروازے کو کھٹکھٹایا جو تاثیر کے نظرئیے پر مبنی ان قوانین کی توجیہہ کی بنیاد فراہم کرسکتا تھا۔ اگلی بات یہ نوٹ کیجئے کہ علامہ شبلی نعمانی وجود باری کے لئے جو دلیل پیش کرتے ہیں، وہ ڈیزائن آرگومنٹ کی ایک خاص تشریح ہے جس کے مطابق قدیم اجزائے عالم میں اگرچہ تاثیرات ہیں تاہم کسی خاص و ہم آھنگ ربط میں ڈھلنے کے لئے وہ کسی ایسے اصول کے محتاج ہیں جو انہیں اس لڑی میں پرو دے۔ اس دلیل کی رو سے ایسے اصول رابط کو خدا کہتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس دلیل سے اس اصول رابط کا خالق ہونا ثابت نہیں ہوتا بلکہ صرف منتظم (organizer or designer) ہونا ثابت ہوتا ہے نیز یہ دلیل عالم کے قدیم ہونے کے امکان کو بھی کھلا رکھتی ہے۔ علامہ شبلی نعمانی اس دلیل کے پہلے مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کرتے (یعنی وہ یہ نہیں بتاتے کہ یہ مؤثر اجزا کیوں کر موجود تھے) جبکہ دوسری بات کو قبول کرلیتے ہیں (نوٹ: علامہ سید سلیمان ندوی صاحب کے مطابق علامہ شبلی نعمانی نے بعد میں قدم عالم کے نظرئیے سے رجوع کرلیا تھا، البتہ وہ تفصیلات نہیں بتاتے)۔ اگر ان کی یہ بات مان لی جائے کہ یہ اجزا واقعی ذاتی تاثیرات کے حامل ہیں اور آپسی ملاپ سے مزید تاثیرات کی وقوع پزیری کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، تو ہمیں نہیں معلوم کہ یہ ماننا کیوں محال ہے کہ وجوبی طور پر مؤثر یہ اجزا کسی خاص وجوبی تعامل کے نتیجے میں خود بخود ایک وجوبی تعلق میں بھی ڈھل سکتے ہیں اور جس کے لئے کسی علت رابطہ کا ہونا ضروری نہیں۔ الغرض قدیم علم کلام کو رد کرنے کے بعد علامہ شبلی نعمانی صاحب کچھ اس قسم کا جدید علم کلام وضع فرماتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ علامہ شبلی نعمانی صاحب نے اپنے اس “جدید علم کلام” میں مسلم فلاسفہ کے قدم عالم کے نظرئیے کو نئے رنگ میں پیش کیا ہے، ان کے پیش کردہ ماڈل میں عالم قدیم ہے، اشیاء ذاتی طور پر مؤثر ہیں، خدا کا خالق ہونا ثابت نہیں اور خدا کا تعلق اشیاء سے بذریعہ ثانوی علل ہے۔ البتہ آپ نے اپنے دور کی فزکس کو مد نظر رکھتے ہوئے عقول عشرہ کے نظرئیے کو ترک کردیا ہے، اس کے سوا اس میں کوئی جدت ہمیں دکھائی نہیں دی۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
zahid.siddique@s3h.nust.edu.pk

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں