حضرت الاستاذ عبد القدوس خان قارن ؒ کا تذکرہ و یادیں لکھ رہا تھا کہ کچھ ایسی مصروفیات و حوادث آڑے آئے کہ قلم رک گیا۔ اب بھی ان کے متعدد واقعات و احوال ذہن میں گھوم رہے ہیں، مگر ان کو فی الحال کسی اور نشست کے لیے چھوڑتا ہوں۔
استاد گرامی کی طبیعت میں جہاں خوش طبعی و مزاح پسندی تھی وہی ایک قسم کا جلال اور سنجیدگی بھی تھی، جس کی وجہ سے ان کا رعب رہتا تھا، مگر جو ان کے قریب ہوجاتے اور مزاج سے واقف ہوتے ان کو ان کے غصہ پر بھی پیار آتا تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ غصہ تو وقتی حال ہے اس کے بعد پھر وہی خوشگوار مزاح و دلگی کا ماحول ہو گا۔
وہ علم و عمل کے دھنی تھے۔ جو منصوبہ بنا لیتے اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتے تھے۔ پھر بھی ان کے کئی علمی منصوبے باقی رہ گئے، جن میں سے ایک منصوبہ حضرت شیخ سرفراز خان صفدر ؒ کے تفسیری و حدیثی افادات کی اشاعت بھی تھی۔ انہوں نے شیخ کے مدرسہ نصرۃ العلوم میں پڑھائی گئی تفسیر قرآن کو مرتب و شائع کرنا کا منصوبہ بنایا تھا اور اس پر کام بھی کیا ، مگر بوجوہ وہ کام ابھی تک منظر عام پر نہ آ سکا، بارہا اس کے بارے استاد گرامی سے گفتگو ہوئی تو فرمایا کہ بس دعا کرو کہ صحت اور فرصت ملے تو اس کام کو مکمل کروں گا۔ اللہ کرے اس کام کی تکمیل و اشاعت کی کوئی صورت میسر آئے۔
انہوں نے بیک وقت کئی کام شروع کر رکھے تھے، امامت ، تدریس ، تصنیف و تالیف ، کتابوں کی اشاعت و تجارت وغیرہ ، یوں وہ ایک انتہائی مصروف شخصیت تھے۔
مجھے یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ باوجود دور ہونے کہ میں ان کے سفر آخرت میں شریک ہو گیا۔ ان کا انتقال جمعہ والے دن نماز جمعہ سے کچھ پہلے اس وقت ہوا جب وہ نماز جمعہ کی امامت کے لیے تیار ہو کر گھر سے نکلنے والے تھے۔
میں جمعہ کے نماز پڑھ کر گھر آیا ور کھانا کھا کر لیٹ گیا، پھر اچانک خیال آیا کہ موبائل کو چارجنگ پر لگا دوں، موبائل چارجنگ پر لگانے کے لیے جو اٹھایا تو واٹس اپ میسجز میں استاد گرامی مولانا ظفر فیاض صاحب کا میسج دیکھا، تو کچھ دیر کے لیے تو ہوش ہی نہ رہا، پھر استاد ظفر فیاض صاحب ہی سے نماز جنازہ کا وقت پوچھا تو انہوں نے رات دس بجے کا بتایا، تک سہ پہر کے ساڑھے تین بج چکے تھے۔ اب پریشان کہ کیسے جاوں، ذہن میں بیک وقت کئی خیال چل رہے تھے کہ گاڑی بک کراوں یا لوکل گاڑی پر جاوں، کہ اتنے میں مولانا مفتی توصیف احمد سے رابطہ ہوا، وہ کہنے لگے کہ چار بجے گاوں میں ایک جنازہ پڑھانا ہے، تو جنازہ پڑھا کر نکل جاتے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ آفر میں بھی کر دی کہ میں اپنی گاڑی لے کر جاوں گا۔ چنانچہ ہم ساڑھے چار بجے منگ ہری پور سے نکلے راستہ میں خانپور سے پروفیسر ساجد ہارون کو ہمراہ لیا اور رات پونے دس بجے گوجرانوالہ پنڈی بائپاس پہنچ گئے، مگر شہر کی رش کی وجہ سے مدرسہ نصرۃ العلوم پہنچتے پہنچتے جنازہ کی نماز ہو گئی تھی، سو ہم سیدھے بڑے قبرستان پہنچے ، اور وہاں ایک جم غفیر کے ہمراہ استاد گرامی کو سفر آخرت پر روانہ کیا۔ وہ اپنے محبوب استاد حضرت مفسر قرآن صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ ، اور اپنے رفقاء حضرت مولانا اللہ یار ؒ حضرت مولانا سید عبد المالک شاہ ؒ کے پڑوس میں محو آرام ہیں، مولا کریم ان کی تربت مبارک کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا دے۔ ( اللہ کریم مفتی توصیف احمد اور پروفیسر ساجد ہارون صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے، ان کی بدولت یہ سفر بآسانی طے ہو گیا۔)
قبرستان میں ہی استاد گرامی مولانا ظفر فیاض صاحب ، استاذ گرامی مولانا عمار خان ناصر صاحب ، استاد گرامی کے علوم کے امین مولانا فضل الہادی ۔ یار من ڈاکٹر حافظ رشید ، عزیزم مولانا جواد اللہ اور استاد گرامی کے صاحبزادے مولانا عمر صاحب اور دیگر احباب سے ملاقات ہوئی، جب کہ تدفین کے بعد جامعہ میں آ کر استاد گرامی مولانا حاجی فیاض خان سواتی مہتمم جامعہ نصرۃ العلوم کی ملاقات و زیارت کا شرف حاصل کیا، اس کے بعد مولانا سعید ثاقب کے دسترخوان پر مولانا نوید گجراتی ، مولانا شعیب قیصر ، مولانا عمران عباسی و دیگر احباب کے ہمراہ کھانا کھایا، کچھ دیر نشست رہی، اور پھر رات ہی واپسی ہو گئی۔
استاد ایسی شخصیت تھے کہ ان کی یادیں کسی بڑے ہی بے توفیق کے دل سے نکل پائے گی، ورنہ عموما تو وہ اپنے تلامذہ کے دلوں میں اور دعاوں میں ہمیشہ رہیں گئے۔ اللہ کرے کے ان کے صاحبزادگان اور تلامذہ ان کے علمی و عملی سفر کو جاری رکھیں۔ اللہ کریم ان کے کمالات علمیہ اور عاجزی و سادگی اور بے نفسی سے ہمیں بھی حظ وافر عطا فرمائیں۔ (ختم شد )
نوٹ : انشاء اللہ ان کی کتابوں کے تعارف اور منہج تدریس حدیث پر مستقل لکھوں گا۔ دعا فرمائیں کہ اللہ کریم توفیق عطا فرمائے۔
نوٹ: اگر کبھی ان کی یادوں کو مولانا فضل الہادی ، مولانا سعید ثاقب اور مولانا احسان اللہ ناروال نے مرتب کیا تو یہ کمال کی یادگار ہو گی۔
کمنت کیجے