Home » برِصغیرپاک و ہند کے آخری کلاسیکی متکلم:حافظ ایوب دہلویؒ
اسلامی فکری روایت کلام

برِصغیرپاک و ہند کے آخری کلاسیکی متکلم:حافظ ایوب دہلویؒ

 

محمد رشید ارشد

علم الکلام کے مرکزی مباحث پر مولانا ایوب دہلوی ؒنے تفصیل سے گفتگو فرما رکھی ہے، اور شاید ہی کوئی ایسا بنیادی موضوع ہوگا جس میں مولاناؒ نے پوری روایتِ کلام میں کوئی ترمیم یا اضافہ نہ کیا ہو۔ خاص طور پر وجودِ باری تعالیٰ پر عقلی استدلال کرنے کی کلامی روایت اپنے بڑے حصے میں ایک سپاٹ یکسانی کا شکار ہوچکی تھی اور اس روایت کا ایک چھوٹا حصہ جو زیادہ فعال رہا، اس میں یہ دینی /کلامی سے زیادہ عقلی/ فلسفیانہ یا متجددانہ/ اخلاقی بن چکے تھے۔ کلامی روایت کی اس شاخ نے سکہ بند مباحث کے تسلسل کو جاری رکھا، لیکن اس بنیاد کو عملاً ترک کردیا جس سے علم الکلام کا جواز پیدا ہوتا ہے۔یعنی وحی کے معیاری فہم کو عقل کے لیے واجب التسلیم بنانا، ایک تقریباً مشترکہ استدلالی، منطقی اور اصطلاحی اساس پر۔ مولاناؒ تک آتے آتے ایک طرح کا تفلسف اور جدید اخلاقی نظریات اس پر حاوی آچکے تھے۔ متقدمین نے عقلی، منطقی اصطلاحات کو فلسفے کے چنگل سے نکالنے میں جو کامیابی حاصل کی تھی، اسے متاخرین نے تقریباً ضائع کردیا تھا۔مولاناؒ جس زمانے میں تھے، وہاں تک پہنچتے پہنچتے علم الکلام، وحی کی مستند تعبیر اور روایتی تفہیم سے ایک بڑا فصل پیدا کرچکا تھا اور مقبول اور متداول نظریات کے ساتھ ایک جبری مطابقت اور مصنوعی قرب پیدا کرنے کے درپے ہوچکا تھا۔ مسلمانوں کی معقولی روایت میں عقل کے ایمانی اور فلسفیانہ کردار میں جو کشاکش اور امتیاز پوری مضبوطی کے ساتھ چلا آرہا تھا، وہ دونوں جہتوں میں قریب قریب فنا ہوگیا تھا۔ کلام اپنی روایت کو سنبھالنے کے قابل نہ رہا اور مسلم فلسفہ اپنے منہج کو تھامے رکھنے کے قابل نہ رہ سکا۔ ایک خلا سا پیدا ہوگیا تھا جہاں دینی شعور کو پنپنے کا موقع ہی نہ رہا تھا۔ خصوصاً دینی مدافعت کے مواقع پر ایک شکست خوردہ تطبیق یا ہٹ دھرم تردید کے سوا اس وقت کی علمی روایت میں اگر کچھ رہ بھی گیا تھا تو اس کی سطح بہت کم تر تھی۔ اور ایسی دفاعی سرگرمیوں سے الٹے نتائج نکلنے شروع ہوگئے تھے۔

ہمارے یہاں سرسید سے لے کر مولانا مودودی تک شدید باہمی اختلافات کے باوجود کچھ بنیادی کمزوریاں مشترک نظر آتی ہیں۔ ان کمزوریوں کے دو عنوان اوپر عرض کردیے ہیں۔وجودِ باری تعالی کے اثبات میں پرانے متکلمین نے عظیم الشان استدلالی structure بنائے، لیکن بہرحال ان کی ایک عمر تھی جو گزر چکی تھی۔ استدلال خواہ کتنا بھی محکم ہو، اس کا ایک سیاق وسباق ہوتا ہے جو بدلتا رہتا ہے۔ جدید برِصغیر یعنی انگریزوں کی آمد کے بعد کا برِصغیر ایک بالکل نیا context لے کر وجود میں آیا، اس میں وہ نظامِ استدلال اجنبی اور غیر موثر ہوکر رہ گیا جو کبھی ایک دوسرے سیاق وسباق میں عقل کے لیے تشفی بخش ہوا کرتا تھا۔ چونکہ ہمارا مذہبی شعور فقہ سے بنا ہے اور تقلید کا عادی ہے، لہذا کلامی امور میں بھی ایسی تقلید کو کافی سمجھ لیا گیا۔ مدلولات کو بدلے بغیر استدلال میں جس تغیر اور تازگی کو جگہ ملنی چاہیے تھی، وہ نہ مل پائی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اہلِ دین کی اجتماعی عقل خود ہی عقائد سے حالتِ سیرابی میں نہیں تھی اور تسلیم کے عقلی تجربے سے نہیں گزر ی تھی تو وہ عقائد کے لیے دلائل کہاں سے لاتی۔

مولاناؒ نے کلامی روایت کے اصول پر ثابت قدم رہتے ہوئے اسے لاحق ہوجانے والے جمود اور خلا کو جس طرح توڑا، اس کی کوئی مثال ان کی ہم عصر اسلامی دنیا میں نظر نہیں آتی۔ مولاناؒ نے اصولِ کلام کی تجدید ہی نہیں کی بلکہ اس کے مباحث کی تدوین ِنو بھی کی۔ اگر وہ لکھنے پر متوجہ ہوتے تو کچھ بعید نہ تھا کہ پورے کلامی discourse کا احیا اور تاسیس ہوجاتی۔ مثلاً انہوں نے آکر بتایا کہ کلام کے اصل موضوعات دلائلِ توحید، دلائلِ نبوت اور دلائلِ معاد ہیں۔ گویا یہ علم الکلام کا وجودی دروبست ہے۔ اس کے بعد متکلم کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ علم کیا ہے؟ عقل کیا ہے؟ اختیار کیا ہے؟ اس سے تصور ِ انسان سامنے آتا ہے اور دوسری طرف اس پر غورکرنا ضروری ہے کہ زمان ومکان کیا ہیں؟ ایمانی ذہن میں بننے والا کونیاتی کل کیسا ہوتا ہے؟ اس سے کائنات کی حقیقت منکشف ہوتی ہے۔ گویا مولاناؒ اپنے زمانے کی واحد آواز تھے جنہوں نے پورے شکوہ اور وضاحت کے ساتھ یہ بتایا کہ علم الکلام نام ہے خدا، انسان اور کائنات کے مبنی بر ایمان علم کا، جو عقل پر حاکم ہو۔ اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ یہی وہ تین بنیادی سوالات ہیں جن سے کسی بھی فرد کا ورلڈ ویو سامنے آتا ہے:

عالم از رنگست و بی رنگی است حق

چیست عالم چیست آدم چیست حق (۱)

مولاناؒ کے تمام کلامی مسائل پرانے ہیں مگر نئی ترتیب اور تازہ استدلال کے ساتھ۔ اس کی تفصیل ہم موضوع بہ موضوع دیکھیں گے۔

سب سے پہلے ہم علم الکلام کی تعریف اور موضوع کے حوالے سے مولاناؒ کا موقف بیان کریں گے اور پھر ان تین بڑے سوالات کے حوالے سے بطور مثال ایک ایک موضوع کو لے کر اس پر مولاناؒ کی رائے نقل کریں گے،حق یا ذاتِ حق کے مبحث میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر مولانا کی رائے بیان کی جائے گی، آدم کیا ہے؟ کے سوال پر انسانی عقل اور علم کو جس طرح مولاناؒ دیکھتے ہیں، اس کا تعارف کرایا جائے گا، اور چیست عالم، یعنی کونیاتی دائرے میں مسئلہ  زمان پر مولاناؒ کی گفتگو مثال کے طور پر پیش کی جائے گی۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے ہم یہ دیکھ لیں کہ مولاناؒ علم الکلام کی کیا تعریف کرتے ہیں، کیونکہ ہر علم پہلے قدم پر خود کو define کرتا ہے اور اسی تعریفی دائرے میں اس کی بنیادی یا ثانوی مباحث اور مناہجِ استدلال پیدا ہوتے ہیں۔ متوسطین میں علم الکلام کی طرح طرح سے تعریف وضع کی گئی ہے۔ مولاناؒ نے ان تمام تعریفات کا ایک فقرے میں خلاصہ کردیا ’’علم ِکلام کی تعریف متکلمین نے یہ کی ہے کہ علم ِکلام وہ علم ہے کہ جس سے دلائل کے ذریعہ عقائدِ دینیہ کے اثبات پر اور ان (عقائد) پر جو شبہات ہوں، ان شبہات کے ابطال پر قدرت حاصل ہوجائے’’ (۲)۔ اسی طرح علم ِکلام کا موضوع کیا ہے؟ اس پر بھی متکلمین کی آراءکا ایک انبار ہے، مثلاً علم ِکلام کا اصل موضوع: ذات وصفاتِ الہیہ ہیں+وجود ہے +ذہن ہے +عقل ہے +حقیقت وصورت کا ربط ہے وغیرہ۔ مولاناؒ اس منتشر ڈھیر کو مربوط کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”اگر کلام سے متاخرین کا کلام مراد ہے جس میں امورِ عامہ، طبیعات اور مابعد الطبیعیات یعنی علمِ الہی کلی بالمعنی الاعم اور بالمعنی الاخص اور منطق وغیرہ سب شامل ہیں، تب علم ِکلام کی تعریف یہ ہونی چاہیے کہ علم ِکلام وہ علم ہے جس میں عقیدہ کے احوال پر اس کے حق وباطل ہونے کی حیثیت سے بحث کی جاتی ہے اور اگر متقدمین کا علم ِکلام مراد ہے تو پھرعلم ِکلام وہ علم ہے جس میں عقائدِ اسلام سے عقل کے مطابق بحث کی جاتی ہے۔ اور موضوع ِکلام پہلی صورت میں عقیدہ ہے حق و باطل ہونے کی حیثیت سے، اور دوسری صورت میں عقائدِ اسلامی ہے’’ (۳)۔

کسی علم کی تعریف اور موضوع متعین ہوجائے تو پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کی غایت کیا ہے؟ اس بارے میں بھی ظاہر ہے تقریباً ہر متکلم نے کلام کیا ہوگا۔ مولاناؒ نے علم ِکلام کی بنیادی غرض اور مقصود جو بتایا ہے، وہ تاریخ ِکلام میں کہیں اور بیان نہیں ہوا۔ وہ فرماتے ہیں کہ علم الکلام کی غایت یہ ہے کہ عقل کو کلام اللہ سے مانوس اور اس کے تابع کردیا جائے، اس کے بدلتے ہوئے احوال کے ساتھ۔ یعنی الکلام دراصل کلام ِالہی ہے ۔ مولاناؒ سے پہلے غالباً کسی متکلم نے علم ِکلام کی حقیقت اور غایت کو بیان کرتے ہوئے اس نکتے تک رسائی حاصل نہیں کی کہ ایک تو عقل اپنے عملی تناظرات میں متغیر ہے اور دوسرے یہ کہ اس کی ایک حالتِ تسلیم وانفعال ہوتی ہے جسے سلبی طریقے سے برسرِ کار لایا جاسکتا ہے۔ یعنی عقل کی فعلیت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے استدلال کو اگر بودا ثابت کردیا جائے تو اس کا جوہرِ انفعال ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا مبحث الہٰیات کا بنیادی موضوع ہے۔ ہماری روایت میں اس سلسلے میں مختلف آراء بلکہ عقائد پائے جاتے ہیں جن کی بنیاد پر کلام اور تصوف کے کچھ مکاتب ِفکر پیدا ہوئے۔ صوفیاء کے ہاں ذاتِ باری تعالیٰ اور وجودِ باری تعالیٰ میں فرق ہے، جبکہ متکلمین اس فرق کو روا نہیں رکھتے۔ اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ کلام چونکہ عقل کو الہٰی حقائق سے مانوس کرنے کا نام ہے اور عقل کی ساری ساخت ایسی ہے کہ وہ وجود و موجود یا وجود و ذات میں فرق کو اپنی تمام تجریدی صلاحیتوں کے باوجود محسوس نہیں کرسکتی، اسی لئے اہلِ کلام ذات اور وجود میں کوئی ایسی تفریق نہیں کرتے جسے معقول نہ بنایا جاسکے۔ روایتِ کلام میں ایک پہلو سے تو یہ بحث کی گئی ہے کہ ذات وصفات کا باہمی تعلق کیا ہے، تاہم متکلمین کا تفصیلی موضوع صفاتِ الہٰیہ ہیں۔ اپنی روایت کے مزاج کے مطابق مولانا ایوب دہلویؒ نے ذات وصفات کی باہمی نسبت پر گفتگو تو فرمائی ہے مگر سرسری ۔ متقدمینِ کلام کی طرح ان کا مورد ِ توجہ بھی تحقیقِ صفات ہے۔ہمارے علم کی حد تک صفاتِ الہیہ پر ایسا کلام جو عقل کے لئے واجب التسلیم اور شریعت کے لئے قابلِ قبول ہو، کلامی روایت کے بہترین حصے میں بھی کم ہی نظر آتا ہے۔مولاناؒ کا اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے نمونے کے طور پر تین چار صفاتِ الہٰیہ کا تحقیقی تجزیہ کیا ہے جس سے برآمد ہونے والے نتائج ٹھیٹھ شرعی ذہن کے لیے بھی رہنمائی کا کام کرتے ہیں اور خالص عقل پر تکیہ کرنے والوں کے لئے بھی تسکین کا سامان کرتے ہیں۔ شرع وعقل میں حفظِ مراتب کے ساتھ ایسا توازن اور ایسی جامعیت جدید علمِ کلام میں سرے سے غائب ہے اور پرانے میں بھی کمیاب ہے۔ دینی استناد اور عقلی استدلال، دونوں کو ان کی بہترین اور محکم ترین حالتوں کے ساتھ یک جان رکھنے یا کردینے کا جیسا ملکہ مولاناؒ کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے وہ واقعتا ایک نادر و نایاب وصف ہے اور کم از کم پچھلے سو دو سو برس کی دینی ، علمی روایت میں اس کی نظیربہت ہی کم ملتی ہے۔

مولانا ایوب ؒذات وصفات کی عینیت وغیریت کے مباحث کو لگتا ہے کہ زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ ان کا دائرہ تفکرصفات کے گرد بنتا ہے۔ صفات کیا ہیں؟ ذات کے لوازم، جو ذات کے ساتھ اعتباری امتیاز اور وجودی عینیت رکھتے ہیں۔ صفات کی معرفت کا بنیادی اصول کیا ہے؟ اس ذات کی معرفت جس سے یہ صفات منسوب ہیں۔ یہ مولاناؒ کا اصل موضوع ہے۔مولاناؒ چونکہ صفات کو ذات کے ملزومات مانتے ہیں، اس لئے صفاتِ باری تعالی پر گفتگو کرتے ہوئے وہ تحقیق وتحقق کی اساس ذاتِ باری تعالیٰ پر رکھتے ہیں۔ یعنی صفات کا مادہ معنی، وجودِ حق یا ذاتِ حق کو بناتے ہیں۔ کسی بھی صفت پر کلام کرتے ہوئے مولاناؒ کی مستقل ترتیب یہ ہے کہ پہلے وجودِ باری تعالی کا حقیقی امتیاز اور یکتائی پر بات کرتے ہیں اور پھر اسے اپنی واحد سند بنا کر صفاتِ باری تعالی کے حقائق و مراتب کی تحقیق کرتے ہیں۔مثال کے طور پر وجود بمعنی امرِ عام کو لے کر اس کی تشقیق کرتے ہیں اور پھر اس کے معروف اقسام کو بیان کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد جا کر صفات کے حقائق کھولتے ہیں۔مولاناؒ فرماتے ہیں، ” کائنات میں جتنے وجود ہیں، سب اعتباری ہیں۔یعنی کسی نہ کسی اعتبار پر موقوف ہیں۔ اگر ان اعتبارات سے قطعِ نظر کر لی جائے تو یہ لاشے محض ہو جائیں گے۔۔۔تو ایسی شے جو کسی نہ کسی اعتبار پر موقوف ہو، اس کو ممکن کہتے ہیں اور کسی اعتبار پر موقوف نہ ہو تو اس کو واجب الوجود کہتے ہیں۔۔۔وہی خدا ہے’’ (۴)۔

واجب الوجود پر وہ شرائطِ ہستی وارد نہیں کیے جا سکتے جن کے بغیر ممکنات کا وجود ثابت نہیں ہوتا۔ اسی طرح واجب الوجود اور اس کے صفات واوصاف کے درمیان پائی جانے والی لازمی نسبت بھی ویسی نہیں ہوسکتی جیسی کہ ممکن الوجود اور اس کے اوصاف وصفات میں کارفرما ہے۔ واجب الوجود کے لئے کوئی عدمی اور تعطیلی (suspended) حالت تجویز کرنا ذات کی سطح پر بھی محال ہے اور صفات کے درجے میں بھی باطل۔ موجودہ اصطلاحات میں دیکھا جائے تو واجب الوجود وہ بااختیار اور صاحبِ قدرت ذات ہے جو کسی علت کا معلول ہے نہ کسی معلول کی علت۔ لیکن اس کا اعتبار قائم ہوئے بغیر علت بھی معدوم ِمحض ہے اور ظاہر ہے کہ معلول بھی۔ یعنی زمانیت اور مکانیت سے ماورائی کی شان کا تقاضا ہے کہ ذاتِ حق کی صفات کو بھی ممکنات کی ان لازمی شرطوں سے مافوق اور غیر متاثر مانا جائے۔مولاناؒ کے کلامی تناظر میں صفات کا مادہ  معنی چونکہ ذات ہے، لہذ ا ان میں وہ اصول ِوحدت ظاہری تنوع اور باہمی امتیاز ات میں بھی پوری طرح برقرار رہتا ہے جو شے کو تضاد کے اس قاعدے سے بلند رکھتا ہے جو ممکنات میں زمانی،مکانی ہونے کی وجہ سے جاری ہے۔ مثلاً آدمی بیک آن عالم، جاہل، قادر، مجبور، اور نیک و بد ہوسکتا ہے کیوں کہ یہ ممکنات کی ماہیت اور خاصّہ ہے کہ ان میں پایا جانے والا ہر وصف ایک متوازی ضد (opposite) ضرور رکھتا ہوگا۔مولاناؒ نے کہا بھی ہے کہ آدمی کا قادر ہونا ہی اس کے عاجز ہونے کی دلیل ہے۔ ممکنات کے اس وجودی اور شعوری دروبست کو اگر واجب الوجود پر منطبق کیا جائے گا تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سوالات اور جوابات دونوں بے اصل ہوں گے۔مولاناؒ کا یہی اصرار ہے کہ واجب الوجود کی صحیح تعریف کو پیش ِنظر نہ رکھا جائے تو صفات ِ باری تعالی کے بارے میں کوئی درست بات ممکن ہی نہیں ہے۔

کسی زمانے میں یہ سوالات بڑی شہرت رکھتے تھے کہ کیا اللہ تعالی اپنا مثل بنا سکتا ہے؟ کیا وہ کوئی ایسا پتھر تخلیق کرسکتا ہے جسے وہ خود نہ اٹھا سکے ؟ کیا خدا کذب پر قادر ہے؟ اور کیا وہ محال پر تصرف کرسکتا ہے؟ وغیرہ۔ تاریخِ کلام سے واقف لوگ جانتے ہیں کہ ان سوالات پر بہت سنجیدگی سے بحثیں کی گئی ہیں اور عجیب وغریب جوابات تیار کیے گئے ہیں۔ مولاناؒ نے گویا ایسی چیزوں کو دیکھنے کا تناظر ہی بدل دیا اور بہت وضاحت اور قطعیت کے ساتھ دکھا دیا کہ ایسے تمام مباحث مہمل ہیں اور اس طرح کے لایعنی سوالات کو قابلِ جواب سمجھ کر کی جانے والی گفتگو بے سرو پا ہے۔ غلط سوال کا صرف ایک جواب ہے کہ اپنے سوال کو صحیح کرو۔ ایسے ہی ایک نمونے کے طور پر مولاناؒ کی ایک بات بیان کرنی مناسب معلوم ہوتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ یہ ممکن الوجود کا خاصہ ہے کہ وہ قادر و مقدور ساتھ ساتھ ہے۔ واجب الوجود قدرتِ امکانی نہیں قدرتِ مطلق کے ساتھ قادر ہے، اور مطلق وہی ہے جو اپنے غیر سے متاثر نہ ہو۔ یعنی قادرِ مطلق، مقدور ہو ہی نہیں سکتا، یہ محال ہے، شرعاً بھی اور عقلاً بھی۔ اس طرح کے سوالات اگر شرارت سے نہ اٹھائے جائیں تو بھی ان کی بنیاد جہلِ مرکب (compound ignorance) پر ہے۔مولاناؒ کے بتائے ہوئے اس نکتے سے ہی ذات و صفاتِ الہیہ کے حقائق سے عقل کو مانوس کرنے کے تمام راستے کھل جاتے ہیں اور کمال ِمعرفت اگر حاصل نہ ہوسکے تو بھی ذہن غلطی سے محفوظ ہوجاتا ہے۔

مولانا ایوب صاحبؒ کی نظر میں اللہ تعالیٰ کے وجود وصفات کے تمام مباحث تین صفات کے اثبات پر موقوف ہیں: قدرت، علم اور خلاقی۔ تمام معلوم صفات انہی ستونوں پر بنی ہوئی عمارتوں کی طرح ہیں۔ اگر ان تینوں کی درست معرفت عقل کو میسر آجائے تو خدا کو ماننے میں کوئی مانع نہیں رہ جائے گا۔ قدرت ،یعنی قدرتِ مطلقہ کی تعریف یہ ہے کہ وہ سبب، باعث اور علت سے پاک ہو۔ مولاناؒ کے لفظوں میں ” اللہ تبارک وتعالی کی قدرت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کوئی بیرونی وجہ ہو تو فعل کرے یا کوئی بیرونی وجہ ہو تو ترکِ فعل کرے۔ تو قادرِ مطلق کے یہ معنی ہیں کہ بلا سبب، بلا باعث، بلا علت اس کا فعل سرزد ہو’’ (۵) ۔ اس کے ساتھ ہی مولاناؒ ایک اور نکتہ بھی تعلیم کرتے ہیں کہ ، ”اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ سوال کرنا غلط ہے کہ عالم ہے یا جاہل، قادر ہے یا عاجز۔۔۔یہ تقسیم غلط ہے۔ یہ تقسیم ممکن کی ہے (یعنی واجب کی نہیں)’’ (۶) .ا سی کی مزید توضیح کرتے ہوئے مولاناؒ فرماتے ہیں، ”اللہ کی ہر فعل کے اندر فعل اور ترکِ فعل دونوں موجود ہیں تو اللہ تعالی تارک اور فاعل ہے۔ اور جو فاعل اور تارک ہے، وہی قادر ہے تو اللہ تعالی قادر ہے۔اس سے زیادہ واضح دلیل نہیں ہو سکتی کہ اللہ فعل بھی کر رہا ہے اور ترک ِفعل بھی کررہا ہے۔ حیات کے وقت ممات نہیں ہوگی اور ممات کے وقت حیات نہیں ہوگی۔ اللہ پاک دونوں متضاد چیزوں کا خالق ہے اور قادر ہی ہوگا۔ غیر قادر نہیں ہوسکتا’’ (۷)۔

اس میں آخری نکتہ بہت قابلِ توجہ ہے کہ قادرِ مطلق وہی ہے جو خالقِ تضادات بھی ہو۔ اس کی ضروری شرح یہ ہے کہ وجود وعدم کے قطبین میں واقع عالمِ امکان اپنے تمام اجزا میں تضادات کا حامل ہے۔ کائنات میں کوئی شے بھی اپنے ضد (opposite) سے مستغنی نہیں ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تضاد ہی ممکنات کے لیے بِنائے وجود ہے۔ اب جس نے تضادات سے بنی ہوئی یہ کائنات خلق کی ہے، وہ یقیناٍ واجب الوجود ہے، خود ماورائے تضادات ہے، تضادات کی جدلیت پرمتصرف ہے اور قادرِ مطلق ہے، جس کی قدرتِ مطلقہ ، خود اپنا ضد (opposite) نہیں رکھتی۔ دوسرے پہلو سے اطلاق کا متضاد تقیید ہے۔ جس طرح اطلاق میں وحدت اور کلیت ضروری ہے، اسی طرح تقیید کے لیے بھی کثرت اور تضاد لازمی ہے۔ اطلاق، تقیید کا سبب نہیں ہوتا یا اس کا متوازی حوالہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کا خالق اور اس پر قادر ہوتا ہے جس کے معنی کو بطریقِ سلب ہی شعور میں لایا جاسکتا ہے۔ طریقِ سلب سے مراد ہے ممکنات کے تمام وجودی حدود و خواص کی نفی کرتے ہوئے۔ عالمِ کثرت میں ہر شے اضافی اور اعتباری ہے، زندگی بھی، موت بھی، قدرت بھی، بے اختیاری بھی وغیرہ۔ یہاں پر ایجابی صفت کا قوام ِمعنی سلبی ہے یعنی علم کے معنی میں جہل لازماً داخل ہے، بصارت کے معنی میں نابینائی حتماً شامل ہے وغیرہ۔ یہاں قدرت کا اپنے سادہ معنی اور ایجابی مفہوم میں پایا جانا محال ہے۔ اس پر وہی قادر ہوسکتا ہے جو اس کا خالق بھی ہو اور اس کا ایسا علم بھی رکھتا ہو جو ہمہ گیر اور مطلق (Binding) بھی ہو۔ گویا قدرتِ مطلقہ ، ذات ِ واجب الوجوب کی ایسی صفت ہے جس میں خلق اور علم دونوں شاملِ حال ہیں۔ یہ اصول ِسہ گانہ گو کہ ہماری کلامی روایت میں جابجا بیان ہوا ہے لیکن اس میں کائنات کی مبنی بر تضاد جدلیت کو استدلال کی کافی بنیاد بنانے کا راستہ مولاناؒ نے نکالا۔

علم ِکلام کو اپنے جواز اور قیام کے لئے غالباً فلسفے سے بھی زیادہ ضرورت ہے کہ وہ عقل کی تعریف کرے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس علم کا انحصار ہی عقل کے تصور پر ہے جس میں ایک طرف تو عقل اپنی کلیت کے ساتھ پہچان لی جائے اور دوسری جانب وحی کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت اور ضرورت واضح ہوجائے۔مولاناؒ نے روایتی متکلمین کی طرح عقل کی حقیقت، ماہیت اور غایت پر بہت کلام کیا ہے۔ اور اکثر مقامات پر عقل کی روایتی تعریف کو اس طرح بدلا ہے کہ عقل سے متعلق جدید فلسفیانہ اور نفسیاتی تصورات بھی عقل کی کلامی تعریف سے باہر نہیں رہ جاتے۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ متاخرینِ کلام میں کسی نے عقل کی واقعی ماہیت اور دینی حیثیت پر ایسی گفتگو نہیں کی جو مولاناؒ کے ہاں نظر آتی ہے۔ عقل کے سلسلے میں انہوں نے ایسے مباحث اٹھائے اور ان سے ایسے نتائج نکالے جو ہماری کلامی روایت میں ایک بامعنی اضافے کا باعث بنے۔مولانا ؒ مغربی فلسفے سے بالکل واقف نہ تھے، انہیں مغربی نظریاتِ علم و عقل سے کوئی واقفیت نہ تھی، لیکن اس کے باوجود وہ علم، عقل وغیرہ ایسے بنیادی مباحث میں ایسی جگہ پر پہنچ جاتے ہیں جس کے آثار جدید نظریہ علم اور تصورِ عقل میں جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ،مولاناؒ عقل کو کل شعور نہیں مانتے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو شعور ِانسانی میں تحقیق کرنے والی بڑی روایتوں میں مسلمّے کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اسی طرح مولاناؒ انسانی وجود کے تمام مفادات کو عقل پر منحصر نہیں سمجھتے بلکہ عقل کو ایک اچھی زندگی گزارنے کے لئے اتنا ناگزیر نہیں جانتے جتنا کہ اسے سمجھ لیا گیا ہے۔ تاہم شعور اور ارادے کے جن دائروں میں عقل کو خلقتاً مرکزیت حاصل ہے، مولاناؒ اس کا ثبات کرتے ہیں۔ اور انہی دائروں میں وحی اور عقل کے درمیان مطلوب نستبوں کو دریافت کرنے اور انہیں فعال بنانے کی کاوشیں کرتے ہیں۔

عقل کی روایتی تعریف جس پر فلاسفہ اور متکلمین کی اکثریت متفق ہے، وہ یہ ہے کہ: عقل وہ قوت ہے جو حسن و قبح میں تمیز کرے۔ یہ حسن و قبح، حق وباطل بھی ہے، خیر و شر بھی ہے اور خوبصورت اور بدصورت بھی۔ لیکن مولاناؒ اس تعریف کو ناقص کہتے ہیں اور اس کے مقابلے میں عقل کو اس طرح define کرتے ہیں ”دراصل عقل وہ شے ہے جو مخاطب ِرب العالمین ہے’’ (۸) ۔ مولاناؒ کے نزدیک خطابِ الہی کا مخاطب بننے کی صلاحیت، عقل کے سوا کسی اور میں نہیں۔ یہاں مولاناؒ عقل کی اساس کو، یعنی وہ چیز جس پر عقل کے تمام افعال کا دارومدار ہے، اسے دریافت کرتے ہوئے ایک ایسا اصول بتاتے ہیں جس کا بیان پہلے نہیں ملتا۔مولاناؒ فرماتے ہیں کہ عقل کا پہلا اصول یا مبدا فعل، نفی اور اثبات ہے۔ یعنی’ ہونا‘ اور’ نہ ہونا‘۔ عقل ہستی اور نیستی کے ان قطبین کے اندر رہتے ہوئے اپنے سارے کام انجام دیتی ہے۔ عقل سے پیدا ہونے والے تمام علوم، اور ادراک کی ساری حالتیں، اسی جدلیاتی صورتِ حال کے اندر اندر ہوتی ہیں۔ عقل کے تمام حقائق و احکام’ ہونے‘ اور ’نہ ہونے‘ کے تعین پر مبنی ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے عقل کا پہلا مسلمّہ ہے کہ نقیضین کا اجتماع بھی محال ہے اور ارتفاع بھی۔ یعنی ”نہ تو یہ ممکن ہے کہ ایک شے ہو بھی اور نہ ہو بھی اور نہ یہ ممکن ہے کہ نہ تو وہ ہو اور نہ وہ نہ ہو“ (۹)۔ عقل کا ملکہ نفی و اثبات جو اس کے ہر موقف کی بنیاد اور منتہا ہے، وہ’ ہونے‘ اور’ نہ ہونے‘ کی اسی تقسیم پر قائم ہے۔ اسی طرح ہونے اور نہ ہونے کے لوازم بھی ایک شے میں ایک لمحے میں اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ اس سلسلے کو اب جہاں تک بڑھاتے چلے جائیں، نتیجہ یہی نکلے گا کہ عقل کا پورا کارخانہ نفی اور اثبات کے قانون پر چل رہا ہے۔

یہاں سے مولاناؒ ایک بہت دقیق نکتہ برآمد کرتے ہیں جسے پیشِ نظر رکھا جائے تو بہت سارے مسائل خودبخود حل ہوجاتے ہیں۔ عقل میں نقیضین کی جدلیت کا نظام صرف مخلوقات اورممکنات کے دائرے میں کارفرما ہے یا ہوسکتا ہے۔ اگر یہی جوہرِ تعقل الہیات میں بھی استعمال ہونے لگے تو علم کی تشکیل کے امکانات فنا ہوجائیں گے۔ جیسا کہ مولاناؒ فرماتے ہیں کہ ” عقل سے یہ غلطی ہوئی کہ غیر ممکن کو بھی ممکن میں شامل کرلیا اور شامل کرکے خدا کے احکام میں تشقیق (اقسام بندی) کو جاری کردیا۔ خدا قادر ہے یا نہیں ہے۔ عالم ہے یا نہیں ہے۔ حسین ہے یا نہیں ہے’’ (۱۰) ۔ یہ وہ غلطی ہے جس نے عقل کو واجب الوجود کے حقائق اور معارف سے نامانوس کردیا۔ جو صلاحیت نظام ِ امکان کو سمجھنے کے لئے مختص تھی، اسے نظام ِوجوب کی معرفت میں رہنما بنا کر جو نتائج نکلے، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ ممکن کے علم کی بھی تشکیل غلط بنیادوں اور اور غلط رخ پر ہوگئی، یعنی حقائق ِممکنات اوجھل رہ گئے۔اور اسی طرح واجب کی معرفت بھی ممکن کے نمونے پر تصور کرلی گئی اور یوں حقائق ِ الہیہ اور عقل کے درمیان ایک ایسا فصل پیدا ہوگیا جس کا ازالہ کرنا عقل کی تردید اور تحدید کے بغیر ممکن نہ رہا۔ یہاں مولاناؒ کہتے ہیں ” عقل کی حد صرف ممکنات میں ہے اور واجبات میں عقل جاری نہیں ہوسکتی کیونکہ یہاں قانونِ عقل یعنی حصر کا قانون لازم نہیں ہے۔ جیسے اللہ تعالی محال پر قادر ہے یا نہیں ہے، اس کا کچھ جواب نہیں، علما اور حکما نہیں دے سکتے“ (۱۱)۔

اپنے اس استدلال کو آگے بڑھاتے ہوئے مولاناؒ نے ایک ایسی عقلی اور علمی مشکل کو حل کیا ہے جو تقریباً لاینحل چلی آرہی تھی۔ اللہ محال پر قادرہے یا نہیں؟ یہ سوال ہی غلط ہے۔ اس کا جواب ڈھونڈنے کی بجائے سوال کو ٹھیک کرنا چاہیے۔ مولاناؒ کہتے ہیں کہ ”اگر کہا جائے کہ اللہ تعالی محال پر قادر ہے تو محال مقدور ہوگیا۔ یعنی محال کے ساتھ قدرت متعلق ہوئی۔ اور یہ تعریف ممکن کی ہے۔جس شے کے ساتھ قدرت متعلق ہوتو اسی شے کو ممکن کہتے ہیں۔ تو اگر اللہ تعالی محال پر قادر ہے تو محال ممکن ہوگیا’’ (۱۲)۔ اصل میں یہ جدلیاتی تقسیم ہی غلط ہے۔ یہ ممکنات کے دائرے میں تو کارگر بلکہ ناگزیر ہے لیکن الہیات میں اسے داخل کرنا بڑی غلطی ہے۔ کیونکہ واجب کا تو صرف ’ہونا ‘ہی ضروری ہے، وہاں’ نہ ہونے ‘ کی جہت تصور نہیں کی جاسکتی، اور عقل کی یہ مجبوری ہے کہ وہ ہاں اور نہیں کے تقابل سے بننے والے ماحول کے باہر حرکت کر ہی نہیں سکتی۔ اسی لئے مولاناؒ کا اصرار ہے کہ ”عقل کا استعمال صرف ممکنات میں ہوگا۔واجبات میں نہیں ہوگا’’ (۱۳) . عقل جب بھی واجب الوجود کی اقلیم میں داخل ہونے کی کوشش کرے گی، غلطی اور حیرانی کے سوا کچھ نہ پائے گی۔

مولانا ایوب دہلویؒ کا ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی روایت میں غالباً پہلی مرتبہ عقل کے ایسے حدوددکھا دیے جن پر نظر کرنے سے عقل اور زمانے کا جبری اور لزومی تعلق سامنے آجاتا ہے۔ زمانیت( temporality )عقل کا خمیر ہے اور یہ وجود فی الزمان(Being in Time) کے سوا کسی امر کو اپنا موضوع نہیں بنا سکتی۔ یہ بات مولاناؒ سے پہلے بلکہ ان کے بعد بھی کلام کی روایت میں اپنا اتنا مرکزی کردار نہیں رکھتی۔ مولاناؒ جب یہ کہتے ہیں کہ عقل کا میدان ممکنات کے باہر نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عقل یعنی شعورِ زمانی، وجود زمانی سے خود کو بلند یا لاتعلق نہیں کرسکتا۔ عقل کے ایسے مسلمات بھی جو اپنی ماہیت میں مابعد الطبیعی یا غیر زمانی ہیں، وہ عقل کی مجبوری یا انفعال سے اس کی دسترس میں آئے ہیں، ان کے حصول یا تشکیل میں عقل کا کوئی فعال کردار نہیں ہے۔ یہاں سے ایک نیا نکتہ یہ نکلتا ہے کہ عقلِ منفعل، عقلِ محض کی تعریف سے خارج ہے۔ یعنی اس کے انفعالی تصورات قابلِ شناخت اور لائقِ استدلال ہونے کے باوجود عقلی نہیں کہلا سکتے۔ یہ وہ باریکی ہے جس تک عقل کے دینی کردار اور ایمانی رول پر اصرار کرنے والوں کی نگاہ نہیں پہنچی۔ دوسرے لفظوں میں مولاناؒ یہ نہیں کہ رہے کہ عقل واجب الوجود یعنی وجودِ لازمانی کا اقرار نہیں کرسکتی کیوں کہ واجب الوجود کا اقرار کرنے کی اہلیت نہ ہو تو ممکن الوجود کا ادراک بھی محال ہو جائے گا۔اس کی کچھ ضروری تفصیل یہ ہے کہ ممکن الوجودکی اصل حالت اس کا عارضی اور مخلوق ہونا ہے۔ اس حالت کو دریافت نہیں کیا جاسکتا جب تک یہ معرفت حاصل نہ ہو کہ یہ وجودی عارضی پن اور مخلوقیت ایک مطلق امر ہے جو ممکنات میں کہیں باہر سے وارد کیا گیا ہے۔ یہ باہر ہی دائرہ وجوب ہے جو امکان کے دائرے سے ماورائی کی حالت میں کامل اختیار کے ساتھ متعلق ہے اور اس پر من کل الوجوہ متصرف ہے۔مولاناؒ کا مطلب یہ ہے کہ عقل واجب الوجود بلکہ غیر زمانیت کے کسی درجے پر بھی غور کرنے کی اہل نہیں ہے۔ یہ غور کرنا ہی دراصل پوری عقل ہے۔ یہ غور ہی ہے جو عقل کو شے پر غالب آنے کا راستہ دکھاتا ہے۔ اپنے موضوع پر غلبے کی یہ عادت ظاہر ہے کہ واجب الوجود اور متعلقہ حقائق پر کارآمد نہیں ہوسکتی۔

مولاناؒ کے تصورِ عقل کا ایک پہلو یہ ہے کہ عقل چونکہ فعل کے اصول پر چلتی ہے لہذا یہ ارادی بھی ہے۔ اس کا فعال ہونا اس کے ارادی ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ گو کہ وہ ارادہ جو عقل کے لئے محرکِ فعل ہے، عقل سے ایسی مغائرت نہیں رکھتا کہ اس کے وجود کو عقل کے خارج میں ماننا ضروری ہوجائے، لیکن اس ارادے اور عقل میں ایسی عینیت بھی نہیں پائی جاتی جو انہیں ایک کہنے کی وجہ بن سکے۔ عقل کو تحریک فراہم کرنے والا ارادہ غیر عقلی بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں ارادہ و عقل کی باہمی نسبتوں کی تفصیل کا موقع نہیں ہے ،ہم تو بس اتنا دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ مولاناؒ نے عقل کے تابعِ ارادہ ہونے کی حالت کو کس طرح اس کی تحدید و تعیین اور تعریف کا حصہ بنایا۔ مولاناؒ کی بہت سی باتیں ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ عقل کو ارادی کہہ کر وہ دراصل عقل کا کوئی اندرونی تجزیہ کرنے سے زیادہ یہ ثابت کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ شعور ِارادی واجب الوجود اور اس کے حقائق کے ساتھ مناسبت کی بے شمار اقسام میں سے کوئی ایک قسم بھی اپنے اندر نہیں رکھتا۔ شعور ِارادی اور واجب الوجود کی تحقیق کے درمیان مطلق غیریت ہے۔ یعنی غور کرنے والی عقل اپنی ماہیت ہی میں ان حقائق سے کوئی نسبت پیدا نہیں کرسکتی جو زمانیت کی شرط سے پاک ہیں۔ عقل اور ان حقائق کے درمیان فہم وقبول کی نسبت ضرور ہے، لیکن غوروفکر کی نہیں۔ یہ بہت قیمتی بات ہے اور اسے مذہبی اور مابعد الطبیعی سیاق وسباق سے نکال کر بھی دیکھا جائے تو اس میں کوئی غلطی نظر نہیں آتی۔ غیر مذہبی تناظر میں بھی عقل، مسلمات کو قبول کرتی ہے، وضع نہیں کرتی۔

علم الکلام کی مجموعی روایت میں عقل کو حقائق پر درست استدلال کرنے کی قوت مانا جاتا ہے۔ تاہم مولاناؒ اس کا بالکل انکار کیے بغیر اسے جوں کا توں تسلیم بھی نہیں کرتے۔ ان کے مطابق عقل یقیناًٍ‌ اپنے مسلمات پر استدلال کرتی ہے لیکن اس استدلال کی صحت کے لئے خود معیار نہیں ہے، بلکہ اپنے غیر کی محتاج ہے۔ یہ غیر مابعد الطبیعی امور میں وحی ہے، اور طبیعی معاملات میں حس۔ وحی سند نہ فراہم کرے تو حقائق پر استدلال گویا خلا میں چلا جاتا ہے۔ اور حس کی تائید کے بغیر صورتوں کے علم کی تشکیل نہیں ہوسکتی۔ یہ سامنے کی بات ہے کہ عقل تصور سازی کی غیر محدود صلاحیت رکھنے کے باوجود اپنے تمام تصورات کی تصدیق میں سرے سے خود کفیل نہیں ہے۔ تصدیق کا سارا نظام عقل کے باہر چل رہا ہے، اور عقل کو اس کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ اس نظام ِتصدیق کے دو اصولی دائرے ہیں: عقائداور محسوسات۔ نہ عقائد عقل پر منحصر ہیں، نہ ہی محسوسات۔حاصلِ کلام یہ ہے کہ مولانا عقل کو وحی اور محسوسات کے درمیان ایک فعال برزخ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، جو ان دو کناروں کو ایک دوسرے میں ضم نہ ہونے دے تو اصولاً درست موقف پر رہتی ہے لیکن ان دونوں کے امتیاز کی حفاظت اور رعایت نہ کرسکے تو ہر قدم پر غلطی کرتی ہے۔ یہ غلطی عقائد میں بھی ہوتی ہے اور محسوسات میں بھی۔

عقل کی طرح علم میں بھی مولاناؒ کا زاویہ تفکر وجودی ہے، ذہنی نہیں۔ عقل کے بارے میں فرمایا تھا کہ’ ہونے‘ اور’نہ ہونے’ کے ٹکراو اور تضاد کے ماحول میں حرکت کرنے والی قوت ہے، اسی طرح علم کے متعلق مولاناؒ کی رائے یہ ہے کہ اہل ِفلسفہ و کلام نے اس کی تعریف متعین کرنے کی جو مختلف کاوشیں کی ہیں، ان میں ان حضرات کا رخ غلط ہوگیا ہے۔ یہ لوگ علم کو اتنا موضوعی(subjective) بنا دیتے ہیں کہ وہ معروضی پن (objectivity) غائب ہوجاتا ہے جس سے انقطاع کی حالت میں علم کی بنیاد ہی نہیں پڑسکتی۔ علم محض جاننے کا حال نہیں ہے بلکہ معلوم کا ایساحضور ہے جو صرف ذہنی نہیں ہے بلکہ ذہنی بھی ہے۔مولاناؒ علم کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ ”علم وہ شے ہے جس کے ذریعہ وجود کو عدم سے تمیز ہوجائے کہ یہ شے ہے اور نہیں ہے۔۔۔تمام محسوسات ہوں۔ معقولات ہوں۔ نسبت ہو۔ کوئی شے ہو۔ اس کے نہ ہونے کی ہونے سے تمیز جس شے سے ہو جائے، اسی کا نام علم ہے۔ خواہ وہ روحانی طریقے سے ہو۔ خواہ عقلی طریقے سے۔ خواہ وہ حسی طریقے سے ہو۔۔۔بہرحال جس ذریعے سے شے کے ہونے کو نہ ہونے سے تمیز ہوجائے، اس کے ذریعہ کا نام علم ہے’’ (۱۴) ۔

یہ تصورِ علم اپنے اکثر اجزا میں کلامی روایت کے اندر ایک بالکل نئی بات ہے۔ علم کی اس تعریف میں ایک تو وہی بات حاصل ہو جاتی ہے جس کا ابھی ذکر ہوا، کہ علم ذہنی سے زیادہ وجودی امر بن جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام غیر عقلی قویٰ ایک حالتِ ادراک میں رہتے ہیں جو ان کی اپنی اپنی سرگرمیوں کا مبدا ہے۔ ادراک کی یہ حالتیں وحدانی صورت اختیار کر جائیں تو یہ علم کی حرکت ہے ذہن سے وجود کی طرف۔ اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ علم صرف ذہنی نہیں ہوتا بلکہ وجود کا ایسا حال بن جاتا ہے جس کی بنیاد پر ’میں ہوں‘ اور ’وہ ہے‘ کا دعویٰ دلیل اور تفکر کا ضرورت مند نہیں رہتا ۔ دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اپنے داخلی نتائج کے اعتبار سے علم ذہنی کم اور وجودی زیادہ ہوتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ شعور و وجود کے قدیم ترین اور جدید ترین مبحث میں مولاناؒ کی یہ بات بہت سے اشکالات و مسائل کو حل کرسکتی ہے۔ مثال کے طور پر جہل کا علم بھی علم ہے، یعنی اس سے ’ہونے‘ اور ’نہ ہونے ‘کے قطبین کا توازن ادراک میں بھی آجاتا ہے اور ’نہ ہونا‘، وجود کے تناظر میں جس معنویت کا یقینی حامل ہے، اس تک بھی رسائی کا دروازہ کھل جاتا ہے۔مولاناؒ کایہ تصور اگر ہائیڈیگر ایسے لوگوں کے سامنے بھی رکھا جائے تو ان کی طرف سے کسی بنیادی اختلاف کی توقع نہیں ہے، کہ وجود کے شعور کی تعمیر میں عدم کی معنویت شریکِ حال رہتی ہے، اور پھر کمال کی بات یہ ہے کہ مولاناؒ ’ہونا‘ تو ایک طرف’ نہ ہونے‘ کو بھی اسی شے سے منسوب کرتے ہیں جس کا وجود اساسِ علم ہے۔یہ paradoxical pattern of knowledge شعور اور وجود کی متوازیت اور انہیں ہم اصل رکھنے والی حقیقی نسبت کا ایسا انکشاف کرتی ہے جس سے علم اور معلوم دونوں کی یک جان معرفت ممکن ہوجاتی ہے۔ علم کا منتہا اس کے سوا کیا ہے کہ ہم یہ کہنے کے قابل ہوجائیں کہ علم، ادراک اور مدرک کے اتصال یا عینیت کا تجربہ ہے، یا شعور اور وجود کی دوئی میں رہتے ہوئے ان کی اصولی وحدت کی دریافت کا حال ہے۔

مسئلہ زمان معقولات کے بنیادی مسائل میں سے ہے۔ کلاسیکی روایتیں، مذہبی ہوں یا عقلی، زمانے کو مکان سے ممتاز سمجھ کر اس کا تجزیہ و تحقیق کیا کرتی تھیں اور زمان و مکان کی دوئی میں تضاد کی نسبت دیکھے بغیر ان کا ایک دوسرے سے بے نیاز حالت میں مطالعہ کیا کرتی تھیں۔ یونانی فلسفے میں البتہ کچھ ایسے اشارے ملتے ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مابعدِ سقراط یونانی ذہن، مادے اور وقت میں التزام کی نسبت کو محسوس تو کرتا تھا مگر ان دونوں میں عینیت کا عقلی یا حسی جوہر تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہوا تھا۔ مادے کی قدامت کا مسئلہ اس دعوے کو لائقِ تسلیم نہ سہی، قابلِ فہم ضرور بناتا ہے کہ اس مبحث میں یونانی فکر میں زمان و مکان کی ایک ایسی اکائی کا تصور پیدا ہونے کے مراحل میں تھا جو خود زمانی مکانی نہیں ہے۔ مادے کو مکانیت اور ازلیت کو زمانیت کی اصل پر رکھ کر فلسفہ یونان کے بڑے حصے میں، جس میں سقراط سے پہلے کے فلاسفہ بھی شامل ہیں، یہ تصور مضبوط بنیادوں پر تشکیل پاتا ہوا نظر آتا ہے کہ یہ دونوں یعنی زمان و مکان کسی مشترک امر کے مظاہر نہیں۔ تاہم اس غیر مدرک انکشاف کو استدلال کا پیرایہ دینے میں یونانی کامیاب نہ ہوسکے۔ مسلم فکر میں بھی فلسفیانہ تناظر میں یہی صورتِ حال غالب رہی، لیکن علم ِکلام میں زمان و مکان کی دوئی پر اصرار کرتے ہوئے انہیں تعقل کے الگ الگ دائروں میں رکھا گیا۔ متکلمین کا عمومی میلان اس طرف تھا کہ زمان و مکان کو مخلوق اور حادث قرار دیا جائے اور چونکہ خلق و حدوث کے دائرے میں چیزیں کثرت اور امتیاز کی اساس پر دیکھی جاتی ہیں، اس لئے ہماری کلامی روایت میں زمان و مکان کی امکانی اور خالص عقلی وحدت تک پہنچنے کو کوئی مربوط اور سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔

مکان کو محسوس اور زمان کو معقول مان لینے کے اکثریتی رویے کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسئلہ زمان پر تو خوب غور کیا گیا لیکن مکان کو ایک طے شدہ اثبات کا موضوع بنا کر اس پر کوئی بڑی تحقیق نہیں ہوئی۔ وقت کا وجودی امتیاز حرکت، اور مکان کا اصول سکون تھا، اور ظاہر ہے کہ ان دونوں میں بنیادی نسبت تضاد کی نہ سہی مگر زیادہ تر قبل و بعد کے تناظر میں تھا اور حرکت کو ماہیت ِزمان کہنے کا زیادہ تر منشا یہی تھا کہ زمانے کی متعین قبلیت، یعنی اس کا مخلوق ہونا ثابت ہوجائے۔ البتہ باقلّانی ایسے بعض متکلمین نے مقولہ حرکت کی بنیاد پر زمان و مکان میں ایک وحدت ِجزوی کاخفیف سا امکان ضرور پیدا کیا۔ لیکن ان کے ذہن میں بھی یہ بات وضاحت اور صفائی کے ساتھ نہیں نظر آتی کہ زمان و مکان کا ایک ہونا یا واحد الحقیقت ہونا عقلی اور حسی دلیل سے ممکن ہے۔ باقلّانی وغیرہ نے مکان میں بھی حرکت کا اثبات تو کیا لیکن یہ حرکت داخلی اتنی زیادہ تھی کہ واقعے سے زیادہ تخیل کا نتیجہ لگتی تھی۔

مولاناؒ نے زمان کی عقلی تحلیل اور حِسّی تقسیم کی روایتوں کو خاصی تنقیدی نگاہ سے دیکھا، ان کے نقائص دریافت کیے اور پھر وقت کی ایسی تعریف وضع کی جو باعتبارِ کلیت (Universally) تو روایتی ہی تھی لیکن بلحاظ ِجزئیت (Particularly) ایک نئی چیز تھی۔ مولاناؒ نے زمان کے روایتی تناظر کو نہیں چھیڑا اور اس میں رہتے ہوئے زمان کی تعریف ِ قریب کو بدل دیا۔ یہ خاصی حیرت انگیز بات ہے کہ جدید فلسفیانہ اور سائنسی نظریات سے بالکل لاتعلقی کی حالت میں بھی مولاناؒ زمان و مکان کے اس جوہرِ اضافیت تک پہنچ گئے جس کی رو سے کم از کم وقت کا کوئی ایک نظام نہیں ہے۔ زمانے کا سیاق و سباق جو مکانی ہوتا ہے، بدلتا رہتا ہے، اور یہ تبدیلی زمان کی ثانوی تعریفات کو بھی ہمہ گیر نہیں رہنے دیتیں۔مولاناؒ فرماتے ہیں کہ ”یہ بات نامناسب اور بے عقلی کی ہے کہ ایک عالم یا ایک میل کی چیز کو دوسرے عالم یا دوسرے میل کی چیز کے ساتھ گڈمڈ کیا جائے۔۔۔جتنی بھی علمی، فلسفی اور مذہبی دشواریاں اور الجھنیں پیدا ہوئی ہیں، وہ صرف اسی التباس سے ہوئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ لاینحل ہو کر رہ گئی ہیں’’ (۱۵)۔

مولاناؒ اپنی تنقید کا آغاز ارسطو سے کرتے ہیں جسے مسلم فلسفے کی روایت میں معلم ِاول کا لقب دیا گیا ہے۔ ارسطو مادے اور وقت کے قِدم (eternity) کا قائل تھا، اور اسی کے زیرِ اثر مسلم فلاسفہ کی اکثریت کا بھی یہی نظریہ تھا۔ ارسطو کے دعوے پر جرح کرتے ہوئے مولاناؒ کہتے ہیں کہ ”ارسطو کو یہ الجھن پیدا ہوئی کہ زمانہ قدیم ہے، اس لئے کہ اگر حادث ہوگا یعنی موجود بعد العدم ہوگا یعنی پہلے نہ تھا اور پھر ہوا تو اب اس کا نہ ہونا اس کے ہونے پر مقدم ہوگا۔۔۔یہ تقدیم و تاخیر ایسی ہے جو جمع نہیں ہوسکتی یعنی مقدم اور موخر جمع نہیں ہوسکتے۔ اور جو تقدیم و تاخیر ایسی ہو کہ جمع نہ ہوسکے تو وہ تقدیم و تاخیر زمانی ہے۔ تو گویا حادث ہونے کے معنی یہ ہوئے کہ عدم ِ زمانہ کا زمانہ وجودِ زمانہ کے زمانہ سے مقدم ہے۔اور وجودِ زمانہ کا زمانہ عدمِ زمانہ کے زمانہ سے موخر ہے اور فرض یہ کیا تھا کہ زمانہ نہیں تھا۔ پھر ہوا۔۔۔تو اب زمانے کے نہ ہونے میں زمانہ ہوگیا، اور نہ ہونے میں ہونا محال ہے، لہٰذا یہ محال زمانے کا عدم فرض کرنے سے لازم آیا ہے، لہٰذا جس چیز سے محال لازم آئے، وہ بھی محال ہے۔لہذاعدم ِزمان محال ہے’’ (۱۶) ۔ ارسطو کا ایک مشہور فقرہ ہے کہ جو شخص زمانے کے حدوث کا قائل ہے، وہ فی الحقیقت زمانے کی قدامت کو مانتا ہے لیکن اسے اس کا شعور نہیں۔ ارسطو کے نزدیک حدوث کو قِدم لازم ہے۔

اس کے جواب میں مولاناؒ فرماتے ہیں کہ ”یہاں غلطی یہ ہوئی ہے کہ حوادثِ زمانیہ میں یعنی زمانیات کے عالم میں زمانے کو داخل کردیا ہے حالانکہ زمانہ کا عالم علیحدہ ہے اور زمانیات کا علیحدہ ہے۔حوادثِ زمانہ اور زمانیات کے لیے زمانہ ہے، یعنی زمانیات کا ظرف زمانہ، اور زمانہ کے لیے کوئی ظرف نہیں ہے، کوئی زمانہ نہیں ہے’’ (۱۷) ۔ اس بات کو ذرا وٹگنسٹائن کے اس قول سے ملا کر دیکھیے کہ دنیا چیزوں کا نہیں، واقعات کا مجموعہ ہے۔ وٹگنسٹائن نے یہ بات اس ماحول میں کہی ہے جہاں زمان و مکان میں عطف حقیقی نہیں مگر اضافی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی قابل ِغور ہے کہ زمان ظرف ہے، مظروف نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وقت خود موجود نہیں ہے بلکہ وجود کی وہ شرط ہے جو تمام موجودات کو محیط ہوتی ہے۔ ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ جو غیر قدیم امر کسی اور امر کا مظروف نہ ہو، وہ اعتباری ہوتا ہے، واقعی نہیں۔ یعنی موجودات بمعنی حوادث کا ظرف ہے مگر خود موجود نہیں ہے۔ اور اس کے موجود نہ ہونے کا حال چونکہ نظام الوجود پر موثر ہے، لہذا اسے معدوم بھی نہیں کہا جاسکتا،اس ضروری اور اصولی خیال کی طرح جس پر ہونے نہ ہونے کے مقولات (categories) وارد نہیں ہوتے۔

ہمارے فلاسفہ ومتکلمین دونوں حدوث کی دو قسمیں کرتے ہیں: حدوث ِزمانی اور حدوث ِذاتی۔ یہی دو قسمیں وجود ِحادث کی بھی ہیں: حادث بالزماں اور حادث بالذات۔ فلاسفہ کے ایک بڑے گروہ کی رائے یہ ہے کہ زمانہ حادث بالذات ہے، حادث بالزماں نہیں۔ بادی النظر میں یہ لفظی ہیرپھیر معلوم ہوتا ہے۔ یہاں مولاناؒ فرماتے ہیں کہ”قدماء فلاسفہ کے نزدیک حادث بالذات ہی قدیم بالزمان ہے اور ان کے نزدیک عالم کے قدیم ہونے کے اور زمانے کے قدیم ہونے کے یہی معنی ہیں تو اس کا حل یہ ہے کہ ہمارے نزدیک حادث کے معنی موجود بعد العدم کے نہیں ہیں جیسا کہ قوم (یعنی متکلمین) کہہ رہی ہے، اور نہ مسبوق بالعلۃ کے ہیں جیسا کہ فلسفی کا خیال ہے، یعنی مرتبہ ذات میں معلول ہے ۔ یہ معنی حدوث ِذاتی کے ہیں۔۔۔اور علت قدیم ہے تو معلول بھی قدیم ہوگیا۔ یعنی عالم قدیم بالزمان اور حادث بالذات ہے۔۔۔یعنی زمانے کے لئے ابتدا تو مان لی گئی لیکن اس کا مسبوق بالعدم نہ ہونا اور پھر اس کے وجود کی ابتدا ہونا یہ بعید از تصور ہے’’ (۱۸)۔ یہاں بعید از تصور سے مولاناؒ کی مراد ہے کہ مہمل ہے۔

مولاناؒ مزید فرماتے ہیں، ”عالم کے حادث ہونے سے پہلے نہ وقت ہے نہ پہل ہے۔ یعنی کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کو’ پہلے‘ کہا جاسکے۔ بلکہ پہلی پہل یہ عالم ہی ہے، کسی اور پہل کا سوال ہی نہیں ہوسکتا۔۔۔جس وقت عالم کو پیدا کیا، وہ اول وقت تھا، اس سے پہلے نہ وقت تھا نہ اور کوئی چیز تھی۔۔۔حوادث کا سلسلہ قدم تک نہیں جا رہا۔ یہ اول معدود پر رک جاتا ہے، اس سے آگے لائن خالی یا بھری ہوئی نہیں ہے۔ خالی لائن متکلمین کے نزدیک ہے اور بھری ہوئی لائن حکما ءکے نزدیک ہے۔ یہ دونوں خیال غلط ہیں۔ یہ لائن اول معدود پر کٹ جاتی ہے۔ اس لائن پر ہرگز ہرگز قدم نہیں ملے گا۔۔۔کیونکہ قدم اس لائن کے شروع اور اول میں واقع ہی نہیں ہے’’ (۱۹)۔

یہ ہے زمانے کی وہ حقیقت جس کے بارے میں اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ ہماری روایت میں اس کا انکشاف مولاناؒ پر ہوا۔ زمانے کو حدوث کے دائرے سے نکالنا گویا اس کے زمانہ ہونے سے انکار کرنا ہے۔ جبکہ قِدم کا دائرہ ایک تنزیہ ِمطلق رکھتا ہے جس میں زمانہ اور زمانی پن وہم کے راستے سے بھی داخل نہیں ہوسکتا۔ یہ ساری بحث ہی لغو ہے کہ زمانے کا حدوث ذاتی ہے یا نہیں؟ یہ خلطِ حقائق ہے، جو ہر محال سے بڑھ کر محال ہے۔ وجود و عدم یکجا ہوسکتے ہیں لیکن حدوث و قدم نہیں۔

روایتی یا روایتی مزاج کے متکلمین میں مولاناؒ کی انفرادیت اور اہمیت یہ ہے کہ آج کی دنیا اور ذہن کے لیے بھی ان کے استدلال میں ایک ایسی تاثیر اور کشش ہے جو ان کے اکثر نظریات کو پرانا ہونے سے بچائے ہوئے ہے۔ مولاناؒ نے علم اور وجود کے مستقل مباحث پر جو تفصیلی موقف اختیار کیا ہے، وہ جدید ترین نظریہ علم اور تصورِ دنیا سے متصادم حالت میں بھی اجنبیت نہیں رکھتا۔مولاناؒ نے علم کے مبادی میں جس طرح ارادہ و اختیار کو شامل دکھایا ہے، وہ طریقِ استدلال آج کے متعلقہ اور معروف ترین نظریات میں جگہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مولاناؒ کی مجموعی فکر معنی میں روایتی ہونے کے باوجود حیرت انگیز طور پر استدلال کی تازگی رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر حقائق (Realities) پر جس طرح وہ شعور کی موجودہ ساخت سے استدلال کرتے ہیں، وہ کلام کی روایت میں ناپید ہے اور جدید ترین تناظرِ علم کے ساتھ اصطلاحات میں مشترک ہے۔ کسی علمی discourse کے لیے یہ ایک نادر وصف ہے کہ وہ اپنے زمانے کےdiscourse سے معنی میں مختلف ہونے کے باوجود اپنے طریقِ اظہار کی بدولت ایک تاثیر کا حامل ہو۔ مولاناؒ کے معانی قدیم ہیں، لیکن ان کا استدلال اور اظہاری دروبست ایسا ہے کہ معنی کی قدامت، بات کو فرسودہ نہیں بننے دیتی بلکہ نت نئی تازگی کی موجب بن جاتی ہے۔

موجودہ دور اپنے غالب رجحان کے ساتھ خدا کے انکار یا اس سے لاتعلقی کا دور ہے۔ یہ اتنا قوی رجحان ہے کہ اس کے اثرات اور نتائج مسلم دنیا میں بھی مرتب ہورہے ہیں بلکہ مذہبی بیانیوں (narratives) میں بھی در آئے ہیں۔ خدا کا انکار تو ایک قدیم رویہ ہے اور اس کا مایہ استدلال بھی تقریباً ایک چلا آہا ہے، لیکن آج کی دنیا میں خدا سے لاتعلقی کا جو مزاج راسخ ہوچکا ہے، وہ انکار سے زیادہ شدید اور نتیجہ خیز ہے۔ مذہبی ذہن نے خدا کے انکار کے ممکنہ دلائل کا بھی توڑ بہت پہلے کرلیا تھا، لیکن اس سے لاتعلقی کے مظاہر بالکل نئی چیز ہیں جن کا مذہبی ذہن کو پہلے کبھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس لاتعلقی سے مکمل ناواقفیت کی وجہ سے مسلم ذہن میں خدا کو ماننے کاانداز مطلقیت سے عاری اور اضافیت کے تابع ہوتا جارہا ہے۔ خدا بھی میرا تیرا ہوگیا ہے، سب کا نہیں رہا۔ خود ان لوگوں کی بھی اچھی خاصی تعداد اس مزاجِ لاتعلقی سے پوری طرح محفوظ نہ رہ سکی جنہیں علمائے دین سمجھا جاتا ہے۔ ان کے یہاں بھی خدا کو ماننا خدا سے تعلق پر شاہد نہیں رہ گیا۔ مذہبی ذہن اور تہذیب کو پیش آنے والے تمام خطرات میں یہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔ مولاناؒ کا کلام دیکھ کر بعض مقامات پر حیرت ہوتی ہے کہ اللہ تعالی کے وجود و صفات وغیرہ پر ان کے دلائل محض مفیدِ اثبات نہیں ہیں بلکہ موجبِ تعلق بھی ہیں۔ وہ خدا کو اس کی مسلمہ شان کے ساتھ اس زور سے ثابت کرتے ہیں کہ ذہن کو تعلق باللہ کے احوال کا تجربہ ہونے لگتا ہے۔ اگر ذرا باریکی سے تجزیہ کیا جائے تومولاناؒ کے الہیاتی استدلال کی عمومی ساخت میں کارفرما یہ مستقل عنصرِ تعلق پوری وضاحت کے ساتھ نظر آسکتا ہے۔ صرف اس بنیاد پر مولاناؒ کو مجدّدِ کلام کہا جاسکتا ہے۔

غرض ذہنِ جدید کا ایک بڑا خلا جسے وہ خود محسوس کر رہا ہے ، یہ ہے کہ عقل مابعد الطبیعی اور مافوق تجربی امور سے اپنی مناسبت کو ترک کر چکی ہے۔ یہ احساس جدید شعور میں پوری طرح سرایت کیے ہوئے ہے کہ عقل میں مابعد الطبیعی عنصر کے غائب ہوجانے کی وجہ سے تجرید کا ایک بے ہدف، بے اصل اور نامختتم عمل شروع ہوچکا ہے جس سے حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ یہ بڑا المیہ ہے کہ عقل اپنی بہترین صلاحیتوں کو حصول کی بجائے فقدان کے ماحول میں صرف کرے۔ آخر کوئی تو سبب ہے کہ ذہنِ جدید اپنے اندر بھڑکتی ہوئی پیاس کو بجھانے کے لیے حسی objects کو over-subectivize کرنے کا عادی بنتا جارہا ہے۔ مولاناؒ عقل کو اس طرح define کرتے ہیں اور علم کے حدود میں اس گمشدہ وسعت کو پھر سے واپس لاتے ہیں کہ ذہنِ جدید کا خود ساختہ جبر اور موہوم اختیار اپنی جگہ چھوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ حاصلِ کلام یہ کہ اس طرح کئی پہلو ہیں جو ہمارے زمانے میں مولاناؒ کی effective relevance کو ثابت کرتے ہیں۔

حواشی

۱۔ جاوید نامہ،کلیاتِ اقبال فارسی، علامہ محمد اقبال، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، ص ۳۸/۵۱۰۔

۲۔ مقالاتِ ایوبی، حصہ اول، علامہ محمد ایوب دہلوی، مکتبہ رازی، کراچی، ص ۶۔

۳۔ حوالہ بالا،ص ۷،۸۔

۴۔ حوالہ بالا،ص ۱۰۶۔

۵۔ حوالہ بالا،ص ۱۳۴، ۱۳۵۔

۶۔ حوالہ بالا،ص ۱۴۲۔

۷۔ مقالاتِ ایوبی حصہ سوئم، ص۳۲۔

۸۔ مقالاتِ ایوبی حصہ اول، ص ۱۶۷۔

۹۔ حوالہ بالا،ص ۱۶۸۔

۱۰۔ حوالہ بالا،ص ۱۶۹۔

۱۱۔ حوالہ بالا۔

۱۲۔ حوالہ بالا۔

۱۳۔ حوالہ بالا۔

۱۴۔ حوالہ بالا ، ص ۲۲۷، ۲۲۸۔

۱۵۔ مقالاتِ ایوبی حصہ  دوم، ص ۶۸، ۶۹۔

۱۶۔ حوالہ بالا، ص ۶۹۔

۱۷۔ حوالہ بالا، ص ۷۰۔

۱۸۔ حوالہ بالا، ص ۷۰، ۷۱۔

۱۹۔ حوالہ  بالا، ص ۷۲۔

 

محمد رشید ارشد

محمد رشید ارشد نے جامعہ پنجاب لاہور سے فلسفے میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے اور اسی درس گاہ کے شعبہ فلسفہ میں بطور استاذ خدمات انجام دے رہے ہیں۔
rarshadpk@gmail.com

ا کمنٹ

کمنٹ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں

  • السلام علیکم محترم میں مولانا ایوب صاحب کے مواد کواٹھا کررہاہوں اوراس کومجموعی شکل دینے کی کوشش کررہاہوں کچھ کتابیں میں تحریر کردی ہیں اور کام جاری ہے آپ کے پاس جو ان کامواد ہے برائے کرم مجھے بتاسکتےہیں ؟03065816166