عمران شاہد بھنڈر
ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ لوگ لفظ ’منطق‘ کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں، مقصد ان کا محض یہ دکھانا ہوتا ہے کہ ان کی سوچ منطقی ہے۔ یہ سوال، بہرحال، موجود ہے کہ وہ اپنے تجزیات کے دوران منطقی اصولوں کا اطلاق کرتے ہیں یا نہیں؟ ہمیں اس مختصر تحریر میں سب سے پہلے یہ جاننا ہے کہ منطق کیا ہے اور اس میں تصورات، تصدیقات اور استدلال کیا معانی رکھتے ہیں؟ اگرچہ اس میں استقرائی اور استخراجی منطق کا امتیاز موجود ہے، تاہم ہمیں فی الوقت اس تفصیل میں نہ جاتے ہوئے صرف اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہے کہ منطق اور اس کے قوانین کیسے تشکیل پاتے ہیں؟ اس سوال کا سادہ اور عام فہم جواب یہ ہے کہ منطق ”سوچ کی سائنس“ کو کہا جاتا ہے، یا یوں کہہ لیں کہ منطق سوچ کے عمومی قوانین کی سائنس ہے۔ اب دوسرا سوال یہ ہے کہ منطق کے یہ عمومی قوانین کیا ہیں اور یہ کیسے تشکیل پاتے ہیں؟ اس سوال کی طرف ہم بعد میں آتے ہیں، یہاں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ منطق ان قوانین کو کہتے ہیں جو ایک ترتیب اور تنظیم کے تحت باہم مربوط ہوں۔ جہاں ایک تصور پر دوسرا تصور خارج سے چسپاں نہ کیا جائے بلکہ ایک تصور کے اندر سے دوسرا تصور ازخود برآمد ہو۔ اگر دو تصورات میں نظم یا ترتیب نہیں ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تصورات ایک دوسرے سے تعلق یا ربط نہیں رکھتے۔ جیسا کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ علت و معلول ایک دوسرے سے ربط رکھتے ہیں۔ یہاں سے ایک عمومی قانون تشکیل پائے گا۔ عمومی قانون اور کسی مخصوص قانون میں فرق بھی ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے۔ عمومی قانون کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیشہ صحیح ہوتا ہے، لیکن مخصوص قانون مخصوص حالات میں ہی درست ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہنا کہ”ہر انسان سوچتا ہے۔“ یہ ایک عمومی حکم ہے۔ اب دوسرا قانون یا اصول اس کے اندر سے برآمد ہونا چاہیے، جو یوں ہو گا کہ ”زید ایک انسان ہے“، لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ ”زید سوچتا ہے۔“ اس طرح پہلا قضیہ، اس میں سے دوسرے قضیے کا استخراج اور تیسرا اس میں سے نکالا گیا لازمی نتیجہ جو کہ ایک عمومی قانون یا اصول کہلاتا ہے۔ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم منطقی طور پر سوچ رہے ہیں اور اس منطقی سوچ کا نتیجہ وہ منطقی قوانین ہیں جو ہم نے اخذ کیے ہیں۔ ہماری سوچ کی حرکت منطقی اصولوں کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔ یعنی ایک تو منطقی طور پر سوچنے کا مطلب قوانین کے تحت سوچنا ہے، دوسرا وہ قوانین ہماری منطقی سوچ کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ یہاں سوچ کا مطلب ہے منطقی سوچ، منطقی سوچ کا مطلب ہے منطق کے عمومی قوانین کے تحت متعین ہوئی سوچ۔ یعنی منطق اور منطقی سوچ کے ہی پہلو ہیں۔ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا منطق بھی منطقی ہوتی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ منطق منطقی ہوتی ہے، اور منطقی ہونا چونکہ منطق کے قوانین کے تحت ہوتا ہے، اس لیے اسی کو منطق کہا جاتا ہے۔ اگر سوچ منطقی یعنی منطق کے اصولوں کے تحت تشکیل پائے گی تو منطقی کہلائے گی۔ دوسری کوئی صورت موجود نہیں ہے۔
یہاں ایک اہم بات کو اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اگر منطق سوچ کی سائنس ہے تو وہ ”مخصوص“ کرداروں سے بحث نہیں کرتی، اگرچہ وہ ان سے لا تعلق بھی نہیں ہوتی۔ تاہم سوچ کی درستی کے لیے لازم ہے کہ تصورات قائم کیے جائیں، ان تصورات کے مابین تعلق کی تصدیق (Judgement)کی جائے اور اس تصدیق سے اس میں موجود استدلال (Reasoning) کو دیکھا جائے۔ آئیے اب ہم ایک ہی قضیے سے تصور، تصدیق اور استدلال کے معانی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر ہم کہیں کہ ”تمام انسان سوچتے ہیں“ تو یہ ہم نے ایک تصدیق قائم کی ہے، یا حکم لگایا ہے، یا ججمنٹ دی ہے۔ یہ تصدیق دو تصورات پر قائم ہے: ایک انسان اور دوسرا سوچنا۔واضح رہے کہ انسان اور سوچنا دونوں ہی عمومی قضیے یا تصورات ہیں، کیونکہ ہم نے کسی مخصوص انسان کی بات نہیں کی۔ اس قضیے سے دوسرا قضیہ ازخود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ”زید ایک انسان ہے۔“ ہم نے پہلی عمومی تصدیق سے یہ قضیہ برآمد کیا۔ پہلی تصدیق سے دوسری تک جو عمل ہوا اسے استدلال کہتے ہیں۔ جب ہم یہ کہیں گے کہ ”زید سوچتا ہے“ تو اس سے ہماری تصدیق کا استدلال ہم پر واضح ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ استدلال سے مراد ایک تصدیق سے دوسری تصدیق تک اصول کے تحت پہنچنا ہے، اس میں غلطی کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔ اگر ہم پہلی تصدیق ”تمام انسان سوچتے ہیں“ کہ بعد یہ کہہ دیں کہ ”گدھا ایک انسان ہے“ تو ہماری تصدیق ہی نہیں بلکہ استدلال بھی غلط ہو جاتا ہے۔
ہماری اس مختصر بحث سے نتیجہ یہ نکلا ہے کہ تصدیقِ اوّل کے اندر ہی سے تصدیقِ دوئم برآمد ہوتی ہے، لیکن پورے استدلال کے ساتھ اور آخر میں نتیجہ تصدیقِ اوّل کی درستی کو ثابت کرتا ہے، وجہ یہ کہ ہم نے صحیح استدلال قائم کیا ہے۔
کمنت کیجے