Home » ریاست و تعلیم (5)
تعلیم و تعلم شخصیات وافکار

ریاست و تعلیم (5)

جناب وحید مراد اپنے ارشادات جاری رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”بعض اہلِ فکر جدید ریاست کو ایک مغربی اور مصنوعی اختراع سمجھتے ہیں جیسے یہ انسانی تاریخ کے قدرتی ارتقا سے کٹی ہوئی کوئی بیرونی ساخت ہو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جدید ریاست انسانی تمدن کے طویل ارتقائی سفر کا فطری نتیجہ ہے۔ قبائلی نظم سے سلطنت، سلطنت سے بادشاہت اور بادشاہت سے نمائندہ و دستوری حکومت تک انسان نے سیاسی و اخلاقی تجربات کی ایک طویل مسافت طے کی ہے۔ یہ ارتقا محض طاقت کے توازن کی تبدیلی نہیں بلکہ اخلاقی شعور کی ترقی کی کہانی بھی ہے۔ لہٰذا جدید ریاست کو صرف سرمایہ یا طاقت کی پیداوار سمجھ کر رد کر دینا، انسانی اجتماعی شعور کے ایک اہم مرحلے سے انکار کے مترادف ہے۔“
مجھے یہ ماننے میں کوئی امر مانع نہیں کہ ”جدید ریاست انسانی تاریخ کے قدرتی ارتقا“ سے بنی ہو یا ”انسانی تمدن کے طویل ارتقائی سفر کا فطری نتیجہ“ ہو۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ جدید ریاست بننے کے بعد کہاں چلی گئی؟ اسے آسماں کھا گیا یا زمین نگل گئی؟ کیا یہ جاننا مشکل ہے یا ناممکن ہے یا ناجائز ہے کہ عمل ارتقا سے وجود پا کر وہ جدید ریاست کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟ مثلاً ہم روز دیکھتے ہیں کہ کسی آدمی نے دوسرے کے ساتھ اچھائی کر دی یا کہیں برائی کر دی۔ میری فوری دلچسپی ”کیا ہوا“ اور پھر” کیا ہے“ میں ہے۔ جب ایک آدمی دوسرے پر ڈنڈا برساتا ہے تو عین اس وقت کوئی مجھے یہ بتانا شروع کر دے کہ ڈاروِن کے مطابق انسانی ارتقا کیسے ہوا، اس میں کتنے ارب سال لگے، ہومو ایریکٹس سے نی اینڈرٹال بننے میں کتنا وقت کھپا، اس وقت ارضیاتی ماحول کیا تھا، اور کروموسوم میں کیا تبدیلیاں آئیں اور ان سے انسان کے دماغ اور تولیدی نظام میں کیا اثر مرتب ہوا، وغیرہ وغیرہ تو بھئی مجھے ایسے علم میں کوئی دلچسپی نہیں ہو گی۔ اب واقعہ میں انسان شامل ہے اور انسان کو دیکھ کر ان کا فوری مسئلہ اوجھل ہو جائے اور ارتقا یاد آ جائے تو علم اور ذہن میں کچھ مسئلہ ہے، اور مسئلہ بھی کچھ چھوٹا نہیں۔ یا اس وقوعے کو دیکھ کر کوئی شخص یہ وعظ شروع کر دے کہ انسان کے لیے لڑائی کرنا بری بات ہے، آدمی کو ڈنڈا لگنے سے تکلیف ہوتی ہے، جھگڑے پر تھانے اور ہسپتال دونوں جگہ پیسے لگتے ہیں، ان پیسوں سے بچوں کے پیمپر خریدے جا سکتے تھے یا ایسے سکول کی فیس دی جا سکتی تھی جہاں رٹا نہ ہو تو بھئی مجھے ایسے وعظ میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ پنجابی میں کہتے ہیں کہ ”مرا نہیں اکڑا ہوا ہے“۔ اب بحث ہو رہی ہے کہ یہ مرنا اکڑنے سے الگ ہے یا اس کے ساتھ ہے؟ یہ اکڑنا مرنے پر عارض ہے یا مردے پر؟ اگر فرض کیا یہ اکڑنا مردے پر عارض ہے تو اس کا پسماندگان پر کیا اثر پڑے گا؟ مردے کے بڑے لڑکے نے ایم فل کیا ہوا ہے اور یہ اکڑنا اس میں پائے جانے والے فلسفیانہ رجحانات پر کیسے اثرانداز ہو گا؟ کیا ہیگل میں اس کی دلچسپی باقی رہے گی یا وہ دریدا کی طرف راغب ہو جائے گا؟ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر مردہ علامہ اقبالؒ کی شاعری نہ پڑھا کرتا تو کیا صرف مرتا یا اکڑتا بھی؟ مردے کے بارے میں ایک دیدہ ور نے جو یہ کہا کہ اگر وہ مولانا رومؒ کی شاعری پڑھتا تو بالکل نہ اکڑتا، نرم رہتا۔ اصل سوال یہ ہے کہ دیدہ ور کی اس بات سے خدائے سخن میر کی ناقدری کے کیا کیا احتمالات پائے جاتے ہیں؟ ہنگامِ موت ادبی مباحث اور اکڑنے میں انسلاکات دریافت کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ مجھے اس طرح کے جائز سوالات میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجھے تو ابھی صرف یہ دلچسپی ہے کہ مسلم ذہن جس        rigor mortis میں ہے، اس پر مالش کے لیے احیائی تیل ایجاد کرنے کی سعادت کس یونیورسٹی کو حاصل ہو گی۔ ہم الحمد للہ ایک زندہ قوم ہیں لیکن ہمارا دماغ رِگر مارٹس میں چلا گیا ہے۔ اس کی بحالی کا کوئی ارتقائی عمل سوچنا چاہیے۔
ممدوح محترم یہ بات ابھی تک راز میں رکھے ہوئے ہیں کہ اس ارتقائی عمل میں کوئی چیز وجود میں بھی آئی ہے یا نہیں؟ اگر وہ ارتقا ارضیاتی زماں کی گھمن گھیری نہیں تھی اور وہ ارتقا نتیجہ خیز تھا تو حاصل کیا ہوا؟ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ جدید ریاست ”قدرتی ارتقا“ اور ”فطری نتیجے“ کے درمیان کہیں غبار کی طرح تحلیل ہو جاتی ہے۔ اس ارتقا نے اگر کسی چیز کو جنم دیا بھی تھا تو وہ وجود کسی قضیے کا بوجھ نہیں سہار سکتا۔ جناب وحید مراد ارتقا کی طرف ہوتے ہیں تو دستوری حکومت کی یاد انھیں ستانے لگتی ہے، اور دستوری حکومت سے نکلتے ہیں تو ”سیاسی اور اخلاقی تجربات“ انھیں گھیر لیتے ہیں، ابھی ان تجربات کی آپادھاپی جاری ہوتی ہے کہ اخلاقی شعور بیچ میں کود پڑتا دیتا ہے اور انھیں اچانک یاد آتا ہے کہ میں جدید ریاست کو اس لیے رد کر رہا ہوں وہ سرمائے اور طاقت کی پیداوار سے متعلق ہے۔ میں ان کی ژرف نگاہی کا قائل ہو گیا ہوں کہ leviathan یا دوسرے لفظوں میں ہمالیہ کی ہست کا بنیادی مسئلہ رد و قبول کا ہے۔ یعنی وہ فرما رہے ہیں کہ جدید ریاست جسے ہابس leviathan قرار دیتا ہے یعنی ہمالیہ منطق کے قضیوں کی طرح کوئی ذہنی وجود ہے اور معروض میں کہیں موجود ہی نہیں ہے۔ اگر یہ leviathon کوئی معروضی وجود بھی رکھتی ہے تو ان کے ارشادات بھلے وہ ارتقا کے جلو میں بہتے چلے آتے ہوں یا اخلاقی مواعظ بن کر جاری ہو رہے ہوں کوئی معنویت نہیں رکھتے۔ ہابس تقریباً تین سو سال قبل جس چیز کو عفریت کہہ رہا ہے ہمیں وہ وجود آج بھی نظر نہیں آ رہا، اور اگر ہاتھ لگا کر کہیں اس کے ہونے کا عندیہ مل جائے تو پھر مولانا رومؒ کے ”ناظرین“ فیل کی طرح اس کا حدود اربعہ ہی طے نہیں ہو پاتا۔ ان حالات میں ہمارے اہلِ علم جدید ریاست کے انسانی عمل اور شعور پر مرتب ہونے والے اس کے اثرات پر گفتگو کرنے کی استعداد بہم نہیں پہنچا سکتے۔
ہمارے ممدوح محترم ارتقا کی بات اس لیے چھیڑتے ہیں کہ معروض کی سفاک روبروئی سے بچا جا سکے اور حالتِ انکار کی آسودگی کا دفاع کیا جا سکے۔ مجھے جناب وحید مراد کے مضامین پڑھ کر ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کے مقالے یاد آ جاتے ہے جو کسی مینؤل کی پیروی میں لکھے گئے ہوتے ہیں۔ ایسے مقالات کی اسلوبی تحریروں میں علمی تصورات کھو جاتے ہیں۔ علمی مکالمے میں بات کو موضوع سے ہٹانا مفید نہیں ہوتا۔ آج کل تصورات کی تفہیم، تشکیل اور ابلاغ سے کہیں زیادہ اہمیت ان کی processing اور re-processing نے اختیار کر لی ہے۔ اس پروسثنگ کے لیے تصورات کا ایک resource کے طور پر فراہم ہونا ضروری ہے اور انٹرنیٹ اور چیٹ جی بی ٹی کے بعد تو یہ کام بہت آسان ہو گیا ہے۔ ہماری یونیورسٹیاں اب بکرا فارموں کی حیثیت رکھتی ہیں اور تصورات کے چڑیا گھر بنتی جا رہی ہیں۔ مقالہ کاروں کی سہولت کے لیے ہر شعبے نے تصورات کے ریوڑ پال رکھے ہیں جو بوقت ضرورت کام آتے ہیں۔ مجھے دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ کہیں ہمارے ممدوح محترم نے کوئی مینؤل تو نہیں مطالعہ فرما لیا، اور کہیں کسی جامعہ کے شعبۂ علم کا چکر تو نہیں لگا آئے۔ میں انھیں یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ انھوں نے تصورات کا جو ریوڑ میری طرف ہانک دیا ہے مجھے تو اسے چرانے کا سلیقہ بھی نہیں آتا اور کوئی حرکتی توانائی بھی مجھ میں باقی نہیں رہی۔ عرض ہے کہ مجھ سے تو تعلیم عامہ کا بکرا نہیں سنبھل رہا کیونکہ جب وہ ممیانا شروع ہو جائے تو ٹارزن لگتا ہے۔ اب کہاں میں اور کہاں یہ ٹارزن؟
جناب وحید مراد مہمات مسائل پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” ’اسلامی ریاست‘ بھی تاریخ میں کبھی ایک جامد یا متعین شکل میں موجود نہیں رہی۔ خلافتِ راشدہ کے بعد مختلف ادوار میں سیاسی اور تہذیبی تقاضوں کے تحت حکومت کے نظام بدلتے رہے۔ اسلام نے ریاست کے لیے کوئی تیار شدہ ماڈل نہیں دیا، بلکہ اخلاقی اصول فراہم کیے جیسے عدل، مساوات، امانت، شورائیت اور خیرِ عام۔ یہی اصول ہر زمانے میں ریاست کو انسانی اور منصفانہ بناتے ہیں۔لہٰذا آج بحث کا محور یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ریاست “شرعی” ہو یا “سیکولر”، بلکہ یہ کہ کیا وہ انسان کے ساتھ انصاف، احترامِ انسانیت اور آزادیِ ضمیر کے اصولوں پر قائم ہے؟
”جہاں مذہب کو طاقت کے آلے کے طور پر استعمال کیا گیا، وہاں وہ “آلاتی مذہب” بن گیا؛ خواہ وہ نظریاتی ریاست کا نعرہ ہو یا مذہبی سیاست کا حربہ۔ لیکن جہاں مذہب ریاست کے اخلاقی ضمیر کے طور پر کارفرما رہا وہاں اس نے انصاف، ایثار اور مساوات کے اصول پیدا کیے جن سے معاشرت میں توازن اور ہم آہنگی قائم ہوئی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مذہب کے غیر منظم پہلو یعنی روحانیت، اخلاق اور خیر ہر تہذیب میں جذب ہو کر اسے توازن اور ہم آہنگی عطا کرتے ہیں جبکہ منظم مذہب کے ادارے اور عقائد الگ شناخت قائم رکھتے ہیں۔“
برصغیر پاک و ہند میں اٹھارھویں صدی مسلم تہذیب کے انتشار، زوال اور انہدام کی صدی ہے، اور انیسویں صدی اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے سوال و جواب کی صدی ہے، اور بیسویں صدی، ایک دو مستثنیات کے ساتھ، مسلم ذہن کی موت کی صدی ہے۔ اکیسویں صدی کا رخ واضح ہے لیکن میں کچھ عرض نہیں کرنا چاہتا۔ تمام نئے سوالات جو انیسویں صدی کے آغاز میں اٹھائے گئے، اور ہر نیا عمل جو سامنے لایا گیا، ان کا واحد تناظر تحریک مجاہدین /وہابیت کا ہے، اور گزشتہ دو سو سال سے جو علم اور عمل سامنے آیا ہے وہ اس تحریک کی متعین کردہ فکری اور عملی حدود کے اندر ہے اور اس سے باہر کچھ بھی نہیں ہے۔ اس تحریک میں اور اس کے رد عمل میں اٹھنے والے سب سوالات، دیے گئے جوابات کے ملبے میں مر مرا گئے ہیں، اور اب نہ سوال باقی ہیں اور نہ جواب۔ انیسویں صدی کے آغاز سے بننے والی یہ جدید علمی اور فکری روایت اپنے لب لباب میں تکفیری ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ کلاسیکل علمی اور تہذیبی روایت بھی باقی نہ رہی اور جدید دنیا سے تعامل کا کوئی سلیقہ بھی پیدا نہ ہو سکا۔ جناب وحید مراد جو ارشادات فرما رہے ہیں اس کا سانچہ اور مشمولات بھی اسی روایت سے فراہم ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں علمی گفتگو اور مکالمے کا مطلب اب یہ ہے کہ علم حاصل نہ ہو۔ ان دو پیروں میں مصنف نے جن نیک جذبات کا اظہار کیا ہے میں ان کی قدر ہی کر سکتا ہوں۔
مغربی فکر نے جس جدید ریاست کو جنم دیا ہے وہ ہماری کلاسیکل اور جدید علمی روایت میں ایک قطعی نامانوس چیز ہے، اور مسلم معاشروں کی زبانوں میں وہ علمی ٹولز ہی موجود نہیں ہیں جن کے ذریعے اس کو قابل فہم بنایا جا سکے۔ مثلاً ہمارے ممدوح اخلاقی اور سیاسی میں خلط عظیم فرما رہے ہیں۔ اخلاقی امور براہِ راست انسان اور اس کی نفسی اقدار سے متعلق ہیں، ان کا سیاسی طاقت اور اس کی ہیئتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سیاسی تصورات کی اقلیم ہی اخلاقی سے الگ ہے، اور وہ عمل بن کر جس حرکیات کو جنم دیتے ہیں وہ اخلاقیات سے قطعی مختلف ہوتی ہے۔ اگر علمی معاملات میں بہت ہی بنیادی نوعیت کے امور میں ابہام اور خلط مبحث پایا جائے تو ایسی گفتگو کے مفید ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ مثلاً جب میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ”تعلیم عامہ ایک سیاسی فیصلہ ہے“ تو اس کی عمومی تفہیم ممکن ہی نہیں ہوتی اور اس طرح کے جواب آتے ہیں۔ اس مختصر سے فقرے میں” تعلیم عامہ“ کا کوئی ایسا متفق علیہ مفہوم موجود نہیں ہے جو گفتگو میں زیربحث لایا جا سکے۔ ”تعلیم“ اور ”تعلیم عامہ“ میں فرق کرنے کی ہر علمی کوشش مذموم قرار پاتی ہے۔ اگر کوئی علمی دلیل دی جائے تو سمجھ نہیں آتی اور تجربی، حسی، واقعاتی چیزوں سے مثالیں بھی سودمند نہیں ہوتیں۔ ہمارے ہاں ہر علمی تحریر کو مصنف کی ذاتی رائے سمجھا جاتا ہے۔ ایسی تحریریں جو کسی صورتِ حال کے کسی معروضی تجزیے کی کوشش ہوں یا تصورات کی روایتِ معنوی پر مشتمل ہوں، ان کی کوئی گنجائش ہی ہمارے ہاں نہیں پائی جاتی۔ اس مختصر سے فقرے میں جو دھماکہ خیز مواد ہے وہ لفظ ”سیاسی“ میں بھرا ہوا ہے۔ اپنی معنوی کائنات سمیت یہ لفظ ہماری کلاسیکل روایت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، اور اس کی کل معنویت جدید ہے، اور جس کا براہ راست تعلق سیاسی طاقت اور سرمائے کی ہیئتوں سے ہے۔ ہمارے ہاں اس کی معنویت کو سمجھنے کے اسالیب حد درجہ primitive ہیں۔ ہمارے ہاں لکھی جانے والی مذہبی سیاسی تحریروں کی وجہ سے اس لفظ کی کوئی علمی معنویت باقی ہی نہیں رہی۔ ”سیاسی“ سے آگے ”جدید ریاست“ تک کا سفر تو نہایت جان جوکھوں والا ہے۔ جہاں ”سیاسی“ کی ہی کوئی معنویت سامنے نہیں آ سکی وہاں ”جدید ریاست“ کی چیستاں کو حل کرنے کا بھلا کس کو یارا ہو سکتا ہے؟
ابھی ”سیاسی“ اور ”جدید ریاست“ کی معنویت نامعلوم کے درجے میں ہے کہ ممدوح محترم سیاسی طاقت کی اس entity میں ایک ضمیر دریافت کر لیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مذہب کبھی اس entity کے ضمیر کے طور پر بھی کارفرما رہا ہے۔ میں طلسم ہوشربا کا بڑا دلدادہ ہوں، لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر اس متن کی دھونی افراسیاب کو دی جائے تو اس کا طلسم سازی کا غرہ سب ہوا ہو جائے گا۔ اس طرح صاحب قِراں بھی آرام پائیں گے۔ ہم سب مل جل کر صاحب قِراں کے لیے اتنا کچھ تو کر ہی سکتے ہیں تاکہ وہ افراسیاب کی طلسماتی فتنہ گری سے نجات پا جائیں۔
میں نے ممدوح محترم کے ارشادِ ذیل کو سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میری کم فہمی رکاوٹ رہی ہو۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے: ”تاریخ بتاتی ہے کہ مذہب کے غیر منظم پہلو یعنی روحانیت، اخلاق اور خیر ہر تہذیب میں جذب ہو کر اسے توازن اور ہم آہنگی عطا کرتے ہیں جبکہ منظم مذہب کے ادارے اور عقائد الگ شناخت قائم رکھتے ہیں۔“ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ارشاد کی معنویت سمجھنے کی توفیق ارزانی فرمائے۔

محمد دین جوہر

محمد دین جوہر، ممتاز دانش ور اور ماہر تعلیم ہیں اور صادق آباد میں مدرسۃ البنات اسکول سسٹمز کے ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
mdjauhar.mdj@gmail.com

کمنت کیجے

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں