Home » مدرسہ ڈسکورسز » ورک شاپس » سمر انٹنسو 2017

سمر انٹنسو 2017

 

مدرسہ ڈسکورسز کے پہلے سمسٹر کے اختتام پر 5 تا 11 اپریل 2017  تربیتی ورکشاپ کا انعقاد عمل میں آیا۔ شرکاء نے 8 اور 9 اپریل کو اسلام آباد کا دو روزہ مطالعاتی دورہ کیا۔

8 اپریل کو شرکاء نے الندوہ لائبریری ، مری روڈ چھتر میں ادارے کے سربراہ مفتی سعید خان صاحب سے ملاقات کی اور ان کی راہنمائی میں لائبریری کے مختلف شعبہ جات ملاحظہ کیے۔ اسی دن شام کے وقت ایک مقامی ہوٹل میں ڈاکٹر ادریس آزاد (پروفیسر آف فزکس، انٹر نیشنل اسلامی یونیورسٹی ، اسلام آباد) اور ڈاکٹر محمد زاہد مغل (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ معاشیات، نسٹ اسلام آباد) کے ساتھ نشست کا اہتمام تھا جس میں اس موضوع پر بھرپور گفتگو کی گئی کہ فزکس کے میدان میں جدید سائنسی تصورات کیا ہیں، نیز یہ کہ ان تصورات سے مذہب کے متعلق پیدا ہونے والے سوالات کیا ہیں اور ان کا کس طرح سامنا کیا جا سکتا ہے؟ اس مجلس میں ڈاکٹر طفیل ہاشمی صاحب بطور صدر مجلس شریک ہوئے اور اختتامی گفتگو کے ساتھ دعا بھی انہوں نے ہی کروائی۔

پروفیسر ادریس آزاد (پروفیسر آف فزکس ، انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی ، اسلام آباد) نے بڑی آسان زبان اور عمدہ اسلوب میں جدید فزکس کے اہم مباحث شرکاء کے سامنے رکھے۔ ان کا لیکچر بہت اہم تھا، ان کے لیکچر کے اہم پوائنٹس حسب ذیل ہیں:

جدید فزکس کا دور 1905 سے شروع ہوا جب آئن سٹائن نے theory of special relativity پیش کی۔ جدید فزکس میں تین بڑے بریک تھرو آئے۔ پہلا theory of special relativity ، دوسرا theory of general relativity ، تیسرا Quantum ۔ اس کے بعد 1967 سے 2017 فزکس میں تھیوریز تو بہت آئیں لیکن قوانین یا لاز کوئی نہیں آئے۔ جدید فزکس کا یہ سارا عمل 1905 سے 1930 تک مکمل ہو گیا اور یہی ابھی تک چھایا ہوا ہے۔

جدید فزکس کی وجہ سے پہلے سے موجودٹائم اور سپیس کا تصور تبدیل ہوا اور Time Dilation کا تصور آیا ، اسی کے ساتھ متحرک اشیاء کے لیے contraction length کا تصور آیا ۔ یہ تصورات سیاروں کے فاصلے، خلاء میں سفر اور مستقبل یا ماضی میں سفر کرنے کے تصور میں بہت اہم ہیں۔ آئن سٹائن نے سائنسی تعریفات میں بڑی تبدیلی پیدا کی، تقریباً  ہر چیز کی نئی تعریف کی گئی۔ کسی بھی چیز کی جو تعریف نیوٹن کے دور میں تھی، وہ اب تبدیل ہو گئی ہے۔ اگرچہ نصاب میں آج بھی امریکہ سمیت ہر جگہ اسکولوں میں نیوٹن والی تعریف ہی پڑھائی جا رہی ہے۔ مثلاً پہلے یہ تصور تھا کہ کشش ثقل چیزوں کو نیچے سے کھینچ رہی ہے، لیکن آئن سٹائن کے آنے سے یہ تصور بدل گیا۔ اب یہ تصور ہے کہ gravity چیزوں کو نیچے سے کھینچنے کا نام نہیں بلکہ اوپر سے نیچے کی طرف دھکیلنے کا نام ہے۔

ڈاکٹر زاہد صدیق مغل صاحب کا موضوع “مذہب کے لیے سائنس کی وجہ سے پیدا ہونے والے چیلنجز اور ان کا سامنا کرنے کا طریقہ ” تھا۔ انہوں نے کہا کہ سائنس کے بارے میں ہمارے کچھ غلط تصورات ہیں جو سائنس کا لفظ سننے کے ساتھ ہی ہمارے ذہن میں آتے ہیں۔ مثلاً سائنس سے ہمارے ذہن میں مشینوں کا تصور آتا ہے جیسے فریج ، گاڑی وغیرہ۔ سائنس ان چیزوں کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو سائنس کے حاصلات ہیں۔ دوسری چیز ہم سمجھتے ہیں کہ شاید سائنس کسی specific method of knowing کا نام ہے اور وہ تجرباتی طریقہ کار ہے۔ یہ تصور کسی حد تک ٹھیک بھی ہے، لیکن پورا درست نہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ It is more than that ۔ اس میں الہیاتی تصورات بھی ہیں ، تجربات بھی ہیں اور دیگر معاشرتی چیزیں بھی موجود ہیں ، کیوں کہ یہ سائنس کا سارا عمل انسان کرتا ہے اور انسان کے ہر عمل کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ سائنس بھی ایک سوشل پراسس ہے، اس کا بھی ایک مقصد ہے۔ اور ہمارے نزدیک سائنس کا مقصد اس کائنات پر انسانی ارادے کا تسلط قائم کرنا ہے۔ اس کو سرمایہ دارانہ معاشی نظام سے ہٹا کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ جو بھی عمل سائنس کی فیلڈ میں ہو رہا ہے، اس پر سرمایہ لگ رہا ہے اور کچھ لوگ یا ممالک یہ سرمایہ فراہم بھی کر رہے ہیں، اس لیے ہمارے نزدیک سائنس کا مقصد اس وقت اس سرمایہ دار یا سرمایہ دارانہ نظام میں موجود قوتوں کے ارادے کو اس کائنات میں مسلط کرنا ہے۔ سائنس کے تقریباً ہر مظہر میں یہی فکر کارفرما ہے۔ مثلاً موسمیات کی ساری ریسرچ اس لیے نہیں ہو رہی کہ یہ پتہ چلایا جائے کہ اللہ تعالیٰ کیسے بارش برساتا ہے۔ یہ ساری ریسرچ اس لیے ہے کہ بارش جہاں ہم چاہتے ہیں، وہاں بارش ہو۔اسی طرح دیگر سائنسی تحقیقات میں بھی ہے۔ انسان یہ چاہتا ہے کہ سائنس کے ذریعے میں دنیا کو جنت بنا لوں، یعنی اس میں جو میں چاہتا ہوں، وہ ہو جائے۔ اب اس ماحول میں حلال و حرام کے سارے مباحث ، ساری حد بندیاں اور قیدیں بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ یہ اصل چیلنج ہے۔کائنات کی تسخیر کا محرک انسانی فلاح کا تصور ہونا چاہیے نہ کہ انسانی ارادے کا تسلط اور سرمایہ دارانہ سوچ۔

9 اپریل کو دس بجے دن ایک مقامی ہوٹل میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (PIPS) کے زیر اہتمام کورس کے شرکاء کے لیے مختلف سائنس دانوں کے ساتھ نشست کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں PIPS کے نمائندہ محمد اسماعیل خان، سینئر کالم نگار اشفاق سلیم مرزا اور معروف دانشور اور قائد اعظم یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اے ایچ نیر شریک تھے۔ اس نشست میں ڈاکٹر مہان مرزا بھی شریک ہوئے۔ اس مجلس میں پروفیسر اے ایچ نیر کے ساتھ ڈاکٹر رضوان بھی تشریف لائے تھے جنہوں نے جدید فزکس کے بنیادی ڈھانچے پر عمدہ گفتگو کی۔ اس نشست کا موضوع بھی جدید سائنسی تصورات کی وجہ سے مذہب کو درپیش چیلنجز تھا لیکن اس سے ہٹ کر بھی بہت سے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ شرکاء نے ان موضوعات پر کھل کر گفتگو کی اور ماہرین نے طلبہ کے سوالات کو خندہ پیشانی سے سنا اور کھلے دل سے ان کے جوابات دینے کی کوشش کی۔

اگلے دو دن ڈاکٹر مہان مرزا اور مولانا عمار خان ناصر کی نگرانی میں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ورکشاپ کی مختلف نشستیں منعقد کی گئیں جس میں انڈیا کے شرکاء بھی آن لائن شریک ہوئے۔ انڈیا سے ڈاکٹر وارث مظہری، ڈاکٹر الطاف احمد اعظمی اور ڈاکٹر راما کرشنا نے بذریعہ ویڈیو کانفرنس ورکشاپ کے شرکاء سے گفتگو کی۔ ڈاکٹر وارث مظہری نے “امام غزالی کا فلسفہ علم” پر گفتگو کی، جبکہ ڈاکٹر الطاف احمد اعظمی نے ” علم الکلام کے اساسی مباحث ” پر اور ڈاکٹر راما کرشنا نے concept of regional history and universal history پر روشنی ڈالی۔ ورکشاپ کے سارے سیشنز میں ڈاکٹر مہان مرزا نے فلسفے کے ابتدائی تعارف پر جوسٹین گارڈر کے مشہور ناول ’’سوفی کی دنیا” کے مختلف حصوں کا خلاصہ بیان کیا۔ مولانا عمارخان ناصر نے علامہ ابن خلدون کے فلسفہ تاریخ پر بات کی۔ اختتامی نشست سے الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے مختصر خطاب کیا  اور مذہب اور سائنس کے عنوان سے پر مغز گفتگو کی۔ انھی کی دعا پر اس ورکشاپ کا اختتام ہوا۔

مولانا محمد عمارخان ناصر نے ’’ مقدمہ ابن خلدون اور فلسفہ تاریخ” کے موضوع پر  تین چار حوالوں سے گفتگو کی۔

ان میں ایک یہ ہے کہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ کی بالکل ابتدا میں تاریخی واقعات کو جانچنے کے جو معیارات قائم کیے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ محدثانہ معیار پر روایت کو جانچنے کے معیارات کے ساتھ اس روایت یا واقعہ کے متن کو کچھ عقلی و معاشرتی معیارات پر بھی جانچنے کی ضرورت ہے ۔اگر واقعہ عقلاً اور عادتا ممکن نہیں تو راویوں کی جرح و تعدیل کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس اصول کے تحت ایک تو ابن خلدون نے بہت سی تاریخی روایات کو پرکھا ہے، لیکن اس کے ساتھ انہوں نے کچھ ایسی روایات پر بھی نقد کیا ہے اور سوالات اٹھائے ہیں جو احادیث کی کتابوں میں مستند ذرائع سے روایت ہوئی ہیں۔

دوسرا پہلو ان کا مشہور نظریہ عصبیت ہے، کہ سیاسی طاقتیں کیسے اقتدار حاصل کرتی ہیں ، کیسے ان کا اقتدار قائم رہتا ہے اور کیسے اور کب وہ زوال کا شکار ہوتا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے عصبیت کی تھیوری پیش کی۔ مثلاً وہ روایات جو قریش کی حکمرانی کے بارے میں آئی ہیں، ان کی روشنی میں کافی عرصہ تک یہ مذہبی اور کلامی بحث چلتی رہی ہے کہ مذہبی طور پر قریش ہی خلافت کے حق دار ہیں۔ کئی صدیوں تک یہ بات ایک مذہبی تصور کے طور پر مقبول رہی۔ لیکن ابن خلدون نے اس کے بارے میں یہ کہا ہے کہ یہ کوئی مذہبی ہدایت نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے وہی عصبیت کا اصول کام کر رہا تھا۔ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ قریش کو قبائل مضر میں غالب حیثیت حاصل تھی اور عرب کے سارے قبائل ان کی اس حیثیت کا اعتراف کرتے تھے۔ چنانچہ اگر قریش کے علاوہ اقتدار کسی کے سپرد کیا جاتا تو یقینی طور پر اہل عرب ان کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرتے اور قریش کے علاوہ دوسرے قبائل مضر انھیں اپنی اطاعت پر مجبور نہ کر سکتے۔ یوں اجتماعیت ختم ہو جاتی، حالانکہ شریعت مسلمانوں میں اتفاق اور وحدت پیدا کرنا چاہتی تھی۔ اس کے برعکس اقتدار قریش کے سپرد کیے جانے کی صورت میں وہ لوگوں کو اپنی اطاعت پر آمادہ کر سکتے اور اپنے سامنے جھکا سکتے تھے، اس لیے ان کے مقابلے میں کسی کے اختلاف کا بھی خدشہ نہیں تھا۔

تیسرا پہلو ان کا نظریہ عروج و زوال ہے جو ایک حوالے سے نظریہ عصبیت ہی کی توسیع ہے۔ ابن خلدون کا خیال ہے کہ جب تک کسی گروہ کو مطلوبہ عصبیت حاصل رہتی ہے، اس وقت تک اس کا عروج قائم رہتا ہے اور جب یہ عصبیت کمزور اور ڈھیلی ہونا شروع ہو جاتی ہے تو اس کا اقتدار ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔یہی بحث ایک بڑے اہم تاریخی سوال کی شکل اختیار کر لیتی ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کی اساس کیا ہے؟ ابن خلدون کے زمانے میں بحیثیت مجموعی پوری امت مسلمہ زوال کا شکار نہیں ہوئی تھی ۔اس لیے ان کے ہاں یہ بحث تو ملتی ہے کہ اسلامی ممالک کے اندر کیسے مختلف خاندان اور گروہ عروج حاصل کر رہے ہیں اور زوال کا شکار ہو رہے ہیں، اقتدار میں آ رہے ہیں یا اقتدار سے ہٹائے جا رہے ہیں، لیکن بحیثیت مجموری پوری امت مسلمہ کے عروج و زوال پر کیا اصول لاگو ہوتے ہیں ، یہ بحث نہیں ملتی۔ تاہم انہوں نے اپنے تناظر میں جو اصولی بحثیں کی ہیں، وہ اصولی طور پر یہاں بھی لاگو ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ کسی بھی قوم کو اقتدار ہمیشہ کے لیے نہیں ملتا ، ہر قوم ایک خاص وقت کے لیے ہی اقتدار میں آتی ہے۔ پھر ایک دوسری قوم اٹھتی ہے اور اس کو ہٹا کر اقتدار میں آ جاتی ہے، اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔

ابن خلدون کے دور میں شاید اس کے آثار نہیں تھے کہ وہ اس اصول کو بحیثیت امت مسلمانوں پر لاگو کر کے دکھا سکتے۔ تاہم بعد میں آنے والے مفکرین نے اس اصول کو مسلمان امت پر منطبق کر کے عروج و زوال کی تعبیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ابن خلدون کے ساتھ کچھ اور مفکرین مثلاً شاہ ولی اللہ، علامہ انور شاہ کاشمیری وغیرہ کو ملا کر اس پر غوروفکر اور گفتگو کریں، کیونکہ ان مفکرین کو یہ موقع ملا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو عروج کے بعد زوال کے مرحلے سے بھی ہم کنار ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

ڈاکٹر وارث مظہری صاحب نے امام غزالی کے فلسفہ علم پر گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ: علم الکلام کے حوالے سے امام غزالی کا نقطہ نظر کہیں مثبت لگتا ہے اورکہیں منفی۔کہیں وہ متکلمین کی تعریف کرتے ہیں اور کہیں ان کی مذمت بیان کرتے ہیں۔ اپنی کتاب المستصفیٰ میں علم الکلام کو وہ کلی علم قرار دیتے ہیں اور باقی علوم کو جزئی۔ اس طرح علم الکلام کے حوالے سے امام غزالی کے بارے میں مفکرین کی آرا میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ امام غزالی علم الکلام کو پسند نہیں کرتے اور اس کے سخت ناقد ہیں اور کچھ اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔ علماء متقدمین میں سے کئی افراد میں یہ رویہ پایا جاتا ہے کہ کسی علمی نکتے پر ان کی رائے ایک دور میں ایک رہی ہے اور کچھ عرصہ کے بعد دوسری ۔ تو کیا امام غزالی کے ہاں بھی یہی رویہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اہل علم کی آراء ان کے بارے میں مختلف ہوئیں؟ امام غزالی یہ بھی کہتے ہیں کہ علم الکلام کے مباحث کو دیکھنا ، پڑھنا اور سیکھنا بسا اوقات واجب عینی ہو جاتا ہے ، یعنی پہلے کلام میں غوروفکر کرنا بدعت تھا لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یہی بدعت واجب عینی بن گیا۔ اسی طرح غزالی کے ہاں یہ بحث بھی ملتی ہے کہ نصوص کی سطح پر ہر چیز کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک باطن۔ غزالی کے ہاں اس ظاہر و باطن کی مذمت بھی ملتی ہے اور حمایت بھی۔ اب یہ سوال ہے کہ کس حد تک ان کے ظاہر کی پیروی کی جائے اورکس حد تک ان کے باطن کی؟

مولانا زاہد الراشدی نے اپنی اختتامی گفتگومیں کہا کہ اس وقت فکر و فلسفہ میں ایک نئی تبدیلی آئی ہے اور بڑی بنیادی تبدیلی ہے جس نے پوری دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔یہ مغربی فکر و فلسفہ ہے جس کو ہیومنزم کا فلسفہ کہا جاتا ہے ، انسانیت کا فلسفہ کہا جاتا ہے۔ اس کا زیادہ تعلق عقلیات سے نہیں ہے، سماجیات سے ہے۔اس تبدیلی کی ایک وجہ یہ بنی کہ معقولات میں  پہلے سائنس اور فلسفہ اکٹھے تھے۔ اس دور میں سائنس کا دائرہ الگ ہو گیا اور فلسفہ کا دائرہ الگ ہو گیا۔ فلسفہ عقلی بحثوں تک محدود ہو گیا اور سائنس مشاہدات، محسوسات اور تجربات پر آ گئی۔ اس کے علاوہ مغرب میں جبر کے خلاف جو بغاوت ہوئی ہے، خواہ وہ چرچ کا جبر ہو، بادشاہت کا جبر ہو یا جاگیرداری کا، اس سے دو بغاوتیں اکٹھی ہو گئیں۔ سائنس نے فلسفہ سے بغاوت کر دی اور سماج نے مذہب سے بغاوت کر دی۔

اس غلبے کے کئی پہلوؤں میں سے ایک تہذیبی پہلو ہے کہ مغرب نے اپنے پس منظر میں پیدا ہونے والے فلسفہ کو ہم پر مسلط کرنا شروع کیا۔ یہ بالکل ایسا ہی ماحول تھا جیسا کہ اتباع تابعین کے زمانے میں یونانی فلسفہ کے در آنے کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا یا برصغیرمیں ہندو فلسفہ کا سامنا ہونے کی وجہ سے پیدا ہو گیا تھا ، لیکن اس دفعہ بدقسمتی سے ہمارا رویہ ماضی سے مختلف تھا ۔ ماضی میں ہم نے ان مسائل کو face کیا ہے، ان کا سامنا کیا ہے ، اب ہم بالکل تحفظ پر آگئے ہیں اور بچاؤ کرتے کرتے اپنے گھروں کی چار دیواری کے اندر بند ہوگئے اور اب وہاں بھی ہم محفوظ نہیں ہیں۔ہم نے سیاسی مغلوبیت کو اپنے اوپر طاری کر لیا اور آگے بڑھنا، سامنا کرنا ، اقدام کرنا ہمارے ایجنڈے سے بالکل نکل گیا اور صورتحال ہنوز اسی طرح ہے۔ ہمیں مغربی فکر و فلسفہ کا بطور فلسفہ سامنا کرنا چاہیے۔

ہمارے ہاں ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ ہم کلام یا عقائد کی نئی تشریح کو نئے عقائد بنانا یا گھڑنا کے مترادف سمجھتے ہیں۔ یہ مطلب ہر گز نہیں کہ نئے عقائد بنائے جائیں بلکہ عقائد کی عصر حاضر کی نفسیات کے مطابق تعبیر کرنا ہے۔خدا خدا ہی رہے گا ، رسول رسول ہی رہے گا ، قیامت قیامت ہی رہے گی ، ختم نبوت ختم نبوت ہی رہے گی۔لیکن آج کی نسل کو اس کی نفسیات اور ماحول کے مطابق یہ باتیں سمجھنانے کی بہر حال ضرورت ہے جس کی طرف ہم اجتماعی طور پر نہیں آ رہے۔ اقبال نے تو یہ بات فقہ کے دائرے میں کی تھی، یعنی دین کے علماء اور سماج کے علماء۔وہ فقہ کی تشکیل نو کے داعی تھے ، یہ انفرادی و اجتماعی طور پرکسی نہ کسی حد تک ہو رہی ہے۔ لیکن کلام و عقائد کے باب میں شاید کوئی کوشش ہو رہی ہو، لیکن کوئی قابل ذکر نہیں۔

میں نے اپنے دو تین بزرگوں کو یہ تجویز دی تھی کہ ہم “شرح العقائد ” پڑھاتے ہیں جو کہ یونانی فلسفے کے تناظر میں ہے ۔ اس کی کوئی جلد ثانی لکھے جو مغربی فلسفہ کے تناظر میں ہو۔ ضرورت سب محسوس کرتے ہیں۔ اللہ کرے کہ کوئی لکھے۔ یہ وہی کام ہے جو اقبال فقہ میں کروانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے دو طبقے مل جائیں جو قدیم و جدید کے حامل ہوں یا ایک طبقہ جو ان دونوں کا حامل ہو، وہ یہ کام کر لے ، اس کام کی ضرورت بہر حال ہے۔ایک ہی طبقہ ہو تو بہتر ہے جس کی ہمارے قدیم کلامی مباحث پر بہت گہری نظر ہو اور اس کے ساتھ مغربی فلسفہ کو اس کے پورے پس منظر اور اثرات سمیت سمجھتا ہو۔

دوسرا موضوع مذہب اور سائنس ہے ، میں اب تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ ہم نے مذہب اور سائنس کو کیسے آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جب سائنس نے ترقی شروع کی ہے تو اس کا سامنا مسیحیت سے ہوا اور مسیحیت نے سائنس کے مقابل محاذ کھڑا کر دیا، سزائیں دیں ، فتوے لگائے کہ یہ مباحث کائنات کے نظام میں دخل دینا ہے وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گلیلیو کو سزا دی گئی اور تین سو سال کے بعد پوپ بینیڈکٹ نے اس پر معافی مانگی ہے۔

ورکشاپ میں ہر لیکچر کے بعد انڈیا و پاکستان کے شرکاء کو بحث ومباحثہ کا موقع دیا جاتا تھا جس میں وہ لیکچر کے مندرجات پر کھل کر گفتگو کرتے اور اپنے سوالات مقررین کے سامنے رکھتے۔ مقررین سوالات کو سن کر اہم اور بنیادی سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرتے۔

رپورٹ :حافظ محمد رشید