Home » سیاسی طاقت اور عدل
سیاست واقتصاد شخصیات وافکار

سیاسی طاقت اور عدل

جدیدیت اور جدید دنیا کی تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ ”اداروں“ سے ورا، سیاسی طاقت کو سجھنے کی کوشش کی جائے کیونکہ ادارہ (organization) طاقت کی ایک خاص تشکیل کا نام ہے، اور جو قطعی طور پر جدید ہے۔ اداروں سے ورا، سیاسی طاقت کے دو اجزائے ترکیبی ہیں: ایک انتظامی (executive) اور دوسرا عدلی (juridical)۔ یعنی فرمانروائی میں جو طاقت خود کو ظاہر کرتی ہے وہ انتظامی اور عدلی دونوں اجزا سے مرکب ہوتی ہے۔ طاقت کا عدلی ہونا قانون سے مشروط نہیں ہے کیونکہ قانون طاقت سے خارج میں ہوتا ہے اور اس کے لیے آلاتی اور جگاڑی (transactional) ہوتا ہے، اور اس کی حیثیت طاقت کے محض غازے کی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ قانون کی پاسداری سے عدل کا حصول بھی ممکن ہو۔ قانون اور عدل کا باہمی تعلق دوا اور شفا جیسا ہے کہ دوا دینے سے لازمی نہیں کہ شفا بھی حاصل ہو جائے۔ یہاں عدلی سے مراد عدالتیں بھی نہیں ہیں۔ عدلی ہونا طاقت کا وہ پہلو ہے جو اس کی خلقت میں داخل ہے۔ خلقت میں ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اس کا ظہور ناگزیر ہے کیونکہ طاقت کے تشکیلاتی مناہج اور ہیئتوں میں وہ اکثر معدوم ہو جاتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے انسان خلقتاً اخلاقی شعور کا حامل ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ اس کے رویوں اور عمل میں موجود اور ان سے ظاہر بھی ہو۔ طاقت کا انتظامی پہلو میکانکی ہوتا ہے اور عدلی پہلو طاقت کی غیر میکانکی جہت کو ظاہر کرتا ہے جو نامیاتی، انسانی یا قدری وغیرہ ہوتی ہے۔ طاقت کے جدید مظاہر شدید طور پر میکانکی، ادارہ جاتی اور بیوروکریٹک ہونے کی وجہ سے عدلی پہلو سے خالی ہو چکے ہیں۔

جدید عہد میں طاقت کے ساتھ ایک ایسا تصور جڑا ہے جس کی وجہ سے طاقت کا عدلی پہلو زبردست اضطراب کا شکار ہو گیا ہے اور طاقت کی نئی تشکیلات انسانیت کے لیے بہت بڑا خطرہ بن گئی ہیں۔ وہ تصور حاکمیتِ اعلیٰ (sovereignty) کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طاقت اپنے ساتھ جڑے ہوئے بنیادی تصور کے بغیر مدرک نہیں بن پاتی۔ سیاسی طاقت جونہی اپنی ساورنٹی کا اعلان کرتی ہے، یہ تصور طاقت سے عدلی پہلو کو کھرچ کر زائل کر دیتا ہے۔ یعنی طاقت کے ساورن ہوتے ہوئے قیامِ عدل کا امکان ہی باقی نہیں رہتا، اور صرف نفاذ باقی رہ جاتا ہے۔ حاکمیت اعلیٰ (sovereignty) اور ریاستِ استثنا (State        of          exception) کے تصورات ہم رتبہ اور مساوی ہیں، اور ریاستِ استثنا کا تصور ساورنٹی کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ساورنٹی طاقت کے احوال کا بیان ہے اور ریاستِ استثنا اعمال کی پوری ایک تقویم ہے۔ ساورن طاقت جس عمل کو جنم دیتی ہے وہ عدل نہیں ہوتا بلکہ ریاستِ استثنا کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ قانون طاقت کی توسیط کا ذریعہ ہے اور اگر طاقت فرمانروا سے ساورن بن جائے تو وہ قانون کا منبع اور اس پر حکم ہو جاتی ہے اور وہ کبھی اپنے بنائے ہوئے قانون کی مطیع نہیں ہوتی۔ یعنی جدید طاقت محکوم سے قانون کی پابندی کرانے کا نام ہے اور یہ خود کسی قانون کی پاسداری کا میلان نہیں رکھتی۔ قانون کی عدل اور جبر سے نسبتیں مساوی ہوتی ہیں اور ساورن طاقت صرف جبر کے امکانات کو حقیقت بنا سکتی ہے۔ ان امکانات سے عدل خارج ہوتا ہے۔

طاقت میں عدلی پہلو کی وہی حیثیت ہے جو شعور میں self-consciousness کی ہے۔ جس طرح سے شعورِ شعور (self-consciousness) انسان اور حیوان میں مابہ الامتیاز ہے، بعینہٖ طاقت کا عدلی پہلو انسان اور درندے میں مابہ الامتیاز ہے۔ اگر ہولوکاسٹ کے بڑے منتظم اڈولف ایچ مین کے بیانات کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو یہ امر ازخود عیاں ہو جاتا ہے کہ طاقت کے ساورن ہونے اور اس سے عدلی پہلو کے خاتمے سے کس طرح کا انسان تشکیل پاتا ہے اور وہ کس طرح کی فرمانروائی کو سامنے لاتا ہے اور مجموعی طور پر طاقت کا نظام کیسے کام کرتا ہے۔ نگاہِ بصیرت سے دیکھا جائے تو موجودہ امریکہ پر فسطائیت کے سائے گہرے ہوتے صاف دکھائی دے رہے ہیں، اور سیاسی طاقت اپنی اصل کو سامنے لا رہی ہے۔

کارل شمٹ، ساورن کی تعریف ایک ایسی ”ہستی“ کے طور پر کرتا ہے جو ریاستِ استثنائی کے قیام کا اعلان کر سکے۔ جو تصور اور منہج جدید ریاست کی وجودیات کا معرَف (definer) اور تعین کنندہ ہیں، اس سے یہ ناگزیر ہو جاتا ہے کہ ایسی طاقت صرف ریاست استثنائی کی صورت میں ہی ظاہر ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید دنیا میں طاقت کی تشکیلات پر غور کرتے ہوئے جارجیو آگیمبن (Giorgio           Agamben) کہتا ہے کہ جدید طاقت کی ہیئتیں ریاستِ استثنائی کی صورت اختیار کر چکی ہیں اور اب کیمپ یعنی concentration             camp ہر کہیں ہے۔ حال ہی میں کرس ہیجز (Chris          Hedges) نے اپنے ایک مضمون میں امریکی طاقت کی نئی حرکیات کو واضح کیا ہے اور اس کے زیر انتظام غیرممالک میں کئی جگہوں پر قائم ہونے والے کیمپوں کا ذکر کیا ہے۔ اس نے اس امر کا امکان ظاہر کیا ہے کہ یہ کیمپ بتدریج اور آخرکار امریکی سرزمین کی طرف نقل مکانی کر کے وہاں قائم ہو جائیں گے۔ اس میں امریکہ کی کیا تخصیص ہے۔ مسلم دنیا بھی اب انھی کیمپوں سے بھری پڑی ہے۔ مسلم دنیا، افریقہ اور جنوبِ عالم (Global           South) میں قانون اور طاقت کے مابین ایک وجودی انقطاع واقع ہو چکا ہے، اور ساورن طاقت ہر کہیں پیش قدمی کرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ مثلاً مصر اور میانمر میں جدید عسکری ریاستیں جس طرح اپنے ہی عوام کے خلاف برسرپیکار ہیں، وہ استعماری حکومتوں سے کہیں زیادہ بدتر ہے۔ اس لیے پس استعمار وغیرہ جیسے مطالعات و دراسات کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بقول عویمر انجم، اس وقت یہ طے کرنا اشد ضروری ہے کہ آیا ”پس“ نام کی کوئی چیز ہے بھی سہی یا استعمار کہیں زیادہ بدتر و غیرانسانی صورت میں ابھی جاری ہے۔ مثلاً امریکہ اور یورپ مل کر مشرق وسطیٰ میں جو بدترین استعماری پالیسی جاری رکھے ہوئے ہیں، اس میں اور جنوبِ عالم میں قائم طاقت کے نظام اپنے عوام کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیں اس میں کوئی فرق ہے یا وہ ایک ہی چیز ہیں۔
۔۔۔

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں